Monday, August 6, 2018

India’s Distorted Propaganda Against Pakistan's Army

India’s Distorted Propaganda Against Pakistan's Army

General Zia Suspended Constitution But He Honored Shimla Agreement Signed By Prime Minister
 Indra Gandhi And President Zulfiqar Ali Bhutto In 1972

Pakistan’s Civil And Military Leaders Both In Favor Of Good Relations And Peace With India, There Is Not Two Opinion

مجیب خان
Prime Minister Atal Bihari Vajpayee and General Pervez Musharraf

General Pervez Musharraf and Prime Minister Atal Bihari Vajpayee

Prime Minister Manmohon Singh and General Pervez Musharraf

Prime Minister Narendra Modi and Prime Minister Nawaz Sharif
   
   انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد جب یہ واضح ہو گیا کہ نئی حکومت پاکستان تحريک انصاف کی ہو گی۔ اور عمران خان وزیر اعظم ہوں گے۔ انتخاب میں  یہ واضح ہونے کے 48 گھنٹے بعد عمران خان نے قوم سے خطاب کیا۔ اپنے اس خطاب میں عمران خان نے اپنی حکومت کی داخلی بالخصوص خارجہ پالیسی کا ایک خاکہ پیش کیا کہ وہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ کشمیر کے تنازعہ کو مذاکرات کے ذریعہ  حل کریں گے۔ جنگیں تنازعوں کا حل نہیں ہیں۔ جنگیں تنازعوں کے حل کو اور پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔ عمران خان نے کہا وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت مل کر اس خطہ سے غربت کا خاتمہ کرنے کے لئے مشترکہ اقدامات کو فروغ دیں۔ دونوں ملکوں میں آز ادانہ تجارت کو فروغ دیا جاۓ۔ عمران خان نے کہا اگر بھارت ایک قدم بڑھاۓ گا ہم دو قدم بڑھائیں گے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کے بارے میں یہ عمران خان کا  بہت معقول موقف ہے۔ عمران خان نے  بڑے خلوص اور کھلے دل سے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کا اظہار کیا ہے۔ یہ عمران خان کے اپنے خیالات تھے جو ان کے دل کی گہرائی سے جملے بن کر ان کی زبان سے باہر آ رہے تھے۔ یہ جملے GHQ  نے عمران خان کے دماغ میں Upload نہیں کیے تھے۔ یہ ایک Genuine Leader کی اپنی خارجہ پالیسی کا Outlines ہے۔ جس پر حکومت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد عمل درآمد ہو گا۔ عمران خان نے امریکہ کے ساتھ مساوی اور باہمی احترام کے تعلقات پر زور دیا ہے۔ چین کے ساتھ قریبی تعلقات کی اہمیت  برقرار رہے گی۔ چین کے ساتھ CPEC منصوبوں کی تکمیل کی جاۓ گی۔ چین اور پاکستان ہمسایہ ملک ہیں اور یہ  خطہ میں امن اور استحکام کے لئے مشترکہ کوششیں جاری ر کھے گے۔ ایران بھی پاکستان کا قریبی ہمسایہ ہے۔ ایران کے ساتھ تعلقات پاکستان کے لئے خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔ سعودی عرب نے مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ  تعلقات پاکستان کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ عمران خان نے ایران اور سعودی عرب اور خلیج کے ملکوں میں کشیدگی ختم کرانے میں رول ادا کرنے کا کہا ہے۔ عمران خان کی خارجہ پالیسی عرب اسلامی دنیا میں پاکستان کے ایک سرگرم رول کا تعین کرے گی۔ خارجہ پالیسی کے بارے میں عمران خان کے ان خیالات کا سفارتی حلقوں میں خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ امریکہ نے پاکستان میں نئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا یقین دلایا ہے۔ بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ پر سفارت کاروں کا ان سے ملاقات کے لیے تانتا لگا ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سفارتی حلقہ عمران خان میں قیادت کی صلاحیتوں سے متاثر ہوۓ ہیں۔ سفارتی حلقوں میں ایسی والہانہ خیرسگالی آصف علی زر داری اور نواز شریف کے ساتھ نہیں دیکھی گئی تھی۔ لیڈر جب داغ دھبوں سے صاف ہوتا ہے۔ اور اس میں عوام کے لیے کام کرنے کا جذبہ جب Real ہوتا ہے۔ تو دنیا بھی اسے محسوس کرتی ہے۔ اور ایسے لیڈر کے ساتھ کام کرنے میں دنیا بھی فخر کرتی ہے۔
   پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن 1990s کے عشرہ میں اقتدار میں آئی تھیں۔ اور انہوں نے جنرل ضیا کی پالیسیوں سے پاکستان کو علیحدہ نہیں کیا تھا۔ افغانستان سے سوویت یونین کی فوجوں کا افغانستان سے انخلا شروع ہو رہا تھا۔ سوویت صدر گار با چوف نے ایک خصوصی پیغام وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو بھیجا تھا جو ان کے وزیر خارجہ Eduard Shevardnadze نے اسلام آباد میں وزیر اعظم  بے نظیر کو دیا تھا۔ صدر گار با چوف نے اس پیغام میں کہا تھا کہ سوویت فوجیں افغانستان سے جا رہی ہیں۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان سے سوویت فوجوں کے جانے سے پہلے کابل میں تمام ثقافتوں اور گروپوں پر مشتمل ایک مخلوط حکومت بنا دی جاۓ۔ تاکہ سوویت فوجوں کے جانے کے بعد افغان ریاست کو گرنے سے بچایا جاۓ۔ ورنہ افغانستان ایک خوفناک خانہ جنگی میں پھنس جاۓ گا۔ اور یہ اس سارے خطہ کے امن اور استحکام کے لیے ایک خطرہ بن جاۓ گا۔ اس وقت کابل میں افغان ریاست کے تمام ادارے موجود تھے اور نجیب اللہ صدر تھے۔ لیکن اسلام آباد سے کوئی مثبت جواب نہیں ملنے پر صدر گار با چوف کو غصہ تھا اور انہوں نے کہا انہیں افغانستان میں بھننے دو۔ اور افغانستان سے سوویت فوجوں کے انخلا کا حکم دے دیا۔ حالانکہ افغانستان میں پاکستان کے رول کی وجہ سے سوویت یونین کو شکست ہوئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود صدر گار باچوف کو افغانستان کی صورت حال کا اس خطہ کے امن، استحکام اور پاکستان کی سلامتی پر اس کے اثرات کے بارے میں تشویش تھی۔ لیکن پاکستان میں جو قائدین تھے انہیں افغان ریاست کے گرنے کے نتیجہ میں پاکستان پر اس کے اثرات کی کوئی پریشانی نہیں تھی۔ امریکہ نے پاکستان سے منہ موڑ لیا تھا۔ اور ری پروسسنگ کے مسئلہ پر کانگریس نے اقتصادی بندشیں لگانے کا قانون منظور کر لیا تھا۔ افغانستان  پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی سیاسی سوجھ بوجھ کا امتحان تھا۔ اور دونوں پارٹیاں اس امتحان میں Flunk تھیں۔ جس افغان پالیسی کو سیاسی قیادت تبدیل نہیں کر سکی تھی۔ 11سال بعد اس افغان پالیسی کو جنرل پرویز مشرف نے نائن الیون کے نتیجہ میں امریکہ کے دباؤ اور دھمکیوں سے تبدیل کرنا پڑا تھا۔
