Thursday, April 26, 2018

What Guarantee Will President Trump Give To Leader Of North Korea Kim Jong Un, That His Administration’s Agreement On North Korea’s Nuclear Programmed Will Be Honor And Next Administration Will Not Call It Insane And Ridiculous


What Guarantee Will President Trump Give To Leader Of North Korea Kim Jong Un, That His Administration’s Agreement On North Korea’s Nuclear Programmed Will Be Honor And Next Administration Will Not Call It Insane And Ridiculous 

مجیب خان
President Xi Jinping and Leader of North Korea Kim Jong Un

President Xi Jinping   President Donald Trump   Kim Jong Un  Leader of North Korea
    شمالی کوریا کے رہنما Kim Jong Un امن کے مفاد میں فیصلے کرنے میں سنجیدہ نظر آ رہے ہیں۔ Kim Jong Un نے فوری طور پر ایٹمی ہتھیاروں کے تجربہ منجمد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایٹمی میزائلوں کا پروگرام ختم کر دیا ہے۔ امریکہ کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات سے پہلے Kim Jong Un نے یہ unilateral فیصلے کیے ہیں۔ اور ایٹمی ہتھیاروں کا پروگرام ترک کرنے کا اعلان کر کے Kim Jong Un نے اپنے مخلص اور سنجیدہ ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ شمالی کوریا کو ہتھیاروں کی دنیا سے نکال کر سیاست معیشت اور ڈپلومیسی کی دنیا میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دنیا 34 سالہ Kim کے اس فیصلہ کا ضرور خیر مقدم کرے گی۔ اور Kim کے ان اقدامات کو کامیاب بنانے میں دنیا ان کی مدد اور حوصلہ افزائی کرے گی۔ اور اس خطہ کو Warmongering کے سیاہ بادلوں سے نجات دلانے اور امن اور انسانی خوشحالی کی روشنی پھیلانے میں دنیا تعاون کرے گی۔ شمالی کوریا کی قیادت حالات کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ 60سال سے جنگ کے خوف اور مملکت کو ہتھیاروں کا گودام بنانا کوئی اچھی پالیسی نہیں ہے۔ آج کی دنیا میں سیاست، ڈپلومیسی اور معیشت دشمنوں کے عزائم ناکام بنانے کے بہترین Tools ہیں۔ ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہونے کا مطلب Warmongers کے عزائم کی تکمیل کرنا ہے۔ شمالی کوریا کی قیادت نے دنیا کے مختلف حصوں میں ان جنگوں کا جائزہ بھی لیا ہو گا جنہیں امریکہ برطانیہ اور فرانس کے ہتھیاروں سے مسلسل فروغ دیا جا رہا ہے۔ امریکہ نے افغان جنگ، عراق جنگ، لیبیا شام یمن کی جنگوں میں 7ٹریلین ڈالر خرچ کیے ہیں لیکن جنگی ہتھیار بنانے والی کمپنیوں نے ان جنگوں سے 3ٹریلین ڈالر کی تجارت کی ہو گی۔ آج کی جنگیں 110ڈالر کے Video games نہیں ہیں۔ امریکہ نے شام میں ایک منٹ میں 106 میزائل گراۓ تھے اور تقریباً 200 ملین ڈالر خرچ کر دئیے تھے۔ لیکن امریکہ کے پاس Puerto Rico میں hurricane کے بعد basic services restore کرنے کے لئے اتنے ڈالر نہیں تھے۔  جنگیں انسانی تباہی اور وسائل کی بربادی لاتی ہیں۔ شام انسانیت کا قبرستان بن گیا ہے۔ شمالی کوریا کی عقلمند قیادت نے مڈل ایسٹ کی بیوقوف قیادتوں سے بھی سبق سیکھا ہے۔ جو انسانی ترقی کے منصوبوں سے زیادہ انسانی تباہی پر خرچ کر رہے ہیں۔
