Tuesday, May 15, 2018

The Situational Irony of The American Role In The Middle East That Gain Iran


   The Situational Irony of The American Role In The Middle East That Gain Iran  

Would President Trump Sanctions Citizens Of Lebanon Who Voted Hezbollah? There Is No Evidence of Iranian Meddling And Collusion In Lebanon And Iraq Elections, It Means Iran’s Behavior Temperature Is Normal In The Region   
America And Israel Are Frightening Gulf Arab Countries From Iran, To Bring Them Under Israel’s Security Orbit

مجیب خان
U.S. President Donald Trump signs a document reinstating sanctions against Iran

Iranians burn U.S. flags and make-shift Israel flags during demonstration outside the former U.S. embassy in Tehran, May9, 2018
   ایران ایٹمی سمجھوتہ کی خلاف ورزی کرنے کے بعد کیا امریکہ – یورپ تعلقات میں Trust دوبارہ آ سکتا ہے؟ اب یہ نیا سوال ابھرا ہے کہ کیا امریکہ کے ساتھ کوئی اس اعتماد کے ساتھ معاہدہ کرے گا کہ امریکہ اس معاہدہ پر قائم رہے گا؟ خواہ پریذیڈنٹ آئیں یا جائیں لیکن اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اتحادیوں کے لئے امریکہ کے ساتھ  کسی ملک سے سمجھوتہ کرنا ممکن ہو گا؟ اور اگر شمالی کوریا کا امریکہ سے سمجھوتہ ہوتا ہے تو اس سمجھوتہ کے مستقبل کی کیا ضمانت ہے؟ اس خطہ میں پہلے ہی امریکہ کی بڑھتی ہوئی فوجی سرگرمیاں Tensions پیدا کر رہی ہیں۔ ایران کی طرح شمالی کوریا بھی اپنا ایٹمی پروگرام ختم کرنے میں سنجیدہ ہے۔ اور اپنے ملک کی سلامتی کو Economic Power میں ٹرانسفر کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کا ایٹمی سمجھوتہ ختم کر کے ایران کو اپنی سلامتی اور بقا کے لئے ایٹمی ہتھیاروں کا سہارا لینے پر مجبور کیا ہے۔ اور اس خطہ میں Tension برقرار رکھنے کی پالیسی کو اہمیت دی ہے۔ Tension جو اسرائیل کے مفاد میں ہے۔ 70 سال سے اس خطہ میں Tension نے اسرائیل کو ایک بڑی فوجی طاقت بنایا ہے۔ مڈل ایسٹ میں Balance of Power ختم ہو گیا ہے اور Status quo بھی ختم ہو گیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی پالیسی اس خطہ میں اسرائیل کی بالا دستی کو فروغ دے رہی ہے۔ اور امریکہ جب مڈل ایسٹ سے جاۓ گا تو مڈل اسٹ اسرائیل کے حوالے کر کے جاۓ گا۔ سعودی عرب اور خلیج کے حکمران اسرائیلی فیصلوں کو Submit کر چکے ہیں۔ شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان نے فلسطینیوں سے دو ٹوک لفظوں میں کہا ہے کہ "اسرائیل اور امریکہ تمہیں جو دے رہے ہیں اسے قبول کر لو۔ ورنہ بکو اس بند کرو۔" شہزادہ ولی عہد نے اپنے Uncle شاہ عبداللہ کے اس پلان کی بات نہیں کی تھی جو شاہ عبداللہ نے 2002 میں عرب لیگ کے اجلاس میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں دیا تھا کہ اسرائیلی فوجوں کو 1967 کی سرحدوں پر جانا ہو گا۔
