Thursday, July 12, 2018

Pakistan: Election 2018, Political And Democratic Process Is Working


Pakistan: Election 2018, Political And Democratic Process Is Working

مجیب خان
  
Imran Khan addressing an election rally

Nawaz Sharif  political Shaheed in corruption cases

Asif Ali Zardari had been acquitted in corruption cases and became Ghazi 

    پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ Consecutive الیکشن ہو رہے ہیں۔ آئین کے مطابق حکومت کی میعاد پوری ہونے کے بعد 25 جولائی کو تیسرے انتخابات ہوں گے۔ پاکستان میں جمہوریت اور انتخابات کی بنیاد 1973 کے آئین نے ر کھی تھی۔ 1977 میں اس آئین کے پہلے عام انتخابات ہوۓ تھے۔ جسے ان سیاسی پارٹیوں نے دھاندلیوں کے نام پر سبوتاژ کیا تھا۔ جن کے رہنماؤں نے 1973 کے آئین پر دستخط کیے تھے۔ اور اس آئین کا تحفظ کرنے کا حلف بھی اٹھایا تھا۔ پاکستان میں اس جمہوری تاریخ کا یہ المیہ تھا کہ سیاسی رہنماؤں نے انتخابات کے نتائج قبول کرنے سے انکار کر کے جمہوریت اور آئینی عمل کو تشدد اور سڑکوں پر سیاسی غنڈہ گردی کی سیاست سے Derail  کر دیا تھا۔ ان میں مذہبی قدامت پسند، سیکولر، قوم پرست، ترقی پسند سوشلسٹ جماعتیں برابر کی شامل تھیں۔ ان کا مشترکہ مفاد جمہوریت اور آئین کی حکمرانی کو کسی طرح Derail کرنا تھا۔ اور ان کا یہ محاذ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تھا۔ اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوۓ تھے۔ میں اس وقت یونیورسٹی میں تھا۔ اور میری ان دوستوں سے بڑی بحث ہوتی تھی جو پی این اے  کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر سرگرمی دکھا رہے تھے۔ اور آئین اور جمہوریت کو Derail کرنا چاہتے تھے۔ میری ان سے بحث میں یہ دلیل ہوتی تھی کہ 1973 کے آئین کے تحت یہ پہلے انتخابات ہیں۔ اور اس جمہوری عمل کو ایک شخص سے نفرت میں Derail نہیں کیا جاۓ۔ یونیورسٹی میں یہ بحث فوزیہ گوہر (وہاب) سے بھی ہوتی تھی جو اس وقت پی این اے کی تحریک کی حمایت کرتی تھیں۔ اور یہ کہتی تھیں کہ بھٹو مسولین اور فاشسٹ ہے۔ میں ان سے کہتا تھا کہ بھٹو جو بھی ہے پی این اے میں شامل ان تمام لیڈروں سے بہت بہتر ہے۔ اور اسے سڑکوں پر دہشت گردی کی سیاست سے ہٹانے کے بجاۓ ایک جمہوری طریقہ اختیار کیا جاۓ جو انتخابات کا طریقہ ہے۔ دو تین انتخابات کے بعد سیاسی عمل بہتر ہوتا جاۓ گا۔ لیکن آئین اور انتخابات کے عمل کو نقصان نہیں پہنچایا جاۓ۔ بہرحال میرا موقف اور دلیل اس وقت بالکل درست تھی۔ پاکستان آخر کار آئین اور انتخابات کے ذریعہ حکومت تبدیل کرنے کے Track پر آ گیا ہے۔ تاہم 40 سال کے جو حقائق ہیں وہ یہ ثبوت دیتے ہیں کہ 1973 کے آئین کے تحت جو پہلے انتخابات ہوۓ تھے ان کا سیاسی عمل کسی نہ کسی صورت میں جاری رہا تھا۔
   جنرل ایوب خان نے 1956 کا آئین ختم کر دیا تھا اور اس کی جگہ اپنا ایک نیا صدارتی نظام کا آئین رائج کر دیا تھا۔ لیکن جنرل ضیا الحق نے 1973 کا آئین معطل کر دیا تھا اسے پھاڑ کر نہیں پھینکا تھا۔ سیاسی عمل کو اس طرح جاری رکھا تھا کہ جلد ہی جماعت اسلامی کو اپنی B team بنا لیا تھا اپنی فوجی حکومت میں کابینہ کے عہدہ جماعت اسلامی کو دے دئیے تھے۔ پی این اے میں شامل سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی جنرل ضیا سے  ہم آہنگی ہو گئی تھی۔ اور ان سب نے 90دن میں انتخابات نہ کرانے پر اتفاق کیا تھا۔ مذہبی جماعتوں نے جمہوریت بحال کرنے کے بجاۓ پاکستان  میں پہلے Islamization کا Processes شروع کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ جس سے جنرل ضیا الحق نے اتفاق کیا تھا۔ جنرل ضیا مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کو اپنی فوجی حکومت کے مقاصد میں استعمال کر رہے تھے۔ اور یہ لیڈر جنرل ضیا کی فوجی حکومت کے مقاصد کی تکمیل کر رہے تھے۔ اور دوسری طرف جنرل ضیا سے ایک عظیم سیاسی ہستی کو سیاسی منظر سے Eliminate کرنے کا کام لے رہے تھے۔ یہ کسی بھی معیار سے سیاسی لیڈر کہنے کے حقدار نہیں تھے۔ انہوں نے 1977 میں انتخابات اور ایک آئینی انتخابی  جمہوری عمل کو Derail کرنے کی جو مہم چلائی تھی۔ آخر میں یہ خود بھی اس میں بہہ گیے تھے۔ جماعت اسلامی اس تحریک میں سب سے آ گے تھی۔ جنرل ضیا نے جس دن جماعت اسلامی کو اپنی حکومت سے نکالا تھا۔ اس دن پاکستان کی سیاست میں جماعت اسلامی کا سورج بھی ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا تھا۔ جمعیت علماۓ اسلام کی مذہبی اور سیاسی ساکھ گر گئی تھی۔ خیبر پختون خواہ میں سیکولر، قوم پرست اور سوشلسٹ سیاسی مفاد پرست بن گیے تھے۔ پی این اے میں ان کے رول کی وجہ سے آج خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کی سیاست میں یہ میلوں نظر نہیں آتے ہیں۔ 1973 کے آئین کے تحت 1977 میں پہلے انتخابات سے جو سیا سی عمل شروع ہوا تھا۔ اس وقت سے پاکستان میں جو سیاسی تبدیلیاں آ رہی ہیں وہ سب اس سیاسی عمل کا حصہ ہیں۔ جنرل ضیا نے 1973 کے آئین میں کچھ تبدیلیاں کی تھیں۔ اور پھر اس آئین کو بحال کر دیا تھا۔ آئین بحال ہونے کے بعد محمد خان جونیجو وزیر اعظم بن گیے تھے۔ تاہم سیاسی عمل میں تسلسل جاری تھا۔ 1990s میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں اقتدار کے  لئے musical chairs game ہوتا رہا۔ سیاستدان اپنا سیاسی کھیل کھیلتے رہے۔ لیکن سیاسی عمل اپنا کام کرتا رہا۔ پھر جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آ گیے تھے۔ انہوں نے بھی 1973 کے آئین کو برقرار رکھا تھا۔ تاہم جنرل مشرف نے بھی اس میں کچھ تبدیلی کی تھی۔ لیکن آئین کے تحت سیاسی عمل جاری تھا۔
   یہ نواز شریف حکومت تھی جس نے آصف علی زر داری کو کرپشن کے الزامات میں گرفتار کیا تھا۔ اور جیل میں نظر بند کیا تھا۔ جنرل مشرف نے نواز شریف حکومت کے فیصلے پر عملدرامد جاری رکھا تھا۔ اور زر داری کے خلاف کرپشن کی تحقیقات کو وسعت دی تھی۔ زر داری یہ دعوی کرتے ہیں کہ انہوں نے عوام کے لئے 13 سال جیل کاٹی ہے۔ حالانکہ عوام سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کا تعلق ان کھربوں ڈالروں سے تھا جو انہوں نے کرپشن سے بناۓ تھے۔ اور عوام اس کا حساب مانگ رہے تھے۔ سوئزرلینڈ کی عدالت نے آصف زر داری کو کرپشن کے کیس میں ان کے بے گناہ ہونے کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ سوئس حکومت نے سوئس بنکوں میں آصف علی زرداری کے 60ملین ڈالر کیوں منجمد کیے تھے؟ پھر صدر بش نے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کا صدر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ سمجھوتہ کرایا تھا۔ اور اس سمجھوتہ کے تحت ان پارٹیوں کے رہنماؤں کے خلاف کرپشن کے تمام کیس ختم کر دئیے تھے۔ اور انہیں سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی تھی۔ آصف علی زر داری اور نواز شریف نے اس سمجھوتہ کو تسلیم کیا تھا۔ اور اس پر دستخط کیے تھے۔ آصف علی زر داری نے اپنے 60ملین ڈالر بحال کرا لئے تھے۔ اور نواز شریف نے اپنی Black money کو White کر لیا تھا۔ اب اگر زر داری اور نواز شریف نے کوئی کرپشن نہیں کیا تھا۔ تو انہوں نے اس سمجھوتہ پر دستخط کیوں کیے تھے؟ جس میں ان کے خلاف کرپشن کے کیس ختم کرنے کہا گیا تھا؟ یہ دونوں شاید اس غلط فہیمی میں تھے کہ وہ احتساب کے عمل سے بالاتر تھے۔ لیکن سیاسی اور قانونی عمل اس وقت سے ان کا تعاقب کر رہا تھا۔ بالا آخر کرپشن کے کیس میں میاں نواز شریف Legal Process میں آ گیے ہیں۔ اور آصف علی زر داری کو Legal Process میں لانے کا آغاز ہو گیا ہے۔
   2008 کے انتخاب میں لوگوں کی بے نظیر بھٹو سے عقیدت کے نتیجہ میں پیپلز پارٹی جیت گئی تھی۔ بے نظیر بھٹو کا قتل لوگوں کے ذہنوں میں تھا۔ اور انہوں نے زر داری کو نہیں بے نظیر بھٹو کو ووٹ دئیے تھے۔ پانچ سال زر داری نے جس طرح حکومت کی تھی وہ پاکستان اور عوام کے لئے تباہی تھی۔ اور پاکستان کے عوام اسے ایک بڑے عرصہ تک فراموش نہیں کریں گے۔ بالخصوص جب بھی انتخابات کا وقت آۓ گا۔ اور پیپلز پارٹی لوگوں سے ووٹ مانگے گی ان کے سامنے زر داری حکومت کے دور میں خوفناک Horror آ جاۓ گا۔ 2013 میں پیپلز پارٹی اس لئے انتخاب بری طرح ہار گئی تھی۔ پنجاب، خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی کا وجود تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ اور 2018 کے انتخاب میں پیپلز پارٹی کے لئے سندھ میں انتخاب جیتنا مشکل ہو رہا ہے۔ سندھ میں سندھی پیپلز پارٹی کے خلاف ہو رہے ہیں۔ 10 سال میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ میں کوئی اقتصادی ترقیاتی کام نہیں کیے ہیں۔ سندھ کے لوگوں کو غربت دی ہے اور غربت میں رکھا ہے۔ 10 سال میں ہاریوں کے حالات میں بہتری آئی ہے اور نہ ہی سندھ میں نئی صنعتیں لگائی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے صوبائی حکومت کے تمام محکموں میں نااہل اور اقرا با پروری کی بنیاد پر سندھیوں کو بھر دیا ہے۔ اور نئی بھرتیوں کے لئے صوبائی محکموں میں اب گنجائش نہیں ہے۔ جو نوجوان سندھی کالجوں اور یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لے کر آ رہے ہیں۔ صوبائی حکومت کے پاس انہیں نوکریاں دینے کے لئے نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ میں اس صورت حال میں پھنس گئی ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے مدمقابل ایک نیا اتحاد بن گیا ہے۔ جس میں پیر پگا ر ا  رسول بخش پلیجو کے صاحبزادہ، ذوالفقار مرزا اور سندھ کی دوسری سیاسی شخصیتیں اور سیاسی جماعتیں بھی اس اتحاد میں شامل ہو گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کئی ہفتہ تک یہ فیصلہ نہیں کر سکی تھی کہ انتخابی مہم کا آغاز کس شہر سے کیا جاۓ۔ اور جب یہ فیصلہ کیا گیا کہ لیاری سے انتخابی مہم کا آغاز کیا جاۓ گا۔  زر داری نے  اس مہم کا آغاز خود کرنے کے بجاۓ بلاول زر داری بھٹو کو بھیج دیا تھا۔ بلاول زر داری بھٹو کی یہ پہلی انتخابی مہم تھی۔ لیاری میں ان کا خیر مقدم پھولوں سے نہیں پتھروں اور انڈوں سے کیا گیا تھا۔ مظاہرین نے بلاول زر داری کے جلوس میں کاروں کے شیشے توڑ دئیے تھے۔ بڑی مشکل سے بلاول زر داری کو اس صورت حال سے نکال کر لے گیے تھے۔ سکھر میں پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ کو بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وہ قومی اسمبلی کی نشست کے لئے اپنی انتخابی مہم پر تھے۔ سکھر کے لوگوں کا صرف ان سے یہ سوال تھا کہ پانچ سال میں انہوں نے ان کے لئے کیا کیا ہے؟ یہ ہی سوال اور ایک ایسی ہی صورت کا سندھ کے سابق وزیر اعلی مراد علی شاہ کو نوابشاہ  میں سامنا ہو رہا تھا۔ سندھ کے نوجوان ان سے روز گار کی بات  کر رہے تھے۔ ان کے شہر کے بدتر انفرا اسٹریکچر کی بات کر رہے تھے۔ پانی کی قلت پر سوال ہو رہے تھے۔ اور وہ اپنے موبائل سے ان کی گفتگو کو ٹیپ کر رہے تھے۔ اور اس کی فلم بھی بنا رہے تھے۔ جس پر مراد علی شاہ مشتعل ہو گیے تھے۔ انہوں نے سوال کرنے والا کا موبائل چھین لیا تھا۔ شہر شہر دیہات اور گاؤں گاؤں اس بے داری کو پھیلانے کا سیاسی عمل ذوالفقار علی بھٹو نے آغاز کیا تھا۔ جسے 1977 کے انتخابات میں دھاندلیوں کے نام پر سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے Derail کر دیا تھا۔ لیکن کیونکہ 1973 کا آئین موجود تھا۔ اس آئین نے  سیاسی عمل کو جاری رکھا تھا۔ موجودہ پیپلز پارٹی ،آصف علی زر داری اور بلاول زر داری کا اس میں کوئی Contribution نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی عمل کو صاف ستھرا رکھنے اور اسے آگے بڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ سندھ کے عوام زر داری کی پیپلز پارٹی کو انتخابات میں شکست دیں۔ سندھ زر داری کی پیپلز پارٹی کی حکومت میں کبھی ترقی نہیں کرے گا۔ اس حکومت کا 10سال کا ریکارڈ سندھیوں کے سامنے ہے۔ سندھی شخصیتوں کو دیکھ کر نہیں، صرف اس ریکارڈ کی بنیاد پر ووٹ دیں۔ یہ ان کے اور ان کے بچوں کے مستقبل کا سوال ہے۔
  دنیا میں جہاں بھی انتخابات ہو رہے ہیں۔ لوگ قدیم روایتی پارٹیوں کی قیادتوں کے خلاف ووٹ دے رہے ہیں۔ اور نئے چہروں کو منتخب کر رہے ہیں۔ امریکہ میں 2016 کے صدارتی انتخاب میں امریکی عوام نے ری پبلیکن پارٹی اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار کو مسترد کر دیا تھا۔ اور ڈونالڈ ٹرمپ کو صدر منتخب کیا تھا۔ جن کا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ سیاست میں کبھی سرگرم نہیں تھے۔ بہت بڑے بزنس مین تھے۔ انہوں نے صرف دو نعرے دئیے تھے America First اور Make America Great Again امریکی عوام کو ان نعروں میں اپنا مستقبل روشن اور خوشحال نظر آیا تھا۔ فرانس میں انتخابات میں لوگوں نے روایتی سیاسی پارٹیوں کے بجاۓ ایک 35سالہ Banker کو منتخب کیا تھا۔ جس کا کوئی سیاسی Background نہیں تھا۔ اسی طرح اٹلی کے انتخابات میں بھی لوگوں نے ایک نو عمر Unknown کو منتخب کیا تھا۔ جس کا سیاسی پارٹیوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جرمنی میں انجیلا مرکل کی پارٹی انتخاب میں اکثریت حاصل نہیں کر سکی تھی۔ اور انہیں دوسری پارٹیوں کے ساتھ حکومت بنانے میں 6 ماہ لگے تھے۔ دنیا میں ہر طرف لوگ اقتصادی مسائل میں دھنسے ہوۓ ہیں۔ پارٹیوں کی پرانی ذہنیت کی قیادتیں پرانی سیاست سے چپٹی ہوئی ہیں۔ بے روز گار نوجوانوں کی فوج ان کے سامنے کھڑی ہے۔ حکومتیں روز گار کے نئے مواقع  پیدا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ سیاستدان لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ کرنے کے لئے منتخب ہوتے ہیں۔ پاکستان کے لوگوں کو اس مرتبہ انتخاب میں نواز شریف اور آصف علی زر داری کی پریشانیوں میں اضافہ کرنے کے لئے ووٹ دینا ہوں گے۔                     

No comments:

Post a Comment