Wednesday, May 23, 2018

America, From Inventions To The Moon, To Mars, To Super Power, To Sanction Power, To Noble Peace, To Evil Wars, To Regime Change, To Behavior Changes of The World Leaders


America: From Inventions To The Moon, To Mars, To Super Power, To Sanction Power, To Noble Peace, To Evil Wars, To Regime Change, To Behavior Changes of The World Leaders

مجیب خان
Shiite Cleric Muqtada al-Sadr, Leader of Sairoon alliance

Hassan Nasrallah Leader of Hezbollah, Lebanon



   ایک دور تھا جب امریکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایجادات میں سب سے آ گے تھا۔ دنیا میں امریکہ کی ایجادات کو بڑی دلچسپی سے دیکھا جاتا تھا۔ امریکہ نے انسان کو چاند پر بھیجا تھا۔ دنیا نے چاند پر انسان کو چہل قد می کرتے دیکھا تھا۔ چاند پر امریکہ کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ پھر امریکہ نے مریخ پر زندگی کے آثار دریافت کرنے کے لئے سیارہ بھیجا تھا۔ دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں امریکہ کی شاندار ترقی کا چرچا ہوتا تھا۔ ان ایجادات اور تحقیق کی وجہ سے امریکہ Exceptional تھا۔ لیکن آج امریکہ 18سال سے طالبان سے لڑنے اور 60 مختلف ملکوں میں دہشت گردوں سے لڑنے میں Exceptional ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں ملا عمر دریافت کیا تھا۔ افغانستان کے پہاڑوں میں جو کسی طرح مریخ پر پہنچنے سے کم نہیں تھا۔ یہاں ا سا مہ بن لادن دریافت کیا تھا۔ ہٹلر کے خلاف گرم جنگ اور سو ویت یونین کے خلاف سرد جنگ کے بعد ملا عمر کے طالبان اور ا سا مہ بن لادن کے دہشت گردوں کے خلاف یہ امریکہ کی نئی جنگ تھی۔ اس جنگ کو اب 18 سال ہو گیے ہیں۔ اور یہ جنگ ابھی تک کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکی ہے۔  طالبان کو Humanity میں Convert کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ملا عمر دنیا سے رخصت ہو گیے ہیں۔ لیکن امریکہ ابھی تک افغانستان سے رخصت نہیں ہوا ہے۔ جو جنگ افغانستان سے شروع ہوئی تھی وہ جنوبی ایشیا سے گزر کر مڈل ایسٹ میں پہنچ کر شمالی اور مغربی افریقہ میں پہنچی ہے۔ یہاں امریکہ نے افریقہ Shithole میں دیکھا ہے۔ لہذا افریقہ کو اب Shithole سے نکال کر اسے 21ویں صدی میں لایا جا رہا ہے۔ Nigeria، مالی، چڈ  اور صومالیہ میں Behavior کا مسئلہ ہے۔  ان کا Behavior تبدیل کرنے سے پہلے انہیں Human بنایا جا رہا ہے۔
   ایرانی لیڈروں کا بڑا Aggressive Behavior ہے۔ عراق میں امریکہ نے صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹایا تھا۔ لیکن عراق میں ایران کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے۔ لبنان شام اور یمن ایران کے Orbit میں آ گیے ہیں۔ جیسا کہ اسرائیل نے ٹرمپ انتظامیہ کو یہ رپورٹ دی ہے کہ ایران کا نیو کلیر پروگرام بدستور جاری ہے۔ ایران بم اور میزائل بنا رہا ہے۔ اسرائیلی حکومت نے ایران کے مہلک ہتھیاروں کے بارے میں ایسی تصویر دکھائی تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ کو ایران افغانستان سے زیادہ خطرناک نظر آ نے لگا تھا۔ ہر پریذیڈنٹ اپنی انتخابی مہم میں امریکی عوام کے مفاد میں کام کرنے کے وعدے کرتا ہے۔ لیکن پھر منتخب ہونے کے 6 ماہ بعد اسرائیل کے مفاد کے کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایران ایٹمی معاہدہ پر دنیا کی جمہوری اکثریت کی حمایت کو رد کر دیا اور صرف اسرائیل کی حمایت میں  فیصلہ کر کے  Dictator  ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ سعودی عرب نے بھی صدر ٹرمپ کے اس فیصلہ کو درست کہا ہے۔ اس فیصلہ سے امریکہ اور سعودی عرب کا جیسے ایک ہی نظام ہو گیا ہے۔ اور اب صد ام حسین کے دور میں عراق سے زیادہ خوفناک اقتصادی بندشیں ایران پر لگانے کی دھمکی دی ہے۔ عراق پر امریکہ کی ان بندشوں کے نتیجہ میں 5لاکھ معصوم بچے پیدائش کے ابتدائی چند ماہ میں دواؤں اور طبی سہولتوں کی قلت کی وجہ سے مر گیے تھے۔ تقریباً 5 لاکھ سے زیادہ لوگ شام میں خانہ جنگی میں مارے گیے ہیں۔ اس خانہ جنگی میں امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل شام کی حکومت کے خلاف باغیوں کی پشت پنا ہی کر رہے تھے۔ اور انہیں فنڈ ز اور ہتھیار دے رہے تھے۔ اب کس چہرے سے ایران سے کہا جا رہا ہے کہ وہ عراق اور شام سے چلا جاۓ۔ ایران نے ان ملکوں میں القا عدہ اور ISIS کے خلاف  لڑائی لڑی ہے۔ عراق اور شام میں اس کے فوجی مارے گیے ہیں۔ ان ملکوں میں دہشت گردوں کے اڈے ایران کی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں۔ امریکی فوجیں 18 سال سے 10 ہزار میل دور افغانستان میں صرف اپنی سلامتی کے مفاد میں بیٹھی ہوئی ہیں کہ یہاں سے دہشت گردوں نے امریکہ پر حملہ کیا تھا۔ حالانکہ اس حملہ میں کوئی افغان شہری نہیں تھا۔ عراق اور شام ایران کے قریب ہیں۔ اور اسرائیل ایران کو شام اور عراق بنانا چاہتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اسرائیل کے اس مشن کی تکمیل کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتی ہے۔ حالانکہ یہ بھی صدر ٹرمپ کا انتخابی وعدہ تھا کہ وہ مڈل ایسٹ میں مداخلت نہیں کریں گے۔  Regime change سے دہشت گردی کا فروغ ہوا ہے۔ اور ٹرمپ انتظامیہ Regime change میں یقین نہیں رکھتی ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ کی انتظامیہ میں جو Regime change کی باتیں کر رہے ہیں۔ ان کا Behavior بھی تبدیل ہونا چاہیے۔
   روس کے صدر پو تن کے Behavior پر بھی تنقید ہو رہی ہے۔ صدر پو تن نے امریکہ کے انتخاب میں مداخلت کی ہے۔ اور امریکہ کے جمہوری نظام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی۔ صدر پو تن نے Ukraine میں فوجیں بھیجی تھیں اور Crimea کو روس میں شامل کر لیا ہے۔ روس Ukrainian باغیوں کی پشت پنا ہی کر رہا ہے۔ اور انہیں ہتھیار دے رہا ہے۔ شام میں امریکہ کی پشت پنا ہی میں باغیوں کی دمشق حکومت کے خلاف جنگ میں صدر پو تن نے مداخلت کی ہے۔ اور شام میں خانہ جنگی کا نقشہ بدل دیا ہے۔ امریکہ کو صدر پو تن کا یہ Behavior قبول نہیں تھا۔ روس کے خلاف شام میں مداخلت کرنے پر اقتصادی بندشیں لگی ہیں۔ روس کے خلاف Ukraine میں فوجیں بھیجنے پر اقتصادی بندشیں لگی ہیں۔ روس کے خلاف امریکہ کے صدارتی انتخاب میں مداخلت کرنے پر اقتصادی بندشیں لگی ہیں۔ ان میں صدارتی ایگزیکٹو بندشیں ہیں اور ان کے علاوہ کانگریس کی بندشیں علیحدہ ہیں۔ امریکہ نے اپنے آپ کو جنگوں میں کمزور کیا ہے۔ جبکہ روس نے  جنگوں سے دور رکھ کر اپنے آپ کو مضبوط رکھا ہے۔ لہذا امریکہ نے روس پر بندشیں لگا کر اسے کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور یہ کہا ہے کہ یہ بندشیں اس وقت تک نہیں ہٹائی جائیں گی کہ جب تک صدر پو تن Behave نہیں کرتے ہیں۔
   صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی امور کے مشیر John Bolton نے شمالی کوریا کو متنبہ کیا ہے کہ اگر Kim Jong Un نے تعاون (Behave) نہیں کیا تو سنگاپور میں صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات مختصر ہو سکتی ہے۔
President Trump said that “Libya model would take place if we don’t make a deal, most likely.” President said, “if North Korea agrees to get rid of nuclear weapons then he’d be there; he’d be in his country; he’d be running his country.” In Libya deal same had been said that the United States did offer security guaranty for Libya in exchange for dismantling its nuclear programmed. In his intellectual life, John Bolton perhaps first time honest, said that “we are looking Libya model for North Korea.” This would be a very risky gambling for North Korea.      
