Wednesday, April 11, 2018

Which Faces Are The West Supporting To Remove A Dictator From Syria, When They Have Accepted Another Dictator In Egypt?


Which Faces Are The West Supporting To Remove A Dictator From Syria, When They Have Accepted Another Dictator In Egypt?    

Where Are Their Moral Values?

مجیب خان


.September 11, 2001 Twin Towers of New York city's world Trade center in a coordinated attack
.World knows who was responsible


?Who is responsible destruction of Syria

    صدر ٹرمپ کیونکہ بزنس   ہیں اس لئے بزنس ذہن سے حالات دیکھتے ہیں۔ اور پھر حالات کے مطابق امریکہ کے فائدے میں فیصلہ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے یہ بالکل درست کہا ہے کہ 'وہ بہت جلد شام سے امریکی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کریں گے۔ امریکی فوجیں ایک بڑے عرصہ سے شام میں ہیں اور اب انہیں گھر واپس آنا چاہیے۔ اور اب دوسرے آگے آئیں'۔ امریکہ 7سال سے شام میں ملوث ہے۔ شام میں امریکہ کے رہنے یا نہ رہنے سے کوئی فرق نہیں آۓ گا۔ بلکہ امریکہ کی شام میں موجودگی سے حالات زیادہ خراب ہوۓ ہیں۔ امریکہ کو 7سال شام کے حالات بہتر بنانے کے لئے دئیے گیے تھے۔ لیکن حالات بہتر ہونے کے بجاۓ مسلسل ابتر ہوتے گیے۔ اسلامی انتہا پسندوں کو ایک سیکولر شام کی جس میں شیعہ سنی اور عیسائی صدیوں سے ایک ساتھ رہتے تھے، اس کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی آزادی دے دی تھی۔ امریکہ کی قدروں کو فراموش کر دیا تھا۔ Rule of Law پر اسرائیل اور سعودی عرب کو اہمیت دی گئی تھی۔ نام نہاد باغیوں، اسلامی انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے ساتھ پارٹی بننا پسند کیا تھا۔ صدر اوبامہ 2011 سے 2016 تک شام کی داخلی خانہ جنگی میں ہمسایہ ملکوں کے اتحاد کے کمانڈر انچیف تھے۔ یہ اتحاد ISIS کے نام پر وجود میں آیا تھا۔ جس نے عراق اور شام کے ایک بڑے حصہ میں اپنی خلافت بنا لی تھی۔ عراق میں پہلے ہی سیاسی عدم استحکام تھا۔ اور شام جیسے ہی عدم استحکام ہوا تھا اسلامی انتہا پسندوں کو اپنی خلافت قائم کرنے کا سنہری موقعہ مل گیا تھا۔ یہ اوبامہ انتظامیہ کی شام Strategy کا نتیجہ تھا۔ اور پھر دوسری Strategy خلافت کے قبضہ سے شام اور عراق کے علاقوں کو آزاد کرنے کے لئے تیار کی گئی تھی۔ شام کو اسد حکومت سے آزاد کرانے کی جنگ کے اندر یہ نئی جنگ شام اور عراق کے علاقوں کو ISIS سے آزاد کرانے کی شروع ہو گئی تھی۔ اس وقت روس اور ایران سائڈ لائن پر تھے۔ اور انہوں نے شام میں کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔ اور یہ مداخلت کرنا بھی نہیں چاہتے تھے۔ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ امریکہ شام کے قابو سے باہر ہوتے حالات، بے گناہ شہریوں کی Wholesale ہلاکتوں اور شہروں کے کھنڈرات بننے کا الزام روس اور ایران کے سر تھوپ  دے گا۔ اور دنیا کے سامنے خود کو بے گناہ ثابت کرنے لگے گا۔
