Friday, July 6, 2018

Pakistan’s Fastest Growing City: Karachi



Pakistan’s Fastest Growing City: Karachi

Consumerism Is On The Rise, People Are Least Interested In Political Activism

مجیب خان


Karachi: Traffic Jam
Traffic Jam








Lucky one Mall
   گزشتہ 20 دن سے میں پاکستان میں تھا۔ اور دو روز قبل واپس آیا ہوں۔ میں تقریباً 18 سال بعد پاکستان گیا تھا۔ بنگلہ دیش بننے کی المناک تاریخ کے بعد یہ 18،20 سال پاکستان کی تاریخ میں ایک مرتبہ پھر انتہائی کٹھن اور اس کی بقا اور سلامتی کے لئے مشکل چیلنج کے سال تھے۔ لیکن مجھے یہ پختہ یقین تھا کہ پاکستان جب بھی اس Make or Break حالات سے نکلے گا۔ پاکستان ایک بڑی قوت بن کر ابھرے گا۔ پاکستان کے حالیہ دورے میں مجھے اپنے اس پختہ یقین کی علامتیں نظر آئی ہیں۔ کراچی گزشتہ 20 سال سے محاذ ویت نام جنگ بنا ہوا تھا۔ کراچی اب اس محاذ ویت نام جنگ سے نکل آیا ہے۔ اور اب اقتصادی تعمیر نو کے راستہ پر ہے۔ اس وقت کراچی کی دوسرے شہروں کے مقابلے میں پاکستان کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ ڈھائی کروڑ کی آبادی کے اس شہر میں اقتصادی سرگرمیاں شباب پر ہیں۔ کراچی میں Consumerism عروج پر ہے۔ Political activism تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ میدانوں اور پارکوں میں Ragtag سیاسی چہروں کو دیکھنے اور سننے میں لوگوں کو اب اتنی دلچسپی نہیں ہے کہ جتنی خوبصورت اور جدید Shopping Malls میں Designing کپڑے دیکھنے اور انہیں خریدنے میں ان کی دلچسپی ہے۔ عورتوں کے ملبوسات کے Boutiques اسٹو وروں میں عورتوں کا خاصا رش ہوتا ہے۔ عورتوں کے بعض ڈریس کی قیمت ڈھائی ہزار سے تین ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اور عورتوں کے پاس یہ قوت خرید ہے۔ Shopping Malls میں امریکہ کے نامور برانڈ Nike, Levi’s, Denim, Dockers, Calvin Clien اور دوسرے نامور برانڈ اسٹو وروں میں بھی رش رہتا ہے۔ Nike نے 50% off سیل لگائی تھی۔ اور اسٹور نوجوان لڑکوں سے بھرا ہوا تھا۔ یہ خریداری عید کے بعد ہو رہی تھی۔ عورتوں کی خریداری سمجھ میں آ رہی تھی کہ عید کے بعد شادیوں کی خریداری شروع ہو جاتی ہے۔ شہر کراچی کی آبادی کو دیکھ کر Shopping Malls میں Food Court میں لوگوں کے لئے سات سو سے ایک ہزار نشستوں کا انتظام تھا۔ Lunch hours میں بھیٹنے کی جگہ نہیں ملتی ہے۔ ویسے بھی Food Court میں 3سو 4سو لوگ بھیٹے کھاتے نظر آتے ہیں۔ McDonald’s, Burger King, KFC, Pizza Hut, Subway, Dunkin Donuts اور بے شمار دوسرے غیرملکی اور مقامی Fast Foods ریستوران پر لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔ تاہم McDonald’s پر ہر وقت سب سے زیادہ رش تھا۔ اس کے بعد KFC پر بھی خاصا رش تھا۔ میں نے ایک دوست کے ساتھ McDonald’s میں ناشتا کیا تھا۔ جو 705 روپے کا تھا۔ جس میں Small coffee سینڈوچ اور hash browns تھا۔ ایک دوسرے موقعہ پر ایک فیملی کے ساتھ دو بچوں کے لئے Happy meal سوڈے کے تین گلاس اور Large hash browns کے ساڑھے گیارہ سو روپے دئیے تھے۔ اب اس سے اندازہ لگائیں کہ جو فیملی اپنے تین چار بچوں کے ساتھ McDonald’s میں جاتے ہیں وہ کتنا خرچ کرتے ہوں گے۔
  
