Sunday, April 15, 2018

Israeli-Saudi Great Game In The Middle East: They Are Using American Administration For Bombing, Congress For Sanction Laws, And Shaping The Middle East’s Geo-Strategic Politics In Their Interest


Israeli-Saudi Great Game In The Middle East: They Are Using American Administration For Bombing, Congress For Sanction Laws, And Shaping The Middle East’s Geo-Strategic Politics In Their Interest

مجیب خان
Turkey, Iran, Russia will work stability and peace in Syria
Basher Al Assad with the Syrian Soldiers in the city of Homs
    سامراجی (Imperial) اور نوآبادیاتی (Colonials) طاقتوں نے اب یہ طے کر لیا ہے کہ وہ دنیا کو جو بتائیں گے اسے پھر By hook or By crook تسلیم کروائیں گے۔ جیسے گزشتہ ماہ برطانیہ کی وزیر اعظم نے ایک دن مائیکر و فون کے سامنے کھڑے ہو کر دنیا کو بتایا کہ مسٹر پو تن نے لندن میں ایک سابق روسی انٹیلی جنس ایجنٹ اور اس کی بیٹی کو زہر دیا ہے۔ وزیر اعظم نے اس کے کوئی ٹھوس ثبوت دنیا کو نہیں دئیے تھے۔ اس کے بعد سیکرٹیری خارجہ نے بھی وزیر اعظم کے بیان کی تائید میں اپنا بیان دیا اور مسٹر پو تن کو روسی ایجنٹ کو زہر دینے کا ملزم بتایا۔ اور کہا کہ حکومت کے پاس اس کے ثبوت ہیں۔ تاہم اس کی کوئی غیر جانبدار ا نہ تحقیقات نہیں کرائی تھی۔ برطانوی حکومت نے OPCW کی رپورٹ کا انتظار نہیں کیا تھا۔ لیکن صدر پو تن کو مجرم بنا دیا تھا۔ حالانکہ روسی حکومت نے اس کے Samples مانگے تھے۔ لیکن برطانوی حکومت نے یہ Samples دینے سے انکار کر دیا تھا۔ امریکہ فرانس جرمنی اور بعض دوسرے یورپی ملکوں نے برطانیہ کے دعوی کی حمایت کی تھی۔ اور روس کے سفارت کاروں کو اپنے ملکوں سے نکالنے کا اعلان کیا تھا۔ By hook or By Crook دنیا کی سیاست میں اپنی بات منوانے کا یہ ایک نیا قانون بن گیا ہے۔ اور یہ قانون انصاف کی جگہ قانون الزام ہو گا۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس دنیا میں جس پر الزام عائد کریں گے وہ پھرCertified مجرم سمجھا جاۓ گا۔
   جس طرح برطانیہ نے صدر پو تن کو لندن میں سابق روسی ایجنٹ کو زہر دینے کا مجرم قرار دیا تھا۔ بالکل اسی طرح صدر ٹرمپ نے شام کے صدر اسد کو Douma میں زہریلی گیس استعمال کرنے پر Animal قرار دیا ہے۔ اس کے کیا ثبوت تھے۔ ٹرمپ انتظامیہ کا جواب تھا برطانیہ اور فرانس کے پاس اس کے ثبوت ہیں۔ لیکن اتنی جلدی ان کے پاس یہ ثبوت کہاں سے آۓ تھے؟ اسے خفیہ رکھا تھا۔ حالانکہ اقوام متحدہ کا ایک وفد شام میں اس کی تحقیقات کے لئے بیروت پہنچ گیا تھا۔ اور بیروت سے سرحد عبور کر کے دمشق جانے والا تھا۔ اسد حکومت نے عالمی ماہرین کو اس واقعہ کی تحقیقات کرنے کی اجازت دی تھی۔ اور اپنی حکومت کے مکمل تعاون کا یقین دلایا تھا۔ امریکہ نے اپنی تاریخ میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ جنگیں لڑیں ہیں۔ اور امریکہ میں جنگوں کے ماہرین بھی یہ بتا سکتے ہیں اور ویسے بھی یہ Common Sense ہے کہ اسد حکومت نے جب اپنے تمام علاقہ دہشت گردوں سے آزاد کرا لئے تھے۔ اور چند گھنٹوں میں Douma بھی آزاد ہونے والا تھا۔ اور عالمی میڈیا میں یہ کہا جا رہا تھا کہ اسد حکومت یہ جنگ جیت گئی ہے۔ صدر اسد کی شامی فوجیوں اور عوام کے ساتھ تصویریں بھی آ رہی تھیں۔ اور ان سب کے چہروں پر مسرت تھی۔ یہ سازش اس شکست میں کی گئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے صدر اسد کو جس طرح Animal کہا ہے وہ اس کا واضح ثبوت ہے۔ آخر اسد حکومت جنگ کے اختتام پر زہریلی گیس استعمال کر کے اپنی فتح کا جشن کیوں منائیے گی؟ امریکہ نے جاپان کے خلاف ایٹم بم اس وقت استعمال کیے تھے کہ جب جاپانی فوجیں Surrender نہیں ہو رہی تھیں۔ لیکن کیونکہ تین ملکوں کے By hook or By crook کلب نے اسد حکومت کے خلاف یہ فتوی دیا تھا کہ اس نے زہریلی گیس استعمال کی تھی۔ اسے تسلیم کرنا دنیا کے لئے واجب ہو گیا تھا۔ لیکن دمشق حکومت اگر سعودی عرب اور اسرائیل کی پسندیدہ حکومت ہوتی اور یہ حکومت زہریلی گیس استعمال کرتی تو برطانیہ فرانس امریکہ یہ الزام ISIS القا عدہ النصرہ دہشت گروپوں کو دیتے۔ اور ان پر بم گراتے۔ کیونکہ یہ دہشت گرد اسد حکومت کے خلاف لڑ رہے تھے اس لئے یہ By hook or By crook کلب کے اتحادی تھے۔ اور Animal صدر اسد تھے جنہیں بش انتظامیہ نے نائن الیون کے بعد اسلامی دہشت گردوں کو Torture دینے اور ان سے تحقیقات کرنے کے لئے استعمال کیا تھا۔ بڑی طاقتیں اپنے مقاصد میں اتحادی بناتی ہیں۔ حکومتوں کو استعمال کرتی ہیں۔ پھر انہیں گندہ کرتی ہیں۔ اور پھر ان کا حشر معمر قد ا فی کی مثال ہے۔
   یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ روس، ترکی اور ایران کے درمیان شام میں امن اور استحکام کے معاہدہ کا امریکہ برطانیہ اور فرانس نے دمشق پر 106 بموں سے خیر مقدم کیا تھا۔ کیونکہ یہ معاہدہ اسرائیل اور سعودی عرب کے مفاد میں نہیں تھا۔ پہلے اسرائیل نے شام میں ایرانی Base پر بمباری کی تھی اور ایران کے 7 فوجی مار دئیے تھے۔ اسرائیلی حکومت کو یہ تکلیف تھی کہ ایرانی اس کی سرحد کے قریب کیوں بیٹھے ہیں۔ حالانکہ ایرانی شام ایک خود مختار ملک کی سرحدوں کے اندر تھے۔ ادھر اسرائیلی غازہ میں فلسطینی بچوں اور عورتوں کو مار دیتے ہیں کہ یہ اسرائیل میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر ان فلسطینی بچوں اور عورتوں کو انسان سمجھتی ہیں اور نہ ان کی طرف دیکھتی ہیں۔ جبکہ شام میں شہریوں کے خلاف زہریلے ہتھیار استعمال کرنا اور نہتے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کا بھاری فوجی ہتھیار استعمال کرنا ایک جیسے کرائم ہیں۔ سعود یوں کا غیر اسلامی چہرہ اب کھل کر سامنے آ رہا ہے۔ اسلام میں کسی پر الزام دینے کی ممانعت کی گئی ہے۔ اسد حکومت نے سعود یوں کے خلاف ایسا کیا کیا تھا کہ سعودی حکومت نے اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ مل کر اس کا ملک تباہ کروا یا ہے۔ ہزاروں بے گناہ شامی ہلاک ہو گیے ہیں۔ ایک برادر اسلامی ملک تباہ کرنا سعودی عرب کا اسلامی کردار نہیں ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل کا شام میں حکومت تبدیل کرنے میں کیا مفاد پوشیدہ ہے؟ سعودی عرب اور اسرائیل کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ خطہ کے ملکوں کو حکم دیں کہ ان کے ایران سے کیوں تعلقات ہیں۔ اور پھر امریکہ سے ان ملکوں کے خلاف اقتصادی بندشیں لگانے کی بات کرتے ہیں۔ یہ خصوصیت سے نوٹ کیا جا رہا ہے کہ اس خطہ کے ملکوں میں سعودی مداخلت بڑھتی جا رہی ہے۔ سعودی حکومت نے امریکہ برطانیہ اور فرانس سے ہتھیاروں کو خریدنے کی صورت میں کھربوں ڈالر دئیے ہیں۔ اور امریکہ برطانیہ فرانس سے شام  سعودی حلقہ اثر میں مانگا ہے۔ اسرائیل کی واشنگٹن لندن پیرس میں شام میں حکومت تبدیل کرنے کے لئے سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔ روسی Oligarchs کے خلاف صدر ٹرمپ نے اقتصادی بندشیں لگا دی ہیں۔ جو صدر پو تن کے بہت قریب تھے۔ بنکوں سے ان کے ساتھ کاروبار نہ کرنے کا کہا ہے۔ صدر پو تن کے خلاف نئی امریکی بندشیں لگانے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ ان اقتصادی بندشوں کا بڑا مقصد شام میں اسد حکومت کی پشت پنا ہی ترک کرانا ہے۔ اور اس کے لئے Oligarchs سے بھی صدر پو تن پر دباؤ ڈلوایا جاۓ گا۔ ادھر 12 مئی کو صدر ٹرمپ نے ایران کے ایٹمی سمجھوتے کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے۔ اس کے لئے یورپی یونین کے ملکوں سے کہا جاۓ گا کہ وہ شام میں ایران کی موجودگی کو ختم کرائیں صرف اس صورت میں امریکہ شاید سمجھوتہ کی توثیق کرے گا۔ شام میں سعودی عرب اور اسرائیل کے مفاد میں امریکہ کو یہ سب کچھ کرنا ہو گا۔ کیونکہ سعودی عرب نے لاکھوں ڈالر شام کی خانہ جنگی میں Invest کیے ہیں۔ کھربوں ڈالر امریکہ کے Military Industrial Complex  میں Invest کیے ہیں۔ لہذا وہ بھی اس کے عوض میں امریکہ سے اپنے مفادات کی تکمیل میں مدد چاہتے ہیں۔
   شام اسرائیل- سعودی عرب مڈل ایسٹ Great Game کا شکار بن گیا ہے۔ اور Great Game یہ ہے کہ مڈل ایسٹ میں صرف دو Kingdoms ہوں گی۔  Al-Saud’s Kingdom of Saudi Arabia اورKing David’s Kingdom of Israel  جسے اسرائیل بحال کرنا چاہتا ہے۔ King David بھر پور طاقت میں یقین رکھتا تھا۔ اپنے مقابلے پر کسی دوسرے کو طاقتور بنتا  دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ اس کی Kingdome بھی مختلف قبائل پر مشتمل تھی۔ 40سال King David نے ایک Warrior کی طرح حکومت کی تھی۔ اس کے دور میں اہم تجارتی راستے اسرائیل سے گزرتے تھے۔ قدیم مڈل ایسٹ میں Kings Highway ایک اہم تجارتی راستہ تھا جو دریاۓ نیل پر Gulf of Aqaba سے دمشق کی طرف جا رہا تھا۔ پھر بحر روم کی ساحل کے ساتھ مصر سے ایک راستہ اسرائیل سے گزر کر شام تک جاتا تھا۔ 2016 میں مصر نے Gulf of Aqaba پر دو جزیرہ Tiran, Sanafir سعودی عرب کو دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے عوض سعودی عرب نے مصر کو کھربوں ڈالر کے قرضہ دینے اور مصر کی معیشت میں انویسٹ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہاں اسرائیل کی Eilat کی جنوبی بندر گاہ ایک واحد راستہ ہے جو جنوب مشرقی ایشیا سے اس کی تجارت کے لئے بہت اہم ہے۔
   اب اس پس منظر میں اسرائیل- سعودی بڑھتے ہوۓ تعلقات کو دیکھا جاۓ۔ اور شام میں اسرائیل سعودی دلچسپی کو سمجھنے کی کوشش کی جاۓ۔ اسرائیل اور سعودی عرب نے صرف اپنے  مفادات میں شام کو تباہ کر کے King David کے دور میں پہنچا دیا ہے۔ صدر پو تن شام کے لئے واقعی ایک Messiah ہیں۔ جنہوں نے دونوں کے عزائم خاک میں ملا دئیے ہیں۔ اس وقت امریکہ اور یورپ جس طرح صدر پو تن پر بندشوں کے حملہ کر رہے ہیں۔ 5ہزار سال قبل Messiah پر بھی ایسے ہی حملہ ہوتے تھے۔ دنیا کو ‏مڈل ایسٹ میں  اسرائیل- سعودی Great Game کو سمجھنا چاہیے۔
    [ The Kingdom of Israel was established and in the control of David and his mighty army. If there was any sort of problems on foreign soil David’s army was in a position to wage war. There were many such wars and God was with him and King David built what may accurately be referred to as an “empire”.
David’s Kingdom was not necessarily a military government as it was with King Saul, although David made many more conquests then King Saul. Although David was a man of war the strength of his rule did not depend on military victories. Besides being a military leader David was also a statesman and his government was well organized and staffed. His army under Joab or himself was rarely if ever defeated.
The result was that his borders were continually enlarged until an empire was formed.]
Bible-history.com/davids-kingdom

  
             

No comments:

Post a Comment