Monday, June 11, 2018

Unfair Trade: Today America Is There, Where Fifty-Years Ago Developing Countries Were Asking Fair Price Of Their Raw Material


Unfair Trade: Today America Is There, Where Fifty-Years Ago Developing Countries Were Asking Fair Price Of Their Raw Material

مجیب خان

G7 Summit In Quebec, Canada
G7 Summit In Quebec, Canada

   کینیڈا میں G-7 کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے کہا ہے "اتحادی امریکہ کو لوٹ رہے ہیں۔" یورپ کی امریکہ کے ساتھ بہت unfair trade ہے۔ امریکی اشیا پر یورپ نے ڈیوٹی لگائی ہیں۔ اور امریکہ بھی اب  یورپ کی اشیا پر ڈیوٹی لگاۓ گا۔ صدر ٹرمپ نے پریس کانفرنس میں کہا "بھارت نے امریکی اشیا پر 100 فیصد ڈیوٹی لگائی ہے۔ جو unfair ہیں اور بھارت نے اگر اسے Fix نہیں کیا تو امریکہ بھارت سے تجارت بند کر دے گا۔ اس unfair duty کی وجہ سے امریکہ کو بھارت سے تجارت میں زبردست خسارہ کا سامنا ہو رہا ہے۔" G-7 کانفرنس کی تاریخ میں یہ سب سے ناکام کانفرنس تھی۔ اور اس کانفرنس میں امریکہ کے روئیے سے یہ تاثر پیدا ہو رہا تھا کہ G-7 اب obsolete ہو گیا ہے۔ صدر ٹرمپ کانفرنس میں وقت پر نہیں آۓ تھے۔ اور کانفرنس میں مختصر شرکت کے بعد جلدی چلے گیے تھے۔ صدر ٹرمپ سنگا پور میں 12 جون کو شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے ایک اہم اور تاریخی ملاقات کرنے جا رہے  تھے۔
   صدر ٹرمپ کو جرمنی سے جیسے allergy ہو گئی ہے۔ جرمنی یورپ کی سب سے بڑی ا کنامی ہے۔ G-7 کانفرنس سے قبل صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ امریکہ کی سڑکوں پر جرمن کاریں دیکھنا نہیں چاہتے ہیں۔ وہ جرمن کاروں پر پابندی لگا دیں گے۔ صدر ٹرمپ نے G-7 ملکوں سے کہا کہ انہیں روس کو G-7 میں شامل کرنا چاہیے۔ روس کو اس گروپ کا رکن بنایا گیا تھا اور یہ G-8 ہو گیا تھا۔ لیکن پھر یو کرین کے مسئلہ پر اور صدر پو تن کے Crimea کو روس میں شامل کرنے کے فیصلے کے بعد 2014 میں G-7 ملکوں نے روس کو اپنے کلب سے نکال دیا تھا۔ تاہم روس پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ کیونکہ روس اس سے بڑے اقتصادی گروپ G-20، شہنگائی تنظیم اور Asean ملکوں کی تنظیم کا رکن ہے۔ صدر ٹرمپ شاید ان بڑے اقتصادی گروپوں کی بڑھتی اہمیت دیکھ کر G-7 کی اہمیت ختم ہوتی دیکھ رہے ہیں۔
   یورپی ملکوں کے امریکہ کو لوٹنے کا الزام دینے کے ساتھ صدر ٹرمپ نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ اس میں یورپی ملکوں کا قصور نہیں ہے۔ بلکہ ان سے پہلے جتنے صدر آۓ تھے۔ انہیں اس unfair trade کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اور یہ سلسلہ گزشتہ 50 سال سے جاری ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا اگر وہ tariffs اور trade رکاوٹیں نہیں ہٹاتے ہیں تو ہمیں ان کے ساتھ trade بند کرنا ہو گی۔ صدر ٹرمپ نے کہا “We are the piggy bank that every body  is robbing. And that ends.”
