“An
Unalloyed Success” For Republican Party Brought By Russian Meddling
مجیب
خان
Russian President Vladimir Putin Meets With German Chancellor Angela Merkel |
French President Macron Meets With Russian President Vladimir Putin |
انتخابات
میں روس کی Meddling پر امریکی
میڈیا میں بڑا شور ہو رہا ہے۔ اور یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ روس اب یورپ میں بھی
انتخابات میں Meddling کر
رہا ہے۔ لیکن با ظاہر یہ دعوی بھی عراق میں مہلک ہتھیاروں کے دعووں کی طرح غلط
ثابت ہوۓ ہیں۔ 15 ماہ سے امریکہ کے انتخابات میں روس کی Meddlingاور Collusion
کو تحقیقات کے ذریعہ تلاش کیا جا رہا ہے۔ لیکن
ابھی تک اس کے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملے ہیں۔ اس تحقیقات پر اب تک 16ملین ڈالر خرچ
کیے گیے ہیں۔ جبکہ امریکی میڈیا میں بڑے وثوق سے یہ کہا جا رہا تھا کہ صدر پو تن
نے امریکہ کے انتخاب میں مداخلت کی تھی۔ اور اس کے ساتھ جرمنی فرانس اٹلی اور یورپ
میں جہاں کہیں بھی انتخابات ہونے جا رہے تھے وہاں روس کی مداخلت پر اسکرپٹ تیار ہو رہی تھی۔ بلکہ روس کو انتخابات میں Hacking
کرنے کا الزام بھی دیا جا رہا تھا۔ لیکن یورپ بھر میں انتخابات میں حقائق ان دعووں
کے بالکل برعکس سامنے آۓ ہیں۔ جرمنی میں حکومت نے کہا ہے روس نے ان کے انتخاب میں
مداخلت نہیں کی تھی۔ فرانس کی حکومت نے بھی کہا ہے ان کے انتخاب میں روس کی مداخلت
کے کوئی شواہد نہیں ہیں۔ اٹلی کے حالیہ انتخاب میں بھی روس کی مداخلت کے ایسے کوئی
دعوی نہیں ہو رہے ہیں۔ اسپین میں حکومت ٹوٹنے میں روس کا کوئی رول نہیں ہے۔ بلکہ حکومت
میں کرپشن اور داخلی سیاست کے رول کو اس کی وجہ بتائی جاتی ہے۔ جرمنی میں انتخاب
میں کسی پارٹی کی واضح اکثریت نہیں ہونے کی وجہ سے حکومت بنانے میں ایک سیاسی
بحران پیدا ہو گیا تھا۔ جس کی وجہ سے حکومت بننے میں 4ماہ لگے تھے۔ جرمنی کے اس
سیاسی بحران میں بھی روس نے کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔ لیکن امریکہ کے انتخابات میں
روس کی Meddling کے ثبوت تلاش کرنے میں 15 ماہ لگ گیے ہیں۔ اور اس کی تحقیقات ابھی جاری ہے۔
روس
کو دنیا بھر کے انتخابات میں مداخلت کرنے کا الزام دینے کی مہم کے پیچھے سیاسی
ڈرامہ کس کا ہے؟ اصل تحقیقات اس کی ہونا چاہیے۔ روس کے خلاف یہ مہم جوئی بھی ایسی
ہی ہے کہ جیسے بش انتظامیہ میں ا سا مہ بن لادن کو سامنے رکھا تھا اور اس کے پیچھے
امریکی عوام کے سیاسی حقوق میں تخفیف ہو رہی تھی۔ 11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر حملہ
ہوا تھا اور 26 اکتوبر 2001 کو صدر بش نے Patriot Act پر دستخط کیے تھے۔ یہ ایک نیا Mini Constitution تھا
جو امریکہ کے جمہوری نظام کا حصہ بن گیا تھا۔ ا سا مہ بن لادن کو سامنے رکھا تھا
اور اس کے پیچھے دنیا میں فوجی مہم جوئیوں کا ایک نیٹ ورک بنایا جا رہا تھا۔
امریکہ کو بن لادن ڈھونڈنے میں ایک دہائی لگی تھی۔ حالانکہ ا سا مہ بن لادن کے Whereabouts کا
بش انتظامیہ کو با خوبی علم تھا۔ لیکن اسے اپنے ایجنڈہ میں استعمال کیا جا رہا
تھا۔ حیرت کی بات تھی کہ ا سا مہ بن لادن کے وڈ یو امریکہ میں آتے تھے اور یہ ٹی
وی کے ہر چینل پر بریکینگ نیوز بنتے تھے۔ لیکن انٹیلی جینس کو اس کا علم نہیں تھا
کہ یہ کون کہاں سے لاتا تھا؟
اوبامہ
انتظامیہ نے داعش کے خلاف مہم پر دنیا کی توجہ ر کھی تھی۔ اور اس کے پیچھے دنیا کے
مختلف ملکوں میں جاسوسی کا ایک نیٹ ورک بن رہا تھا۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے
آفس میں گفتگو ٹیپ کرنے کے خفیہ آلات نصب کیے گیے تھے۔ اس کے علاوہ فرانس، برا زیل
، ارجنٹائن اور بہت سے دوسرے ملکوں کی حکومتوں کی بھی جاسوسی کی جا رہی تھی۔ اس کا
انکشاف ایڈ و ر ڈ سنو ڈ ن نے ان خفیہ دستاویز سے کیا تھا جو اس نے سی آئی اے میں
کام کرنے کے دوران جمع کی تھیں۔ اور انہیں لے کر امریکہ سے باہر چلا گیا تھا۔ دنیا
