Tuesday, March 6, 2018

The Revival of The Cold War Is The Victory For The War of Terror


The Revival of The Cold War Is The Victory For The War of Terror

Are China And Russia Going Backward To A Fifties And Sixties’ World?

مجیب خان
Chinese Leader Mao Zedong with Soviet Leader Nikita Khrushchev in August 1958

Russian President Vladimir Putin and Chinese President Xi Xinpin 

A Toast of Healthy and Prosperous relations
    سیکرٹیری آف ڈیفنس James Mattis نے جب یہ اعلان کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اب ختم ہو گئی ہے۔ اور امریکہ کی نئی strategy روس اور چین کے ساتھ ممکنہ تصادم کو فوکس کیا جاۓ گا۔ تاہم ہم دہشت گردوں کے خلاف مہم جاری ر کھے گے۔ لیکن اب دہشت گردی نہیں بلکہ “great-power” مقابلہ اب امریکہ کی قومی سلامتی کی توجہ کا ایک بنیادی سبب ہو گا۔ سیکرٹیری ڈیفنس James Mattis کا یہ پالیسی بیان سن کر ذہن میں جیسے 50 کا عشرہ آ جاتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب امریکہ کی روس اور چین کے ساتھ نظریاتی جنگ کی کشیدگی عروج پر تھی۔ روس اور چین اس وقت قریبی اتحادی تھے۔ سیکرٹیری ڈیفنس کا یہ بیان دنیا کو 50 کے عشرہ کی سیاست میں لے آ یا ہے۔ دنیا نے بڑی مشکل سے 50 سال بعد امریکہ کو سرد جنگ سے نکالا تھا۔ لیکن سرد جنگ ختم ہونے کے فوری بعد امریکہ نے چھوٹے ملکوں کے ساتھ گرم جنگیں شروع کر دی تھیں۔ ان میں دہشت گردوں کے گروپ بھی تھے۔ بعض کے خیال میں یہ جنگیں دنیا کو جیسے 1930s کے دور میں لے گئی تھیں۔ اور اب 30 سال بعد امریکہ کو شاید  یہ احساس ہوا ہے کہ چھوٹے اور کمزور ملکوں سے جنگ عظیم طاقت ہونے کا معیار گرا دیتی ہے۔ طاقتور کا مقابلہ ہمیشہ طاقتوروں سے ہوتا ہے۔  اس لئے سیکرٹیری ڈیفنس نے “great power” مقابلہ کو امریکہ کی قومی سلامتی کی توجہ کے لئے ایک بنیادی سبب قرار دیا ہے۔
    سرد جنگ ختم ہونے کے بعد کسی نے یہ سوچا بھی نہیں ہو گا کہ ایک دن دنیا کو سرد جنگ کا پھر سامنا ہو گا۔ یہ سرد جنگ  اتنی جلد واپس آ رہی  ہے کہ افغانستان میں سرد جنگ ختم کرنے کی جو جنگ لڑی گئی تھی وہ بھی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ دنیا نے شاید یہ سمجھ کر کہ سرد جنگ اب کبھی واپس نہیں آۓ گی۔ عراق کو پتھر کے دور میں پہنچا دیا تھا۔ لیبیا کو بھی پتھر کے   زمانے میں بھیج دیا ہے۔ جس طرح archaeologists مصر کے صحراؤں میں ہزاروں برس کے آثار قدیمہ دریافت کر تے ہیں۔ اسی طرح archaeologists اب شام کے کھنڈرات میں شہروں کے نقشہ دریافت کریں گے۔ مڈل ایسٹ کو Freedom اور Democracy میں Transform کرنے کے منصوبہ پر اوبامہ انتظامیہ نے 500 ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔ اس منصوبہ کے نتیجہ میں مصر میں جمہوریت نے پہلی مرتبہ آمریت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ لیکن پھر مڈل ایسٹ کے مطلق العنان حکم رانوں کے کلب نے مصر میں جمہوریت کا تختہ الٹ کر آمریت بحال کر دی تھی۔ اور یہ مڈل ایسٹ کی سیاست میں امریکہ کی ایک بڑی شکست تھی۔ جبکہ امریکہ کو مڈل ایسٹ میں جنگوں میں بھی کوئی نمایاں کامیابی نہیں ہو رہی تھیں۔ صدر ٹرمپ کے مطابق مڈل ایسٹ کی جنگوں پر 7ٹریلین ڈالر خرچ کیے گیے تھے۔ امریکہ نے شاید سرد جنگ جیتنے پر 7ٹریلین ڈالر خرچ نہیں کیے ہوں گے۔ مڈل ایسٹ میں قانون کی بالا دستی ہے اور نہ ہی مغرب کی اعلی جمہوری قدریں ہیں۔ 7ٹریلین ڈالر مڈل ایسٹ کو 100 سال پیچھے لے جانے پر خرچ کیے گیے ہیں۔
