Back At Square One: Restoration Of The Cold War
First British women Prime Minister Margaret Thatcher 'We can do Business with Mikhail Gorbachev |
'Second British women Prime Minister Theresa May 'Relations can not be normal with Mr. Putin |
Mr. Putin is not Stalin and
nor is Brezhnev, he is a Nationalist Orthodox Christian. Mr. Putin has intervened to
defend the Syria and to protect the roots of Orthodox Christianity in the
Middle East. Propaganda against him based on accusations is a trash Politics.
مجیب
خان
35سال
قبل برطانیہ کی پہلی خاتون وزیر اعظم مارگی تھیچر نے سوویت یونین کے رہنما میکائیل
گار با چو ف سے لندن میں ملاقات کے بعد مغرب کو یہ پیغام دیا تھا کہ "ہم
میکائیل گار با چو ف کے ساتھ کاروبار کر سکتے ہیں۔" وزیر اعظم تھیچر کا
کاروبار سے مطلب گار با چو ف کے ساتھ سیاسی معاملات طے کیے جا سکتے ہیں۔ اور سوویت
یونین کے رہنما میکائیل گار با چو ف نے مغرب کے ساتھ تمام سیاسی معاملات پر
سمجھوتہ کر لیا تھا۔ جسے صدر پو تن نے 20ویں صدی کی ایک بڑی غلطی کہا ہے۔ سوویت
ایمپائر کے گرنے سے دنیا کی بنیادیں جیسے ہل گئی تھیں۔ دنیا کی بنیادیں آج اتنی
مضبوط نہیں ہیں کہ جیتنی یہ سرد جنگ کے دور میں تھیں۔ سوویت ایمپائر گرنے سے مغرب
نے سب کچھ حاصل کر لیا تھا۔ لیکن ان قوموں کو کچھ نہیں ملا تھا جنہوں نے سرد جنگ
لڑی تھی اور قربانیاں دی تھیں۔ اور انہیں سہا نے خواب دکھاۓ گیے تھے۔ دنیا کا امن
ایمپائر کے ملبے میں دبا ہوا ہے۔ سرد جنگ
ختم ہونے کے بعد دنیا میں Imperial اور
Colonial طاقتوں کا Resurgence ہو گیا
تھا۔ صدر پو تن نے دنیا کا یہ نقشہ دیکھ کر سوویت یونین کے زوال کو 20صدی کی ایک
بڑی غلطی کہا تھا۔ اور یہ اس غلطی کا شاید اعتراف ہے کہ امریکہ برطانیہ اور مغرب
روس کے ساتھ اب سرد جنگ کو Restore کر
رہے ہیں۔
اور اب برطانیہ کی ایک دوسری خاتون وزیر اعظم Theresa May نے
کہا ہے کہ صدر ولا دیمر پو تن کے ساتھ تعلقات معمول کے نہیں ہو سکتے ہیں۔ وزیر اعظم Theresa May نے
برطانیہ کی سرزمین پر ایک سابق روسی جاسوس کو Poison دینے کے خلاف
سخت رد عمل کیا ہے۔ 23 روسی سفارت کاروں کو برطانیہ سے نکال دیا ہے۔ روس کے وزیر
خارجہ Sergey Lavrov کو
برطانیہ آنے سے روک دیا ہے۔ روسی نیوز چینل RT کا لائیسنس
منسوخ کرنے کا کہا ہے۔ روس نے برطانیہ کے تمام الزامات مسترد کرتے ہوۓ کہا ہے کہ
حکومت برطانیہ کو سنجیدگی سے اس کی تحقیقات کرانا چاہیے۔ الزام دینے سے پہلے اس کے
ثبوت سامنے لانا چاہیے۔ ماسکو نے بھی برطانیہ کے 23 سفارت کاروں کو روس چھوڑنے کا
حکم دیا ہے۔ اور برٹش کونسل کو بند کر دیا ہے۔ برطانیہ میں سرد جنگ کے پارٹ ٹو کی
سنگ بنیاد رکھ دی گئی ہے۔
اوبامہ انتظامیہ نے 2016میں 35 روسی سفارت کاروں کو کسی سابق روسی جاسوس کو
