Now East Asia Should Be De-Militarized
President Trump Opposed Iran Nuclear Deal, But Why Not Support Iran’s Nuclear Weapon Free Middle East Proposal?
مجیب خان
Kim Jong-un and Moon Jae-in Shake hands |
North Korea and South Korea unite |
Crown Prince Muhammad Bin Salman with Richard Branson founder of Virgin Group, Los Angeles |
امریکہ اور شمالی کوریا میں Balance of Power کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ یہ Balance of Threat ہے جس نے امریکہ کو پیچھے ہٹنے اور شمالی کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار ہونے پر آمادہ کیا ہے۔ امریکہ اور شمالی کوریا دونوں اپنی حکمت عملی میں کامیاب نظر آ رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے گزشتہ سال اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں شمالی کوریا کو اس کرہ ارض سے مٹانے کی دھمکی دی تھی۔ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے امریکہ کے شہروں نیویارک واشنگٹن ہوائی اور لاس انجیلس کو تباہ کرنے کی دھمکی دی تھی۔ چند ماہ قبل ہوائی میں صبح سویرے خطرے کا سائرن بجنے سے لوگ گھروں سے نکل آۓ تھے۔ اور Shelter لینے بھاگنے لگے تھے۔ ہوائی کے شہریوں نے سمجھا تھا کہ شمالی کوریا کے Little Rocket man نے میزائل سے حملہ کر دیا ہے۔ امریکہ کے لوگوں میں شمالی کوریا سے جنگ کا اتنا زیادہ خوف تھا۔ Kim Jong Un نے صدر ٹرمپ سے مخاطب ہوتے ہوۓ کہا تھا کہ ایٹمی میزائلوں کے بٹن میری ٹیبل پر ہیں۔ جس پر صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ میرے بٹن تمہارے بٹن سے زیادہ بڑے ہیں۔ Kim Il Sung کے Grandson نے یہ ٹکر امریکہ سے لی تھی۔ جو دنیا کی واحد سپر پاور تھا۔ اور جس کے صدر کو دنیا کی انتہائی طاقتور شخصیت سمجھا جاتا ہے۔ کم جونگ ان نے اس طاقتور صدر کی دھمکیوں کو بڑی ہوشیاری اور ذہانت سے Deal کیا ہے۔ اور صدر امریکہ کو اس کے ساتھ معاملات ٹیبل پر بیٹھ کر طے کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ 34 سالہ کم جونگ ان نے یہ تاریخ بنائی ہے۔ جبکہ جنوبی کوریا کے ساتھ 65 سال سے جنگ کے حالات ختم کر نے اور امن سے رہنے کے دور کا آغاز کیا ہے۔ شمالی کوریا کا یہ ڈکٹیٹر ان اسرائیلی جمہوریت پسندوں سے بہتر ہے۔ جنہوں نے 70 سال سے فلسطینیوں کو جنگ کے حالات میں رکھا ہوا ہے۔ اور جنگ ختم کرنے میں انہیں ابھی تک کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کم جونگ ان جسے دنیا ڈکٹیٹر کہتی ہے اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف اس سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا ہے۔
شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان Demilitarized Zone میں جنوبی کوریا کے صدرMoon Jae-in سے ملنے آۓ تھے۔ 65 سال میں پہلی مرتبہ دونوں ملکوں کے رہنما ایک دوسرے سے بغل گیر ہو ۓ تھے۔ اور پہلی مرتبہ ایک دوسرے کو دیکھ کران کے چہروں پر مسکراہٹ بھی نئی تھی۔ صرف چند ماہ قبل جنوبی اور شمالی کوریا کے درمیان DMZ کو دنیا کی انتہائی خطرناک سرحد بتایا جاتا تھا۔ اور آج شمالی اور جنوبی کے رہنما اس سرحد پر بغل گیر ہو کر امن کی ایک نئی تاریخ جنم دے رہے تھے۔ دونوں ملکوں کے رہنماؤں میں ملاقات کے بعد جو اعلامیہ جاری ہوا ہے اس میں Korean Peninsula free of nuclear weapons کا اعادہ کیا گیا ہے۔ جس پر شمالی کوریا کے رہنما Kim Jong Un اور جنوبی کوریا کے صدر Moon Jae-in نے دستخط کیے ہیں۔ اعلامیہ میں دونوں ملکوں میں ہم آہنگی فروغ دینے، جو خاندان دونوں ملکوں میں تقسیم ہیں انہیں سفر کی سہولتیں فراہم کرنے کا کہا گیا ہے۔ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے کہا" میں یہاں محاذ آ رائی کی تاریخ ختم کرنے آیا ہوں۔ آج میں ان پختہ ارادوں کے ساتھ آیا ہوں کہ میں امن، خوشحالی اور کوریا کے درمیان تعلقات کی ایک نئی تاریخ کی شمع روشن کروں گا۔" شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے امن اور انسانی ترقی کے مفاد میں اپنا ایٹمی پروگرام ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور اس کے لئے کوئی شرائط نہیں ر کھی تھیں۔ با ظاہر یہ نظر آتا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان انتہائی خوشگوار ماحول بن گیا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کا موقف سنا ہے۔ ایک دوسرے کے تحفظات کو سمجھا ہے۔ جیسا کہ گفتگو کے آغاز پر شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے جنوبی کوریا کے صدر مون سے کہا "میں امید کرتا ہوں کہ ہم کھلے دل سے باہمی مفاد کے ایشو ز پر بات کریں گے۔ جو آج اچھے نتائج کا سبب بنیں گے۔" صدر مون نے جواب میں کم جونگ ان کی DMZ کو تقسیم کی ایک علامت سے امن کی علامت بنانے میں معاونت کرنے کو سراہا یا۔" صدر مون نے کہا میں اس ملاقات کے انعقاد میں تمہارے دلیرانہ فیصلے کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔" صدر مون نے کہا" میں امید کرتا ہوں ہم آج برابری اور کھلے ذہن سے باتیں کریں گے۔ پھر ہم کسی سمجھوتہ پر پہنچ سکتے ہیں۔ اور وہ نتائج دے سکیں گے جو ہمارے ملکوں کے عوام اور ساری دنیا دیکھنے کی خواہش رکھتی ہے؛ امن"
جب ایک ہی خطہ اور ایک ہی کلچر کی قیادتیں مل بیٹھ کر آپس کے اختلاف اور تنازعوں کو حل کرتے ہیں تو ان کی سوچ اور گفتگو کرنے کا یہ انداز ہوتا ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں تنازعوں کو حل کرنے اور امن میں سنجیدہ ہیں۔ بیرونی طاقتیں 65 برس سے تنازعہ حل کرنے کے بجاۓ انہیں صرف الجھانے اور لڑانے کی سیاست کرتی رہی تھیں۔ جبکہ دونوں ملکوں کے رہنماؤں میں چند گھنٹوں کی ملاقات میں تنازعوں کو حل کرنے کے طریقہ کار پر اتفاق ہو گیا تھا۔ اور ہم آہنگی بھی ہو گئی تھی۔ دونوں ملکوں میں جو امور طے پاۓ ہیں۔ امریکہ کو بھی اب اسی حدود میں رہتے ہوۓ ہم آہنگی اور امن کو آ گے بڑھانے میں معاونت کرنا ہو گی۔ شمالی کوریا Denuclearize ہونے سے ایسٹ ایشیا کو بھی اب Demilitarize کیا جاۓ۔ یہاں امریکہ کو اپنی بڑھتی ہوئی فوجی سرگرمیاں بھی ختم کرنا ہوں گی۔ اس خطہ کے ملکوں کو چین سے خوفزدہ کر کے یہاں فوجی اڈے اور بحری بیڑے کھڑے رکھنے کی سیاست بھی تبدیل کرنا ہو گی۔ ایسٹ ایشیا کے ممالک اپنے تنازعہ اور اختلافات طے کرنے کی مکمل صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ امن اور انسانی ترقی اب علاقہ کے ملکوں کی ذمہ داری ہے۔