    صدر ٹرمپ کے ایران ایٹمی سمجھوتہ سے نکلنے کے فیصلہ کے در پردہ کچھ  دوسرے مقاصد بھی ہیں۔ جس میں یورپ کے ساتھ Trade war اور Atlantic Alliance Trans-کو ٹارگٹ کرنا ہے۔ صدر ٹرمپ کی “America First Doctrine”میں  Trans America Alliance  کا مقام کیا ہے؟ صدر بننے کے بعد صدر ٹرمپ کا رویہ برطانیہ اور جرمنی کے ساتھ بڑا سرد اور غیر سنجیدہ تھا۔ برطانیہ کی وزیر اعظم Theresa May اور چانسلر انجیلا مرکل کی صدر ٹرمپ سے پہلی ملاقات کا تاثر زیادہ اچھا نہیں تھا۔ G-7 اور نیٹو سربراہ کانفرنس میں صدر ٹرمپ انہیں America First پر لیکچر دیتے رہے تھے۔ تاہم یورپی رہنما ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے کی کوششیں کرتے رہے۔ فرانس میں انتخاب کے بعد نئے صدر Manual Macron نے صدر ٹرمپ کے ساتھ ذاتی نوعیت کے  تعلقات قائم کرنے کو اہمیت دی تھی۔ لیکن صدر ٹرمپ یورپی رہنماؤں کے ساتھ اپنے سرد رویہ سے جیسے انہیں یہ احساس دلا رہے تھے کہ انہیں اپنے معاملات اب  خود طے کرنا ہوں گے۔ اور یہ Alliance اب ختم ہونا چاہیے۔ یورپ نے امریکہ سے فائدے اٹھاۓ ہیں۔ نیٹو میں یورپی ممالک اپنے حصہ کی ادائیگی نہیں کر رہے ہیں۔ امریکہ کا یورپ کے ساتھ Trade deficit بڑھتا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ یورپ سے امریکہ کے ساتھ Fair trade کے لئے مذاکرات کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ ایران کا سمجھوتہ ختم کرنے کے پیچھے دراصل صدر ٹرمپ نے یورپ کے ساتھ Trade war شروع کی ہے۔ جیسا کہ صدر ٹرمپ نے Trade war جیتنے کو سب سے آسان جنگ بتایا تھا۔ ایران پر اقتصادی بندشوں کے اثرات یورپ پر ہوں گے۔ اس وقت ایران کے ساتھ یورپ کی ٹریڈ تقریباً  25 بلین ڈالر ہے۔ اور آئندہ 5 سے 10سال میں یہ 100بلین ڈالر تک پہنچ جاۓ گی۔ ایران کے مسئلہ پر یورپی ملکوں نے کہا ہے کہ وہ اپنے اقتصادی مفادات کا تحفظ کریں گے۔ فرانس کے وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ یورپی ممالک امریکہ کے تابعدار نہیں ہیں۔ جو ٹرمپ انتظامیہ کے ایران نیو کلیر سمجھوتہ کے مسئلے پر امریکہ کی تابعداری کریں۔ فرانس کے وزیر خارجہ نے کہا "یورپ کو امریکہ دنیا کی معیشت کا پولیس مین قبول نہیں کرنا چاہیے۔ وہ چاہتے ہیں کہ یورپی کمپنیاں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ایران پر اقتصادی بندشوں کے باوجود ایران سے تجارت جاری رکھیں۔" فرانس کے وزیر خارجہ نے کہا " یورپی کمپنیاں سب سے زیادہ متاثر ہوں گی۔ بندشیں ان کمپنیوں کو نشانہ بنائیں گی جو ایران سے تجارت کر رہی ہیں۔" وزیر خارجہ Jean-Yves le Drian نے کہا" ہمیں ان Extraterritoriality بندشوں کے اقدامات قبول نہیں ہیں۔ امریکہ معاہدہ سے دستبردار ہونے کی سزا یورپین کو نہیں دے جس نے خود اس معاہدہ میں حصہ لیا تھا۔" وزیر خارجہ نے کہا "یورپ اپنی کمپنیوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے ضروری اقدامات کرے گا اور اس معاملہ پر واشنگٹن سے مذاکرات کیے جائیں گے۔" فرانس کے وزیر خزانہ Bruno le Maire نے کہا "یورپی حکومتوں کو یہ احساس ہے کہ ہم اس سمت کی طرف نہیں جا سکتے ہیں جس طرف ہم آج جا رہے ہیں جہاں ہم امریکہ کے فیصلوں کے تابعدار ہو گیے ہیں۔" جرمن وزیر خارجہ نے کہا " ہم بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ لیکن جہاں ضروری ہو گا ہم اپنی پوزیشن کے لئے لڑیں گے۔"