زہر دینے پر نہیں بلکہ امریکہ کے انتخاب میں زہریلی آلودگی پھیلانے کے الزام میں
امریکہ سے نکال دیا تھا۔ 2016 کے صدارتی انتخاب میں روس کی مداخلت کو September the Eleven کے حملہ سے بڑا امریکہ کے جمہوری نظام پر حملہ کہا جا رہا تھا۔ حالانکہ
امریکی ووٹرز کا کہنا یہ تھا کہ 2016 کے صدارتی انتخاب کا فیصلہ ہمارے ووٹوں سے
ہوا تھا۔ صدارتی انتخاب کو پندرہ ماہ ہو گیے ہیں۔ لیکن روس کی مداخلت کے کوئی ٹھوس
ثبوت ابھی تک عوام کے سامنے نہیں لاۓ گیے ہیں۔ تاہم یہ الزامات روس کے ساتھ تعلقات
سرد جنگ سے زیادہ خطرناک سطح پر لے آۓ ہیں۔ لیکن امریکہ کے ادارے تاہم تمام خطروں
سے محفوظ ہیں اور مستحکم ہیں۔ امریکی عوام کو یہ معلوم نہیں ہے کہ مداخلت کیا ہوتی
ہے؟ یہ جاننے کے لئے انہیں ایشیا افریقہ اور لاطین امریکہ کے ملکوں میں مداخلت کی
تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ جہاں امریکہ برطانیہ اور فرانس کی مداخلت کے زخموں سے
ملک ابھی تک پوری طرح صحت یاب نہیں ہو سکے ہیں۔ ان ملکوں میں حکومتوں کے تختہ الٹے
گیے تھے۔ فوجی ڈکٹیٹروں کو عوام پر مسلط کیا گیا تھا۔ پھر عوام کی مرضی کے خلاف ان
ڈکٹیٹروں سے اپنے مفاد کے کام کرواۓ گیے تھے۔ عوام کے انسانی حقوق پامال کیے گیے
تھے۔ انہیں جمہوریت سے محروم رکھا تھا۔ یہ امریکہ اور برطانیہ کی ایران میں مداخلت
تھی جس نےایرانیوں کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹا تھا۔ اور شاہ ایران کی
آمریت ان پر مسلط کی تھی۔ مڈل ایسٹ میں سارے حکمران امریکہ برطانیہ اور فرانس کے
مفاد میں عوام پر مسلط ہیں۔ ان کے عوام کا ان حکم رانوں میں کوئی مفاد نہیں ہے۔
مڈل ایسٹ میں مسلسل انتشار اور انتہا پسندی کے یہ المناک اسباب ہیں۔
سرد جنگ
ختم ہونے کے یہ مداخلت خطرناک حد تک بہت بڑھ گئی تھی۔ صدر جارج ایچ بش نے سب سے
پہلے امریکی فوجیں ایک Sovereign ملک
پا نا مہ میں بھیجی تھیں۔ اور یہ فوجیں صدر Manual Noriega کو
اس کے صدارتی محل سے گرفتار کر کے اور ہتھکڑیاں لگا کر فلوریڈا لائی تھیں۔ نہ صرف یہ
بلکہ Noriega کے
خلاف عدالتی کاروائی کو خفیہ رکھا گیا تھا۔ Noriega نے اپنی صفائی
میں کیا کہا تھا اسے دنیا کے سامنے نہیں آنے دیا تھا۔ Noriega پا نا مہ
کے1983 سے صدر تھے۔ امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے ان کے تعلقات تھے۔ لاطین
امریکہ میں دائیں اور بائیں بازو کی لڑائیوں میں Noriega کے
ذریعہ دائیں بازو کی پارٹیوں کو ہتھیار اور ڈالر فراہم کیے جاتے تھے۔ Noriegaسے منی لانڈرنگ کا
کام بھی لیا جاتا تھا۔ اور منی لانڈرنگ سے
دائیں بازو کی تنظیموں کو سپورٹ کیا جاتا
تھا۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد Noriega امریکہ کے خلاف ہو گیا تھا۔ صدر
بش سینیئر نے1990 میں اقتدار میں آنے کے بعد پہلی کاروائی Noriega کے خلاف کی
تھی۔ اس کے بعد سے قوموں کی Sovereignty کو روندنا