   شمالی کوریا کے رہنما Kim Jong Un کی ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں آ گے رہنے کی سوچ بدلنے میں جنوبی کوریا میں Winter Olympic Games کے انعقاد کا ایک اہم رول ہے۔ تین ہفتہ Kim نے اولمپک گیم ز دیکھے تھے۔ جنوبی کوریا کو بھی دیکھنے کا موقعہ ملا تھا۔ اور اس دوران Kim Jong Un کی سوچ تبدیل ہوئی تھی۔ پھر جنوبی کوریا میں Moon Jae-in کی نئی لبرل حکومت بھی شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات دوستانہ بنانے کا ایجنڈا لے کر اقتدار میں آئی تھی۔ یہ بھی سیاسی فضا میں  خوشگوار تبدیلی تھی۔ شمالی کوریا نے اولمپک گیم ز میں حصہ لینے کا اظہار کیا تھا۔ اور اس سلسلے میں جنوبی کوریا کے وفد کو Pyongyang آنے کی دعوت دی تھی۔ جنوبی کوریا کے صدر Moon Jae-in نے یہ دعوت قبول کر لی۔ دونوں ملکوں میں یہ سیاسی پیش رفت بڑی تیزی سے ہو رہی تھیں۔ جنوبی کوریا کا وفد شمالی کوریا آیا۔ شمالی کوریا کے کھلاڑی اعلی حکام کے ساتھ وفد میں جس کی قیادت کم جونگ ان کی بہن نے کی تھی۔ اولمپک گیم ز میں حصہ لینے جنوبی کوریا آۓ تھے۔ اولمپک گیم ز کے سائڈ لائن پر دونوں ملکوں کے حکام میں ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ اور اولمپک گیم ز ختم ہونے کے فوری بعد جنوبی کوریا کے اعلی سیکیورٹی حکام کا وفد شمالی کوریا آیا۔ وفد نے کم جونگ ان سے ملاقات کی۔ جنوبی کوریا کے وفد نے شمالی کے رہنما کم جونگ ان کے روئیے میں ایٹمی ہتھیاروں کے مسئلہ پر Flexibility دیکھی تھی۔ جنوبی کوریا کا  اعلی سیکیورٹی  وفد پھر واشنگٹن آیا۔ وفد نے صدر ٹرمپ کو Pyongyang میں کم جونگ ان سے ملاقات کی تفصیل بتائی اور کم کا ایک خصوصی لیٹر صدر ٹرمپ کو دیا۔ وفد نے صدر ٹرمپ کو بتایا کہ کم جونگ ان ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اور صدر ٹرمپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ جس کے بعد صدر ٹرمپ نے مئی میں کم جونگ ان سے ملاقات کرنے کا اعلان کیا۔ اس ماہ کے آغاز میں سی آئی اے ڈائریکٹر Mike Pompeo نے Pyongyang کا خفیہ دورہ کیا اور کم جونگ ان سے ملاقات کی تھی۔ اسی اثنا میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان بیجنگ پہنچ گیے اور صدر شی سے ایٹمی ہتھیاروں پر اپنے فیصلوں کے بارے میں آگاہ کیا۔ بلاشبہ اس ملاقات میں کم جونگ ان نے صدر شی سے اپنی اور اپنے ملک کی سلامتی کی ضمانت  بھی مانگی ہو گی۔ ایسی ہی ضمانت کم جونگ ان نے جنوبی کوریا سے مانگی ہو گی۔ جس کے بعد شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے Unilaterally ایٹمی پروگرام ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ Kim Jong Un مخلص ہیں۔ اور اپنے عوام کی خوشحالی کے لئے شمالی کوریا کو اب اقتصادی ترقی کے راستہ پر لانا چاہتے ہیں۔