   اس Trans-Atlantic Alliance  کو تقسیم کرنے کا الزام صدر پو تن کو دیا جا رہا تھا۔ لیکن اس الائنس میں صدر ٹرمپ نے اپنے ایک غلط فیصلہ سے صرف چند سیکنڈ میں شگاف ڈال دئیے۔ ایران ایٹمی سمجھوتہ اتنا بڑا ایشو نہیں تھا۔ ایران 3 سیکنڈ میں ایٹم بم نہیں بنا رہا تھا۔ یہ سمجھوتہ 2سال کے انتھک مذاکرات کے بعد ہوا تھا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسے عالمی  قانونی  سمجھوتہ ہونے کا درجہ دیا تھا۔ IAEA نے اپنی 10 رپورٹوں میں ایران کے سمجھوتہ پر مکمل عملدرامد کرنے کی تصدیق کی تھی۔ صدر ٹرمپ اگر چاہتے تو سمجھوتہ میں شامل پانچ دوسرے ملکوں سے یہ ضمانت بھی لے سکتے تھے کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہیں بناۓ گا۔ یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ صدر ٹرمپ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کے مسئلہ پر چین کے صدر Xi Jinping سے امریکہ سے تعاون کرنے کی اپیلیں کر رہے تھے۔ لیکن صدر ٹرمپ نے ایران ایٹمی سمجھوتہ کے مسئلہ پر تعاون کرنے کی تمام اپیلوں کو مسترد کر دیا تھا اور اسرائیل کے وزیر اعظم نتھن یا ہو سے اس سمجھوتہ کو ختم کرنے میں تعاون کیا تھا۔
   یورپی یونین کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات میں کئی سالوں سے تناؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ یورپی ممالک اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف بھر پور فوجی طاقت استعمال کرنے کی پالیسی کے خلاف ہیں۔ اور اسرائیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔ پھر یورپ میں Anti- Semitic بھی پھیل رہا ہے۔  یورپی یونین نے اسرائیل کی جو اشیا مقبوضہ علاقوں میں بنتی تھیں ان کی درآمد پر پابندی عائد کر دی تھی۔ یورپ میں اسرائیلی اشیا بائیکاٹ کرنے کی تحریک بھی جاری ہے۔ صدر ٹرمپ کے یورپ کی ایران ایٹمی معاہدے کی بھر پور حمایت کے باوجود معاہدہ کو ختم کرنے کے پیچھے یہ اسرائیلی مقاصد تھے۔ اسرائیل نے امریکہ کے ذریعہ یورپ کی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے۔ دوسری طرف ایران پر غیر انسانی اقتصادی بندشیں لگوا کر ایرانیوں کو Death cell میں اس پیغام کے ساتھ بھیجا ہے کہ اگر وہ اس Death cell سے باہر آنا چاہتے ہیں تو تہران میں Regime change کریں۔ یہ کام پریذیڈنٹ ٹرمپ اسرائیل کے مفاد میں کر رہے ہیں؟ اس صدی کے آغاز میں اب تک امریکہ کے ہر پریذیڈنٹ نے مڈل ایسٹ میں آگ بھڑکانے کے کام کیے ہیں۔ امن پر عربوں کو لیکچر دئیے ہیں یا خوبصورت لفظوں میں امن کی صرف باتیں کی ہیں۔ ان لیکچر اور باتوں کے درمیان کبھی صد ام حسین کو امن کی کوششوں میں رکاوٹ کا الزام دیا ہے۔ کبھی قد افی کو الزام دیا ہے۔ کبھی چیرمین یا سر عرفات کو امن میں سنجیدہ نہ ہونے کا الزام دیا تھا۔ سعودی عرب کی مدد سے مڈل ایسٹ میں جو اسلامی انتہا پسند پیدا کیے تھے۔ پھر انہیں الزام دیا تھا۔ اب مڈل ایسٹ میں 20سال سے جو ہو رہا ہے اس کی ساری Shit ایران پر Dump کر کے خود Blameless ہو گیے ہیں۔
