Sunday, June 3, 2018

World’s Real Power: Almighty Israel


World’s Real Power: Almighty Israel

مجیب خان
King of Bahrian Hamamd bin Isa Al Khalifa
Sudan's President Omar al-Bashir
Libya- President Muammer Gaddafi

    اسرائیل پہلے ایک Zionist State ہے اور پھر Jewish Nation ہے۔ Zionist State  اب دنیا کی بڑی فوجی طاقتوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ 70 سال میں اسرائیل نے دنیا کے ایک انتہائی حساس خطہ میں بیٹھ کر دنیا میں اپنا ایک فوجی طاقت ہونے کا مقام بنایا ہے۔ Zionist Ideology دنیا کے لئے اتنی ہی خطرناک ہے کہ جتنی Extremist Islamic Ideology ہے یا Nazi Ideology  تھی۔ دنیا نے Extreme Islamic Ideology کو مسترد کیا ہے۔ اور Nazi Ideology کو ختم کیا ہے۔ اسرائیلی Zionist مشرقی یورپی یہودی ہیں۔ جن میں ایک بڑی تعداد روسی یہود یوں کی ہے۔ جو اسرائیلی شہری ہیں۔ سرد جنگ کے دور میں کمیونسٹ حکومت نے روسی Dissident یہودیوں کو Syberia میں نظر بند رکھا تھا۔ امریکہ نے ان روسی یہودیوں کو آزاد کرایا تھا۔ اور یہ اسرائیل میں آباد ہو گیے تھے۔ اورپھر اسرائیل کے شہری بن گیے تھے۔ لیکن فلسطینی 70 سال سے اسرائیل کے فوجی قبضہ میں ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں اتنی بڑی آبادی پر 70 سال تک کسی آمر نے اپنا فوجی قبضہ نہیں رکھا ہو گا ۔ سرد جنگ ختم ہوۓ بھی 30 سال ہو گیے ہیں۔ لیکن اسرائیلی Zionist فلسطینیوں کو اپنا شہری بنانے کو تیار ہیں اور نہ ہی ان کی آزاد ریاست تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں۔ فلسطینیوں کی نسل در نسل کو صرف اپنے فوجی قبضہ میں رکھنے کی ایک نئی تاریخ بن رہی ہے۔ 70 سال میں جرمن نژاد یہودی جرمنی کے شہری ہیں۔ انہیں جمہوری اور آئینی حقوق دئیے گیے ہیں۔ یہ جرمن یہودی حکومت میں ہیں۔ جرمن پارلیمنٹ  میں ہیں۔ کاروبار میں ہیں۔ کمپنیوں کے مالک ہیں۔ اور خوش ہیں۔ اور خوش حال ہیں۔ جرمنی نے ثابت کیا ہے کہ اب یہ نازی جرمنی نہیں ہے۔ لیکن اسرائیل نے ثابت کیا ہے کہ یہ صرف Zionist States ہے۔ ہٹلر اگر آج زندہ ہوتا اور وہ 70 سال سے اسرائیلی حکومت میں فلسطینیوں کے ساتھ سلوک کو دیکھ کر کیا کہتا؟ اسرائیلی Zionist اس کا جواب نازی ہٹلر کو کیا دیتے؟ اسرائیلی حکومت کی مذمت یا اس کی سیاسی اور فوجی پالیسی پر تنقید کا یہودی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نائن الیون کے بعد اسلام میں انتہا پسند ی پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ اسلامی دنیا میں بعض اس تنقید سے Offended بھی ہوۓ تھے۔ لیکن ایک بڑی اکثریت نے حقیقت پسند ہونے کا ثبوت دیا تھا۔ اسرائیلی حکومت اپنے ہر سیاسی اور فوجی ایکشن  کی مخالفت کو Anti-Semites  کہتی ہے۔ 70 سال سے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے الزامات میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن فلسطینیوں کی مزاحمت کی تحریک سے اسرائیل آج دنیا کی بڑی طاقتوں میں شمار ہونے لگا ہے۔