   2سال کے بعد وائٹ ہاؤس میں نئی انتظامیہ ہو گی۔ جیسے ایران کے ساتھ ہوا ہے۔ صدر اوبامہ نے 2015 میں ایران ایٹمی معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔ اور 2سال بعد وائٹ ہاؤس میں نئی انتظامیہ نے اسے ختم کر دیا تھا۔ ایران سے نئے مطالبہ کرنے شروع کر دئیے تھے۔ اور اقتصادی بندشیں دوبارہ لگا دی تھیں۔ جنوبی کوریا میں اس وقت ایک لبرل حکومت ہے جو شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں خصوصی دلچسپی لے رہی ہے۔ جنوبی کوریا میں آئندہ  انتخاب میں اگر Hawkish سوچ کی حکومت آ جاتی ہے۔ تو Libya model بہت ممکن ہو سکتا ہے۔ Kim Jong Un نے نیو کلیر پروگرام منجمد کر دیا ہے۔ بالکل صحیح فیصلہ ہے۔ اور اب پہلے جنوبی کوریا کے ساتھ  Confident build کیا جاۓ۔ تجارتی اور People to People تعلقات فروغ دئیے جائیں۔ امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کیے جائیں۔ ایران کے مسئلہ پر امریکہ کے Behavior پر نظر رکھی جاۓ۔ صدر ٹرمپ ان لوگوں کے دائرہ میں آ گیے ہیں جو Regime change میں پختہ ایمان رکھتے ہیں۔ اور یہ Regime change کو امریکہ کی خارجہ پالیسی کا Corner stone سمجھتے ہیں۔ یہ صدر جارج بش انتظامیہ میں تھے۔ اور انہوں نے عراق میں Regime change کرایا تھا۔
   عراق اور لبنان میں انتخابات کے نتائج ایران کے لئے کامیابیوں کی روشنی ہے۔ اور امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کے لئے ناکامیوں کی تاریکی ہے۔ عراق میں مقتدا الصدر کی قیادت میں سیاسی اتحاد نے پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کر لی ہیں۔ جبکہ لبنان میں حزب اللہ نے انتخاب جیتا ہے۔ عراق اور لبنان کے عوام نے امریکہ اور اسرائیل مخالف پارٹیوں کو ووٹ دئیے ہیں۔ لبنانی عوام نے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم تسلیم کرنے کو مسترد کر دیا ہے۔ مڈل ایسٹ میں حزب اللہ واحد پارٹی ہے جو عیسائوں اور سنیوں کے ساتھ حکومت میں شامل ہے۔ اور ان کے ساتھ مل کر لبنان کی تعمیر نو میں حصہ لے رہی ہے۔ امریکہ کو یہ بھی پسند نہیں ہے کہ حزب اللہ نے لبنان کے عیسائوں کے ساتھ اتحاد کیوں بنایا ہے اور اس لئے حزب اللہ پر بندشیں لگا دی ہیں۔ اسرائیل کے مقابلے میں لبنان میں Genuine democracy ہے۔ مختلف مذہبی فرقہ اقتدار میں شامل ہیں۔ حزب اللہ نے اپنے مذہبی عقیدے کو دوسرے عقیدوں پر مسلط نہیں کیا ہے۔ لبنان مثبت سمت میں آ گے بڑھ رہا ہے۔ امریکہ کو لبنان کے لوگوں کے فیصلہ کا احترام کرنا چاہیے۔
    اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان نفرتوں کی سیاست میں امریکہ ایک پارٹی بن گیا ہے۔ امریکہ کو اس خطہ میں نفرتوں کی سیاست ختم کرنے میں زیادہ مثبت  رول ادا کرنا چاہیے تھا۔ لیکن امریکہ کے منفی رول نے نفرتوں کا ایک جال پھیلا دیا ہے۔ امریکہ 70 سال میں عرب اسرائیل تنازعہ حل کر سکا ہے۔ اور نہ ہی عربوں اور اسرائیل میں نفرتیں ختم کرنے میں امریکہ کا کوئی مثبت رول ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجیمن  نھتن یاہو کو فلسطینیوں سے سخت نفرت ہے۔ کیونکہ Popular Front for the Liberation of Palestine نے 1970s میں وزیر اعظم نھتن یا ہو کے بھائی کو مار دیا تھا۔ جو اسرائیلی فوج میں کمانڈو تھا۔ حزب اللہ کے رہنما Nasrallah Hassan جب 10 سال کا تھا۔ اسرائیلی فوج نے اس کے والد کو مار دیا تھا۔ اس وقت سے Hassan Nasrallah کو اسرائیلی فوج سے نفرت ہے۔ اور اس نے اسرائیلی فوج سے لڑنے کا عزم کر رکھا ہے۔ President George W. Bush کو صد ام حسین سے نفرت ہو گئی تھی کیونکہ “Saddam Hussein tried to Kill our Dad                صدر بش نے عراق پر Preemptive attacked کر کے صد ام حسین سے اس کا بدلہ لیا تھا۔ امریکی انتظامیہ میں کوئی بھی ان نفرتوں کی جڑیں نہیں سمجھتا ہے۔ امریکہ کی مڈل ایسٹ میں نفرتیں پھیلانے کی پالیسیاں ہیں۔ نفرتیں ختم کرنے کی نہیں ہیں۔ جو اسرائیل کو Suit کرتی ہیں۔                                                                                 
Now Jerusalem is Israel's capital, Jews are dancing
   
Palestinian Protesters  facing teargas fired by Israeli troop

No comments:

Post a Comment