News Of The Century: In The Seventy Year History, For The First Time America Didn’t Meddle In Pakistan’s Elections--- Good News
THANK YOU, MR. PUTIN
مجیب خان
عوام کا فیصلہ آ گیا ہے۔ عوام نے
قیادت تبدیل کرنے کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ پانچ سال پہلے عوام نے تیسری اننگ کے
بعد پیپلز پارٹی کو گھر بھیج دیا تھا۔ اور اس مرتبہ عوام نے مسلم لیگ ن کو تیسری
اننگ میں سیاست سے آ ؤ ٹ کر دیا ہے۔ ان کے ضمیر نے مسلم لیگ ن کو چوتھی اننگ
کھیلنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اور یہ عوام میں سیاسی شعور آنے کی علامت ہے۔ عوام نااہل،
کر پٹ اور نام نہاد سیاستدانوں سے پاکستان کا پیچھا چھوڑ انا چاہتے ہیں۔ اور اسے
انتخابی عمل کہتے ہیں۔ اب Political
Losers کی ذمہ داری ہے کہ وہ جمہوری عمل کا احترام کریں۔ اور جمہوریت کو
اپنی جڑیں پھیلانے کا موقعہ دیں۔ جمہوریت سے اگر انہیں واقعی عقیدت ہے تو عوام کے
فیصلے کو کھلے دل سے قبول کریں۔ جمہوری عمل کو Derail کرنے کی کوشش مت کریں۔ پاکستان کو 1977 میں مت لے
جائیں۔ انتخابات میں شکست کے دوسرے دن جب نیا سورج طلوع ہو تو اس سورج کی روشنی
میں اپنی شکست کی وجوہات دیکھیں۔ ان وجوہات کا ازالہ کریں اور پھر 2023 میں چوتھے
الیکشن کے لئے ابھی سے تیاری کریں۔
پاکستان کے لوگوں کے لئے News of the Century یہ ہے کہ 70سال کی تاریخ میں پہلی
مرتبہ امریکہ نے پاکستان کے الیکشن میں Meddling نہیں کی ہے۔ اور یہ الیکشن کی بڑی Headline ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ، اسٹیٹ
ڈیپارٹمنٹ اور پینٹاگان کی طرف سے پاکستان میں الیکشن پر کوئی تبصرہ کرنے سے گریز
کیا گیا تھا۔ اور نہ ہی فوج کی نگرانی میں الیکشن ہونے پر کسی طرف سے کوئی رد عمل
ہوا تھا۔ امریکی میڈ یا نے بھی پاکستان میں الیکشن کی سیاست میں سنسنی خیز ی پھیلانے
سے گریز کیا تھا۔ تاہم اخبارات میں رائٹر اور AP کی پاکستان میں انتخابی مہم پر کچھ رپورٹیں شائع ہوئی تھیں۔ جن
میں بھارتی angle نظر آتا تھا۔ پاکستان کی فوج کو
یہ کہہ کر ٹارگٹ کیا گیا تھا کہ فوج انتخابات میں اپنی پسند کے امیدوار کو آگے لا
رہی ہے۔ اور عمران خان فوج کے امیدوار ہیں۔ کبھی یہ لکھا گیا کہ فوج یہ دیکھنا
نہیں چاہتی ہے کہ قومی اسمبلی میں کسی ایک
پارٹی کو اکثریت حاصل ہو جاۓ اور پھر ایک مضبوط حکومت بن جاۓ۔ پھر یہ کہا گیا کہ
اگر قومی اسمبلی میں کسی پارٹی کی اکثریت نہیں ہو گی تو اس صورت میں ایک کمزور
مخلوط حکومت بننے گی اور فوج کے لئے ایک ایسی حکومت کو اپنے انفلوئنس میں رکھنا آسان
ہو گا۔ لیکن ان رپورٹوں میں کبھی یہ سوال نہیں کیے تھے کہ آخر سیاسی لیڈروں میں
فوج کو اپنے انفلوئنس میں رکھنے کی صلاحیت اور قابلیت کیوں نہیں تھی۔ جنرل وزیر
اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے تھے۔ انہوں نے کبھی وزیر
اعظم بھٹو کی خارجہ پالیسی میں مداخلت کی تھی اور نہ ہی ان کی ڈیفنس پالیسی سے
اختلاف کیا تھا۔ فوج کو بھٹو کی ذہانت اور قابلیت پر مکمل اعتماد تھا۔ جنرل سکون
سے سوتے تھے کہ ملک محفوظ ہاتھوں میں تھا۔
یہ اخباری رپورٹیں one sided تھیں ان میں نواز شریف کی حکومت
میں کرپشن اور ان کے خلاف کرپشن کیس میں عدالتوں کے فیصلوں کا ذکر نہیں تھا۔ عوام
