Young Saudi Leader Is Fully Loaded With Weapons And Vengeance Ideas
مجیب خان
President Donald Trump and Crown Prince Mohammed Bin Salman |
President Trump Meets With Saudi Crowned Prince |
President Donald Trump holds a chart of military hardware sales to Saudi Arabia's |
سعودی
شاہی خاندان میں کبھی کوئی Statesman
نہیں تھا۔ کوئی ایسی شخصیت نہیں آئی تھی جس میں Charismatic Leader کی
خصوصیات تھیں۔ ایسا کوئی Intellect
Diplomate نہیں آیا تھا جس نے عالمی اسٹیج
پر اسلامی دنیا کا ایک متحرک بلاک بنانے اور اسے دنیا سے تسلیم کرنے میں کوئی رول
ادا کیا تھا۔ سعودی شاہی خاندان میں ایسی قیادت نہیں تھی جس کا اسلامی دنیا کے
بارے میں کوئی Vision تھا
نہ ہی عرب دنیا کے بارے میں کوئی قابل قدر سوچ تھی۔ سعودی عرب کی قیادت نے اسلامی
دنیا کو امریکہ اور مغربی طاقتوں کا محتاج بنا دیا تھا۔ سرد جنگ کی سیاست کا اسلام
سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اسلامی ملکوں کو سرد جنگ کی سیا ست میں ملوث نہیں ہونا
چاہیے تھا۔ اسلامی ملکوں کے لئے سرد جنگ میں مغربی طاقتوں کے ساتھ شامل ہونے کے
اتنے فائدے نہیں تھے کہ جتنے نقصانات تھے۔ اسلامی دنیا نے سعودی قیادت کو حرمین شر
فین تسلیم کیا تھا۔ اس لئے یہ اس کی تقلید کرتے تھے۔ حالانکہ سرد جنگ مغرب کے
سرمایہ دارا نہ نظام اور مشرق کے اشتراکی نظام میں تھی۔ شرعی نظام کے حامیوں نے ان
کی جنگ میں اپنی ٹانگ صرف سعودی قیادت کے کہنے پر اڑائی تھی۔ سرد جنگ ختم ہونے سے
انہیں کیا ملا تھا۔ اور سرد جنگ جاری رہنے سے ان کا کیا نقصان تھا۔ سعودی قیادت
ساری اسلامی دنیا کو تباہی کی کھائی کے کنارے پر لے آئی ہے۔ مڈل ایسٹ بے گناہ لوگوں
کے خون میں ڈوبا ہوا ہے۔ عرب اسرائیل تنازعہ حل کرنے اور عربوں کے مقبوضہ علاقہ
آزاد کرانے کے بجاۓ۔ شاہی خاندان کے مغربی اتحادیوں نے اسلامی دنیا میں 100 نئے
تنازعہ اور مسائل پیدا کر دئیے ہیں۔ تقریباً ہر اسلامی ملک اس وقت کسی نہ کسی جنگ
کا سامنا کر رہا ہے۔ اسلامی دنیا کے لئے یہ سعودی قیادت کی ناکامی کے ثبوت ہیں۔
اب
شہزادوں کی جس نئی نوجوان قیادت کو آگے لایا جا رہا ہے۔ وہ پرانی عمر رسیدہ قیادت
سے زیادہ مختلف نظر نہیں آ رہی ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ابھی تک ایسی
کوئی نئی باتیں نہیں کی ہیں کہ جن سے ان میں Statesman
ہونے کی صلاحیتیں نظر آتی ہیں۔ پریس کی آزادی کے بغیر عورتوں کی آزادی یا سعودی
لڑکیوں اور لڑکوں کے لئے موسیقی کے Concerts کا انعقاد ہونے کی آزادی کوئی
آزادی نہیں ہے۔ اظہار خیال اور پریس کی آزادی کو آزادی کہا جاتا ہے۔ اور اس آزادی
کو فروغ دینے سے لیڈر میں Statesman
ہونے کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ سعودی حکومت نے سینما ہال کھول دئیے ہیں۔
لیکن ٹیلی ویژن بند ر کھے ہیں۔ ولی عہد شہزادہ محمد 32 سال کے ہیں۔ ان کی نسل کے
