Donald J. Trump: From Trump
Empire To A Crumbling American Empire
Why Doesn't Trump Depend On Advisers?
مجیب خان
President Donald J Trump |
President George W. Bush and his inner circle advisors |
President Obama's closest advisor Ben Rhodes |
اے بی
سی (ABC) پر
20/20 پروگرام میں Barbara
Walter نے ڈونالڈ ٹرمپ سے انٹرویو کیا
تھا۔ جس میں Barbara Walter نے
ٹرمپ سے Bankruptcy کے
بعد ان کے بزنس کے بارے میں دریافت کیا تھا کہ ان کا بزنس اب کیسا تھا؟ ڈونالڈ
ٹرمپ نے کہا کہ" Bankruptcy سے
پہلے انہوں نے بزنس کے سلسلے میں فیصلے مینجروں اور سپروائزروں پر چھوڑ دئیے تھے۔
اور اب بزنس کے تمام فیصلے وہ خود کرتے ہیں۔ صبح 7بجے وہ آفس آتے ہیں۔ کنسٹریکشن
پلان اور پروجیکٹ خود دیکھتے ہیں۔ ان پر ہدایتیں دیتے ہیں۔ اس لئے ان کا بزنس بہت
اچھا ہے۔" 20/20 پروگرام میں ٹرمپ کا یہ انٹرویو 80s کے آخر یا 90s کے
آغاز پر ٹیلی کا سٹ ہوا تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ اب امریکہ کے صدر ہیں۔ لیکن ان کا بزنس Mindset ہے۔
اور صدر بننے کے بعد بھی ٹرمپ تمام فیصلے خود کرنا چاہتے ہیں۔ جس طرح ایک دیوالیہ
ٹرمپ آرگنائزیشن کو ڈونالڈ ٹرمپ نے Trump Empire بنایا تھا۔ اسی عزم سے صدر ٹرمپ Make America Great سوچ کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں آۓ ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے ری پبلیکن پارٹی کی
پرائم ریز اور پھر صدارتی انتخابی مہم خود بڑی کامیابی سے چلائی تھی۔ RNC
چیرمین Reince Priebus نے
بھی اس کا اعتراف کیا تھا کہ یہ ایک تاریخی انتخابی مہم تھی۔ اور ڈونالڈ ٹرمپ نے
بڑی کامیابی سے یہ مہم چلائی تھی۔ ری پبلیکن پارٹی کی اسٹبلیشمنٹ نے ڈونالڈ ٹرمپ
سے انتخابی مہم کے دوران فاصلے رکھے تھے۔ اور ٹرمپ کو صدر قبول کرنے کے لئے تیار
نہیں تھی۔ لیکن یہ بھی صدر ٹرمپ کی بڑی کامیابی ہے کہ ری پبلیکن پارٹی اب صدر ٹرمپ
کے پیچھے کھڑی ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ اب امریکہ کے صدر ہیں۔
صدر ٹرمپ 7بجے وائٹ ہاؤس آفس میں نہیں آتے ہیں۔ لیکن 6بجے سورج طلوع ہونے سے پہلے
کئی Tweets
ضرور کرتے ہیں۔ اور Tweets کے
ذریعہ اہم ایشو ز پر اپنے خیالات سے اپنی انتظامیہ کے حکام، کا نگریس اور میڈیا کو آگاہ کر دیتے
ہیں۔ پھر سارا دن صدر ٹرمپ کے یہ Tweet میڈیا میں Talking Point
ہوتے ہیں۔ اور اسٹبلیشمنٹ کے لئے یہ سوچ بچار بنتے ہیں۔ تاہم ری پبلیکن پارٹی کی
اسٹبلیشمنٹ کا صدر ٹرمپ سے سمجھوتہ ہو گیا ہے۔ لیکن ری پبلیکن پارٹی کے بعض سینیٹر