ایک نیا قانون بن گیا تھا۔ صدر بش سینیئر 70s میں سی آئی اے
کے ڈائریکٹر تھے۔
ویلادیمیر
پو تن کا کے جی بی سے تعلق تھا۔ مغربی جرمنی میں کے جی بی کے اسٹیشن چیف تھے۔ لیکن
سرد ختم ہونے کے بعد بالخصوص صدر پو تن کے اقتدار میں آنے کے بعد روس نے کسی ملک
کے اندرونی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی تھی۔ کسی ملک کے خلاف جارحیت نہیں کی
تھی۔ کسی ملک کے خلاف Preemptive
حملہ نہیں کیا تھا۔ جس طرح پا نا مہ میں صدر Noriega کے ساتھ کیا
گیا تھا اگر یہ روس کرتا تو سرد جنگ ختم ہونے کے 6ماہ بعد دوبارہ شروع ہو جاتی۔
برطانوی وزیر اعظم Theresa May کو
اب قانون کی بالا دستی کا خیال آیا ہے۔ انسانی حقوق اور شہری حقوق بھی یاد آ گیے
ہیں۔ گزشتہ 20سال میں کون قانون کی بالا دستی کی دھجیاں بکھیر رہا ہے؟ کون انسانی
حقوق کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہا ہے؟ کون چھوٹے اور کمزور ملکوں کو تباہ کر رہا
ہے؟ کون سیاسی قیدیوں کو اذیتیں دے رہا تھا؟ گوتاموبے نظر بندی کیمپ کس کی سرزمین
پر ہے؟ عراق، شام، لیبیا، یمن کس کی جارحیت کا شکار بنے ہیں؟ ان ملکوں میں انسانیت
کے خلاف جرائم کون کر رہا ہے؟ روس کو اب شام میں مداخلت کرنے کا الزام دیا جا رہا
ہے۔ ایران کو عراق اور یمن میں مداخلت کرنے کا الزام دیا جا رہا ہے۔ شام میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار
صدر پو تن کو قرار دیا جا رہا ہے۔ جبکہ دنیا حقائق سے با خوبی واقف ہے۔ شام میں
روس کی آمد سے قبل 5سال سے جاری خانہ جنگی میں ایک ملین شامی ہلاک ہو چکے تھے۔ روس
شام کی خانہ جنگی میں ستمبر 2015 میں داخل ہوا تھا۔ جبکہ امریکہ اور اس کے عرب
اتحادی 2011 سے شام کی خانہ جنگی میں ملوث تھے۔ ان چار سالوں میں ایک ملین شامی اس
وقت تک ہلاک ہو چکے تھے۔ اور دو ملین سے زیادہ شامی بے گھر ہو گیے تھے۔ ہزاروں
شامی پناہ لینے یورپ کی طرف بھاگ رہے تھے۔ بحر روم میں ان کی کشتیاں الٹ رہی تھیں۔
ان کی لاشیں سمندر کی موجیں ساحل کے قریب لا رہی تھیں۔ جن میں عورتیں اور بچے بھی
شامل تھے۔ اس خانہ جنگی میں جو دہشت گردوں کی پشت پنا ہی کر رہے تھے۔ ان کے دل
پتھر کے تھے۔ اگر ان میں انسانی رحم ہوتا وہ یہ خوفناک مناظر دیکھ کر خانہ جنگی کو
روک دیتے۔ لیکن یہ انسانی تباہی امریکہ برطانیہ اور فرانس کے واچ میں ہو رہی تھی۔ سعودی
عرب اور اسرائیل کے ایجنڈے کی تکمیل کی جا رہی تھی۔ روس نے عراق میں تو کوئی
مداخلت نہیں کی وہاں دو لاکھ عراقیوں کی ہلاکت کا کون ذمہ دار تھا؟ فلوجہ اور رما دی
میں بے گناہ شہریوں کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ اس کا ذمہ دار کون تھا۔ افغانستان میں
نیٹو امریکہ اور برطانیہ کے فوجی آپریشن میں ہزاروں بے گناہ شہری ہلاک ہوۓ تھے۔ جن
میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ صدر بش نے شہریوں کی ہلاکتوں پر کہا تھا