کو القا عدہ اور ا سا مہ بن لادن کے خلاف مہم میں مصروف رکھا تھا اور اس کے در
پردہ ملکوں اور حکومتوں کی جاسوسی کرنے کے اقدامات ہو رہے تھے۔ دنیا کی سمجھ میں
نہیں آ رہا تھا کہ دہشت گردی کی جنگ ختم ہونے کے بجاۓ پھیلتی کیوں جا رہی تھی؟ یہ
بڑے تعجب کی بات تھی کہ نائن الیون کے بعد دنیا میں جتنی جنگیں شروع ہوئی تھیں ان
میں سے ایک جنگ بھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ نئی جنگوں کا ان میں اضافہ ہوتا جا
رہا تھا۔ شام کھنڈرات بن گیا تھا۔ 6ملین لوگ شام چھوڑ کر چلے گیے تھے۔ ایک ملین
شامی خانہ جنگی میں مارے گیے تھے۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ نے جنگ جاری ر کھی تھی۔ Free Syrian Army میں
ڈالر اور ہتھیار انویسٹ کرنے کا سلسلہ جاری تھا۔ حالانکہ فلسطینی بھی اپنی آزادی
کی جنگ اسرائیل سے اسی طرح لڑ رہے تھے کہ
جیسے Free Syrian Army لڑ رہی تھی۔ لیکن امریکہ برطانیہ فرانس اسرائیل Free Syrian Army کی حمایت کرتے
تھے۔ اور فلسطینیوں کی آزادی کی تحریک کی مذمت کرتے
تھے۔ اسرائیل کو بھر پور طاقت سے اپنے دفاع کا حق تھا۔ لیکن د مشق حکومت کو اپنے
دفاع کا حق نہیں تھا۔ Law of
self defense ہر حکومت کا حق ہے۔ Law of self defense
کوئی Privilege
نہیں ہے جو صرف مخصوص قوموں کو دیا گیا ہے۔
ایک
درجن ملک شام میں مداخلت کر رہے تھے۔ ایک درجن گروپ شام میں دہشت گردی پھیلا رہے
تھے۔ لیکن روس جب د مشق حکومت کی درخواست پر شام میں آیا تھا۔ تو واشنگٹن میں اسے
روس کی مداخلت کہا گیا تھا۔ اور روس کی اس مداخلت کو سرد جنگ ذہن سے دیکھا جا رہا
تھا۔ کہ شام اب روس کے لئے افغانستان بن جاۓ گا۔ صدر اوبامہ نے کہا "شام روس
کے لئے Quagmire بن
جاۓ گا" روس ایک Humanitarian
mind set سے شام میں آیا تھا۔ امریکہ اور
اس کے اتحادیوں کی شام کو destabilize
کرنے کی جنگ کو روس کی آمد سے counter کرنے میں بڑی مدد ملی تھی۔ تاہم
دوسرے ملکوں میں امریکہ کی مداخلت کو روس نے امریکہ کے انتخابات میں مداخلت سے counter
نہیں کیا تھا۔
امریکہ
کے انتخابات میں مداخلت کرنے کی `صدر پو تن کو کسی نے دعوت نہیں دی تھی۔ امریکہ کے
انتخابات میں Meddling کا
پلاٹ ماسکو میں نہیں بنا تھا۔ Meddling اور Collusion
ڈرامہ کی Script امریکہ میں لکھی جا رہی تھی۔ روس کے سفارت کاروں کو پہلے اوبامہ انتظامیہ
اور پھر ٹرمپ انتظامیہ نے امریکہ سے نکال کر اس ڈرامہ میں Suspense
پیدا کیا تھا۔ اس ڈرامہ کی Screen پر
پھر اسرائیل کا نام بھی آیا تھا۔ صدر پو تن نے کہا یہ Russian Jews بھی
ہو سکتے ہیں۔ امریکہ کی سیاست میں کس کا اثر و رسو خ ہے؟ اسرائیل کا؟ یا Vladimir Putin President کا؟ Ariel
Sharon نے کہا تھا امریکہ کو ہم چلا تے
ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم Benjamin
Netanyahu نے کہا تھا دنیا میں تبدیلیاں
لانے کا اختیار خدا نے ہمیں دیا ہے۔ با ظاہر یہ Collusion
امریکہ میں آباد Russian
Oligarchs اور Israeli Russians میں
تھا۔ جنہوں نے دنیا تبدیل کرنے کے لئے امریکہ میں Meddling کی ہے۔ انہوں
نے President Putin کو
آ گے کر دیا ہے اور خود پیچھے ہو گیے ہیں۔ دنیا اب تبدیل ہو رہی ہے۔ یورپ کی
امریکہ سے Divorce ہو
رہی ہے۔ یورپ نے روس سے Dating کا
آغاز کیا ہے۔ اسرائیل کو Jerusalem مل
گیا ہے۔ Republican Party کے
ایجنڈہ پر عملدرامد ہو رہا ہے۔
As senator Ted Cruz said, “an unalloyed success” for the president. The
judges Mr. Trump has appointed were a home run. If you set aside the noise and
political circus of Washington and if you focus instead on the substance,”
senator Cruz said, “I am deeply gratified with what this Republican administration
and Republican majority have been able to accomplish.”
Address to CPAC, February 24, 2018
No comments:
Post a Comment