میں زر داری کی پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی مسلم لیگ کی کارکردگی اور Credibility کے بارے میں کیا راۓ عامہ تھی۔ اس
کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ دونوں پارٹیوں نے کس حد تک عوام کو در پیش مسائل سے نکالا
تھا۔ بے روز گاری، امن و امان اور کرائم ز کی صورت حال کے بارے میں کچھ نہیں بتایا
تھا۔ ان رپورٹوں کو حکومت کے پانچ سال دور کو فوکس کیا جاتا۔ لیکن یہ خصوصیت سے نوٹ
کیا جاتا ہے کہ ایسی رپورٹیں کسی ایجنڈہ کے
مطابق ہوتی ہیں۔ ایسی حکومتیں جن میں بد انتظامی زیادہ ہوتی ہے۔ کرپشن ہوتا ہے۔ جو
ملک میں Chaos رکھنے کی سیاست کرتی ہیں۔ ان کو زیادہ
فوکس نہیں کیا جاتا ہے۔ بلکہ ان کے مقابلہ پر جو سیاسی جماعتیں Good Governance کی بات کرتی ہیں انہیں ٹارگٹ کیا جاتا
ہے۔ اس لئے امریکی میڈیا میں رپورٹیں نواز شریف حکومت کے بارے میں ذرا Favorable تھیں۔
پاکستان میں 1977 کے انتخابات میں
امریکہ کی Meddling نے جمہوری عمل کو Derail کیا تھا۔ جمہوریت تباہ ہو گئی
تھی۔ آئین پامال ہو گیا تھا۔ پاکستان کی آزادی کے صرف 30سال میں تیسری مرتبہ فوج
اقتدار میں آئی تھی۔ اور امریکہ میں یہ لکھا جاتا ہے کہ پاکستان کی آزادی کے نصف
سے زیادہ دور فوجی حکومتوں کا تھا۔ حالانکہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد فوج
کا اقتدار پر قبضہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اس لئے آئین اور قانون کی حکمرانی
قائم کی گئی تھی۔ اور آئین کی خلاف ورزی کی سزا موت تجویز کی گئی تھی۔ مشرقی
پاکستان کی علیحدگی کے صرف 7سال بعد انتخابات میں دھاندلیوں کے نام پر ملک کو جنگ
کا محاذ بنا دیا تھا۔ جن پارٹیوں کا محاذ انتخابات کے نتائج تسلیم نہیں کرتا تھا
وہ سب Losers تھے۔ سیاست میں
شکست ان کا مقدر تھا۔ جو نام نہاد قوم پرست، ترقی پسند، کرپٹ اور موقعہ پرست مذہبی
عناصر تھے۔ جو بھاری اکثریت سے الیکشن کبھی جیت نہیں سکتے تھے۔ مذہبی جماعتیں
ساڑھے تین نشستوں سے زیادہ حاصل نہیں کر سکتی تھیں۔ Chaos پھیلانا ان کا Political DNA تھا۔ امریکہ نے ان کے لئے پاکستان میں Meddling کی تھی۔
پاکستان میں Chaos پھیلایا تھا۔ ایک
منتخب آئینی اور جمہوری حکومت کے خلاف ان کی تحریک میں ہزاروں اور لاکھوں ڈالر
انویسٹ کیے تھے۔ پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنے کے لئے پہیہ جام ہڑتالیں کرائی تھیں۔
یہ صرف اس لئے کرایا جا رہا تھا کہ امریکہ کو ری پروسسنگ پلانٹ کے مسئلہ پر وزیر
اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے شدید
اختلاف ہو گیے تھے۔ تیسری دنیا میں جب بھی امریکہ کو حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف
ہو جاتا تھا۔ وہاں سی آئی اے کے ذریعہ Meddling کی جاتی تھی۔ اور حکومت کا خاتمہ کر دیا جاتا تھا۔ اس کے نتائج کی
امریکہ نے کبھی پرواہ نہیں کی تھی۔ 1977 کے انتخابات سے چند ماہ قبل ہنری کسنگر ری
پروسسنگ پلانٹ کے مسئلہ پر بات کرنے پاکستان آۓ تھے۔ لاہور میں وزیر اعظم بھٹو سے
اس مسئلہ پر بات چیت میں کوئی کامیابی نہیں ہونے پر Kissinger threatened Bhutto “that if you (Bhutto)
do not cancel, modify or postpone the Reprocessing Plant Agreement (with France),
we will make a horrible example of you.”