Korean Peninsula کے بعد Arab Peninsula دنیا کا سب سے زیادہ خطرناک خطہ ہے۔ جہاں خوفناک ہتھیاروں کی دوڑ 100 میل کی رفتار سے ہو رہی ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی 34 سال کے ہیں۔ لیکن شہزادہ کی سوچ وہ نہیں ہے جو کم جونگ ان کی سوچ ہے۔ سعودی شاہی خاندان لندن پیرس واشنگٹن کو اپنا ہمسایہ سمجھتا ہے۔ اور اب تل ابیب بھی سعود یوں کا ہمسایہ بن گیا ہے۔ اس لئے سعود یوں کو اپنے ہمسایہ میں جنگوں کی لگی آگ کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد نے گزشتہ 3 سال میں اپنے ہمسایہ میں یا تو دشمن بناۓ ہیں یا پھر اپنے مخالفین بناۓ ہیں۔ سعود ی شاہی خاندان کیونکہ لندن پیرس واشنگٹن کو اپنا ہمسایہ سمجھتا ہے اس لئے یہ اپنے خطہ میں امن کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا ہے۔ اسرائیل ایک یورپی ملک ہے۔ اس لئے یہ اپنے آپ کو یورپ میں شامل سمجھتا ہے۔ 70 سال سے اس ملک نے اپنے اطراف میں جنگیں پھیلا ر کھی ہیں۔ اسرائیل ایٹمی ہتھیاروں کے ڈھیر پر بیٹھا ہے۔ اس نے عراق پر حملہ کر کے اس کے ایٹمی پلانٹ تباہ کیے تھے۔ پھر امریکہ نے عراق پر حملہ کر کے اس کے conventional ہتھیاروں کو تباہ کر دیا تھا۔ پھر اسرائیل نے شام پر حملہ کر کے اس کے ایٹمی پلانٹ تباہ کر دئیے تھے۔ اور امریکہ نے لیبیا پر حملہ کر کے اس کی conventional فوجی طاقت ختم کر دی تھی۔ اور اب اسرائیل اور سعودی عرب ایران کو عراق اور شام بنانے کا عزم کیے ہوۓ ہیں۔ جس کے بعد اسرائیل Arab Peninsula کی واحد ایٹمی اور معاشی طاقت ہو گا۔
کیا ولی عہد شہزادہ محمد Kim Jong Un کی طرح اپنی سوچ بدل سکتے ہیں۔ اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن کے لئے تعلقات استوار کرنے سرحد عبور کر کے ان ملکوں میں جا سکتے ہیں جن کے ساتھ انہیں اختلاف ہے۔ Arab Peninsula کے استحکام اور امن کے لئے ولی عہد شہزادہ محمد اسے De weaponize کرنے کا اعلان کریں۔ یمن میں جنگ بند کرنے کا اعلان کریں۔ ولی عہد شہزادہ محمد ایران کی اس تجویز کی حمایت کیوں نہیں کرتے ہیں کہ Middle East کو Nuclear Weapons Free Region قرار دیا جاۓ اور ایران اس میں شامل ہو گا؟ ٹرمپ انتظامیہ اسرائیل اور سعودی عرب Iran nuclear deal کی مخالفت کرتے ہیں لیکن Meddle East کو Nuclear Weapons Free Region بنانے کی حمایت بھی نہیں کرتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل اور سعودی عرب کے ساتھ مل کر اس مسئلہ کو Mount Everest بنا دیا ہے۔ دنیا کے پاس ان کے لئے ایک ہی لفظ ہے go to hell, do not waste world’s precious time.
شمالی اور جنوبی کوریا کے رہنماؤں نے 4 گھنٹے میں Korean Peninsula کو ایٹمی ہتھیاروں سے تمام خطروں کو ختم کرنے کا سمجھوتہ کر لیا۔ اور دوسرے دن آ گے بڑھنے کے نئے منصوبوں پر کام شروع کر دیا۔
No comments:
Post a Comment