Saturday, April 21, 2018

“It’s Too Bad That The World Puts Us In A Position Like That,” President Trump


 “It’s Too Bad That The World Puts Us In A Position Like That,” President Trump

In 1973, Prime Minister Zulfikar Ali Bhutto Said To President Richard Nixon, "Mr. President Please
 Solve The Palestine-Israel Problem It Will Become A Bigger Problem For The World Peace And Stability".

In 1980s, Prime Minister Indira Gandhi Opposed The President Reagan’s Afghan Policy To Arm And Train Jihadis In Pakistan. Prime Minister Gandhi Warned America That They Will Become A Problem For Our Region.

مجیب خان
Prime Minister Zulfikar Ali Bhutto meets with U.S.President Richard Nixon in 1973 in the Oval office 
President Ronald Reagan and Prime Minister Indira Gandhi, July 29 1982 

   "یہ بہت برا ہے کہ دنیا نے ہمیں ایک ایسی صورت میں ڈال دیا ہے۔" صدر ٹرمپ نے یہ شام میں کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے پر اسد حکومت کے خلاف فوجی کاروائی کا فیصلہ کرنے پر کہا تھا۔ تاہم صدر ٹرمپ نے یہ غلط کہا ہے کہ "دنیا نے امریکہ کو ایک ایسی صورت میں ڈالا ہے" بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ امریکہ نے دنیا کو ایک ایسی میں ڈال دیا ہے۔" کہ دنیا کے لئے اس صورت سے نکلنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس صورت سے نکلنے کے تمام راستوں کا جنگوں نے گھراؤ کر لیا ہے۔ دنیا امن چاہتی ہے۔ لیکن جنگیں دنیا کو امن سے دور لے جا رہی ہیں۔ عراق، شام، لیبیا، یمن دنیا نے امریکہ کو نہیں دئیے ہیں۔ امریکہ نے انہیں عدم استحکام کر کے یہ دنیا کو دئیے ہیں۔ 3ملین شامی مہاجرین کے سیلاب نے یورپ کو مشکل صورت میں ڈال دیا ہے۔ شامی مہاجرین کے مسئلہ پر یورپی حکومتوں کو خانہ جنگی کا سامنا ہو رہا ہے۔ کیونکہ ان کے شہری مہاجرین کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اور ان کے خلاف وہ سڑکوں پر آ گیے تھے۔ دنیا ابھی القا عدہ سے نجات حاصل نہیں کر سکی تھی کہ عراق کے عدم استحکام اور شام کی خانہ جنگی سے ISIS کا جنم ہوا تھا۔ اور اس نے عراق اور شام کے ایک بڑے علاقہ پر قبضہ کر کے اپنی اسلامی خلافت قائم کر لی تھی۔ امریکہ کی قیادت میں افغانستان کو طالبان کی اسلامی خلافت سے آزاد کرایا تھا۔ اور پھر امریکہ کی قیادت میں صد ام حسین کی سیکو لر حکومت سے عراق کو آزادی دلائی تھی۔ عرب دنیا میں ہر طرف ڈکٹیٹروں کا راج تھا۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس کے لئے اچھے اور برے ڈکٹیٹر تھے۔ لیکن عوام کے لئے ڈکٹیٹر ڈکٹیٹر ہوتے ہیں۔ اور اب  عرب دنیا کے دوسرے ڈکٹیٹروں کے ساتھ اتحاد بنا کر شام کو ڈکٹیٹر سے آزادی دلانے کی جنگ لڑی جار ہی ہے۔ اس جنگ کے دوران شام میں دو اور عراق میں ایک نئی جنگ ISIS کی اسلامی خلافت کے خلاف شروع ہو گئی تھی۔ صدر اوبامہ کے دوسرے 4سال ان جنگوں کی مصروفیت میں گزر گیے تھے۔ صدر اوبامہ دنیا سے امن کا نوبل انعام لے گیے لیکن دنیا کو جنگوں میں چھوڑ گیے۔ جبکہ صدر بش کے دور کی جنگیں بھی جاری تھیں۔ دہشت گردی میں کمی ہونے کے بجاۓ اور اضافہ ہو گیا تھا۔ بش انتظامیہ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے جو Framers تھے۔ انہوں نے اسے سرد جنگ کا متبادل بنایا تھا۔ اور اسے 50سال تک جاری رکھنے کا کہا تھا۔