    مڈل ایسٹ میں اسرائیلی طاقت ایکشن Mode میں ہے۔ اسرائیل نے ایران ایٹمی سمجھوتہ کو امریکہ کے ذریعہ ختم کرایا ہے۔ حالانکہ عالمی برادری کی بھاری اکثریت نے اس سمجھوتہ کی حمایت کی تھی۔ امریکہ کے نیٹو، G-7 کے قریبی یورپی اتحادیوں نے امریکہ سے ایران ایٹمی سمجھوتہ میں ان کے ساتھ شامل رہنے کی اپیلیں کی تھیں۔ فرانس کے صدر Emmanuel Macron اس مقصد سے خصوصی طور سے واشنگٹن آۓ تھے۔ اور صدر ٹرمپ سے ذاتی طور پر ایران ایٹمی سمجھوتہ میں شامل رہنے کی درخواست کی تھی۔ صدر ٹرمپ نے ان کی درخواست کا مثبت جواب نہیں دیا تھا۔ پھر جرمن چانسلر Angela Merkel بھی یہ ہی درخواست لے کر وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ کے پاس آئیں تھیں۔ لیکن صدر ٹرمپ نے ان کی درخواست کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔ پھر برطانیہ کے سیکرٹیری خارجہ Boris Johnson بھی اسی درخواست کے ساتھ واشنگٹن آۓ تھے۔ لیکن وہ بھی خالی ہاتھ واپس گیے تھے۔ لیکن امریکہ Almighty Israel کے Influence میں تھا۔ ایران ایٹمی سمجھوتہ  سے امریکہ کو نکالنے کی حکمت عملی دراصل اسرائیلی حکومت کا امریکہ کے خارجی امور میں نائن الیون تھا۔ جس نے امریکہ اور یورپ کے تعلقات اب ہمیشہ کے لئے بدل دئیے ہیں۔ یورپ اب مشرق کی طرف دیکھ رہا ہے۔ جرمنی نے روس کے ساتھ نئے تعلقات کی اہمیت کو محسوس کیا ہے۔ چانسلر مرکل نے کسی تاخیر کے بغیر ماسکو کا دورہ کیا اور صدر پو تن سے باہمی امور پر بات چیت کی اور دونوں ملکوں میں تعلقات فروغ دینے کا اعادہ کیا۔ چانسلر مر کل نے  صدر پو تن کے ساتھ آئل اور گیس کے معاہدوں پر دستخط کیے۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں میں تجارت بڑھانے پر بھی اتفاق کیا۔ یہ اسرائیلی پاور ہے جو دنیا کو بدل رہی ہے۔ پرانے Alliance ٹوٹ رہے ہیں۔ امریکہ پر نائن الیون کے حملہ میں 14  سعودی اور 5 مصری ہائی جیکر ز تھے۔ لیکن آج اسرائیل کے مصر اور سعودی عرب سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ مصر اور سعودی عرب کی اسرائیل کے ساتھ اس Understanding کا نتیجہ ہے کہ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے یہ بیان دیا ہے "ایران دنیا میں دہشت گردی کرا رہا ہے۔" اب اگر سعودی عرب کی اسرائیل کے ساتھ Understanding نہیں ہوتی تو پھر یہ کہا جاتا کہ سعودی اسلامی دنیا میں مدرسوں اور مسجدوں کے ذریعہ وہابی Radical Islam کو فروغ دے رہا ہے۔ امریکہ نے مڈل ایسٹ کو Democracy اور Rule of Law میں Transform کرنے کے پروجیکٹ پر 500 ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔ لیکن قاہرہ میں جمہوریت اسرائیل کو پسند نہیں آئی تھی۔ یہ حکومت مصری عوام کے 60فیصد ووٹوں سے اقتدار میں آئی تھی۔ اسرائیل نے مصر میں Meddling کی اور مصری جنرلوں کے ساتھ Collusion سے General Abdel Fattah el-Sisi مصر کے نئے فوجی ڈکٹیٹر بن گیے۔ مصر میں شہری آزادیاں ایک کرائم ہے۔ صحافت پر بندشیں ہیں۔ انسانی حقوق کو غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔ فوجی حکومت کے مخالفین سے جیلیں بھری ہوئی ہیں۔ سیاسی بنیادوں پر پھانسیوں کی سزائیں دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن فوجی حکومت کے کیونکہ اسرائیل سے اچھے تعلقات ہیں۔ اس لئے مصر کی طرف امریکہ کی آنکھیں بند ہو گئی ہیں اور اسرائیل نے امریکہ کی آنکھیں ایران کی طرف  مرکوز کر دی ہیں۔ عالمی میڈیا نے بھی مصر کو بالکل بلیک آؤٹ کر دیا ہے۔ اور یہ اسرائیل کی پاور ہے۔