ز کے صدر ٹرمپ سے بالخصوص خارجہ پالیسی پر شدید اختلاف ہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ ان کے
اختلافات کو Manage کر
رہے ہیں۔ داخلی امور میں ری پبلیکن پارٹی خاصی مطمئن ہے کہ صدر ٹرمپ نے اس کے
ایجنڈے کے ایک بڑے حصہ پر عملدرامد کیا ہے۔
ٹرمپ
انتظامیہ کو وائٹ ہاؤس میں 16ماہ ہو گیے ہیں۔ لیکن وائٹ ہاؤس میں جیسے سیاسی
استحکام کا فقدان ہے۔ کابینہ اور وائٹ ہاؤس میں تقرر یوں کے صرف چند ماہ بعد ان کے
استعفا دینے اور انہیں برطرف کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اور اسے وائٹ ہاؤس
میں انتظامی Chaos اور
Disarray
دیکھا جا رہا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے 45صدر سابقہ 44 صدروں سے بالکل مختلف ہیں۔
صدر ٹرمپ کا فیصلے کرنے کا اپنا ایک انداز ہے جس سے واشنگٹن اسٹبلیشمنٹ کا Digested system up set ہو
رہا ہے۔ انتظامیہ میں Advisors کے بارے میں
کہا جاتا ہے کہ صدر ٹرمپ ان کی Advise پر عمل نہیں کرتے ہیں۔ Advisors نے
صدر ٹرمپ سے کہا تھا کہ وہ صدر پو تن کو انتخاب میں کامیابی پر مبارک باد مت دیں۔
لیکن صدر ٹرمپ نے صدر پو تن کو فون کیا اور انہیں انتخاب میں کامیابی کی مبارک
باد دی۔ اور صدر پو تن سے مستقبل قریب میں
ملاقات کرنے کا کہا۔ اب یہ تاریخ بتاۓ گی کہ Advisors کا مشورہ درست
تھا یا صدر ٹرمپ کا فیصلہ صحیح تھا۔ Advisors سے محتاط رہنے کے بارے میں صدر
ٹرمپ کسی حد تک غلط نہیں ہیں۔ انتظامیہ میں Advisors ٹرمپ
آرگنائزیشن میں مینجروں اور سپر وائزروں سے
مختلف نہیں ہیں۔ اور یہ ٹرمپ آرگنائزیشن کو لے ڈوبے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ انہیں سنتے
تھے اور وہ جو کہتے تھے۔ وہ کرتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ Bankrupt ہو
گیے تھے۔ اس تجربہ کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ نے خود فیصلے کیے تھے۔ اور ٹرمپ آرگنائزیشن
کو ٹرمپ ایمپائر بنایا تھا۔
ہر
انتظامیہ میں بالخصوص اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ، قومی سلامتی امور اور
وائٹ ہاؤس میں جو Advisors آتے
ہیں۔ ان میں زیادہ تر کا تعلق Think Tanks سے ہوتا ہے۔ اور Think Tanks کا
مختلف مفادات کی لابیوں سے تعلق ہوتا ہے۔ جن کا اپنا ایجنڈہ ہوتا ہے۔ اور یہ
انتظامیہ میں Advisor بن
کر Think Tanks کے
ایجنڈہ کو آ گے بڑھاتے ہیں۔ پریذیڈنٹ ان کی Advise پر عمل کرنے
لگتے ہیں۔ اس کے جو بھی اچھے یا برے نتائج ہوتے ہیں وہ پریذیڈنٹ کی Legacy
ہوتے ہیں۔ Advisors
صدارتی سیاست کے ریڈار سے غائب ہو جاتے ہیں۔ لیکن پریذیڈنٹ اقتدار کا دور پورا