صدر ٹرمپ نے کہا "tariffs قومی سلامتی کے ایشو ہیں۔ کیونکہ unfair trade deals  سے ہماری فوج متاثر ہوتی ہے۔ صدر ٹرمپ سے پہلے 44Presidents نے tariffs اور unfair trade قومی سلامتی کے لئے کبھی ایشو نہیں بناۓ تھے۔ اور فوج پر بھی اس کے اثرات کا کبھی ذکر نہیں ہوتا تھا۔ مڈل ایسٹ کا آئل اور گیس اور ترقی پذیر ملکوں کے قدرتی وسائل کو امریکہ کی  قومی سلامتی میں اہم سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے امریکہ نے ہمیشہ مڈل ایسٹ میں استحکام کو خصوصی اہمیت دی تھی۔ لیکن سرد جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ کے لیڈروں نے مڈل ایسٹ کو destabilize کرنے کا process شروع کر دیا تھا۔ عراق اس process کا epic center تھا۔ یہ process امریکہ کو بہت مہنگا پڑا تھا۔ مڈل ایسٹ میں ایک جنگ کو دوسری جنگ سے ختم کرنے میں امریکہ نے 7ٹریلین ڈالر خرچ کر دئیے تھے لیکن جنگیں ابھی جاری ہیں۔ ان جنگوں سے امریکہ کی معیشت متاثر ہوئی ہے۔ اور معیشت متاثر ہونے کے فوج پر اثرات ہوۓ ہیں۔
   صدر ٹرمپ  نے Qucbec میںG-7 کانفرنس میں شرکت کے بعد کہا "امریکہ کے خلاف Tariffs اور unfair trade گزشتہ 50 سال سے جاری ہے۔ اور دنیا نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔" صدر ٹرمپ کو آج دنیا میں unfair trade ہونے کا احساس ہو رہا ہے۔ تیسری دنیا کے ترقی پذیر ملک 50 سال قبل بالکل اسی طرح ترقی یافتہ صنعتی ملکوں سے جو G-7 کلب ہے۔ ان کے ساتھ unfair trade اور ان کے قدرتی وسائل کی unfair price ادا کرنے پر احتجاج کرتے تھے۔ ان کے لئے اس وقت سے دنیا   کا monetary system unfair ہے۔ ترقی یافتہ صنعتی ملکوں کا کلب ترقی پذیر ملکوں کے قدرتی وسائل کا خوب استحصال کر رہا تھا۔ ترقی یافتہ صنعتی ملک ان کے خام مال کو سستا خریدتے تھے۔ اور پھر ان کے خام مال سے اشیا بنا کر انہیں مہنگے داموں فروخت کرتے تھے۔ سرد جنگ ختم ہونے سے ترقی پذیر ملکوں کو اپنے وسائل پر کنٹرول کرنے کا موقعہ ملا ہے۔ اپنی قدرتی دولت کی قیمتوں کا اب وہ خود تعین کرتے ہیں۔ جس سے ان کے اقتصادی حالات میں بڑا فرق آیا ہے۔ اور آج یہ ملک ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کے درمیان کھڑے ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو نے اس ایشو پر اپنی کتاب “The Third world New Directions” میں بڑی تفصیل سے اس پر بحث کی تھی۔ اور دنیا میں ایک fair system کے لئے New World Order کی بات کی تھی۔ اور آج 50 برس بعد Old World Order ٹوٹ رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نئے Trade Rule اور ایک Fair System کی بات کر رہے ہیں۔             