مستقبل کے بارے میں ولی عہد کا کیا Vision ہے۔ وہ اس نسل کو آئندہ 50سال میں
کدھر لے جائیں گے۔ بادشاہوں نے گزشتہ 50سال میں تین نسلوں کو جہادی بنا کر تباہ کیا
تھا۔ اس میں اسلامی دنیا کی نسلیں بھی شامل تھیں۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے عرب اسلامی
دنیا کے اتحاد اور یکجہتی کے بارے میں ابھی تک کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ عرب اسلامی
دنیا اس وقت جس انتشار اور خطروں میں ہے اس پر بھی ولی عہد شہزادہ محمد نے اظہار خیال
نہیں کیا ہے۔ لیکن سنی شیعہ میں عرب اسلامی دنیا کو تقسیم کرنے کی ولی عہد محمد نے
امریکہ کے دورے میں بات کی ہے۔ لندن کے دورے میں بات کی ہے۔ مصر کے دورے میں بات
کی ہے۔ سعودی عرب میں بیٹھ کر شیعاؤں کے خلاف نفرت کی باتیں کی ہیں۔ ولی عہد
شہزادہ محمد کی شیعاؤں اور ایران کے خلاف باتوں سے اسرائیل ضرور خوش ہوتا ہو گا۔
لیکن عرب اسلامی دنیا کو ولی عہد کی ان باتوں سے ضرور اختلاف ہو گا۔ بھارت کی ہندو
حکومت بھی ولی عہد کے ان بیانات سے اختلاف کرتی ہو گی۔ کیونکہ بھارت میں بھی
شیعاؤں کی ایک بہت بڑی آبادی ہے۔ ولی عہد نے اب تک جو بیانات دئیے ہیں وہ صرف جنگ،
لڑائیوں اور نفرت پر تھے۔ قطر جو ایک سنی ریاست ہے۔ اس کے ساتھ بھی سعودی عرب کی
جنگ جاری ہے۔ یمن کے ساتھ سعودی عرب کی جنگ کو تین سال ہو گیے ہیں۔ اس جنگ میں
سعودی عرب نے اب تک 100بلین ڈالر کا اسلحہ پھونک دیا ہے لیکن اسے ایک انچ کی
کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ یہ جنگ ولی عہد بننے سے پہلے شہزادہ محمد نے شروع کی تھی۔
اور اس جنگ کو تین سال ہو گیے ہیں۔ ولی عہد کے حالیہ دورہ امریکہ میں امریکی
سیکرٹیری دفاع James Mittis نے
یمن جنگ فوری طور پر ختم کرنے پر زور دیا ہے۔ لندن کے دورے میں ولی عہد شہزادہ محمد کے خلاف یمن میں بے گناہ
شہریوں کی ہلاکتوں پر مظاہرے ہوۓ تھے۔ ایک امریکی ٹی وی چینل سے انٹرویو میں ولی
عہد شہزادہ محمد سے جب قطر کی ناکہ بندی ختم کرنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو ولی
عہد شہزادہ محمد کا جواب یہ تھا کہ "امریکہ نے 60سال سے کیوبا کی ناکہ بندی
کی ہوئی ہے۔ قطر کی ناکہ بندی بھی 60سال تک ہو سکتی ہے۔" گزشتہ ماہ مصر کے
دورے میں ولی عہد شہزادہ محمد نے ترکی، ایران اور اسلامی انتہا پسند گروپوں کو “Triangle of Evil” کہا
تھا۔ ولی عہد شہزادہ محمد نے ترکی کو اسلامی خلافت بحال کرنے کی کوششوں کا الزام
دیا تھا۔ اس سے پہلے سعودی ولی عہد نے سو سال قبل سلطنت عثمانیہ میں عربوں کا قتل
عام کرنے کا الزام دیا تھا۔ اس کے جواب میں پھر ترکی کا پنڈ و رہ با کس بھی کھل
سکتا ہے کہ سعود قبیلے نے انگریزوں کے ساتھ سلطنت عثمانیہ کے خلاف جنگ کی تھی۔ اور ہزاروں
ترکوں کو قتل کیا تھا۔ ولی عہد شہزادہ محمد میں یہ سیاسی شعور نہیں ہے کہ کیا بات
کر نے کی ہے اور کیا بات نہیں کرنے کی ہے۔ 100سال یا 1400 سال پرانی باتیں کر کے
ولی عہد شہزادہ محمد سعودی عرب کو 21ویں صدی کی ترقی یافتہ ریاست بنانے کی طرف