کرنے کے بعد بھی ریڈار پر رہتے ہیں۔ اور اپنی انتظامیہ کے فیصلوں اور پالیسیوں کے
نتائج کے بارے میں جوابدہ ہوتے ہیں۔ گزشتہ 28 سال میں 4انتظامیہ میں Advisors نے
صدروں کو جو Advise کیا
تھا۔ اور جن پر صدروں نے عمل کیا تھا۔ امریکہ کو آج دنیا کے ہر کونے میں ان کے
نتائج کا سامنا ہو رہا ہے۔ 4 سابق صدروں کے Advisors نے جن کے ایجنڈے کی
تکمیل میں مشورے دئیے تھے۔ دنیا میں تبدیلیاں ان کے مفاد میں نظر آ رہی ہیں۔ اور
یہ امریکہ کے مفادات کے بالکل بر خلاف ہیں۔ 1990 میں صدر جارج ایچ بش کو یہ غلط Advise دی
گئی تھی جو انہوں نے پھر صدر صد ام حسین سے یہ کہا تھا کہ ان کی فوجوں کا کویت پر قبضہ کرنے کی صورت میں امریکہ کا کوئی
رد عمل نہیں ہو گا۔ اس پیغام کے ذریعہ صد ام حسین کو ایک طرح سے گرین سگنل دیا گیا
تھا۔ اور دوسری طرف یہ صدر جارج ایچ بش کی gotcha پالیسی تھی۔ امریکہ نے صد ام حسین
کو Honest
مشورہ نہیں دیا تھا۔ کہ کویت پر قبضہ کرنے کے ان کے لئے خطرناک نتائج ہوں گے۔
انہیں کویت کے ساتھ تنازعہ کا پرامن حل دیکھنا چاہیے۔
صدر
جارج بش سینیئر کی انتظامیہ میں غلط Advise کے نتائج کلنٹن انتظامیہ میں
سامنے آ رہے تھے۔ کلنٹن انتظامیہ میں Advisors ان کی اہمیت کو
سمجھنے کے بجاۓ صدر کلنٹن کو غلط Advise کر کے اس میں تسلسل رکھ رہے تھے۔
امریکہ کے خلاف دہشت گردوں کے حملوں کی ابتدا کلنٹن انتظامیہ میں ہو گئی تھی۔ ور لڈ
ٹریڈ سینٹر پر دہشت گردی کا پہلا حملہ 1993 میں ہوا تھا۔ اس کے بعد 1996 میں سعودی
عرب میں Khobar Towers
امریکی فوجی بیس پر دہشت گردی کا حملہ ہوا تھا۔ جس میں 19 امریکی فوجی ہلاک ہوۓ
تھے۔ اس کے بعد 1998 میں Kenya اور
Tanzania میں
امریکہ کے سفارت خانوں پر بموں کے حملے ہوۓ تھے۔ پھر اکتوبر 2000 میں یمن میں عدن
کی بندر گاہ پر امریکی شپ USS Cole پر
خود کش بموں کے دو حملے ہوۓ تھے۔ جن میں 17 امریکی Sailors ہلاک اور 39 زخمی
ہوۓ تھے۔ امریکہ کے خلاف دہشت گردی کے واقعات بڑھتے جا رہے تھے۔ اسامہ بن لادن کو
ان حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا تھا۔ القاعدہ کی سرگرمیاں بھی ریڈار پر تھیں۔
لیکن Advisors صدر کلنٹن کو کیا Advise کر رہے تھے؟ سعودی حکومت نے اسامہ
بن لادن کو سعودی عرب سے نکال دیا تھا۔ اور بن لادن سوڈان آ گیا تھا۔ سوڈان کی
حکومت نے بن لادن کی سوڈان میں آنے کی اطلاع
کلنٹن انتظامیہ کو دی تھی کہ انٹیلی جینس حکام آئیں اور اسے لے جائیں۔
کلنٹن انتظامیہ نے سوڈان کی حکومت سے بن لادن کو سوڈان سے نکالنے کا کہا۔ امریکی
حکام اور انٹیلی جینس کا یہ کیسا مذاق تھا کہ سوڈان کی حکومت نے جب امریکی حکومت