Saturday, June 9, 2018

“An Unalloyed Success” For Republican Party Brought By Russian Meddling


“An Unalloyed Success” For Republican Party Brought By Russian Meddling

   مجیب خان

Russian President Vladimir Putin Meets With German Chancellor Angela Merkel
French President Macron Meets With Russian President Vladimir Putin


   انتخابات میں روس کی Meddling پر امریکی میڈیا میں بڑا شور ہو رہا ہے۔ اور یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ روس اب یورپ میں بھی انتخابات میں Meddling کر رہا ہے۔ لیکن با ظاہر یہ دعوی بھی عراق میں مہلک ہتھیاروں کے دعووں کی طرح غلط ثابت ہوۓ ہیں۔ 15 ماہ سے امریکہ کے انتخابات میں روس کی  Meddlingاور Collusion کو  تحقیقات کے ذریعہ تلاش کیا جا رہا ہے۔ لیکن ابھی تک اس کے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملے ہیں۔ اس تحقیقات پر اب تک 16ملین ڈالر خرچ کیے گیے ہیں۔ جبکہ امریکی میڈیا میں بڑے وثوق سے یہ کہا جا رہا تھا کہ صدر پو تن نے امریکہ کے انتخاب میں مداخلت کی تھی۔ اور اس کے ساتھ جرمنی فرانس اٹلی اور یورپ میں جہاں کہیں بھی انتخابات ہونے جا رہے تھے وہاں روس کی مداخلت پر اسکرپٹ  تیار ہو رہی تھی۔ بلکہ روس کو انتخابات میں Hacking کرنے کا الزام بھی دیا جا رہا تھا۔ لیکن یورپ بھر میں انتخابات میں حقائق ان دعووں کے بالکل برعکس سامنے آۓ ہیں۔ جرمنی میں حکومت نے کہا ہے روس نے ان کے انتخاب میں مداخلت نہیں کی تھی۔ فرانس کی حکومت نے بھی کہا ہے ان کے انتخاب میں روس کی مداخلت کے کوئی شواہد نہیں ہیں۔ اٹلی کے حالیہ انتخاب میں بھی روس کی مداخلت کے ایسے کوئی دعوی نہیں ہو رہے ہیں۔ اسپین میں حکومت ٹوٹنے میں روس کا کوئی رول نہیں ہے۔ بلکہ حکومت میں کرپشن اور داخلی سیاست کے رول کو اس کی وجہ بتائی جاتی ہے۔ جرمنی میں انتخاب میں کسی پارٹی کی واضح اکثریت نہیں ہونے کی وجہ سے حکومت بنانے میں ایک سیاسی بحران پیدا ہو گیا تھا۔ جس کی وجہ سے حکومت بننے میں 4ماہ لگے تھے۔ جرمنی کے اس سیاسی بحران میں بھی روس نے کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔ لیکن امریکہ کے انتخابات میں روس کی  Meddling کے ثبوت تلاش کرنے میں 15 ماہ لگ گیے ہیں۔ اور اس کی تحقیقات ابھی جاری ہے۔
   روس کو دنیا بھر کے انتخابات میں مداخلت کرنے کا الزام دینے کی مہم کے پیچھے سیاسی ڈرامہ کس کا ہے؟ اصل تحقیقات اس کی ہونا چاہیے۔ روس کے خلاف یہ مہم جوئی بھی ایسی ہی ہے کہ جیسے بش انتظامیہ میں ا سا مہ بن لادن کو سامنے رکھا تھا اور اس کے پیچھے امریکی عوام کے سیاسی حقوق میں تخفیف ہو رہی تھی۔ 11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر حملہ ہوا تھا اور 26 اکتوبر 2001 کو صدر بش نے Patriot Act پر دستخط کیے تھے۔ یہ ایک نیا Mini Constitution تھا جو امریکہ کے جمہوری نظام کا حصہ بن گیا تھا۔ ا سا مہ بن لادن کو سامنے رکھا تھا اور اس کے پیچھے دنیا میں فوجی مہم جوئیوں کا ایک نیٹ ورک بنایا جا رہا تھا۔ امریکہ کو بن لادن ڈھونڈنے میں ایک دہائی لگی تھی۔ حالانکہ ا سا مہ بن لادن کے Whereabouts کا بش انتظامیہ کو با خوبی علم تھا۔ لیکن اسے اپنے ایجنڈہ میں استعمال کیا جا رہا تھا۔ حیرت کی بات تھی کہ ا سا مہ بن لادن کے وڈ یو امریکہ میں آتے تھے اور یہ ٹی وی کے ہر چینل پر بریکینگ نیوز بنتے تھے۔ لیکن انٹیلی جینس کو اس کا علم نہیں تھا کہ یہ کون کہاں سے لاتا تھا؟