نہیں لے جائیں گے۔ بلکہ ماضی کی تاریخ کا قیدی بنا دیں گے۔ سعودی عرب نے 50سال
اسلامی انتہا پسندوں کی پرورش عرب سیکولر قوم پرستوں سے جو ماسکو نواز تھے، لڑنے
کے لئے دی تھی۔ پھر مغربی ملکوں نے بھی انہیں اپنے مفاد میں استعمال کیا تھا۔
تاریخ کبھی آدھا گلاس نہیں ہوتی ہے۔ اس آدھے گلاس میں مغربی طاقتیں بے گناہ ہیں
اور نہ سعودی معصوم ہیں۔ بہرحال ولی عہد کو یہ نفرت کی باتیں نہیں کرنا چاہیے
تھیں۔ وہ سعودی عرب کو ایک جدید اور ترقی یافتہ ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ اپنے اس
مشن کی تکمیل کے لئے ولی عہد شہزادہ محمد کو دشمنوں کو بھی دوست بنانا ہو گا اور
انہیں بھی اپنے ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ برطانیہ جرمنی کے بغیر اور جرمنی فرانس کے بغیر
کبھی اتنی ترقی یافتہ قومیں نہیں ہو سکتے تھے۔ بلکہ یورپ میں ترقی ایک دوسرے کی
ترقی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد کو 100سال پرانی تاریخ میں جانے کے
بجاۓ ذرا یورپ کے ملکوں کی ترقی کی تاریخ کو دیکھنا چاہیے۔
سعودی
ولی عہد شہزادہ محمد کے دورہ واشنگٹن سے پہلے اسرائیل کے وزیر اعظم نتھن یا ہو امریکہ
آۓ تھے۔ وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملے تھے۔ صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد وزیر اعظم
نتھن یا ہو سے اس ملاقات میں گفتگو کے موضوع پر سوال کیا گیا تھا۔ جس پر وزیر اعظم
نتھن یا ہو کا جواب تھا "ایران ایران ایران" اس سے آ گے انہوں نے کچھ نہیں کہا تھا۔ سعودی ولی عہد محمد
کے چھوٹے بھائی 28سالہ شہزادہ خالد بن سلمان السعود واشنگٹن میں سعودی عرب کے سفیر ہیں۔ ولی عہد کے
دورہ امریکہ سے ایک روز قبل شہزادہ خالد واشنگٹن میں سعودی سفیر سی این این کے ایک
پروگرام میں آۓ تھے۔ ان سے یمن میں بے گناہ شہریوں کی مسلسل ہلاکتوں کے بارے میں
سوال کیا گیا تھا۔ جس کے جواب میں شہزادہ
خالد نے ایران کا تقریباً دس مرتبہ نام لیا تھا۔ یمن میں شہریوں کی ہلاکتوں کا
الزام ایران کو دیا تھا۔ یہ سیاست صدر جارج بش کی تھی کہ اپنی پالیسیوں کی ناکامی،
اپنے جنگوں کے فیصلہ کا الزام، اپنے فوجی ہتھیاروں سے بے گناہ لوگوں کی ہلاکتوں کا
الزام اور ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے تھے۔ یہاں تک کہ عراق پر حملہ کا الزام بھی
صد ام حسین کو دیا تھا کہ انہوں نے یہ کیوں نہیں بتایا تھا کہ ان کے پاس مہلک
ہتھیار نہیں تھے۔ پھر اس کا جواب بھی بش انتظامیہ نے یہ دیا تھا کہ وہ ایران کو یہ
تاثر دینا چاہتے تھے کہ عراق کے پاس ایٹمی ہتھیار تھے۔
اب سعودی
عرب اور اسرائیل کی سوچ یہ ہے کہ اگر ایران کا خاتمہ ہو جاۓ تو مڈل ایسٹ کے تمام
مسائل حل ہو جائیں گے۔ مڈل ایسٹ امن کی جنت بن جاۓ گا۔ یہ non sense
لوگوں کی انتہائی mean سوچ
ہے۔ جن کے ذہن نفرتوں سے بھرے ہوتے ہیں ان کی سوچ کبھی مثبت نہیں ہوتی ہے۔ ولی عہد