     چند ہفتہ پہلے Russia Today کے پروگرام Cross Talk میں امریکہ کے سابق سفیر Richard Murphy سے یہ پوچھا گیا تھا کہ آخر شام نے اسرائیل کے خلاف کیا کیا تھا کہ شام کو بالکل تباہ کر دیا ہے۔ سابق سفیر Richard Murphy نے کہا کیونکہ شام نے اسرائیل سے بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جس پر Anchor نے کہا صرف اس لئے شام کو تباہ کر دیا کیونکہ اسد نے اسرائیل سے بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ سابق سفیر نے کہا نہیں کچھ اور وجوہات بھی تھیں۔ جس کی انہوں نے تفصیل نہیں بتائی۔
    عرب اسپرنگ تحریک کا سیلاب جب بحرین کی سڑکوں پر پہنچ گیا تھا۔ امیر بحرین حماد بن عیسا الخلیفہ کا زوال قریب نظر آ رہا تھا۔ سعودی عرب نے امیر بحرین کو بچانے لئے فوجی مداخلت کی تھی۔ دوسری طرف امیر بحرین نے جلدی سے اسرائیل سے مذاکرات کر لئے جس سے امیر بحرین کو اقتدار میں رہنے کے لئے آکسیجن مل گئی تھی۔ ورنہ تو بحرین بھی شام بننے جا رہا تھا۔ امیر بحرین آج اللہ کی طرف دیکھنے سے پہلے Almighty Israel کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے ان کا اقتدار بچایا تھا۔ بحرین اب عالمی میڈیا کے ریڈار سے غائب ہو گیا ہے۔ امیر بحرین اپنے مخالفین کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں۔ دنیا کو یہ جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔
    سوڈان کے صدر عمر حسن البشر نے جب یہ دیکھا کہ اسرائیل کس طرح عرب دنیا کے دکھی اور مصیبت زدہ حکمرانوں کا علاج کر رہا تھا۔ تو صدر عمر حسن البشر نے بھی اپنی مصیبتوں کا علاج کروانے کے لئے اسرائیل سے مذاکرات شروع کر دئیے۔ صدر عمر کے خلاف Hague میں International Criminal Court نے دارفور میں 2.5ملین لوگوں کا Genocide ہونے کے الزام میں گرفتار کرنے کے وارنٹ جاری کیے تھے۔  کورٹ نے Interpol   سے صدر عمر کو گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔ صدر عمر کو اسرائیل سے مذاکرات کر نے سے افادہ ہوا ہے۔ صدر عمر کے خلاف عالمی عدالت میں کیس ریڈار سے غائب ہو گیا ہے۔ صدر عمر ابھی تک سوڈان کے صدر ہیں۔
    صدر کرنل معمر قد افی نے بڑی حماقت کی تھی کہ اپنے مہلک ہتھیا ر لے کر واشنگٹن، پیرس اور لندن کے سامنے کھڑے  ہو گیے تھے۔ صدر قد افی کو انہیں Dump کر کے اسرائیل سے مذاکرات کرنا چاہیے تھے۔ امریکہ فرانس اور لندن میں اپنے تیل کی دولت Invest کرنے کے بجاۓ صدر قد افی اسرائیل میں Invest کرنے کی پیشکش کرتے تو صدر قد افی آج زندہ ہوتے۔ اقتدار میں ہوتے اور لیبیا بھی ان کے ساتھ زندہ سلامت ہوتا۔
   اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ عرب حکمران فلسطین کے تنازعہ کے حل میں اسرائیل کو کیا Favor دیں گے؟         
                                                                                                                                                                                                                                                                      

No comments:

Post a Comment