    سرد جنگ ختم ہونے کے بعد یہ خصوصیت سے نوٹ کیا جا رہا ہے کہ امریکہ عالمی Commitment اور اپنے سمجھوتوں پر عملدرامد سے پھر جاتا ہے۔ ایک انتظامیہ جو سمجھوتے کرتی ہے دوسری انتظامیہ انہیں Honor نہیں کرتی ہے۔ انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔ اکثر انتظامیہ بدلنے کے ساتھ  پالیسی بھی بدل جاتی ہے۔ دنیا میں Chaos امریکہ کی اس سیاست کا نتیجہ ہے۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد بش سینیئر انتظامیہ نے سوویت صدر میکائیل گارباچوف کو یہ یقین دلایا تھا کہ نیٹو کو ایسٹ کی طرف نہیں پھیلایا جاۓ گا۔ لیکن پھر بل کلنٹن انتظامیہ نے ایسٹ کے ملکوں کو نیٹو کا رکن بنانا شروع کر دیا تھا۔ روس کے اطراف نیٹو کی Wall Build ہورہی تھی۔ امریکہ نے روس کے ساتھ اپنے عہد کو پورا نہیں کیا تھا۔
   عراق میں ایٹمی ہتھیاروں کا خاتمہ کرنے اور اس پر عملدرامد کرنے کے بارے میں سلامتی کونسل کی کسی قرارداد میں یہ نہیں کہا گیا تھا کہ عراق میں جب مہلک ہتھیاروں کا خاتمہ ہو جاۓ گا تو پھر بغداد میں Regime Change کیا جاۓ گا۔ امریکہ کے41ویں صدر جارج ایچ بش کی انتظامیہ میں عراق میں ایٹمی ہتھیاروں کا خاتمہ کرنے کی قراردادیں سلامتی کونسل نے منظور کی تھیں۔ 42ویں صدر بل کلنٹن کی انتظامیہ میں ان قرار دادوں پر عملدرامد کرایا گیا تھا۔ اور پھر 43ویں صدر جارج بش نے عراق پر Regime Change کرنے کے لئے Preemptive حملہ کیا تھا۔ حالانکہ 10 سال تک امریکہ نے دنیا کو یہ بتایا تھا کہ عراق میں Regime Change امریکہ کا مشن نہیں تھا۔
   2004 میں لیبیا کے صدر معمر قد ا فی نے اپنے ایٹمی پروگرام سے دستبردار ہونے اور  مہلک ہتھیاروں کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ بش انتظامیہ نے صدر قد ا فی کے فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا۔ لیبیا پر سے بندشیں ختم کر دی تھیں۔ اور صدر قد ا فی کو یہ یقین دلایا تھا کہ لیبیا میں Regime Change اب امریکہ کی پالیسی نہیں ہے اور وہ اقتدار میں رہے سکتے ہیں۔ لیکن  صدر بش نے لیبیا کے صدر قد ا فی کو جو یقین دلایا تھا صدر اوبامہ نے اسے Honor نہیں کیا اور برطانیہ فرانس اور اٹلی کے ساتھ مل کر لیبیا پر Preemptive حملہ کر کے قد ا فی حکومت ختم  کر دی۔ لیبیا کا سیاسی اور اقتصادی Infrastructure تباہ کر دیا۔ لیبیا کے ساتھ اس کے ہمسایہ ملک بھی Destabilize ہوۓ ہیں۔
   صدر اوبامہ نے کیوبا کے خلاف امریکہ کی 60سال قدیم پالیسی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور کیوبا پر سے بندشیں ختم کرنے اعلان کیا تھا۔ امریکہ کی تقریباً تمام ائر لائنیں ہوانا جانے لگی تھیں۔ سیاحت اور تجارت بھی شروع ہو گئی تھی۔ امریکہ کے ساتھ کیوبا کے تعلقات بحال ہو گیے تھے۔ ہوانا میں امریکہ کا سفارت خانہ کھل گیا تھا۔ صدر اوبامہ ہوانا کے دور پر گیے تھے۔ ہوانا کے لوگ امریکی صدر کو اپنے درمیان دیکھ کر خوش ہوۓ تھے۔ لیکن پھر عوام کی یہ خوشی اس وقت مایوسی بن گئی تھی کہ جب صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ایگزیکٹو آرڈر سے کیوبا کے ساتھ نئے تعلقات ختم کر کے پرانے تعلقات برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کیونکہ کیوبا ایک کمیونسٹ ملک تھا۔