   امریکہ War addicted ہو گیا ہے۔ 1990s میں سرد جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ میں 5 صدر آۓ ہیں۔ اور ہر صدر نے مڈل ایسٹ میں بمباری کی ہے۔ صدر ٹرمپ پانچویں صدر ہیں۔ اور اب تک وہ دو مرتبہ شام میں حکومت کے خلاف بمباری کر چکے ہیں۔ 27 سال میں مڈل ایسٹ کے عوام کے مفاد میں کسی ایک امریکی صدر نے کوئی اچھا کام کیا ہے اور نہ ہی انہیں امن دیا ہے۔ انہیں صرف جنگوں اور دہشت گردی کے راستہ پر رکھا ہے۔ اسرائیل 70سال سے فلسطینیوں کو اس راستے پر ر کھے  ہوۓ ہے۔ فلسطینی ابھی تک اسرائیلی فوجی بربریت میں انتہائی Heartbroken حالات میں بمشکل زندہ ہیں۔ اسد حکومت کو 500,000 لوگوں کو ہلاک کرنے کا الزام دیا جاتا ہے۔ جبکہ اسرائیلی حکومت نے ساٹھ سال میں اس سے دو گنی تعداد میں فلسطینی مارے ہیں۔ تاہم اسد حکومت کے حامیوں کو ISIS القا عدہ النصرہ اور دوسرے دہشت گردوں نے جس پیمانے پر ہلاک کیا ہے اسے بھی اسد حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ یہ مڈل ایسٹ میں امریکہ کے رول کا پس منظر ہے جس نے دنیا کو ان حالات میں ڈالا ہے۔
    صدر ٹرمپ نے 2018 میں مڈل ایسٹ کے حالات پر یہ کہا ہے کہ' یہ بہت برا ہے کہ دنیا نے ہمیں ایک ایسی صورت میں ڈالا ہے۔' لیکن 45سال قبل پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے 1973 میں تیسری عرب اسرائیل جنگ کے بعد وائٹ ہاؤس میں صدر رچرڈ نکسن سے ملاقات میں کہا تھا کہ 'مسٹر پریذیڈنٹ فلسطین اسرائیل تنازعہ حل کریں۔ ورنہ یہ دنیا کے امن اور استحکام کے لئے ایک بڑا مسئلہ بن جاۓ گا۔' مڈل ایسٹ کے بارے میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے یہ پیشن گوئی بھی کی تھی کہ ' تیسری جنگ عظیم مڈل ایسٹ میں ہو گی۔' اور آج 45 سال بعد وزیر اعظم بھٹو کی یہ پیشن گوئی بالکل درست نظر آ رہی ہے۔ روس اور امریکہ شام میں ایک دوسرے کے مد مقابل آ گیے ہیں۔ واشنگٹن میں Hot head کا ایک غلط فیصلہ یا اقدام تیسری جنگ عظیم کا سبب بن سکتا ہے۔ یا عرب دنیا میں کسی سر پھرے کی شرارت تیسری جنگ عظیم کی ابتدا ہو سکتی ہے۔ مڈل ایسٹ میں حالات انتہائی خطرناک ہیں۔ ہنری کسنگر صدر نکسن کے قومی سلامتی امور کے مشیر تھے۔ مڈل ایسٹ Shuttle Diplomacy میں ہنری کسنگر مشہور تھے۔ لیکن فلسطین اسرائیل تنازعہ کے حل میں ہنری کسنگر کی ڈپلومیسی فیل ہو گئی تھی۔ پاکستان امریکہ کا دوست اور قریبی اتحادی تھا۔ وزیر اعظم بھٹو نے صدر نکسن کو عرب اسرائیل تنازعہ حل کرنے کی Urgency پر مخلص مشورہ دیا تھا۔ لیکن امریکی انتظامیہ اپنے ایجنڈے پر اتحادیوں کے مشورے کو اہمیت نہیں دیتی ہے۔
   پھر 1980s میں افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف صدر ریگن کی جہاد یوں کو استعمال کرنے کی پالیسی کی پاکستان میں لبرل اور پروگریسو جماعتوں نے شدید مخالفت کی تھی۔ ریگن انتظامیہ اپنے محدود مقاصد میں جہادیوں کی اسلامی انتہا پسندی کو ابھار رہی تھی۔ اور اسے کمیونسٹ فوجوں کو شکست دینے میں استعمال کیا جا رہا تھا۔ طویل المدت میں یہ حکمت عملی پاکستان کے مفاد میں بالکل نہیں تھی اور قلیل المدت میں یہ اسلامی انتہا پسندی  روشن خیال اور لبرل قدروں کے حامیوں کے لئے خطرہ بن رہی تھی۔ لیکن ریگن انتظامیہ نے ان کے خدشات کو نظر انداز کر دیا تھا۔ بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی بھی ریگن انتظامیہ کی افغان پالیسی کے خلاف تھیں۔ اور پاکستان میں جہادیوں کو تربیت اور ہتھیار دینے کی پالیسی سے خاصی خوفزدہ تھیں۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ یہ ہمارے خطہ کے لئے ایک بڑا مسئلہ بن جائیں گے۔ وزیر اعظم گاندھی نے ماسکو میں سوویت رہنماؤں سے ملاقات کے بعد کہا کہ سوویت قیادت کو احساس ہوا ہے کہ افغانستان میں فوجیں بھیجنے کا فیصلہ غلط تھا۔ اور اب وہ افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنا چاہتے ہیں۔ اگر افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف جہادیوں کی کاروائیاں بند ہو جائیں تو سوویت فوجیں وہاں سے چلی جائیں گی۔ وزیر اعظم گاندھی نے وائٹ ہاؤس میں صدر ریگن سے بھی ملاقات کی تھی۔ اور صدر ریگن کو افغانستان میں جہادیوں کی کاروائیاں ختم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن وزیر اعظم کامیاب نہیں ہو سکی تھیں۔ افغانستان سوویت یونین کے لئے ویت نام نہیں بنا تھا لیکن یہ پاکستان کے لئے ویت نام بن گیا تھا۔ اب 18 سال سے امریکہ ان افغان مجاہدین سے لڑ رہا ہے جو سوویت یونین کے خلاف جہاد میں امریکہ کے اتحادی تھے۔