   اوبامہ انتظامیہ نے داعش کے خلاف مہم پر دنیا کی توجہ ر کھی تھی۔ اور اس کے پیچھے دنیا کے مختلف ملکوں میں جاسوسی کا ایک نیٹ ورک بن رہا تھا۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے آفس میں گفتگو ٹیپ کرنے کے خفیہ آلات نصب کیے گیے تھے۔ اس کے علاوہ فرانس، برا زیل ، ارجنٹائن اور بہت سے دوسرے ملکوں کی حکومتوں کی بھی جاسوسی کی جا رہی تھی۔ اس کا انکشاف ایڈ و ر ڈ سنو ڈ ن نے ان خفیہ دستاویز سے کیا تھا جو اس نے سی آئی اے میں کام کرنے کے دوران جمع کی تھیں۔ اور انہیں لے کر امریکہ سے باہر چلا گیا تھا۔ دنیا کو القا عدہ اور ا سا مہ بن لادن کے خلاف مہم میں مصروف رکھا تھا اور اس کے در پردہ ملکوں اور حکومتوں کی جاسوسی کرنے کے اقدامات ہو رہے تھے۔ دنیا کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ دہشت گردی کی جنگ ختم ہونے کے بجاۓ پھیلتی کیوں جا رہی تھی؟ یہ بڑے تعجب کی بات تھی کہ نائن الیون کے بعد دنیا میں جتنی جنگیں شروع ہوئی تھیں ان میں سے ایک جنگ بھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ نئی جنگوں کا ان میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ شام کھنڈرات بن گیا تھا۔ 6ملین لوگ شام چھوڑ کر چلے گیے تھے۔ ایک ملین شامی خانہ جنگی میں مارے گیے تھے۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ نے جنگ جاری ر کھی تھی۔ Free Syrian Army میں ڈالر اور ہتھیار انویسٹ کرنے کا سلسلہ جاری تھا۔ حالانکہ فلسطینی بھی اپنی    آزادی کی جنگ اسرائیل سے اسی طرح  لڑ رہے تھے کہ جیسے Free Syrian Army لڑ رہی تھی۔  لیکن امریکہ برطانیہ فرانس اسرائیل Free Syrian Army کی حمایت کرتے تھے۔  اور فلسطینیوں کی آزادی کی تحریک کی مذمت کرتے تھے۔ اسرائیل کو بھر پور طاقت سے اپنے دفاع کا حق تھا۔ لیکن د مشق حکومت کو اپنے دفاع کا حق نہیں تھا۔ Law of self defense ہر حکومت کا حق ہے۔ Law of self defense کوئی Privilege نہیں ہے جو صرف مخصوص قوموں کو دیا گیا ہے۔
   ایک درجن ملک شام میں مداخلت کر رہے تھے۔ ایک درجن گروپ شام میں دہشت گردی پھیلا رہے تھے۔ لیکن روس جب د مشق حکومت کی درخواست پر شام میں آیا تھا۔ تو واشنگٹن میں اسے روس کی مداخلت کہا گیا تھا۔ اور روس کی اس مداخلت کو سرد جنگ ذہن سے دیکھا جا رہا تھا۔ کہ شام اب روس کے لئے افغانستان بن جاۓ گا۔ صدر اوبامہ نے کہا "شام روس کے لئے Quagmire بن جاۓ گا" روس ایک Humanitarian mind set سے شام میں آیا تھا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شام کو destabilize کرنے کی جنگ کو روس کی آمد سے counter کرنے میں بڑی مدد ملی تھی۔ تاہم دوسرے ملکوں میں امریکہ کی مداخلت کو روس نے امریکہ کے انتخابات میں مداخلت سے counter نہیں کیا تھا۔
  امریکہ کے انتخابات میں مداخلت کرنے کی `صدر پو تن کو کسی نے دعوت نہیں دی تھی۔ امریکہ کے انتخابات میں Meddling کا پلاٹ ماسکو میں نہیں بنا تھا۔ Meddling اور Collusion ڈرامہ کی Script امریکہ میں لکھی جا رہی تھی۔ روس کے سفارت کاروں کو پہلے اوبامہ انتظامیہ اور پھر ٹرمپ انتظامیہ نے امریکہ سے نکال کر اس ڈرامہ میں Suspense پیدا کیا تھا۔ اس ڈرامہ کی Screen پر پھر اسرائیل کا نام بھی آیا تھا۔ صدر پو تن نے کہا یہ Russian Jews بھی ہو سکتے ہیں۔ امریکہ کی سیاست میں کس کا اثر و رسو خ ہے؟ اسرائیل کا؟ یا Vladimir Putin President کا؟ Ariel Sharon نے کہا تھا امریکہ کو ہم چلا تے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم Benjamin Netanyahu نے کہا تھا دنیا میں تبدیلیاں لانے کا اختیار خدا نے ہمیں دیا ہے۔   با ظاہر یہ Collusion امریکہ میں آباد Russian Oligarchs اور Israeli Russians میں تھا۔ جنہوں نے دنیا تبدیل کرنے کے لئے امریکہ میں Meddling کی ہے۔ انہوں نے President Putin کو آ گے کر دیا ہے اور خود پیچھے ہو گیے ہیں۔ دنیا اب تبدیل ہو رہی ہے۔ یورپ کی امریکہ سے Divorce ہو رہی ہے۔ یورپ نے روس سے Dating کا آغاز کیا ہے۔ اسرائیل کو Jerusalem مل گیا ہے۔ Republican Party کے ایجنڈہ پر عملدرامد ہو رہا ہے۔