   تاہم 1990s کے عشرہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی پالیسی کو خصوصی ترجیح دی تھی۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے بھارت کو Most Favorite Nation کا درجہ دیا تھا۔ قومی اسمبلی نے اس کی توثیق کی تھی۔ فوج کی طرف سے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے اس فیصلہ کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں ہوئی تھی۔ بھارت کو پاکستان سے آز ادانہ تجارت کا اختیار مل گیا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف حکومت نے  پاکستان اور بھارت میں سفر کی سہولتیں آسان کرنے کی پالیسی فروغ دی تھی۔ آ مرت سر اور لاہور کے درمیان بس سروس شروع ہوئی تھی۔ فوج نے وزیر اعظم نواز شریف کے اس فیصلے کی مخالفت نہیں کی تھی۔ 1998 میں وزیر اعظم اٹل بہاری با جپائی وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی اور جنتا حکومت کے وزیروں کے ساتھ بس سے لاہور آۓ تھے۔ وزیر اعظم با جپائی اپنی کابینہ کے وزیروں کے ساتھ  مینار پاکستان گیے تھے۔ جنتا پارٹی ہندو انتہا پسندوں کی جماعت تھی۔ مینار پاکستان پر کھڑے ہو کر اس پارٹی کے رہنماؤں نے مملکت پاکستان کے وجود کا اعتراف کیا تھا۔ لیکن فوج نے  بھارت کے ساتھ تعلقات Normalize کرنے کی پالیسی میں مزاحمت نہیں کی تھی۔ حالانکہ یہ Normalize Process reciprocal  پاکستان کے ساتھ خیر سگالی صرف بھارتی لیڈروں کے بیانات کی حد تک تھا۔ جبکہ زمینی حقائق اس کے ثبوت نہیں دیتے تھے۔ پاکستان نے بھارت کو Most Favorite Nation کا مقام دیا تھا۔ بھارت نے اس سے بھر پور فائدہ اٹھایا تھا۔ توازن تجارت بھارت کے حق میں تھا۔ بھارت کی پاکستان کے ساتھ تجارت کھربوں میں پہنچ گئی تھی۔ لیکن دوسری طرف بھارت نے یہ کھربوں غربت ختم کرنے کے بجاۓ ہتھیاروں پر خرچ کرنا شروع کر دئیے تھے۔ اور یہ ہتھیار پاکستان کی سرحدوں پر نصب ہو رہے تھے۔ اب کیونکہ پاکستان کے بارے میں امریکہ کا رو یہ بہت Biased ہے۔ بلکہ خود پاکستان کے اندر بھی ایک بھارتی لابی ہے۔ جو الٹا پاکستان اور اس کی فوج کے بارے میں یہ Distorted Propaganda کرتے ہیں کہ یہ بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے خلاف ہے۔ اور ان کے اس الزام کا ٹارگٹ فوج ہوتی ہے۔ بھارت  نیویارک ٹائمز اور دوسرے امریکی اخبارات  کو اپنے اس پراپگنڈہ کے مقصد میں استعمال کرتا ہے۔
   جنرل ضیا الحق نے 1973 کے آئین کو معطل کر دیا تھا۔ اور پھر اس میں کچھ تبدیلیاں بھی کی تھیں۔ لیکن جنرل ضیا نے Shimla agreement  کو جس پر وزیر اعظم اندرا گاندھی اور صدر ذوالفقار علی بھٹو نے  1972 میں دستخط کیے تھے، اسے برقرار رکھا تھا۔ Shimla agreement دونوں ملکوں میں تعلقات فروغ دینے اور امن رکھنے کا Road map تھا۔ اس معاہدہ میں دونوں ملکوں نے مذاکرات کے ذریعہ تنازعوں کو حل کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ اور جنرل ضیا نے بھی اس سے اتفاق کیا تھا۔ جنرل ضیا نے اندرا گاندھی کو بڑی بہن کہا تھا۔ جنرل ضیا بھارت اور پاکستان کا کرکٹ میچ دیکھنے دہلی گیے تھے۔ جنرل ضیا وزیر اعظم راجیو گاندھی کے Funeral میں گیے تھے۔ پھر پاکستان کے ایک اور جنرل پرویز مشرف نے بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور کشمیر سمیت تمام تنازعوں کے حل کے لیے ایک ہزار قدم بڑھاۓ تھے۔ دہلی اور آگرہ کی سڑکوں پر امن کا کشکول لے کر امن کے لیے بھیک مانگتے رہے تھے۔ بھارت میں یہ عام تاثر بھی تھا کہ صرف فوج ہی کے ساتھ تنازعوں کے حل کا سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں عام تاثر یہ تھا کہ ہندو انتہا پسند جماعتوں کے ساتھ جنہوں نے پاکستان کے وجود کو کبھی تسلیم نہیں کیا تھا، امن اور تنازعوں کے حل کا سمجھوتہ ہو سکتا تھا۔ اور یہ جماعت جنتا پارٹی تھی۔ اس جماعت کے وزیر اعظم اٹل بہاری با جپائی تھے۔ اس جماعت کے رہنماؤں نے پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی آوازیں سن لی تھیں۔ جس کے بعد انہوں نے پاکستان کے وجود کو مینار پاکستان پر کھڑے ہو کر تسلیم کیا تھا۔ آگرہ میں صدر جنرل پرویز مشرف اور وزیر اعظم اٹل بہاری با جپائی کے درمیان میں بہت سے امور پر اتفاق ہو گیا تھا۔ جس میں کشمیر کے تنازعہ کا حل بھی تھا۔ لیکن پھر اچانک Last minute پر وزیر اعظم با جپائی اتنے ہی قدم پیچھے چلے گیے تھے جتنے قدم صدر جنرل پرویز مشرف چل کر ان کے پاس آۓ تھے۔ بعد میں یہ بتایا گیا تھا کہ ہندو انتہا پسندوں نے پاکستان کے ساتھ سمجھوتہ پر دستخط کرنے پر وزیر اعظم با جپائی کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔ اور وزیر اعظم با جپائی پیچھے ہٹ گیے تھے۔ یہ وہ ہی انتہا پسند ہندو تھے جنہوں نے برصغیر کی تقسیم پر دستخط کرنے پر مہاتما  گاندھی کو قتل کر دیا تھا۔ پھر کانگریس پارٹی کے وزیر اعظم من موہن سنگھ حکومت نے صدر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ سمجھوتہ پر دستخط کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن پاکستان میں صدر پرویز مشرف کے خلاف وکلا کی تحریک شروع ہو گئی تھی۔ دونوں ملکوں میں تنازعوں کے حل میں جو پیش رفت ہو رہی تھی وہ سرد خانہ میں چلی گئی تھی۔
   بھارت کی صفائی میں یہ Nonsense پراپگنڈہ ہے کہ پاکستان کی فوج بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ امریکی میڈیا اور پاکستان میں جو یہ پراپگنڈہ کر رہے ہیں وہ دراصل ہندو انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ اور بر صغیر میں ان کی تنازعوں کے Status quo کی سیاست کی حمایت کرتے ہیں۔ جبکہ اصل حقائق کو چھوپا یا جا رہا ہے۔ پاکستان کی سیاسی حکومتوں اور فوجی حکومتوں دونوں نے بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور تنازعوں کو بات چیت سے حل کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے اور اس کے لیے کوششیں بھی کی ہیں۔  ۔ لیکن پاکستان کے پاس اس کا کوئی حل نہیں ہے کہ بھارتی حکومتیں جو ہندو انتہا پسندوں کی قیدی بنی ہوئی ہیں انہیں اس قید سے کیسے رہا کرایا جاۓ۔ اور پھر آگے بڑھا جاۓ۔
   2014میں Kathmandu نیپال میں سارک کانفرنس کے دوران Sideline پر وزیر اعظم مودی اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان تنہائی میں گھنٹہ طویل ملاقات میں وزیر اعظم مودی نے وزیر اعظم نواز شریف سے کہا اگر میں تنازعوں کے حل میں پاکستان کی شرائط تسلیم کروں گا تو ہندو انتہا پسند مجھے قتل کر دیں گے۔ اور میں گاندھی جی بننا نہیں چاہتا ہوں۔ جس پر وزیر اعظم نواز شریف نے کہا مجھے خوف یہ ہے کہ اگر میں تنازعوں کو بھارت کی شرائط کے مطابق حل کرنے کو تسلیم کروں گا تو فوج مجھے مار دے گی۔ اب عالمی اور داخلی میڈیا میں نواز شریف کے خوف کا پراپگنڈہ ہو رہا ہے لیکن وزیر اعظم نر یندر مودی کا خوف سنسر کر دیا ہے۔                          

No comments:

Post a Comment