   امریکہ پر نائین الیون کے حملہ کے بعد پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے پہلے اور پھر ملیشیا کے وزیر اعظم Mahathir Mohamad نے وائٹ ہاؤس میں صدر بش سے ملاقات کی تھی۔ اور دونوں رہنماؤں نے فلسطین اسرائیل تنازعہ کو اسلامی دنیا میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا Root Cause بتایا تھا۔ اور صدر بش سے فلسطین اسرائیل تنازعہ کو حل کرنے پر زور دیا تھا۔ لیکن جیسے امریکہ کی ہر انتظامیہ نے تہیہ کر لیا تھا کہ فلسطین اسرائیل تنازعہ کا کوئی حل نہیں تھا۔ افغانستان میں طالبان حکومت ختم ہونے کے بعد صدر پرویز مشرف نے صدر بش کو طالبان سے سیا سی مذاکرات کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ جسے صدر بش کے قومی سلامتی، خارجہ اور دفاعی امور کے پالیسی میکرز  نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ طالبان سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے اور ان کا مکمل خاتمہ کیا جاۓ گا۔ اور اس وقت تک یہ جنگ جاری رہے گی۔ بش انتظامیہ 8 سال اقتدار میں تھی اور 8 سال میں یہ 6ملین پشتون طالبان کا خاتمہ نہیں کر سکی تھی۔ اوبامہ انتظامیہ نے بھی 8 سال اقتدار کیا تھا۔ اور وہ بھی طالبان کا خاتمہ نہیں کر سکی تھی۔ طالبان کو جب اقتدار سے ہٹایا تھا اس وقت وہ بہت کمزور تھے۔ ان کی تحریک کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ افغان عوام بھی طالبان کا اقتدار ختم ہونے سے خوش تھے۔ اور یہ افغانستان میں ایک سیاسی حل کا بہترین موقعہ تھا۔ لیکن بش انتظامیہ طالبان سے مذاکرات کرنے کی مخالفت کرتی رہی۔ صدر بش کی اس Anti-Peace پالیسی کا نتیجہ تھا کہ طالبان منظم اور مضبوط ہو گیے تھے۔ امریکہ ایک جیتی ہوئی جنگ ہار گیا تھا۔ امریکہ کی دو سابق انتظامیہ افغانستان کو ایسے حالات میں چھوڑ کر گئی ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ ان کی غلطیوں کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرا رہی ہے۔
    عراق جنگ کی دنیا کے امن پسند ملکوں اور شہریوں نے مخالفت کی تھی۔ دنیا بھر میں ہزاروں اور لاکھوں لوگ اس جنگ کے خلاف سڑکوں پر آۓ تھے۔ وائٹ ہاؤس کے سامنے امریکی شہریوں نے اس جنگ کی مخالفت میں مظاہرہ کیا تھا۔ لیکن وائٹ ہاؤس کے اندر Anti-peace قیادت نے اپنے عوام کو بھی نظر انداز کر دیا تھا۔ ڈکٹیٹر بن کر عوام پر اپنے فیصلے مسلط کرنے لگے تھے۔ امریکہ کے دو پارٹی نظام میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ ایک پارٹی کی غلط پالیسی یا فیصلہ کو دوسری پارٹی نے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے بدل دیا تھا۔ امریکی عوام نے  پہلی مرتبہ ایک Black امریکہ کا صدر منتخب کیا تھا۔ لیکن اس نے بھی ایک White صدر کی Regime Change اور Anti-Peace پالیسیاں جاری رکھی تھیں۔ اس لئے امریکی عوام  اب ڈونالڈ ٹرمپ کو اقتدار میں لاۓ ہیں۔ جو دونوں پارٹیوں کی ان پالیسیوں کو بدل رہے ہیں جن کی امریکی عوام نے مخالفت کی تھی۔ لیکن اس کی مزاحمت اتنی شدید ہے کہ صدر ٹرمپ کو یہ کہنا پڑا ہے کہ ' یہ بہت برا ہے کہ دنیا نے ہمیں ایک ایسی صورت میں ڈال دیا ہے۔'               

No comments:

Post a Comment