The meeting was ended by
Bhutto as he replied: “For my country’s sake, for the sake of the people of
Pakistan, I did not succumb to the blackmailing and threats.”
Bhutto and his cabinet walked
away and left Kissinger and his delegation alone in the room.
4 جولائی 1977 کو اسلام
آباد میں امریکہ کے سفارت خانہ میں امریکہ کی یوم آزادی کا جشن منایا جا رہا تھا۔
وزیر اعظم بھٹو، اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیا
الحق نے اس تقریب میں شرکت کی تھی۔ امریکی سفیر Art Hummel نے چند روز قبل
اپنا سفارتی عہدہ سنبھالا تھا۔ ان کی اسلام آباد آمد سے قبل Peter Constable ڈپٹی چیف آف مشن پاکستان کی
اندرونی صورت حال سے واشنگٹن کو آگاہ رکھتے تھے۔ وزیر اعظم بھٹو نے کوٹ لکھ پت جیل
سے اپنے ایک مضمون میں 4 جولائی کو امریکی سفارت خانہ میں امریکی سفیر Art Hummel سے اپنی ملاقات کے بارے میں بتایا
تھا کہ امریکی سفیر نے ان سے کہا کہ “Mr.
Prime Minister Party is over” اور پارٹی واقعی 4 اور 5 جولائی کی درمیانی رات ایک اور دو بجے کے
درمیان over ہو گئی تھی۔
جنرل ضیا الحق امریکی سفارت خانہ میں جشن آزادی کی تقریب میں شرکت کرنے کے بعد
اپنے ساتھی جنرلوں کے ساتھ شاید سیدھے پرائم منسٹر ہاؤ س گیے تھے۔ وزیر
اعظم بھٹو اور ان کی کابینہ کے وزرا کو
حراست میں لے لیا تھا۔ جمہوریت کی عمارت dismantled کر دی تھی۔ یہ Meddling تھی جو بعد میں پاکستان اور خطہ میں تمام مسائل کی ماں ثابت ہوئی
تھی۔ 17 سال سے امریکہ افغانستان میں ہے
جو اس Meddling کے اثرات کا
نتیجہ ہے۔ 1977 کے انتخابات میں Losers کی دھاندلیوں کے الزام کی
حمایت کر کے امریکہ آج افغانستان پاکستان اور اس خطہ میں Loser نظر آ رہا ہے۔
اگر 1977 میں پاکستان میں Meddling نہیں کی جاتی اور جمہوری عمل کو
جاری رکھنے میں پاکستان کی مدد اور تعاون کیا جاتا تو آج پاکستان اور یہ خطہ ضرور
بہت مختلف ہوتا۔ ری پروسسنگ پلانٹ کے مسئلہ پر وزیر اعظم بھٹو سے مذاکرات کا سلسلہ
جاری رکھا جاتا۔ پاکستان شاید ایٹمی ہتھیار بھی نہیں بنا تا اگر امریکہ کشمیر کا
تنازعہ حل کرانے میں اپنی سرگرمی دکھاتا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے
تنازع پر تین جنگیں ہو چکی تھیں۔ اس تنازعہ کی وجہ سے پاکستان کو اپنی سلامتی کے
مفاد میں ایٹمی ہتھیاروں پر انحصار کرنا پڑا تھا۔ 1971 میں بھارت نے پاکستان کے
داخلی معاملات میں مداخلت اور پھر جارحیت کر کے پاکستان کے ٹکڑے کر دئیے تھے۔ کسی
نے بھارت کو اس جارحیت سے نہیں روکا تھا۔ ہنری کسنگر پاکستان کی اس پوزیشن کو سمجھنے
کے بجاۓ لاہور میں وزیر اعظم بھٹو کو دھونس اور دھمکیاں دینے لگے تھے۔ وزیر اعظم
بھٹو کی پالیسی دور اندیشی کی تھی۔ کشمیر کا تنازعہ اگر حل نہیں ہو گا تو بھارت
پاکستان کے خلاف جارحیت بھی نہیں کرے گا۔ 1977 میں صرف ایک غلط فیصلہ کے نتیجہ میں
امریکہ کو اس خطہ میں کتنی ناکامیوں کا سامنا ہوا ہے۔
No comments:
Post a Comment