    دہشت گردی کے خلاف 17 سال کی طویل جنگ کی بڑی casualty انسانی حقوق، آزادی، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی ہیں۔ مغربی معا شروں میں آزادی اور جمہوری حقوق سیکورٹی کی آڑ میں curtail کیے گیے ہیں۔ National Security جیسے حکومتوں کا ایک مذہب بن گیا ہے۔ مشرقی یورپ کے سابق کمیونسٹ ملکوں میں جمہوریت اگر ناکام نہیں ہے تو یہ کامیاب بھی نہیں ہے۔ پولینڈ، ہنگری پرانے دور کی طرف کھسک رہے ہیں۔ مشرقی یورپ کے ملک Warsaw Pact سے نکل کر NATO military pact میں آ گیے تھے۔ امریکہ اور مغرب نے انہیں آزادی اور جمہوریت کے سرٹیفیکیٹ دے دئیے تھے۔ لیکن مشرقی یورپ کے ملکوں کو جمہوری اداروں کو چلانے اور قانون کی حکمرانی کو فروغ دینے کی تربیت نہیں دی تھی۔ انہیں نئی جنگیں لڑنے کے لئے تیار کیا جا رہا تھا۔ ان سے اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کرنے کا کہا گیا تھا۔ اور پھر مشرقی یورپ کی فوجوں اور ہتھیاروں کا معیار نیٹو کے مغربی رکن ملکوں کے برابر لانے کے لئے جدید ہتھیار خریدنے پر زور دیا گیا تھا۔ ایک سرد جنگ ختم ہونے کے بعد یہ دوسری سرد جنگ شروع کرنے کی تیاریاں تھیں۔ جبکہ صدر جارج ایچ بش نے سو ویت یونین کے صدر میکائیل گار با چو ف کو یہ یقین دلایا تھا کہ نیٹو روس کی سرحدوں کے قریب نہیں آۓ گا۔ لیکن صدر ویلا دیمیر پو تن کے اقتدار میں آنے سے بہت پہلے روس کے تمام ہمسایہ نیٹو میں شامل ہو چکے تھے۔ صدر پو تن نے اقتدار میں آنے کے بعد روس کے اطراف میں نیٹو کی موجودگی کو اتنی اہمیت نہیں دی تھی۔ روس میں سیاسی استحکام اور معیشت کی بحالی صدر پو تن کی پہلی ترجیح تھی۔ روس تقریباً دیوالیہ ہو چکا تھا۔ فوج اور سرکاری حکام کو تنخواہیں دینے کے لئے حکومت کے پاس فنڈ ز نہیں تھے۔ روس کے North Caucasus میں سرکش علیحدگی پسندوں کی خونریزی شام  میں باغیوں کی دہشت گردی سے مختلف نہیں تھی۔ ماسکو میں بموں کے دھماکہ ہو رہے تھے۔ روس خطرناک انتشار میں گھرا ہوا تھا۔ صدر پو تن نے ان حالات سے روس کو نکالا تھا۔ روس میں امن اور استحکام آیا تھا۔ معاشی حالات بہتر ہو رہے تھے۔ یورپ میں روس کے تیل اور گیس کی فراہمی کے لئے پائپ لائنیں پھیل گئی تھیں۔ روس کے ریونیو بڑھتے جا رہے تھے۔ صدر پو تن نے سرد جنگ دور کا جرمنی کا 80بلین ڈالر قرضہ ادا کر دیا تھا۔ روس کے زر مبادلہ کے ذخائر 700بلین ڈالر پر پہنچ گیے تھے۔ اس سے قبل کہ زر مبادلہ کے ذخائر ایک ٹیریلین پر پہنچتے امریکہ نے روس کی تیز رفتار معیشت پر بریک لگا دئیے۔ روس کے ساتھ تعلقات میں تناؤ آ گیا تھا۔ یورپ اور امریکہ نے روس کے خلاف اقتصادی بندشوں کی ایک unified پالیسی اختیار کی تھی۔ اس وقت یورپ زبردست اقتصاد ی  بحران میں تھا۔ اس اثنا میں  یو کرین  کا مسئلہ خصوصی طور پر روس کو trap کرنے کے لئے ایجاد کیا گیا تھا۔ جس کے بعد روس کے خلاف امریکہ اور یورپ نے اقتصادی بندشوں کی بھر مار کر دی تھی۔ یہ بندشیں کسی ملک کی معیشت کو تباہ کرنے یا اسے معاشی ترقی میں پیچھے رکھنے میں امریکہ اور یورپ کا ایک نیو کلیر ہتھیار ہے۔ اس طرح یہ اپنے غلط فیصلوں کے نتیجہ میں اپنی ناکامیوں کا انتقام دوسروں سے لیتے ہیں۔
