Saturday, March 17, 2018

When North Korea’s Leader Meets The American President, Trust But Verify


When North Korea’s Leader Meets The American President, Trust But Verify  

مجیب خان
President Moon Jae-in  and North Korean Leader Kim Jong-un

President Donald Trump and Kim Jong-un
   جنوبی کوریا میں winter Olympic بہت کامیاب تھے۔ اولمپک گیم ز اس لئے بھی بہت کامیاب تھے کہ یہ جنوبی کوریا کو شمالی کوریا کے قریب لے آۓ تھے۔ اولمپک گیم ز کی وجہ سے دونوں ملکوں میں امن کے لئے دروازے کھول گیے تھے۔ اولمپک گیم ز نے شمالی کوریا کے Kim Jong un کا ذہن بلا سٹک میزائلوں کے تجربے کرنے سے اولمپک کھیلوں میں دلچسپی لینے میں کر دیا تھا۔ شمالی کوریا کے خلاف اقتصادی بندشوں، دباؤ اور دھمکیوں سے بڑا اولمپک گیم ز نے یہ رول ادا کیا ہے۔ امریکہ میں پنڈتوں کے تجزیہ تھے کہ اولمپک گیم ز کے بعد شمالی کوریا بلا سٹک میزائلوں کے تجربے کرے گا۔ اور ٹرمپ انتظامیہ نے بھر پور طاقت سے اس کا جواب دینے کا تہیہ کر لیا تھا۔۔ اس صورت میں بڑے پیمانے پر انسانی تباہی ہونے کا خوف خطہ میں بڑھ رہا تھا۔ لیکن اس مرتبہ خدا نے 34 سالہ کمیونسٹ ڈکٹیٹر کو انسانیت کی بقا اور سلامتی میں درست فیصلہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ جنوبی کوریا میں اولمپک گیم ز کے انعقاد نے Kim Jong un کو یہ فیصلہ کرنے کا موقعہ فراہم کیا تھا۔ جنوبی کوریا کے صدر نے شمالی کوریا کی قیادت کی سوچ میں اس تبدیلی کا خیر مقدم کیا تھا۔ اولمپک کھیلوں نے دونوں ملکوں میں خیرسگالی کی فضا بحال کر دی تھی۔ اور دونوں ملکوں نے اولمپک کھیلوں کے بعد بھی اس فضا کو بحال رکھنے کا عزم کیا تھا۔ جنوبی کوریا میں اولمپک گیم ز میں دنیا بھر سے کھلاڑی شرکت کرنے آۓ تھے۔ اولمپک کے شائقین کی بڑی تعداد بھی آئی تھی۔ جنوبی کوریا میں اس گہما گہمی اور اولمپک گیم ز کی رنگا رنگ افتتاحی اور اختتامی تقریب سے بھی Kim Jong un ضرور متاثر ہوۓ ہوں گے۔ شمالی کوریا کی تنہائی کا احساس ہوا گا۔ Kim کی خواہش ہو گی کہ ایک دن اولمپک گیم ز شمالی کوریا میں ہوں۔ شمالی کوریا کی قیادت نے اب شاید یو ٹرن لیا ہے۔
   جنوبی کوریا نے بھی اس نئی development کو آ گے بڑھانے میں تاخیر نہیں کی تھی۔ اولمپک گیم ز ختم ہونے کے بعد جنوبی کوریا نے ایک اعلی وفد شمالی کوریا بھیجا تھا۔ Kim Jong un نے وفد کو بتایا کہ وہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو ختم کرنے کے لئے تیار ہیں۔ جنوبی کوریا کے وفد سے دو روز مذاکرات کے بعد شمالی کوریا کے ایک اعلامیہ میں  denuclearize پر اپنی رضامندی ظاہر کی تھی۔ اعلامیہ میں کہا گیا تھا اگر شمالی کوریا کو فوجی خطرہ کا سامنا ختم ہو جاتا ہے اور اس کی سلامتی کی ضمانت دے دی جاتی ہے تو پھر ایٹمی ہتھیاروں کو رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اعلامیہ میں اپنی اس خواہش کو واضح کیا تھا کہ یہ امریکہ کے ساتھ خلوص سے denuclearization کے مسئلہ اور تعلقات نارمل کرنے پر مذاکرات کے لئے تیار ہے۔ مذاکرات کے دوران ایٹمی اور بلا سٹک میزائلوں کے تجربے نہیں کیے جائیں گے۔'  Pyongyang میں شمالی کوریا کے رہنما Kim Jong un سے ملاقات کے بعد جنوبی کوریا کا یہ وفد Kim Jong un کا صدر ٹرمپ کے لئے خصوصی پیغام لے کر واشنگٹن میں صدر ٹرمپ سے ملنے آیا تھا۔ وفد نے صدر ٹرمپ کو Kim Jong un سے مذاکرات کی رپورٹ دی تھی۔ اور شمالی کوریا کے رہنما کا خصوصی خط دیا تھا۔ جس میں شمالی کوریا کے رہنما نے صدر ٹرمپ سے ملاقات کے لئے کہا تھا۔ جسے صدر ٹرمپ نے قبول کر لیا۔ اور مئی میں ملاقات کرنے کا کہا ہے۔
   واشنگٹن میں جو یہ توقع کر رہے تھے کہ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کو صرف جنگ سے حل کیا جاۓ گا۔ اور اس کی تیاری کر رہے تھے۔ انہیں شمالی کوریا کے رہنما کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ کرنے اور بلا سٹک میزائلوں کے تجربے بند کرنے کے  اس اچانک فیصلہ سے حیرت ہوئی تھی۔ ان کا کہنا تھا صدر ٹرمپ کو ملاقات کرنے میں جلدی نہیں کرنا چاہیے۔ اس ملاقات کے لئے پہلے تیاری کی جاۓ۔ شمالی کوریا کے رہنما نے اپنے روئیے میں خاصی لچک دکھائی ہے۔ اور اب امریکہ کو بھی اپنے سخت روئیے میں نرمی لانا ہو گی۔ شمالی کوریا کی قیادت میں security کا اعتماد بحال کرنا ہو گا۔ اس کے لئے جنوبی کوریا اور شمالی کوریا میں خیرسگالی کے تعلقات کا فروغ ضروری ہے۔ اس سارے process  میں جنوبی کوریا کو آگے رکھا جاۓ۔ People to People تعلقات کو خصوصی اہمیت دی جاۓ۔ بلاشبہ یہ process افغانستان میں طالبان کے ساتھ امریکہ کی 17سال کی جنگ کے مقابلے میں اتنا طویل نہیں ہو گا۔ امریکہ کو شمالی کوریا کے خدشات کو اہمیت دینا چاہیے۔ دھونس اور دھمکوں اور بہت زیادہ بڑا بننے کے بجاۓ Realistic موقف کے ساتھ مذاکرات کی ٹیبل پر آنا چاہیے۔ جبکہ شمالی کوریا کی قیادت کے سامنے عراق لیبیا اور شام خوفناک مثالیں ہیں۔ امریکہ میں ایسے militant ذہن ہیں جو شمالی کوریا کو بھی عراق اور لیبیا بنانے کا منصوبہ لے کر لابیوں کے آگے گھوم رہے ہیں۔ پہلے ہی عراق لیبیا اور شام کے حالات کی وجہ سے امریکہ کی credibility بہت خراب ہے۔ عراق کے مسئلہ پر امریکہ نے متعدد بار عالمی برادری کو یہ یقین دلایا تھا کہ عراق میں حکومت تبدیل کرنے کا امریکہ کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ امریکہ عراق میں صرف مہلک ہتھیاروں کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے۔ لیکن پھر امریکہ کو جب یہ رپورٹیں مل گئی تھیں کہ عراق میں اب مہلک ہتھیار نہیں تھے۔ امریکی فوجیں اسی گھنٹے عراق میں گھستی چلی گئی تھیں۔ عراق میں حکومت تبدیل کرنے کا اپنا اصل منصوبہ مکمل کیا تھا۔ پھر صدر قد ا فی نے اپنے تمام مہلک ہتھیار امریکہ کے حوالے کر دئیے تھے۔ جس کے بعد صدر قد ا فی کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ امریکہ ان کی حکومت کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرے گا۔ لیکن پھر امریکہ نے قد ا فی  حکومت کے مخالفین اسلامی انتہا پسندوں کے ساتھ مل کر قد ا فی کو اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔ شمالی کوریا کی قیادت نے طرا بلس کی سڑک پر قد ا فی کو جس طرح اسلامی انتہا پسندوں نے قتل کیا تھا وہ خوفناک منظر بھی دیکھا تھا۔ امریکہ کی اس credibility کے پس منظر کو دیکھ کر شمالی کوریا کی قیادت نے پہلے جنوبی کوریا کے ساتھ  تعلقات استوار کرنے کو اہمیت دی ہے۔ جنوبی کوریا کی قیادت پر شمالی کوریا کو زیادہ اعتماد ہے۔ اس لئے جنوبی کوریا کے صدر Moon Jae-in نے انٹیلی جنس اور security کے اعلی حکام پر مشتمل وفد کو شمالی کوریا بھیجا تھا۔ جس کے ساتھ شمالی کوریا کے رہنما Kim Jong un سے تقریباً چار گھنٹے ملاقات کی تھی۔ جنوبی کوریا کا وفد اس ملاقات سے بہت مطمئن واپس آیا تھا۔
  20سال قبل Kim Jong Il نے بھی ایک ایسی ہی کوشش امریکہ کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی تھی۔ اور صدر کلنٹن کو ملاقات کے لئے دعوت دی تھی۔ لیکن صدر کلنٹن نے سیکرٹیری آف اسٹیٹ میڈیلین البرائٹ کو شمالی کوریا بھیجا تھا۔ Kim Jong Il father of Kim Jong un بھی امریکہ کے ساتھ تمام تنازعوں کو حل کرنے میں بہت سنجیدہ تھے۔ شمالی کوریا اور امریکہ میں یہ پہلا براہ راست رابطہ تھا۔ جس کی پہل شمالی کوریا نے کی تھی۔ اس ملاقات میں دونوں نے اپنا موقف ایک دوسرے کے سامنے رکھا تھا۔ مذاکرات کا یہ پہلا راؤنڈ تھا۔ اور یہ بہت ممکن تھا کہ شمالی کوریا اور امریکہ میں مذاکرات کا دوسرا راؤنڈ بھی ہوتا۔ لیکن امریکہ میں Facts کو ہمیشہ اپنے مفاد میں Distort کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت میں یہ شمالی کوریا نہیں تھا جس نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات منقطع کیے تھے۔ بلکہ اصل حقیقت یہ تھی کہ امریکہ میں جارج ڈبلیو بش اقتدار میں آ گیے تھے۔ جن کی انتظامیہ میں Militants بھرے ہوۓ تھے جو دنیا کا ہر مسئلہ بھر پور طاقت سے حل کرنا چاہتے تھے۔ جنہوں نے دنیا میں Axis of Evil بش انتظامیہ کی پالیسی کا کار نر اسٹون قرار دیا تھا۔ صدر بش نے عراق شمالی کوریا اور ایران کو Axis of Evil کہا تھا۔ امریکہ سے اس اعلامیہ کے بعد شمالی کوریا اور ایران نے اپنی سلامتی اور بقا میں نیو کلیر پروگرام پر انحصار ضروری سمجھا تھا۔ ایک انتظامیہ قوموں کو خوفزدہ کرتی ہے اور انہیں مہلک ہتھیار حاصل کرنے کی طرف دھکیلتی ہے۔ پھر دوسری انتظامیہ آتی ہے وہ ان سے مہلک ہتھیار چھیننے کے لئے انہیں دھونس دھمکیاں دیتی ہے۔ ان پر بندشیں لگاتی ہے۔ ان کے خلاف کاروائی کرنے کی فوجی تیاریاں کرتی ہے۔ لیکن امریکہ کبھی غلط نہیں ہے۔ اس کے تمام Facts ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔        
                                                                                                                                                                                                                                         

No comments:

Post a Comment