کو بتایا تھا کہ اسامہ بن لادن سوڈان میں تھا۔ وہ اسے یہاں سے لے جائیں۔ لیکن پھر
پاکستان کی حکومت کو یہ الزام دیا گیا تھا کہ بن لادن پاکستان میں تھا اور حکومت
نے امریکہ کو یہ نہیں بتایا تھا۔ سوڈان کی حکومت نے بھی بن لادن کو اپنے ملک سے نکال
دیا تھا۔ بن لادن اپنے ساتھیوں کے ساتھ افغانستان جا رہا تھا۔ لیکن امریکہ کی ایف
بی آئی، سی آئی اے اور دوسری ایجنسیاں جیسے اس کے سفر کی سیکوریٹی کے فرائض انجام
دے رہے تھے۔ افغانستان میں ہر طرف Lawlessness تھا۔ سرحدیں بھی کھلی ہوئی تھيں۔
امریکہ کی انٹیلی جینس کے لئے بن لادن اور القاعدہ کی قیادت کے خلاف کاروائی کرنے
کا یہ ایک اور سنہری موقعہ تھا۔ لیکن انہوں نے کچھ نہیں کیا تھا۔ جیسے وہ کسی بڑے منصوبہ
کا انتظار کر رہے تھے۔ اور یہ کلنٹن انتظامیہ کے Advisors کی کارکردگی
تھی۔ لیکن یہ سوال صدر کلنٹن سے کیے جائیں گے کہ انہوں نے بن لادن کے خلاف کاروائی
کرنے سے منہ کیوں موڑ لیا تھا؟
بش
انتظامیہ میں Advisors کی Advise صدر
بش کے لئے Debacle
ثابت ہوئی ہے۔ 911 کا حملہ طالبان نے نہیں کیا تھا۔ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کے
خلاف اگر صدر کلنٹن کاروائی کرتے اور انہیں پکڑ لیتے تو شاید 911 بھی نہیں ہوتا۔ لیکن
بن لادن اور اس کے ساتھیوں کو حفاظت سے افغانستان لا کر بیٹھا یا گیا تھا۔ بش
انتظامیہ نے افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تھا۔ لیکن بن لادن کو
حفاظت کے ساتھ پاکستان میں پہنچا دیا تھا۔ حالانکہ اسے طورہ بورہ میں دیکھا تھا۔
اگر بش انتظامیہ چاہتی تو اسپیشل فورسز کو اسے پکڑنے کا حکم دے سکتی تھی۔ لیکن اس کے
اپنے بڑے منصوبے تھے۔ اوروہ بن لادن اور القاعدہ کو ان منصوبوں کی تکمیل کے لئے استعمال
کرنا چاہتے تھے۔ عراق کا امریکہ کے خلاف 911 کی دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
لیکن یہ بش انتظامیہ کے Advisors تھے
جنہوں نے 911 کی دہشت گردی میں عراق کے ملوث ہونے کا کیس بنایا تھا۔ اور پھر صدر
بش کو عراق پر حملہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اب اگر مڑ کر بش انتظامیہ کے اس دور کے
فیصلوں اور Advisors کی Advise پر نظر
ڈالی جاۓ تو یہ سب انتہائی احمق اور بیوقوف نظر آتے ہیں۔ نیویارک میں 911 کی دہشت
گردی میں 3ہزار لوگ مارے گیے تھے۔ لیکن بش انتظامیہ کے عراق پر حملہ میں 7ہزار
امریکی فوجی مارے گیے تھے۔ 35ہزار امریکی فوجی جن کی عمریں 30میں ہیں ساری زندگی
کے لئے اپاہج ہو گیے ہیں۔ جبکہ بے گناہ عراقی شہریوں کی ہلاکتیں لاکھوں میں ہیں۔ صدر