   روس کو کار نر کرنے کے بعد اب چین کے گرد حلقہ تنگ کرنے کے اقدام ہو رہے ہیں۔ بحر ساؤ تھ  چائنا کو ایک عالمی ایشو کا رنگ دے کر چین کے محلہ میں امریکہ کی فوجی سرگرمیوں کے لئے راستہ بنایا جا رہا ہے۔ چین کے خلاف ایک فوجی بلاک بنانے کی کوششیں کی جاری ہیں۔ اس بلاک میں بھارت، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، فلپائن، جاپان، ویت نام امریکہ کے Allies  ہیں۔ بھارت کو بحر ہند سے نکال کر Pacific ملکوں میں Transfer کیا جا رہا ہے۔ بھارت اور جاپان کو اس خطہ میں فوجی طاقت بنایا جا رہا ہے۔ ان ملکوں کو فوجی ٹیکنالوجی اور جدید ہتھیاروں سے مسلح کیا جا رہا ہے۔ جاپان اور بھارت کو نیول پاور بنانے  کے اقدامات ہو رہے ہیں۔ ویت نام کو اس خطہ میں امریکہ کے بحری بیڑوں کے لئے قطر بنانے کا منصوبہ ہے۔
   امریکی کانگرس نے تائیوان سے تعلقات کے سلسلے میں یہ قانون منظور کیا ہے کہ ہر سطح پر امریکی حکام کو تائیوان جانے اور ان کے ہم مقام حکام سے انہیں ملنے کی اجازت دی جاۓ۔ اسی طرح اعلی تائیوان حکام کو امریکہ آنے کے پرمٹ دئیے جائیں۔ اور انتہائی مہذب ماحول میں انہیں امریکی حکام سے ملنے کا موقعہ دیا جاۓ۔ اسے امریکہ کا قانون بننے کے لئے صرف صدر ٹرمپ کے دستخط کی ضرورت ہے۔ چین کی حکومت نے سخت لفظوں میں متنبہ کیا ہے کہ "چین تائیوان کی خود مختاری کے لئے علیحدگی  کی کسی اسکیم کو برداشت نہیں کرے گا۔ اور reunification کے مقصد سے چین کی سرحدی سالمیت کا تحفظ کیا جاۓ گا۔ چین اس جزیرہ کو اپنی مقدس سرحد سمجھتا ہے۔"  چین سیکورٹی کے مسئلہ پر بہت sensitive ہے۔ لیکن امریکہ کی طرح crazy hostile نہیں ہے۔ حالانکہ بحر ساؤ تھ  چائنا میں امریکہ کی فوجی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ یہاں کبھی امریکہ کی بھارت اور جاپان کے ساتھ فوجی مشقیں ہو رہی ہیں۔ اور کبھی جنوبی کوریا کے ساتھ امریکہ کی فوجی مشقیں ہو رہی ہیں۔ امریکہ کو اپنے آپ کو چین کی جگہ پر رکھ کر یہ سوال کرنا چاہیے کہ وہ صورت حال میں کیا کرتا؟
   چین نے تیز تر اقتصادی ترقی کے ساتھ سیاسی عمل میں بھی کچھ پیش رفت کی تھی۔ محدود بندش کے ساتھ لوگوں کو سوشل میڈیا کی آزادی دی تھی۔ چینی عوام کو بیرون ملک سیر اور سیاحت کی آزادی دی تھی۔ چینی لڑکوں اور لڑکیوں کو امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم کے لئے بھیجا جا رہا تھا۔ لیکن امریکہ نے چین کے اطراف میں جو جنگی جنونی حالات پیدا کیے ہیں۔ اس میں چین کو اپنے بہت سے فیصلوں اور پالیسیوں سے retreat کرنا پڑ رہا ہے۔ چین کے صدر کی دس سال میعاد بھی ان ہی حالات کے پیش نظر ختم کر کے 50 کے عشرہ کا غیر معینہ مدت کے لئے صدر کے اختیارات کا نظام واپس آ گیا ہے۔ اسی طرح روس اور چین موجودہ دور کی سیاست کو 50 کے عشرہ کی سیاست دیکھ کر متحد ہو گیے ہیں۔                                                                                                                                                                                                                    

No comments:

Post a Comment