McDonald's in Dolmen mall

   کراچی میں بھی Walmart’s, Costco, Meijer کی طرح بڑے بڑے اسٹور بن گیے ہیں۔ جو کئی منزلہ ہیں۔ اور یہاں One stop shopping ہوتی ہے۔ لوگوں کو کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر چیز انہیں مل جاتی ہے۔ ان اسٹو وروں میں بھی ہر وقت رش رہتا ہے۔ لوگ   اشیا سے بھرے Shopping carts  کے ساتھ اسٹور سے باہر آتے ہیں۔ جس میں دس ہزار سے پندرہ ہزار کی اشیا ہوتی ہیں۔ یہ بڑھتا ہوا Consumerism کراچی کی معیشت کے تیز رفتار فروغ ہونے کی علامت ہے۔ Shopping malls اور بڑے بڑے اسٹو وروں کے وجود میں آنے سے لوگوں کے لئے روز گار کے نئے مواقع بھی پیدا ہو ۓ ہیں۔ Shopping malls کے Maintenance کے لئے ہزاروں لوگوں کو نوکریاں دی گئی ہیں۔ Malls کی سیکیورٹی کے لئے نئی آسامیاں پیدا ہوئی ہیں۔ پھر Malls میں اسٹو وروں میں سینکڑوں لوگوں کو ملازمتیں دی گئی ہیں۔ لڑکے اور لڑکیاں ان اسٹو وروں میں کام کر رہے ہیں اور اپنے خاندان کی کفالت کرنے میں Contribute کر رہے ہیں۔ ان کے اقتصادی حالات  بہتر ہو رہے ہیں۔ کراچی کی معیشت میں مڈل کلاس کا رول بڑھتا جا رہا ہے۔ مڈل کلاس کی وسعت سے معیشت فروغ کرے گی۔ ایکسپریس نیوز کی خبر کے مطابق اس سال کراچی میں عید پر 60 بلین روپے کی خریداری ہوئی تھی۔ جبکہ گزشتہ سال عید کی خریداری 40 بلین روپے کی ہوئی تھی۔ کراچی میں اس سال 3فیصد آن لائن عید پر خریداری ہوئی تھی۔ یہ معیشت کے مثبت راستہ پر آ گے بڑھنے کے ثبوت ہیں۔ کراچی پاکستان کی معیشت کا انجن ہے۔ پرائیویٹ سکیٹر کا کراچی کی معیشت میں ایک اہم رول ہے۔ Shopping Malls کی تعمیر اور Malls میں اسٹور سب پرائیویٹ سکیٹر میں ہیں۔ جنہوں نے لوگوں کو ملازمتیں دی ہیں اور Customers کو انتہائی خوشگوار اور ایک صاف ستھرا ماحول شاپنگ کرنے کے لئے فراہم کیا ہے۔ انہیں پار کنگ کی سہولتیں فراہم کی ہیں۔ اور ان کی سیکورٹی کے اقدام کیے ہیں۔ لوگ خوش خوش Shopping Malls میں جاتے ہیں۔ اور چہروں پر مسکراہٹوں کے ساتھ Malls سے باہر آتے ہیں۔ حکومت کا کراچی کی معیشت کو فروغ دینے میں کوئی رول نہیں ہے۔ حکومت کا رول صرف کرپشن کی معیشت میں ہے۔ اور لوگوں کو اقتصادی مواقعوں سے محروم رکھنا ہے۔ سڑکیں ٹوٹی پڑی ہیں۔ جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر لگے ہیں۔ وزیروں کے عالیشان گھر ہیں۔ لیکن عوام روزانہ ان وزیروں کے چہرے اپنے علاقوں میں ٹوٹی سڑکوں اور کوڑے کی غلاظت میں دیکھتے ہیں۔ اور یہ اپنے آپ کو عوام کا نمائندہ کہتے ہیں۔
 