   امریکہ میں میڈیا کا اصل حقائق لوگوں سے چھپانے کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ عراق کے مسئلہ پر اس نے اسرائیل اور امریکہ کا جو مفاد تھا صرف اس کے مطابق عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں رپورٹنگ کی تھی۔ اصل حقائق کبھی سامنے نہیں لاۓ گیے تھے۔ پھر لیبیا کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ القا عدہ داعش اور اخوان المسلمون قدافی کی حکومت ختم کر کے لیبیا کو ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ یہاں اسلامی انتہا پسندوں کو عرب اسپرنگ تحریک بتایا گیا تھا۔ سینیٹر جان مکین سینیٹر لینڈزی گرہیم اور سینیٹر جوزف لیبرمین ان کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔ اوبامہ انتظامیہ سے انہیں ہتھیار دینے کی اپیلیں کرتے تھے۔ اور اب ٹرمپ انتظامیہ لیبیا میں ان پر ڈرون سے حملے کر رہی ہے۔ انہیں داعش کا بتایا جا رہا ہے۔ حکومت اور سیاست میں کردار اور اصول بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ شام کی خانہ جنگی میں 7سال سے امریکہ فرانس برطانیہ اسرائیل سعودی عرب اسد حکومت کے مخالفین کے ساتھ پارٹی بنے ہوۓ ہیں۔ ان میں دہشت گردوں کے گروپ بھی شامل ہیں۔ شام میں انسانیت کے خلاف کرائم کا ذمہ دار صرف اسد حکومت کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ حالانکہ حکومت کے مخالف گروپ بھی انسانیت کے خلاف کرائم کرنے میں برابر کے شریک ہیں۔ لیکن امریکی میڈیا میں ان کے کرائم کو فوکس نہیں کیا جاتا ہے۔ اپوزیشن گروپوں نے اسد حکومت کے حامیوں کا قتل عام کیا ہے۔ شام میں جن علاقوں پر ان کا کنٹرول تھا۔ وہاں یہ گھر گھر جاتے تھے اور جو بھی اسد حکومت کا حامی تھا اسے قتل کر دیتے تھے۔ اس طرح انہوں نے خاندان کے خاندان قتل کر دئیے تھے۔ عورتوں کو Rape کرتے تھے۔ بچوں کو اغوا کر لیتے تھے۔ ہزاروں اور لاکھوں شامی صرف اس خوف سے اپنے شہروں اور ملک سے بھاگے تھے۔ اور یہ سب اپوزیشن کے حامی ملکوں کے واچ میں ہو رہا تھا۔ ایک خونی خانہ جنگی میں کوئی بے گناہ نہیں ہوتا ہے۔ امریکہ میں  Civil Right تحریک میں بھی ایسے خونی واقعات ہوۓ تھے جو انسانیت کے خلاف کرائم تھے۔ لیکن امریکہ میں Civil Right تحریک میں روس یا کسی دوسرے ملک نے مداخلت نہیں کی تھی۔ ایسے حالات میں ہر حکومت اپنی طرف سے Restrain رہنے کی کوشش کرتی ہے۔ جبکہ شام کی خانہ جنگی میں ایک درجن ملک حکومت کے مخالفین کو گائیڈ کر رہے ہیں۔ اور مداخلت بھی کر رہے ہیں۔ اگر Heart surgery 6ڈاکٹر کریں گے تو Heart کا کیا حشر ہو گا۔
   مڈل ایسٹ دنیا کا ایک ایسا خطہ ہے جہاں امریکہ اور مغرب کی کوئی قدریں نہیں ہیں۔ اس خطہ میں صرف اسرائیلی- سعودی قدریں ہیں۔ اور اسرائیل- سعودی عرب نے مصر میں جمہوریت کا خاتمہ کر کے امریکہ اور مغرب سے اپنی قدریں تسلیم کر والی ہیں۔ یہ ان کا خطہ ہے۔ اور ان کے خطہ میں جمہوریت، آزادی، انسانی حقوق اور قانون کی با لا دستی  پر کوئی بات نہیں کرے گا۔ مصری عوام پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت کو اقتدار میں لاۓ تھے۔ انہوں نے جمہوری اور آئینی ادارے فروغ دینے کا راستہ اختیار کیا تھا۔ آزادی صحافت سے لوگوں کے ذہن روشن کرنے کا تہیہ کیا تھا۔ اور Rule of Law کو فروغ دینے کا اعادہ کیا تھا۔ جس مڈل ایسٹ کو امریکہ جنگوں اور فوجی حملوں سے تبدیل کرنے میں ناکام ہو رہا ہے۔ اس مڈل ایسٹ کو مصر میں جمہوریت، آزادی اور Rule of Law کا فروغ بدل دیتا۔ اسرائیلی اور سعودی یہ جانتے تھے۔ مصر میں جمہوریت کا فروغ مڈل ایسٹ میں ایک بڑا رول ادا کرتی۔ اسرائیل اور سعودی یہ دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے جمہوریت کا خاتمہ کر کے اپنی پسند کی فوجی آمریت بحال کر دی تھی۔ اور پھر اس فوجی حکومت کی سعودی بادشاہ نے 20بلین ڈالر قیمت لگائی تھی۔ اور امریکہ کو چیلنج کیا تھا وہ کتنے ملین ڈالر ٹیبل پر ر کھے گا۔ اوبامہ انتظامیہ نے اسرائیل اور سعودی عرب کے سامنے امریکہ کی جمہوری قدروں کے ہتھیار ڈال دئیے تھے۔ اور مصر میں فوجی آمریت مصری عوام پر مسلط رکھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ امریکہ بھر پور طاقت سے اپنی سلامتی دفاع کرتا ہے۔ لیکن بھر پور عزم کے ساتھ امریکہ کی جمہوری قدروں کا دفاع نہیں کیا تھا۔ امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب کے آگے جھک گیا تھا۔ مصر کے عوام نے جمہوریت کے لئے قربانیاں دی تھیں۔ اور وہ اپنے ملک میں جمہوریت لاۓ تھے۔ امریکہ کو جمہوریت کے لئے ان کی قربانیوں کا احترام کرنا چاہیے تھا۔ اور ان کی جمہوریت بحال کرنا چاہیے تھا۔ لیکن امریکہ نے Opportunist ہونے کا ثبوت دیا تھا۔ جبکہ سعودی عرب کی کوئی قدریں نہیں تھیں۔ اور اسرائیل کی Pseudo Democracy ہے۔ لیکن امریکہ کی جمہوری قدریں Supremeتھیں اور اس پر سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔
  مڈل ایسٹ کے لوگوں کے ساتھ  امریکہ کا یہ کیسا مذاق تھا کہ مصر میں فوجی ڈکٹیٹر کی حکومت قبول کرنے کے بعد شام میں ڈکٹیٹر کے خلاف باغیوں کی خانہ جنگی کی حمایت شروع کر دی تھی۔ سعودی عرب اور اسرائیل بھی اس حمایت میں امریکہ کے ساتھ شامل تھے۔ 7سال سے دنیا کے اسٹیج پر شام ایک Festival  بنا ہوا ہے۔ اور سب یہ تما شہ دیکھ رہے ہیں کہ کون کتنے لوگوں کو ہلاک کرتا ہے۔ سعودی اور اسرائیلی ذہنی طور پر دیوالیہ ہیں۔ کیا انہیں شام میں خونی خانہ جنگی کے Consequences کا پہلے سے علم نہیں تھا۔ جو اسرائیل اور سعودی اب شور مچا رہے ہیں۔ اسرائیل میں جنگ ایران نے  شروع نہیں کی تھی۔ اور نہ ہی امریکہ اسرائیل سعودی احمقوں کے شام Adventurism کی حمایت کی تھی۔ اور اب شام میں امن کے لئے کوششیں کرنے کے بجاۓ شام میں خانہ جنگی کو ایک تیسری عالمی جنگ بنانا چاہتے ہیں۔ شام اور یمن میں جنگوں کی وجہ سے سعودی عرب اسلامی دنیا میں تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ اور اسرائیل کے بارے میں عالمی راۓ خراب ہے۔ لیکن امریکہ ابھی تک ان کی انگلیوں پر ڈانس کر رہا ہے۔ سعود یوں نے 20بلین ڈالر مصر میں ڈکٹیٹر کو اقتدار میں رکھنے کے لئے دئیے تھے۔ پھر ان ہی سعود یوں نے شام میں ڈکٹیٹر کو اقتدار سے ہٹانے اور اس کا ملک تباہ کرنے پر 20بلین ڈالر خرچ کیے ہیں یا خرچ کرواۓ گیے ہیں۔ اب شام میں امریکہ کا کیا رول ادا کرنے کے لئے رہے گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے سعود یوں سے کہا ہے کہ اگر وہ شام میں امریکہ کے قیام کرنے کے اخراجات دیں گے تو شام میں Israel-Saudi Nexus کے مفاد میں فوجیں رکھنے پر غور کریں گے۔
            

No comments:

Post a Comment