بش نے 8 سال حکومت کی تھی۔ لیکن ان کے Advisors کی Advise سے دہشت گردی
ختم ہوئی تھی۔ افغانستان میں طالبان کا خاتمہ ہو سکا ہے۔ اور نہ ہی عراق کو جرمنی
اور جاپان بنایا گیا ہے۔ شکست امریکہ کے حصہ میں آئی ہے اور جن پر حملے کیے گیے
ہیں انہیں تباہی ملی ہے۔ اور ان کے جو درمیان میں تھے ان کا امن چلا گیا ہے۔
صدر
بارک اوبامہ روشن خیال liberal اور
Peacenik
سمجھے جاتے تھے۔ اس لئے 2008 میں ان کے صدارتی امیدوار ہونے کی امریکہ جرمنی فرانس
برطانیہ کے لوگوں نے حمایت کی تھی۔ دنیا کو ان سے امن فروغ دینے کی توقع تھی۔ صدر اوبامہ کا امن میں پختہ
ایمان دیکھ کر انہیں اقتدار کے پہلے ہی چند ماہ میں امن کا نوبل انعام دینے کا
اعلان کیا گیا تھا۔ لیکن Advisors کا اپنا ایک کلچر تھا۔ انہوں نے پہلے صدر اوبامہ کا Brainwash کیا انہیں National
Security کا Iron fist صدر ثابت کرنے کے راستہ پر لاۓ اور پھر صدر اوبامہ سے John Bolton کا Hawkish
مہذب قبول کروایا تھا۔ جس کی صدر اوبامہ سے توقع نہیں تھی۔ صدر اوبامہ Warmonger ہو
گیے تھے۔ Regime change اب
صدر اوبامہ کی پالیسی بن گئی تھی۔ لیبیا، شام، یمن صدر اوبامہ کی جنگیں تھیں۔ ان
ملکوں میں انسانی خون Niagara
Falls کی طرح گر رہا تھا۔ صدر اوبامہ نے
اپنا ذہن جیسے Advisors کے ہاتھوں
میں دے دیا تھا۔ وہ جو Advise
کرتے تھے۔ اس پر عمل ہو رہا تھا۔ عراق کو امن دینے کے بجاۓ ISIS دی تھی۔ صدر
اوبامہ کی انتظامیہ میں کسی کو بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ ISIS کو کس نے منظم
کیا تھا؟ کس ملک نے انہیں اپنی سرزمین منظم ہونے کے لئے دی تھی؟ ترکی میں نیٹو کی
موجودگی اور شام میں سی آئی اے کی موجودگی میں ISIS شام کا تیل
چوری کر کے فروخت کر رہی تھی۔ اور تیل کی آمدنی سے دہشت گردی کے اخراجات پورے کیے جاتے تھے۔ صدر اوبامہ نے چوری
کا تیل فروخت کرنے کے خلاف کوئی پابندی لگائی تھی۔ اور نہ ہی چوری کا تیل خریدنے
والوں پر کوئی پابندی عائد کی گئی تھی۔ 5سال سے شام میں یہ کاروبار ہو رہا تھا۔
اور دنیا کو یہ بیوقوف بنایا جا رہا تھا کہ ISIS کے خلاف جنگ
لڑی جا رہی تھی۔ اسد حکومت ختم کر کے ISIS کو شام پر قبضہ کرنے کا موقعہ دیا
جا رہا تھا۔ صدر اوبامہ کس کی Advise پر شام میں یہ کھیل کھیل رہے تھے۔
سابقہ انتظامیہ کے فیصلوں میں Advisors کا
بھر پور رول دیکھنے کے بعد جو امریکہ اور دنیا کے لئے زبردست تباہی کا باعث ثابت
ہوۓ ہیں۔ صدر ٹرمپ اگر Advisors کی Advise پر
عمل نہیں کر رہے ہیں۔ یا ان کی Advise پر عمل کرنے میں بہت محتاط ہیں تو
وہ درست ہیں۔
No comments:
Post a Comment