   اب امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب کا سیاسی مذہب ایک ہو گیا ہے۔ ان تینوں میں اس پر اتفاق ہو گیا ہے کہ اگر دن میں ایک ہزار مرتبہ Lies of Rosary لوگوں کو سنائی جاۓ تو وہ یقین کرنے لگے گے۔ اور اب امریکہ میں عیسائی، اسرائیل میں یہودی اور سعودی عرب میں مسلمان ایرانی شعیاؤں کے خلاف جھوٹ کو سچ سمجھنے لگے ہیں۔ اور شاید یہ بھی قیامت کے آثار ہیں کہ جب لوگ اپنے حکمرانوں کے جھوٹ کو سچ سمجھنے لگے گے۔ 20سال میں انہیں مڈل ایسٹ میں ایران کا اثر و رسوخ نظر نہیں آیا تھا۔ لیکن 2018 میں انہیں ایران کا اثر و رسوخ نظر آنے لگا ہے۔ اسرائیل اور سعودی عرب امریکہ کی مڈل ایسٹ میں ملکوں کو تباہ کر نے کی حمایت کر رہے تھے۔ اس وقت اسرائیل کو یہ نظر نہیں آ رہا تھا کہ شام کو تباہ کرنے کے اسرائیل پر کیا اثرات ہوں گے۔ اسرائیل کو اپنی طاقت پر اتنا زیادہ گھمنڈ تھا کہ اس کا خیال تھا وہ شام پر بھی قبضہ کر لے گا۔ اور سعودی عرب کی مدد سے د مشق میں مغربی کنارے کی طرح ایک حکومت بنا دے گا۔ لیکن روس نے اسرائیل اور سعودی عرب کے یہ عزائم خاک میں ملا دئیے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے صرف گزشتہ سال روس کے 7 دورے کیے تھے۔ ایران کو شام میں بیٹھ کر مڈل ایسٹ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی پرواہ نہیں ہے کہ جیتنا جلد شام کو امن اور استحکام دینے اور بے گھر شام کے لوگوں کو ان کے گھروں میں بسانے کی فکر ہے۔ یہ انسانی Holocaust جرمنی میں ہونے والے Holocaust سے کہیں زیادہ خوفناک تھا۔ اسرائیل نے امریکہ سے مل کر ایران ایٹمی معاہدہ ختم کرا یا ہے۔ لیکن اسرائیل کو شام میں Holocaust ختم کرانے کی انسانی جرت نہیں ہوئی تھی۔ اور اب اسرائیلی دنیا بھر میں شام میں ایران کی موجودگی پر شور مچا رہے ہیں۔ اسرائیل کے وزیر دفاع Avigdor Lieberman says “Assad, get rid of the Iranians….they are not helping you….their presence will only cause problems and damages.”                             
وزیر دفاع شاید دماغی توازن کھو چکے ہیں۔ جو یہ باتیں کر رہے ہیں۔ شام تباہ ہو چکا ہے۔ اور اسد گردن تک مسائل میں دھنسا ہوۓ ہیں۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے اس تباہی کو دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا تھا اور یہ کہا تھا کہ شام کو دوبارہ تعمیر ہونے میں اب 100 سال لگے گے۔ اسرائیلی لیڈروں کو پہلے یہ سوچنا چاہیے تھا۔ اس وقت اسرائیلی اور امریکہ اسد حکومت کے خلاف دہشت گردوں کی مدد کر رہے تھے۔ اور انہیں ہتھیا ر دے رہے تھے۔ شام کی خانہ جنگی ان کے ہتھیاروں کی فروخت کی منافع بخش مارکیٹ بنی ہوئی تھی۔  ایران کا مڈل ایسٹ میں اتنا زیادہ اثر و رسوخ ہے کہ عراق اور لبنان کے انتخابات میں اس کی Meddling  اور Collusion کے بغیر لبنان میں حزب اللہ اور عراق میں Muqtada al-Sadr کی پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوۓ ہیں۔ اور یہ سعودی عرب اسرائیل اور امریکہ کی الزام تراشیوں کی سیاست کی ناکامی ہے۔ صدر ٹرمپ کیا ان لبنانی شہریوں پر اقتصادی بندشیں لگائیں گے جنہوں نے حزب اللہ کو ووٹ دئیے ہیں؟       

No comments:

Post a Comment