As senator Ted Cruz said, “an unalloyed success” for the president. The judges Mr. Trump has appointed were a home run. If you set aside the noise and political circus of Washington and if you focus instead on the substance,” senator Cruz said, “I am deeply gratified with what this Republican administration and Republican majority have been able to accomplish.”
 Address to CPAC, February 24, 2018
    
                                

Sunday, June 3, 2018

World’s Real Power: Almighty Israel


World’s Real Power: Almighty Israel

مجیب خان
King of Bahrian Hamamd bin Isa Al Khalifa
Sudan's President Omar al-Bashir
Libya- President Muammer Gaddafi

    اسرائیل پہلے ایک Zionist State ہے اور پھر Jewish Nation ہے۔ Zionist State  اب دنیا کی بڑی فوجی طاقتوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ 70 سال میں اسرائیل نے دنیا کے ایک انتہائی حساس خطہ میں بیٹھ کر دنیا میں اپنا ایک فوجی طاقت ہونے کا مقام بنایا ہے۔ Zionist Ideology دنیا کے لئے اتنی ہی خطرناک ہے کہ جتنی Extremist Islamic Ideology ہے یا Nazi Ideology  تھی۔ دنیا نے Extreme Islamic Ideology کو مسترد کیا ہے۔ اور Nazi Ideology کو ختم کیا ہے۔ اسرائیلی Zionist مشرقی یورپی یہودی ہیں۔ جن میں ایک بڑی تعداد روسی یہود یوں کی ہے۔ جو اسرائیلی شہری ہیں۔ سرد جنگ کے دور میں کمیونسٹ حکومت نے روسی Dissident یہودیوں کو Syberia میں نظر بند رکھا تھا۔ امریکہ نے ان روسی یہودیوں کو آزاد کرایا تھا۔ اور یہ اسرائیل میں آباد ہو گیے تھے۔ اورپھر اسرائیل کے شہری بن گیے تھے۔ لیکن فلسطینی 70 سال سے اسرائیل کے فوجی قبضہ میں ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں اتنی بڑی آبادی پر 70 سال تک کسی آمر نے اپنا فوجی قبضہ نہیں رکھا ہو گا ۔ سرد جنگ ختم ہوۓ بھی 30 سال ہو گیے ہیں۔ لیکن اسرائیلی Zionist فلسطینیوں کو اپنا شہری بنانے کو تیار ہیں اور نہ ہی ان کی آزاد ریاست تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں۔ فلسطینیوں کی نسل در نسل کو صرف اپنے فوجی قبضہ میں رکھنے کی ایک نئی تاریخ بن رہی ہے۔ 70 سال میں جرمن نژاد یہودی جرمنی کے شہری ہیں۔ انہیں جمہوری اور آئینی حقوق دئیے گیے ہیں۔ یہ جرمن یہودی حکومت میں ہیں۔ جرمن پارلیمنٹ  میں ہیں۔ کاروبار میں ہیں۔ کمپنیوں کے مالک ہیں۔ اور خوش ہیں۔ اور خوش حال ہیں۔ جرمنی نے ثابت کیا ہے کہ اب یہ نازی جرمنی نہیں ہے۔ لیکن اسرائیل نے ثابت کیا ہے کہ یہ صرف Zionist States ہے۔ ہٹلر اگر آج زندہ ہوتا اور وہ 70 سال سے اسرائیلی حکومت میں فلسطینیوں کے ساتھ سلوک کو دیکھ کر کیا کہتا؟ اسرائیلی Zionist اس کا جواب نازی ہٹلر کو کیا دیتے؟ اسرائیلی حکومت کی مذمت یا اس کی سیاسی اور فوجی پالیسی پر تنقید کا یہودی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نائن الیون کے بعد اسلام میں انتہا پسند ی پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ اسلامی دنیا میں بعض اس تنقید سے Offended بھی ہوۓ تھے۔ لیکن ایک بڑی اکثریت نے حقیقت پسند ہونے کا ثبوت دیا تھا۔ اسرائیلی حکومت اپنے ہر سیاسی اور فوجی ایکشن  کی مخالفت کو Anti-Semites  کہتی ہے۔ 70 سال سے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے الزامات میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن فلسطینیوں کی مزاحمت کی تحریک سے اسرائیل آج دنیا کی بڑی طاقتوں میں شمار ہونے لگا ہے۔
