Democracy And Rule Of Law Are National Security Issues
These Are New Borders of National Security, The Army Has To Protect And Defend It
مجیب خان
Prime Minister Nawaz Sharif meets with Army General Raheel Sharif |
President Asif Ali Zardari and Army Chief General Ashfaq Pervez Kayani |
Imran Khan |
Pakistan Tehreek- e - Insaf's Election Rally in Mian Walli |
'جمہوریت اور قانون کی حکمرانی' اب قومی سلامتی کے ایشو ز ہیں۔ پاکستان میں سب اس پر اتفاق کرتے ہیں۔ اور فوج نے بھی یہ قبول کرتے ہوۓ اپنے ایک نئے رول کا تعین کیا ہے۔ فوج اب ملک میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا اسی طرح تحفظ کرے گی جیسے یہ ملک کی سرحدوں کا دفاع کرتی ہے۔ لیکن جو پرانی دنیا میں ہیں اور ان کے Mind set ہیں وہ فوج کے اس نئے رول کو سیاست میں فوج کی مداخلت دیکھیں گے۔ فوج پرانے رول میں اب واپس جانا نہیں چاہتی ہے۔ اور سیاستدان اپنے پرانے رول سے نکل کر ایک نیا رول اختیار کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف دنیا میں یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ فوج انتخابات میں مداخلت کر رہی ہے۔ اور ایک ایسی حکومت اقتدار میں لانا چاہتی ہے جو کمزور ہو اور فوج کے اشاروں پر چلے۔ یہ ایک Nonsense تاثر ہے۔ کمزور حکومت وہ ہوتی ہے جس پر کرپشن کے داغ ہوتے ہیں۔ اور اس میں Guilty ہونے کا خوف ہوتا ہے۔ اور اس خوف سے وہ کمزور حکومت ہوتی ہے۔ لیکن جس حکومت پر کرپشن کے داغ دھبے نہیں ہوتے ہیں۔ وہ کسی خوف کے بغیر مضبوط حکومت ہوتی ہے۔ چیف جسٹس چوہدری افتخار محمد نے 4سال تک صدر زر داری کو کرپشن کے کیس میں خوفزدہ کر کے رکھا تھا۔ اور بش انتظامیہ نے ایک خوفزدہ اور کمزور زر داری حکومت کو manipulate کیا تھا۔ لیکن جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس سے اتفاق کیا تھا کہ ملک میں جمہوری عمل کو جاری رکھا جاۓ اور قانون کی حکمرانی قائم کی جاۓ۔ 2008 میں زر داری کے صدر بننے پر اسلام آباد میں نیویارک ٹائمز کی نمائندہ سے گفتگو میں جنرل کیانی نے کہا کہ "ہم زر داری کو پسند نہیں کرتے ہیں اور نواز شریف پر ہمیں بھر و سہ نہیں ہے۔" لیکن فوج میں زر داری اور نواز شریف کے بارے میں اس تاثر کے باوجود دونوں کو اقتدار میں آنے کا موقع دیا گیا تھا۔ اور دونوں نے اپنے اقتدار کی میعاد پوری کی تھی۔ نواز شریف کو کسی نے کرپشن کے کیس میں setup نہیں کیا ہے۔ نواز شریف نے خود اپنے آپ کو ان cases میں setup کیا ہے۔ نواز شریف کی وزیر اعظم کے عہدے سے بر طرفی کے بعد ان کی پارٹی نے اقتدار کی میعاد پوری کی ہے۔ جمہوری عمل جاری رکھا گیا تھا۔ اور اس میں کسی طرف سے کوئی دخل اندازی نہیں کی گئی تھی۔ اور یہ جمہوریت اور قانون کی بالادستی کی ایک بڑی کامیابی تھی۔