   60 سال میں امریکہ فلسطینیوں کو امن دینے میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔ فلسطین اسرائیل تنازعہ کے حل میں پہلے میڈرڈ معاہدہ  اور اس کے بعد اوسلو معاہدہ ہوا تھا۔ امریکہ ان معاہدوں میں ایک Guarantor تھا۔ اور امریکہ کا یہ Commitment تھا کہ وہ ان معاہدوں پر عملدرامد کراۓ گا۔ اور اس Process کو جاری ر کھا جاۓ گا۔ لیکن اسرائیل نے میڈرڈ اور اوسلو معاہدوں کو ختم کر دیا تھا۔ اور امریکہ نے اپنا Commitment  ختم کر دیا۔ بم اور میزائل برسانے میں امریکہ سب سے آ گے ہوتا ہے۔ لیکن  فلسطینیوں کو امن کی زندگی دینے میں امریکہ سب سے پیچھے ہے۔
  اوبامہ انتظامیہ نے عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کے صرف ایٹمی پروگرام پر دو سال تک مذاکرات کیے تھے۔ اس میں یہ شامل نہیں تھا کہ ایران کا دنیا میں Political Behavior کیا ہو گا۔ اور نہ ہی ایران نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ اس کے ساتھ ہمسایہ ملکوں کا بالخصوص اسرائیل اور سعودی عرب کا کیا Attitude ہو گا۔ یہ Rogue اور Wild حکومتیں اسے Destabilize کرنے میں کیا سازشیں کریں گی؟ ایران نے دنیا کی Civilize  حکومتوں سے مذاکرات کیے تھے۔ لیکن ڈونالڈ  ٹرمپ نے دنیا کی Uncivilized حکومتوں کے ساتھ شامل ہو کر اس معاہدہ کی مخالفت کرنا پسند کیا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ دنیا کے جن ملکوں نے ایران سمجھوتہ کی حمایت کی ہے اور اسے عالمی امن کے لئے ایک اچھا سمجھوتہ کہا ہے ان ملکوں کی آبادی تقریباً 6بلین ہے۔ اور اسرائیل اور سعودی عرب کی آبادی 50ملین ہے۔ جبکہ ایران کی آبادی 80ملین ہے۔ ایران کے مسئلہ پر ان دو ملکوں کی مخالفت کو اب صدر ڈونالڈ ٹرمپ Represent کر رہے ہیں۔ اور 80ملین اور 6بلین پر ان ملکوں کا فیصلہ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ Totalitarianism ہے۔ Kim Jong Un کو ایران کے اس تجربہ کو مد نظر رکھ کر ٹرمپ انتظامیہ سے مذاکرات کرنا ہوں گے۔ لیکن اس کی کوئی Guarantee نہیں ہو گی کہ شمالی کوریا کا ٹرمپ انتظامیہ سے جو سمجھوتہ ہو گا نئی انتظامیہ اسے Insane اور Ridiculous کہہ کر قبول کرنے سے انکار کر دے گی۔ اور جس طرح صدر ٹرمپ نے کیوبا ایک کمیونسٹ ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہونے پر 60سال پرانی بندشیں دوبارہ بحال کر دی ہیں۔ اسی طرح نئی امریکی انتظامیہ بھی شمالی کوریا پر پرانی بندشیں دوبارہ بحال کر سکتی ہے۔ شمالی کوریا بھی ایک کمیونسٹ ملک ہے۔                                                                               

No comments:

Post a Comment