Food Court in the Mall

  کراچی میں ہوٹل انڈسٹری کا بھی بڑی تیزی سے فروغ ہوا ہے۔ لوگوں میں باہر کھانا کھانے کا ایک کلچر بن گیا ہے۔ کراچی شہر کے جس علاقہ میں بھی جائیں رات گیے تک ہوٹل کھلے ہوتے ہیں۔ اور لوگوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ ہوٹل انڈسٹری کا بھی کراچی کی معیشت کو فروغ دینے میں ایک بڑا Contribution ہے۔ اس انڈسٹری نے بھی سینکڑوں نئے Jobs create کیے ہیں۔ کوئی سندھ حکومت سے پوچھے کہ اس نے 10سال میں کتنے Job create کیے ہیں؟ عوام کی فلاح و بہبود میں کیا کام کیے ہیں۔ جس پر لوگ حکومت پر فخر کر سکتے ہیں؟ دنیا کے جن ملکوں میں وزیروں کی یہ کارکردگی ہوتی ہے وہ سیاست میں پھر کبھی نظر نہیں آتے ہیں۔ حکومت کراچی میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل نہیں کر سکی ہے۔ لوگوں نے تھک ہار کر خود اس مسئلہ کا حل نکال لیا ہے۔ شہر کی سڑکوں پر کاریں، موٹر سائیکلیں اور رکشے  اب زیادہ نظر آتے ہیں۔ جتنے عرصہ میں کراچی میں رہا صرف ایک اور دو بسیں دیکھی تھیں۔ اکثر کراچی حیدر آباد  اور ٹھٹھہ جانے والی بسیں نظر آتی تھیں۔ جو حکومت شہروں میں ٹریفک کا نظام درست اور بہتر نہیں کر سکتی ہے۔ اسے حکومت کرنے کا اہل کیسے سمجھا جاۓ گا؟ حالانکہ اس پر بھاری رقم خرچ کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ صرف اپنی ذہانت اور قابلیت خرچ کرنے کا ثبوت دیا جاتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کے اہل کاروں کی ذہانت اور قابلیت Traffic Jam رکھنے اور کرپشن کے راستوں کو کھلا رکھنے پر خرچ ہوتی ہے۔






   کراچی میں صوبائی حکومت نے جگہ  جگہ High rise ایپارٹمنٹ تعمیر کرنے کے پرمٹ آنکھیں بند کر کے جاری کر دئیے ہیں۔ یہ High rise شہر میں ایسے مقامات پر تعمیر کیے جا رہے تھے۔ جہاں انہیں تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ملنی چاہیے تھی۔ لوگوں نے یہ ایپارٹمنٹ خرید لئے تھے۔ ان کی تعمیر شروع ہو گئی تھی۔ دس بارہ منزلیں بھی تعمیر ہو گئی تھیں۔ پھر شہریوں کے behalf پر سپریم کورٹ نے مداخلت کرتے ہوۓ Contractors کو عدالت میں طلب کیا اور ان سے سوال کیا کہ ان High rise apartments میں رہنے والوں کے لئے Parking کا کیا انتظام ہے؟ انہیں ایپارٹمنٹ کے پہلے دو Floor کو Parking بنانے کا حکم دیا ہے۔ اور اس کے ساتھ Apartments میں پانی اور بجلی کی فراہمی تک ان کی تعمیر روکنے کا حکم بھی دیا ہے۔ یہ سوال پہلی اور دوسری جماعت کے بچوں کو پڑھاۓ جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ سندھ حکومت میں جو ہیں انہیں پہلی اور دوسری جماعت کی تعلیم بھی نہیں ہے۔ اور پھر حکومت اور پیشہ ور سیاستدان ٹی وی کیمروں کے سامنے کھڑے ہو کر یہ کہتے ہیں کہ ادارے  اپنی حدود میں کام کریں۔ حکومت اگر High rise apartments تعمیر کرنے کے پرمٹ جاری کرنے سے پہلے خود یہ سوال کر لیتی  تو سپریم کورٹ کو عوام کے behalf پر یہ مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اب جن لوگوں نے پہلی اور دوسری منزل میں ایپارٹمنٹ لئے ہیں۔ ان کا پیسہ صرف حکومت کے نا اہل ہونے کی وجہ سے پھنس گیا ہے۔ اور اب وہ پریشان ہو رہے ہیں۔ صدر ریگن نے یہ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ میں کہا تھا کہ “Government is the problem, not the solution” اس وقت سے پاکستان میں حکومتوں نے عوام کے لئے اتنے مسائل حل نہیں کیے ہیں کہ جتنے مسائل پیدا کیے ہیں۔                                   

No comments:

Post a Comment