2008 میں پاکستان کے ارد گرد کے حالات انتہائی خطرناک تھے۔ پاکستان کی بقا ان حالات کی زد میں تھی۔ افغانستان میں طالبان کے خلاف امریکہ اور نیٹو کی جنگ ہو رہی تھی۔ قبائلی علاقہ اسلامی دہشت گردوں کے گٹھ بنے ہوۓ تھے۔ یہاں سے یہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کرتے تھے۔ پاکستان کے اندر اسلامی دہشت گرد تنظیمیں مختلف عقیدوں اور فرقوں پر حملہ کر رہی تھیں۔ فوج ایک طرف بھارت کے ساتھ سرحدوں پر اور دوسری طرف افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحدوں پر مصروف تھی۔ ان حالات میں پاکستان میں انتخابات ہوۓ تھے۔ جنرل پرویز مشرف کا دس سال کا دور اقتدار ختم ہوا تھا۔ اور حکومت کا نظام سیاسی جماعتوں کے حوالے کیا گیا تھا۔ جمہوریت جب بھی بحال ہوئی ہے یہ سیاسی المیہ رہا ہے کہ جنرل ضیا الحق حکومت کے دس سال بعد سیاستدان سیدھے نہیں ہوۓ تھے۔ اور جنرل پرویز مشرف حکومت کے دس سال بعد بھی سیاستدان سیدھے نہیں ہوۓ تھے۔ تاریخ میں جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت کے بعد صدر آصف علی زر داری کی جمہوری حکومت کو بد ترین دور دیکھا جاۓ گا۔ الزامات کی سیاست کرنا سب سے آسان ہے۔ لیکن اپنے آپ کو الزام دینا سب سے مشکل ہے۔ حکومت میں اور اپوزیشن میں ان کے Behaviors سے جمہوریت کو ہمیشہ نقصان پہنچا ہے۔ اور یہ Facts ہیں۔
حکومت میں آنے کے بعد صدر زر داری اور وزیر اعظم گیلانی کی پہلی ذمہ داری یہ تھی کہ پاکستان کو افغان جنگ کے اثرات سے بچانے اور پاکستان کے اندر اسلامی انتہا پسندی کے خلاف ایک سیاسی حکمت عملی تیار کی جاتی۔ اس میں تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو شامل کیا جاتا۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ سیاسی کوششیں کی جاتی۔ دہشت گردی کو جنگ کی صورت بننے سے روکا جاتا۔ اسے جنگ قرار دے کر فوج کو سیاست میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا موقعہ نہیں دیا جاتا۔ بے نظیر بھٹو شاید ایک ایسی ہی حکمت عملی کو اہمیت دیتیں۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ دراصل بش انتظامیہ کا setup تھا۔ جس میں پاکستان کو fit کیا جا رہا تھا۔ اور صدر زر داری اس میں fit ہونے کے لئے تیار تھے۔ بش انتظامیہ کے مشورے پر صدر زر داری نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا ٹھیکہ فوج کو دے دیا تھا۔ ان سے یہ کہا گیا تھا کہ آپ حکومت کرو گے اور فوج دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑے گی۔ جیسے 1960s میں فوج بلوچوں کے خلاف کاروائیوں میں مصروف رہتی تھی اور پنجاب پاکستان پر حکومت کرتا تھا۔ 21ویں صدی کی دوسری دہائی کے آغاز پر امریکہ کی یہ تجویز پیپلز پارٹی کی حکومت بلکہ مسلم لیگ ن اور دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی بہت پسند آئی تھی۔ پاکستان میں جمہوریت کا یہ بھی المیہ ہے کہ سیاستدانوں نے کبھی دور اندیش ہونے کا ثبوت نہیں دیا ہے۔ انہوں نے اس پر غور تک نہیں کیا تھا کہ ان کے لئے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کا End game کیا ہو گا۔ یہ جنگ کتنی طویل ہو گی؟ اور وہ اس جنگ میں کہاں تک گھسیٹے جائیں گے؟ اس جنگ کے اثرات پاکستان پر کیا ہوں گے؟ آصف علی زر داری کی ذہنی نشو و نما بمبینو سینما کی دھکم پیل دنیا میں ہوئی تھی۔ لہذا یہ سوال ان کی سوچ سے باہر تھے۔ صدر زر داری نے ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کے لئے کہا کہ " میں نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو یہ مکمل اختیار دے دیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف جہاں چاہیں اور جب چاہیں کاروائی کریں۔" اپنے اس فیصلے سے ایک طرح سے انہوں نے اپنی آدھی حکومت جنرل کیانی کو دے دی تھی۔ اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کا ٹھیکہ اپنے Bull Shit وزیر داخلہ رحمان ملک کو دے دیا تھا۔ فوج کو مصروف رکھنے اور قوم کو دہشت گردوں کے عذاب میں رکھنے کے لئے زر داری، گیلانی، رحمان ملک نے پاکستان کی تمام سرحدیں کھول دی تھیں۔ واہاگہ کے راستے بھارت سے لاہور بس سروس میں اضافہ کر دیا تھا۔ سندھ میں اٹاری کے راستہ بھارت سے ٹرینوں کی آمد رفت بحال کر دی تھی۔ ملک میں اندھیرا کر دیا تھا۔ پاکستانی ویزے کے بغیر غیر ملکی ایجنسیوں کے لوگوں کی اسلام آباد ایرپورٹ پر بمبینو سینما والی دھکم پیل ہونے لگی تھی۔ صدر زر داری کے حکم پر Bull Shit وزیر داخلہ رحمان ملک نے انہیں بلیک میں ویزے دئیے تھے۔ پاکستان ہر طرف سے حملوں کی زد میں تھا۔ اور عوام نے جنہیں منتخب کیا تھا۔ یہ ان کے احمقانہ فیصلے تھے۔ امریکہ میں نائن الیون کے بعد تمام ائر پورٹ فوری طور پر بند کر دئیے گیے تھے۔ سرحدوں کی سخت نگرانی کا حکم دیا گیا تھا۔ انڈونیشیا بالی میں خوفناک دہشت گردی کے واقعہ کے بعد جب حکومت کو یہ پتہ چلا کہ دہشت گرد انڈونیشیا کے شہری تھے۔ جنہوں نے پاکستان میں مدرسوں میں تعلیم حاصل کی تھی اور یہ وہاں انتہا پسند ہو گیے تھے۔ انڈونیشیا کی حکومت نے پاکستان کے مدرسوں سے اپنے تمام طالب علموں کو واپس بلا لیا اور پاکستان سے انڈونیشیا آنے والوں کو ویزے دینے میں سختی کر دی تھی۔ جو ویزے کے لئے درخواست دیتے تھے ان کی پہلے جانچ پڑتال ہوتی تھی۔ اس میں 4 سے 6 ہفتہ لگ جاتے تھے۔ پہلے یہ ویزے تین چار دن میں دے دئیے جاتے تھے۔ ہر حکومت اپنے ملک کے امن اور شہریوں کی سلامتی اور حفاظت کے لئے اقدامات کرتی ہے۔ اور حکومت ایسے حالات کو بڑی سنجیدگی سے لیتی ہے۔ لیکن پاکستان میں سیاستدانوں نے ایسے حالات کو سنجیدگی سے لینے کی ذمہ داری فوج کو دے دی تھی۔ اور خود Sidelines پر کھڑے ہو گیے تھے۔ دنیا ہنستی ہے کہ پاکستان ایک بڑا اسلامی ملک ہے اور اس ملک میں مسلمانوں نے مسلمان کے خلاف سب سے زیادہ دہشت گردی کی ہے۔ یہ سیاسی لیڈروں کا المیہ ہے کہ وہ حالات کو سنبھالنے اور انہیں قابو میں رکھنے کی صلاحیتیں نہیں رکھتے ہیں۔ ہمیشہ فوج کی طرف مدد کے لئے دیکھتے ہیں۔ اور پھر فوج کو سیاست میں مداخلت کرنے کا الزام بھی دیتے ہیں۔ یہ مشکل ترین سیاستدان ہیں جن کی وجہ سے ایک تہائ مشکلات کا پاکستان کو سامنا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی تین مرتبہ اقتدار میں آئی ہیں۔ لیکن انہوں نے ابھی تک Good Governance کی مثال قائم نہیں کی ہے۔ تینوں مرتبہ انہیں ‘F’ ملا ہے اور حکومت کرنے میں فیل ہوۓ ہیں۔
Definition of good governance, ‘Good Governance is the process whereby public institutions conduct public affairs, manage public resources and guarantee the realization of human rights in a manner essentially free of abuse and corruption, and with due regard for the rule of Law.’
No comments:
Post a Comment