کہ" یہ جنگ ہے اور جنگ میں لوگ مارے جاتے ہیں" امریکہ برطانیہ اور فرانس
کو شہریوں کا اتنا خیال تھا۔ تو وہ شام میں دہشت گرد باغیوں کو ہتھیار کیوں دے رہے
تھے۔ شام کے اندرونی معاملہ کو وہ ہتھیاروں اور حکومت پر حملہ کرنے سے حل کرنے کی
ترغیب دے رہے تھے۔ لیکن فلسطینیوں کو 70 سال سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات سے تنازعہ
کو حل کرنے پر زور دے رہے تھے۔ اور اسرائیلی حکومت کے خلاف مسلح حملوں کی مخالفت بڑی
سختی سے کرتے تھے۔ یہ Hypocrisy ہے۔
جس میں کوئی اخلاقی قدریں نہیں ہیں۔
سرد
جنگ کے بعد یہ خصوصی طور پر نوٹ کیا جا رہا کہ اپنے غیر ذمہ دارانہ فیصلوں کا دوسروں
کو الزام دینے کی سیاست ایک عادت بن گئی ہے۔ کیونکہ یہ برطانیہ نے کہا ہے کہ مسٹر
پو تن نے لندن میں ایک سابق روسی جاسوس کو زہر دیا ہے۔ اس لئے ساری دنیا کو اس کی
مذمت کرنا چاہیے۔ اور تسلیم کرنا چاہیے کہ برطانیہ نے جو کہا ہے وہ 100 فیصد درست
ہے۔ اس کے ثبوت مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ حالانکہ Transparency International کی
ایک رپورٹ میں، جو کرپشن کے خلاف تحقیقاتی گروپ ہے، بتایا ہے کہ برطانیہ میں 6بلین
سے زیادہ جو Real Estate
خریدی گئی ہے وہ کرپشن کی دولت سے خریدی گئی ہے۔ اور اس میں one-fifth حصہ
روسیوں کا ہے۔ لندن میں روسی مافیا بہت سرگرم ہے۔ لکھ پتی اور کھرب پتی روسی Oligarchs نے
لندن میں پناہ لی ہے۔ یہ روس سے غیر قانونی اور کرپشن کی دولت لے کر برطانیہ آ گیے
تھے۔ اور یہ دولت انہوں نے برطانیہ کے
بنکوں میں جمع کرائی تھی۔ ان کر پٹ Oligarchs کی فہرست روس کی حکومت نے برطانیہ
کو دی تھی۔ برطانیہ سے انہیں روس کے حوالے کرنے کی درخواست کی تھی۔ لندن میں روسی Oligarchs کے
درمیان بزنس اور سیاسی کشیدگی بھی پائی جاتی تھی۔ صدر پو تن اپنے شہریوں کو زندہ رکھنے
کی فکر میں ہیں۔ یورپ اور امریکہ ان کے
ملک کے خلاف اقتصادی بندشوں پر بندشیں لگانے کی سیاست کر رہے ہیں۔ کوئی صدر پو تن
کو ان کے انتخابات میں meddling
کرنے کا الزام دے رہا ہے۔ کوئی صدر پو تن کو ان کے راز hacking کرنے کا الزام
دے رہا ہے۔ کوئی صدر پو تن کو cyber war شروع کرنے کا الزام
دے رہا ہے۔ اور برطانیہ کی وزیر اعظم نے صدر پو تن پر لندن میں ایک سابق روسی
جاسوس کو poison
دینے کا الزام لگایا ہے۔ اور دنیا سے کہا کہ وہ اس کی مذمت کرے۔
سابق
سوویت صدر Mikhail Gorbachev
جنہوں نے سرد جنگ ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کبھی یہ سوچا بھی نہیں ہو گا کہ سرد
جنگ ان کی زندگی میں دوبارہ شروع ہو جاۓ گی۔ اور جنہوں نے مغرب کے ساتھ 50برس سرد جنگ
لڑی تھی وہ بھی اپنے سر کھجا رہے ہوں گے اور یہ سوال کر رہے ہوں گے کہ انہوں نے
مغربی طاقتوں کے لئے اپنا وقت کیوں برباد کیا تھا۔
No comments:
Post a Comment