    مڈل ایسٹ میں اسرائیلی طاقت ایکشن Mode میں ہے۔ اسرائیل نے ایران ایٹمی سمجھوتہ کو امریکہ کے ذریعہ ختم کرایا ہے۔ حالانکہ عالمی برادری کی بھاری اکثریت نے اس سمجھوتہ کی حمایت کی تھی۔ امریکہ کے نیٹو، G-7 کے قریبی یورپی اتحادیوں نے امریکہ سے ایران ایٹمی سمجھوتہ میں ان کے ساتھ شامل رہنے کی اپیلیں کی تھیں۔ فرانس کے صدر Emmanuel Macron اس مقصد سے خصوصی طور سے واشنگٹن آۓ تھے۔ اور صدر ٹرمپ سے ذاتی طور پر ایران ایٹمی سمجھوتہ میں شامل رہنے کی درخواست کی تھی۔ صدر ٹرمپ نے ان کی درخواست کا مثبت جواب نہیں دیا تھا۔ پھر جرمن چانسلر Angela Merkel بھی یہ ہی درخواست لے کر وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ کے پاس آئیں تھیں۔ لیکن صدر ٹرمپ نے ان کی درخواست کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔ پھر برطانیہ کے سیکرٹیری خارجہ Boris Johnson بھی اسی درخواست کے ساتھ واشنگٹن آۓ تھے۔ لیکن وہ بھی خالی ہاتھ واپس گیے تھے۔ لیکن امریکہ Almighty Israel کے Influence میں تھا۔ ایران ایٹمی سمجھوتہ  سے امریکہ کو نکالنے کی حکمت عملی دراصل اسرائیلی حکومت کا امریکہ کے خارجی امور میں نائن الیون تھا۔ جس نے امریکہ اور یورپ کے تعلقات اب ہمیشہ کے لئے بدل دئیے ہیں۔ یورپ اب مشرق کی طرف دیکھ رہا ہے۔ جرمنی نے روس کے ساتھ نئے تعلقات کی اہمیت کو محسوس کیا ہے۔ چانسلر مرکل نے کسی تاخیر کے بغیر ماسکو کا دورہ کیا اور صدر پو تن سے باہمی امور پر بات چیت کی اور دونوں ملکوں میں تعلقات فروغ دینے کا اعادہ کیا۔ چانسلر مر کل نے  صدر پو تن کے ساتھ آئل اور گیس کے معاہدوں پر دستخط کیے۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں میں تجارت بڑھانے پر بھی اتفاق کیا۔ یہ اسرائیلی پاور ہے جو دنیا کو بدل رہی ہے۔ پرانے Alliance ٹوٹ رہے ہیں۔ امریکہ پر نائن الیون کے حملہ میں 14  سعودی اور 5 مصری ہائی جیکر ز تھے۔ لیکن آج اسرائیل کے مصر اور سعودی عرب سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ مصر اور سعودی عرب کی اسرائیل کے ساتھ اس Understanding کا نتیجہ ہے کہ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے یہ بیان دیا ہے "ایران دنیا میں دہشت گردی کرا رہا ہے۔" اب اگر سعودی عرب کی اسرائیل کے ساتھ Understanding نہیں ہوتی تو پھر یہ کہا جاتا کہ سعودی اسلامی دنیا میں مدرسوں اور مسجدوں کے ذریعہ وہابی Radical Islam کو فروغ دے رہا ہے۔ امریکہ نے مڈل ایسٹ کو Democracy اور Rule of Law میں Transform کرنے کے پروجیکٹ پر 500 ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔ لیکن قاہرہ میں جمہوریت اسرائیل کو پسند نہیں آئی تھی۔ یہ حکومت مصری عوام کے 60فیصد ووٹوں سے اقتدار میں آئی تھی۔ اسرائیل نے مصر میں Meddling کی اور مصری جنرلوں کے ساتھ Collusion سے General Abdel Fattah el-Sisi مصر کے نئے فوجی ڈکٹیٹر بن گیے۔ مصر میں شہری آزادیاں ایک کرائم ہے۔ صحافت پر بندشیں ہیں۔ انسانی حقوق کو غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔ فوجی حکومت کے مخالفین سے جیلیں بھری ہوئی ہیں۔ سیاسی بنیادوں پر پھانسیوں کی سزائیں دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن فوجی حکومت کے کیونکہ اسرائیل سے اچھے تعلقات ہیں۔ اس لئے مصر کی طرف امریکہ کی آنکھیں بند ہو گئی ہیں اور اسرائیل نے امریکہ کی آنکھیں ایران کی طرف  مرکوز کر دی ہیں۔ عالمی میڈیا نے بھی مصر کو بالکل بلیک آؤٹ کر دیا ہے۔ اور یہ اسرائیل کی پاور ہے۔
     چند ہفتہ پہلے Russia Today کے پروگرام Cross Talk میں امریکہ کے سابق سفیر Richard Murphy سے یہ پوچھا گیا تھا کہ آخر شام نے اسرائیل کے خلاف کیا کیا تھا کہ شام کو بالکل تباہ کر دیا ہے۔ سابق سفیر Richard Murphy نے کہا کیونکہ شام نے اسرائیل سے بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جس پر Anchor نے کہا صرف اس لئے شام کو تباہ کر دیا کیونکہ اسد نے اسرائیل سے بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ سابق سفیر نے کہا نہیں کچھ اور وجوہات بھی تھیں۔ جس کی انہوں نے تفصیل نہیں بتائی۔
    عرب اسپرنگ تحریک کا سیلاب جب بحرین کی سڑکوں پر پہنچ گیا تھا۔ امیر بحرین حماد بن عیسا الخلیفہ کا زوال قریب نظر آ رہا تھا۔ سعودی عرب نے امیر بحرین کو بچانے لئے فوجی مداخلت کی تھی۔ دوسری طرف امیر بحرین نے جلدی سے اسرائیل سے مذاکرات کر لئے جس سے امیر بحرین کو اقتدار میں رہنے کے لئے آکسیجن مل گئی تھی۔ ورنہ تو بحرین بھی شام بننے جا رہا تھا۔ امیر بحرین آج اللہ کی طرف دیکھنے سے پہلے Almighty Israel کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے ان کا اقتدار بچایا تھا۔ بحرین اب عالمی میڈیا کے ریڈار سے غائب ہو گیا ہے۔ امیر بحرین اپنے مخالفین کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں۔ دنیا کو یہ جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔
    سوڈان کے صدر عمر حسن البشر نے جب یہ دیکھا کہ اسرائیل کس طرح عرب دنیا کے دکھی اور مصیبت زدہ حکمرانوں کا علاج کر رہا تھا۔ تو صدر عمر حسن البشر نے بھی اپنی مصیبتوں کا علاج کروانے کے لئے اسرائیل سے مذاکرات شروع کر دئیے۔ صدر عمر کے خلاف Hague میں International Criminal Court نے دارفور میں 2.5ملین لوگوں کا Genocide ہونے کے الزام میں گرفتار کرنے کے وارنٹ جاری کیے تھے۔  کورٹ نے Interpol   سے صدر عمر کو گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔ صدر عمر کو اسرائیل سے مذاکرات کر نے سے افادہ ہوا ہے۔ صدر عمر کے خلاف عالمی عدالت میں کیس ریڈار سے غائب ہو گیا ہے۔ صدر عمر ابھی تک سوڈان کے صدر ہیں۔
    صدر کرنل معمر قد افی نے بڑی حماقت کی تھی کہ اپنے مہلک ہتھیا ر لے کر واشنگٹن، پیرس اور لندن کے سامنے کھڑے  ہو گیے تھے۔ صدر قد افی کو انہیں Dump کر کے اسرائیل سے مذاکرات کرنا چاہیے تھے۔ امریکہ فرانس اور لندن میں اپنے تیل کی دولت Invest کرنے کے بجاۓ صدر قد افی اسرائیل میں Invest کرنے کی پیشکش کرتے تو صدر قد افی آج زندہ ہوتے۔ اقتدار میں ہوتے اور لیبیا بھی ان کے ساتھ زندہ سلامت ہوتا۔
   اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ عرب حکمران فلسطین کے تنازعہ کے حل میں اسرائیل کو کیا Favor دیں گے؟