شہزادہ محمد بن سلمان نے مڈل ایسٹ میں امن اور استحکام کی ابھی تک کوئی بات نہیں
کی ہے۔ مڈل ایسٹ سے جنگوں کا خاتمہ کرنے کے بارے میں ان کے پاس جیسے کوئی منصوبہ
نہیں ہے۔ سعودی عرب جتنا زیادہ ہتھیاروں پر خرچ کر رہا ہے اتنا ہی زیادہ سعودی عرب
جنگوں میں دھنستا جا رہا ہے۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس نے مڈل ایسٹ کو جنگوں کا گھڑ
صرف اپنے ہتھیاروں کی صنعت کو پالنے کے لئے بنایا ہے۔ صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں
ولی عہد شہزادہ محمد سے کہا کہ "سعودی عرب دنیا کا مالدار ملک ہے اور ہم سے
دولت share
کرو۔ ہم سے ہتھیار خریدو۔"
آج کی
خطرناک دنیا میں امریکہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کہ اس کے مفادات کس طرح بدل جاتے
ہیں۔ اس کی پالیسیوں میں رنگ کب بدلتے ہیں۔ یہ 100سال پرانی تاریخ نہیں ہے۔ یہ صرف
16سال قبل کی بات ہے کہ امریکہ کو اس پر سخت پریشانی تھی کہ پاکستان سعودی عرب کو
ایٹمی ہتھیار فروخت کرے گا۔ پاکستان سعودی عرب کو ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کرے گا۔ سعودی
شاہ عبداللہ نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اور پاکستان میں انہیں ایٹمی پلانٹ دکھاۓ
گیے تھے۔ جس پر بش انتظامیہ میں کھلبلی پھیل گئی تھی۔ اور پاکستان پر کڑی نظر
رکھنے کی آوازیں اٹھنے لگی تھیں۔ 16سال بعد وائٹ ہاؤس میں جو انتظامیہ آئی ہے۔ وہ
سعودی عرب کو ایٹمی پلانٹ فروخت کر ہی ہے۔ یہ فیصلہ صرف ایٹمی پلانٹ بنانے والی
کمپنیوں کے مفاد میں کیا جا رہا ہے۔ پھر کچھ عرصہ بعد جب کوئی نئی انتظامیہ آئی گی
وہ یہ فیصلہ کرے گی کہ سعودی عرب میں ایٹمی پاور پلانٹ امریکہ کی سلامتی کے مفاد
کے لئے خطرہ ہیں؟ صد ام حسین کے پاس ایٹمی ٹیکنالوجی آسمان سے نہیں آئی تھی۔ یہ
مغربی ملکوں نے عراق کو فروخت کی تھی۔ اور ان کی کمپنیوں نے کھربوں ڈالر بناۓ تھے۔
عراق میں ایٹمی پلانٹ لگنے کے بعد پھر اسرائیل کو یہ اشارہ کر دیا کہ وہ عراق کے
ایٹمی پلانٹ اب تباہ کر دے۔ مڈل ایسٹ دنیا کا ایک ایسا خطہ ہے جہاں تمام فیصلہ اور
کام غیر قانونی ہوتے ہیں۔ اسرائیل نے غیر قانونی طور پر عراق پر حملہ کر کے اس کے
ایٹمی پلانٹ تباہ کر دئیے تھے۔ اسی طرح لیبیا کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ اسے بھی ایٹمی
ٹیکنالوجی، Biological اور
خطرناک Chemical
ہتھیار فروخت کیے گیے تھے۔ مغربی کمپنیوں نے کھربوں ڈالر منافع بنایا تھا۔ پھر
امریکہ نے لیبیا پر اقتصادی بندشیں لگا دی تھیں۔ اور مہلک ہتھیاروں کو تباہ کرنے
کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن امریکہ اور مغربی حکومتوں نے اپنی کمپنیوں پر یہ بندش
کبھی نہیں لگائی تھی کہ مڈل ایسٹ میں کسی بھی ملک کو مہلک ہتھیار فروخت نہیں کیے جائیں۔
سعودی عرب نے اس سے کیا سبق سیکھا ہے؟ لاکھوں اور کھربوں ڈالر ہتھیاروں پر خرچ کر کے اپنے آپ کو ہتھیاروں میں دفن کرنا ہے۔
No comments:
Post a Comment