Vote Against Corruption
مجیب خان
Nawaz Sharif's Palace in Rai wind Lahore |
Nawaz Sharif's Palace |
A large number of People Live below the poverty line in Southern and Western Punjab |
Asif Ali Zardari's Palace |
Children's school in Zardari's hometown- Sindh |
Government school in Badin Sindh |
میکسیکو بھی پاکستان کی طرح ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ جس طرح ہر ترقی پذیر ملک جمہوری معاشرہ بننے کی جد و جہد کر رہا ہے۔ اسی طرح میکسیکو بھی ایسی ہی جد و جہد سے گزر رہا ہے۔ تاہم میکسیکو کی 1.4ٹریلین ڈالر کی معیشت ہے۔ شمالی امریکہ میں امریکہ اور کینیڈا کے بعد میکسیکو کی تیسری بڑی معیشت ہے۔ میکسیکو تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں ساتویں نمبر پر ہے۔ کینیڈا کے بعد امریکہ میں میکسیکو سے تیل آتا ہے۔ میں نے Mexicans سے پوچھا کہ میکسیکو کی 1.4ٹریلین ڈالر کی معیشت ہے۔ لیکن میکسیکو میں اتنی غربت کیوں ہے؟ ان کی زبان پر جو پہلا لفظ آیا وہ کرپشن تھا۔ انہوں نے کہا میکسیکو کے لیڈر اور حکومت کرپٹ ہیں۔ میکسیکو میں اس ماہ نئے انتخابات ہوۓ ہیں۔ میکسیکو کے لوگوں نے جسے صدر منتخب کیا ہے۔ وہ ایک Leftist ہے۔ 20سال قبل وہ میکسیکو کے ایک شہر کا میئر تھا۔ اور اس نے شہر کے لوگوں کے لئے بہت اچھے کام کیے تھے۔ ان کے شہر کو بنایا تھا۔ لوگ بھی اس سے بہت خوش تھے۔ میئر کی مدت پوری ہونے کے بعد وہ نجی زندگی میں مصروف ہو گیا تھا۔ اب 20 سال بعد اس نے انتخاب میں صدارتی امیدوار بننے کا فیصلہ کیا۔ میکسیکو کے لوگ اسے بھولے نہیں تھے۔ اور انہوں نے اب اسے میکسیکو کا صدر منتخب کیا ہے۔ نو منتخب صدر Andres Manuel Lopez Obrador نے میکسیکو کے عوام سے یہ عہد کیا ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف لڑے گا۔ اور میکسیکو سے غربت کو جڑسے ختم کیا جائے گا۔ میکسیکو کے لوگ نو منتخب صدر سے خوش ہیں۔ اور انہیں اس کی انکساری دیانتداری اور اس کے صاف ستھر ے کردار پر فخر ہے۔
کرپشن صرف پاکستان میں مسئلہ نہیں ہے۔ یہ دنیا کے بے شمار ملکوں میں ایک Chronic مسئلہ ہے۔ پاکستان میں جمہوریت اور سیاسی ادارے اتنے مضبوط نہیں ہیں کہ جتنی کرپشن کی جڑیں گہری اور مضبوط ہیں۔ کرپشن کی ان جڑوں پر جمہوری اور سیاسی ادارے تعمیر کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ پاکستان میں اب تیسرے انتخاب ہونے جا رہے ہیں۔ لیکن لوگ فیصلہ کرنے میں ابھی تک سیاسی با شعور نہیں ہیں۔ لوگ جنہیں ووٹ دینے جا رہے ہیں۔ ان کے سیاسی ریکارڈ کو دیکھ کر انہیں ووٹ دینے کا فیصلہ نہیں کرتے ہیں۔ 1990s سے ان ہی پارٹیوں اور لیڈروں کو ووٹ دے رہے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن دس سال سے حکومت کر رہی ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی دس سال سے صوبہ سندھ میں حکومت کر رہی ہے۔ سندھ اور پنجاب کے لوگوں کے سامنے ان حکومتوں کی کارکردگی کا دس سال کا ریکارڈ ہے۔ صوبوں میں Law and Order اور Crimes کی صورت حال بھی ان کے سامنے ہے۔ جمہوریت Political Names Brand’ ‘ سے نہیں ہوتی ہے۔ پنجاب اور سندھ میں دو پارٹیوں نے ‘Political Names Brand’ نعرے لوگوں کو دے دئیے ہیں۔ اور یہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور اپنے آپ کو ان نعروں سے منتخب کر ا لیتے ہیں۔ میاں نواز شریف اب اگر اقتدار میں نہیں ہیں تو جمہوریت خطرے میں ہے۔ اور لوگ اگر پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں دیں گے تو الیکشن منصفانہ نہیں تھے۔ ان باتوں سے لیڈروں میں Guilt ہونے کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ انتخابات کا مقصد اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے احتساب کے لئے پیش کرنا ہوتا ہے۔ اگر پارٹی اقتدار میں ہوتی ہے تو یہ اپنے اقتدار کا حساب کتاب عوام کے سامنے پیش کرتی ہے۔ عوام کو بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے عوام کے لئے کیا کام کیے ہیں۔ لیکن یہ وہ لیڈر ہیں جو احتساب سے ہمیشہ بھاگتے ہیں۔ یہ اپنے انتخابی حلقوں میں لوگوں کا سامنا بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ لوگ ان سے صرف یہ سوال کر رہے ہیں کہ 5سال سے کہاں تھے۔ 10سال سے تم حکومت میں ہو لیکن ہمارے لیے کیا کیا ہے؟ یہ لوگوں کے اتنے آسان سوالوں کے جواب بھی نہیں سکتے ہیں اور بھاگ جاتے ہیں۔
اب حیرت کی بات ہے کہ یہ پارٹیاں جو تین مرتبہ اقتدار میں آئی ہیں۔ دس سال سے سندھ اور پنجاب میں ان کی حکومتیں تھیں۔ یہ عوام میں اپنی گرتی حمایت دیکھ کر level playing field کی بات کر رہے ہیں۔ میڈیا میں جو سیاسی تجزیہ نگار ہیں یا جو سیاسی پروگرام Anchors ہیں۔ وہ بھی اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ حالانکہ انہیں ان لیڈروں کو ذرا Educate کرنا چاہیے تھا کہ جناب آپ حضرات کی پارٹیاں تین مرتبہ اقتدار میں آئی ہیں۔ 2008 کے الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی نے 5سال حکومت کی ہے۔ اور اس کے بعد 2013 کے الیکشن کے بعد مسلم لیگ ن نے 5 سال حکومت کی ہے۔ پھر پنجاب میں ن لیگ اور سندھ میں پیپلز پارٹی 10سال سے حکومت میں ہیں۔ لیکن عمران خان کبھی اقتدار میں نہیں تھے۔ 20سال سے تحریک انصاف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی کرپٹ حکومتوں کے خلاف جد و جہد کر رہے ہیں۔ ان پارٹیوں کے لیڈروں کے فراڈ، غبن، دھاندلیوں کو بے نقاب کرتے رہے ہیں۔ اور پاکستان کو کرپشن سے پاک معاشرہ بنانے کی 20سال سے عمران خان تحریک چلا رہے تھے۔ لوگوں نے پہلے پیپلز پارٹی کے 5سال اور اب مسلم لیگ ن کے 5سال اقتدار کے دیکھے ہیں۔ اور اب عمران خان کی باتیں ان کی سمجھ میں آ رہی ہیں۔ ان لیڈروں اور پارٹیوں کے پاس عوام کے لئے کام کرنے کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ پاکستان کے لوگوں کی اکثریت بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم ہے۔ زر داری نے بلاول بھٹو زر داری کو یہ کہنے کے لئے سیاست کے میدان میں اتار دیا ہے کہ 'ہم جب اقتدار میں آئیں گے تو غربت کا خاتمہ کریں گے۔' اس سے بڑا مذاق غریبوں کے ساتھ اور کیا ہو گا۔ جب دونوں پارٹیوں کے پاس بدعنوانیاں کرنے کے ریکارڈ کے سوا کچھ اور نہیں ہے تو یہ Level playing field’ ‘ کا مطالبہ کرنے لگی ہیں۔ 3 مرتبہ انہوں نے حکومت کی ہے۔ اور چوتھی بار انہیں منتخب کرنے سے پہلے ان کا احتساب واجب ہو گیا ہے۔
ملائشیا میں دو ماہ قبل انتخابات میں لوگوں نے وزیر اعظم نجیب رزاق کے خلاف ووٹ دئیے تھے۔ اور انہیں اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔ نجیب رزاق پر کرپشن کے سنگین الزامات تھے۔ ان کے خلاف ایک عرصہ سے کرپشن کی تحقیقات ہو رہی تھی۔ اس ماہ Anti- corruption حکام نے نجیب رزاق کو گرفتار کیا ہے۔ تحقیقات کے دوران انہیں کھربوں ڈالر اسٹیٹ انویسمینٹ فنڈ سے خرد برد کرنے میں ملوث پا یا گیا تھا۔ نیویارک ٹائمز کی خبر کے مطابق نجیب رزاق اور ان کے اتحادیوں نے ایک عرصہ تک کرپشن کو چھپانے کے لئے اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوۓ کیش تقسیم کیا تھا۔ اور میڈیا میں ان کے خلاف کرپشن کی خبروں کو دبایا تھا۔ لیکن ملائشیا کے لوگوں کو انویسمینٹ فنڈ سکینڈل پر غصہ تھا۔ اور انہوں نے گزشتہ مئی میں انتخابات میں وزیر اعظم نجیب کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو ووٹ دئیے تھے۔ یہ اتحاد صرف وزیر اعظم نجیب کے خلاف بنایا گیا تھا۔ ملائشیا کے لوگوں نے متہاہر محمد کو وزیر اعظم منتخب کیا ہے۔ جنہوں نے نجیب رزاق کو انصاف کی عدالت کے سامنے لانے کے لئے انتخابی مہم چلائی تھی۔ 92 سالہ متہاہر محمد پہلے بھی وزیر اعظم رہے چکے تھے۔ سیاست سے رٹائرڈ ہونے کے 15 سال بعد متہاہر محمد دوسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوۓ ہیں۔ پہلی مرتبہ وزیر اعظم متہاہر محمد نے ملائشیا میں اقتصادی اصلاحات کی تھیں۔ ان کے دور میں ملائشیا نے شاندار اقتصادی ترقی کی تھی۔ اور انہیں Father of Modernization کہا جاتا تھا۔ ملائشیا کے لوگ ایک بار پھر متہاہر محمد کو اقتدار میں لاۓ ہیں۔ متہار محمد کے وزیر اعظم بننے کے بعد حکام نے نجیب رزاق اور ان کی اہلیہ کے بیرون ملک جانے پر پابندی لگا دی ہے۔ نجیب رزاق پر money Laundering کا الزام بھی تھا۔ انہوں نے اسٹیٹ انویسٹمینٹ فنڈ سے 731 ملین ڈالر اپنے نجی اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کیے تھے۔ اور پھر اس سے اپنے اور اپنی اہلیہ کے لئے انتہائی قیمتی اشیا خریدی تھیں۔ مرحوم سعودی شاہ عبداللہ نے وزیر اعظم نجیب کے بنک اکاؤنٹ میں 600 ملین ڈالر جمع کراۓ تھے۔ جس کے بعد وزیر اعظم نجیب نے ملائشیا کی فوج سعودی عرب بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔ اس سکینڈل کی ملائشیا کے اٹارنی جنرل نے تحقیقات کی تھی۔ ملائشیا کی پولیس نے بتایا کہ انہوں نے نجیب کی رہائش گاہوں سے کیش، جیولری، قیمتی Purses اور 273ملین ڈالر ضبط کیے ہیں۔ پولیس نے جو قیمتی اشیا ضبط کی ہیں ان میں 567 ہینڈ بیگ، 2200 انگوٹھیاں، اور 14Tiaras تھے۔ سابق وزیر اعظم نجیب نے فرانس سے Submarines خریدنے کی ڈیل میں Kickbacks سے 130ملین ڈالر بناۓ تھے۔ فرانس کے حکام نے بھی اس کی تحقیقات کی تھی۔ متہاہر محمد نے نیویارک ٹائمز سے انٹرویو میں بتایا کہ 2015 میں ایک نجی گفتگو میں نجیب نے ان سے کہا کہ Cash is King’ ‘ ملائشیا میں دولت سیاسیات ایک با اختیار ہے۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ‘Cash is King’ متہاہر محمد نے کہا 'نجیب کا مطلب تھا ‘Corruption is O.K.’
پاکستان میں بھی سیاستدان ‘Corruption is O.K.’ اپنا ایک سیاسی حق سمجھتے ہیں۔ ان کے لئے سیاست ‘Cash is King’ ہے۔ یہ الیکشن میں لاکھوں خرچ کرتے ہیں۔ اور پھر نئے الیکشن سے پہلے یہ کروڑوں بنا لیتے ہیں۔ 1990s میں آصف علی زر داری نے بھی فرانس سے Submarines خریدنے کی ڈیل میں Kickbacks سے لاکھوں ڈالر بناۓ تھے۔ آصف زر داری اس وقت وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی کابینہ میں وزیر تجارت تھے۔ 1980s میں میاں نواز شریف صوبہ پنجاب میں وزیر خزانہ تھے۔ اور انہوں نے دونوں ہاتھوں سے Kickbacks پنجاب سے سیکھا تھا۔ یہ لوگ اتنے بڑے سیاسی دانش ور نہیں ہیں کہ جتنے Corrupt Professional ہیں۔ اس لئے سیاست میں جو خلا ہے فوج اور عدالت کو اپنے قدم رکھنا پڑتے ہیں۔ ملائشیا میں وزیر اعظم نجیب رزاق Corruption کرنے کے بعد صرف ایک ہی میعاد پوری کر سکے تھے۔ ملائشیا کے لوگوں نے نئے انتخابات میں انہیں اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔ اور دنیا کو یہ بتایا تھا کہ قوم Corrupt نہیں ہے۔ پاکستان میں لوگ جمہوریت چاہتے ہیں۔ لیکن جمہوریت کو کرپشن سے صاف کرنے کا ان میں سیاسی شعور نظر نہیں آتا ہے۔ Corrupt لوگوں کو بار بار منتخب کر کے انہیں Corruption کے مواقع دیتے ہیں۔ اس انتخاب میں انہیں یہ سلسلہ بند کرنا ہو گا۔ اور انہیں بھی دنیا کو یہ بتانا ہو گا کہ پاکستانی قوم Corrupt نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment