Pakistan: America’s Relations With A Nation Just
Turned 71
مجیب خان
امریکہ کی دفاعی اور خارجہ پالیسی
طاقتور لابیوں کے مشورے سے بنتی اور تبدیل ہوتی ہیں۔ ری پبلیکن اور ڈیمو کر یٹک
دونوں انتظامیہ میں اس لیے دفاعی اور خارجہ پالیسی میں نمایاں فرق نہیں ہوتا ہے۔
اور یہ Bi-partisan پالیسیاں ہوتی
ہیں۔ تاہم امریکہ کی مڈل ایسٹ پالیسی طاقتور اسرائیلی لابی کی تجویز سے بنتی ہے۔
اگر یہ امریکہ کی اپنی پالیسی ہوتی تو شاید عرب اسرائیل 70 سال تک کبھی تنازعہ
نہیں ہوتا۔ اور مشرق وسطی 70 سال سے جنگ کی آگ میں نہیں ہوتا۔ یہ ایک المیہ ہے کہ
لابیاں مخصوص مفادات کے لیے پالیسیوں کا تعین کرتی ہیں۔ لیکن ان کے نتائج کا امریکی
عوام سامنا کرتے ہیں۔ اور اب چند برسوں میں بھارتی نژاد امریکی بھی ایک طاقتور
لابی بن گیے ہیں۔ جو امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا
رہے ہیں۔ پہلے بش انتظامیہ پھر اوبامہ انتظامیہ اور اب ٹرمپ انتظامیہ میں بھارتی
نژاد امریکی قومی سلامتی امور، خارجہ امور اور دفاعی پلانگ اداروں میں اہم عہدوں
پر آ گیے ہیں۔ اور یہ امریکہ کی بالخصوص جنوبی ایشیا سے متعلق پالیسی میں اہم رول
ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں واشنگٹن سے آنے والے بیانات، اعلامیہ اور
فیصلے پر پاکستان میں تبصرہ نگاروں اور پالیسی ساز کو اس پہلو کو ضرور مد نظر
رکھنا چاہیے۔ بہرحال امریکہ پاکستان تعلقات کی 70سال کی شادی ہے۔ اس میں متعدد بار
اتار چڑھاؤ آیا ہے۔ امریکہ کی بندشوں کے نتیجہ میں کچھ عرصہ کی علیحدگی بھی ہوئی
تھی۔ لیکن پاکستان کو Divorce دینے کے لیے
امریکہ کو عرصہ تک غور کرنا پڑتا تھا۔ لیکن امریکہ پاکستان کے ساتھ 70 سال کے
تعلقات کو Divorce بھی دینا نہیں
چاہتا ہے۔ پھر بھارت امریکہ سے کئی گنا بڑا ملک ہے۔ امریکہ کا بھارت کی آبادی سے
بھی کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ بھارت ایشیا میں امریکہ کے لیے Subsidiary بن کررہنا پسند نہیں کرے گا۔
ایشیا کی بڑی طاقت بننے کے لیۓ بھارت کو ایشیائی ملکوں کے ایشو ز پر Non-align پوزیشن لینا ہو گی۔ امریکہ کے
بھارت سے Strategic تعلقات بھارت
کو یہ پوزیشن لینے کی اجازت دیں گے یا نہیں؟ اس وقت تک امریکہ کی تین انتظامیہ امریکی
کمپنیوں کے لیے اپنی مارکیٹ کھولنے پر بھارت کو آمادہ نہیں کر سکی ہیں۔ تاہم بھارت
نے بعض selective شعبوں میں
امریکی کمپنیوں کو اپنی مارکیٹ میں کاروبار کرنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن بھارت چین
کی طرح امریکی کمپنیوں کے لیے اپنے دروازے کھولنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ
نے بھارت کو بھی یہ دھمکی دی ہے کہ امریکی کمپنیوں کے لیے بھارت اپنی مارکیٹ کھولے
ورنہ بھارت کی اشیا پر Tariff لگائی
جائیں گی۔ صدر ٹرمپ آئندہ چند ہفتوں میں وزیر اعظم مودی سے ملاقات میں ان تمام امور پر بات کریں گے۔
پاکستان میں یہ تاثر ہے کہ امریکہ
پاکستان میں چین کے 60بلین ڈالر سے CPEC منصوبہ پر عملدرامد ہونے سے خوش نہیں ہے۔ کیونکہ اب امریکہ کو بھی
پاکستان سے تعلقات میں چین کے 60بلین ڈالر سے Match کرنا ہو گا۔ جبکہ امریکہ نے افغان جنگ میں پاکستان سے 60بلین ڈالر
سے تین گنا زیادہ خرچ کرواۓ ہیں اور انہیں ابھی تک Reimburse نہیں کیا ہے۔ امریکہ کا پاکستان
کے ساتھ تعلقات میں تناؤ پیدا ہونے کا یہ بھی ایک سبب ہے۔ امریکہ کو افغانستان میں
کوئی کامیابی نہیں ہو رہی ہے۔ لیکن چین نے افغانستان میں قدرتی وسائل اور معدنیات کی
دریافت کے تمام Contracts حاصل کر لیے
ہیں۔ امریکہ نے ابھی یہ نہیں کہا ہے کہ افغانستان میں ہمارے فوجی آپریشن پر
پاکستان نے جو اخراجات کیے ہیں۔ وہ پاکستان چین سے مانگے۔ ادھر بھارت میں بھی یہ ایک
تاثر ہے کہ امریکہ کو چین اور روس کے ساتھ بھارت کا Brick Block میں شامل ہونا پسند نہیں ہے۔ بھارت
کو اس بلاک سے دور رکھنے کے لیے امریکہ نے Pacific کی نئی حد بندی کی ہے اور بھارت کو اس میں شامل کرنے کے لیے اسے Indo- Pacific کا نام دیا ہے۔ اور یہاں بھارت کو
Brick Block سے زیادہ بڑا
رول دیا جا رہا ہے۔ لیکن بھارت نے Indian Ocean چھوڑ کر Indo-Pacific کی طرف کوچ
کرنے میں دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔ امریکہ بھارت Strategic تعلقات کے بارے میں یہ کہا جاتا
ہے کہ امریکہ بھارت کو چین کے مقابلے پر کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ اس میں شاید مبالغہ آ
رائی زیادہ ہے۔ ایران پر سخت اقتصادی بندشوں پر عملدرامد کرانے کے لیے صدر ٹرمپ نے
بھارت پر ایران سے تیل کی درآمد بند کرنے اور Chabahar Port کی تعمیر میں انویسٹ کرنے سے
روکنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔ اور بھارت کو دھمکی دی تھی کہ اگر بھارت ایران سے تجارت جاری ر کھے گا تو اس کے بنکوں پر بندشیں
لگ سکتی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے اس دباؤ میں مودی حکومت نے ایران سے تیل کی درآمد
نصف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور Chabahar Port کی تعمیر روک دی ہے۔ جبکہ چین نے ایران کے خلاف
امریکہ کی بندشوں کا تابعدار بننے سے انکار کر دیا ہے۔ ایران کے تنازعہ پر بھارت چین کے مقابلہ کی طاقت
نظر نہیں آ رہا ہے۔ حالانکہ بھارت کی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ بھارت صرف اقوام
متحدہ کے تحت بندشوں پر عمل کرے گا۔ کسی ایک ملک کی بندشوں پر بھارت عمل نہیں کرے
گا۔
90 کا عشرہ پاکستان امریکہ تعلقات کا
ایک بہترین عشرہ تھا۔ جب سینیٹر Larry Pressler ایکٹ کے تحت صدر جارج ایچ بش نے پاکستان پر بندشیں لگائی تھیں۔
صدر بش نے دراصل یہ بندشیں لگا کر پہلی بار پاکستان کا امریکہ پر انحصار ختم کیا
تھا۔ پاکستان کو جیسے برطانیہ کی Subsidiary سے آزادی ملی تھی۔ 90 کے عشرہ میں پاکستان نے اپنے آپ کو زندہ
رکھنا سیکھا تھا۔ اپنی سلامتی اور دفاع کے خود انتظامات کیے تھے۔ پاکستان کی خارجہ
پالیسی آزاد ہو گئی تھی۔ پاکستان کا ڈیفنس مضبوط ہوا تھا۔ پاکستان میں ٹینک، توپیں، ملٹری
ٹرک وغیرہ بننے لگے تھے۔ اور پھر 90 کے عشرہ کے اختتام پر پاکستان نے ایٹمی دھماکہ
کر دئیے تھے۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلا عشرہ تھا جس میں سیاسی پارٹیوں کی حکومتیں
تھیں۔ پھر نائن الیون واقعہ کے بعد امریکہ کی خارجہ پالیسی اسٹبلیشمنٹ کو یہ احساس
ہوا تھا کہ سینیٹر Pressler ایکٹ
غلط تھا۔ امریکہ کو پاکستان کے ساتھ ملوث رہنا چاہیے تھا۔ اسے تنہا نہیں چھوڑنا
چاہیے تھا۔ صدر جارج ڈبلو بش نے پاکستان کے ساتھ نئے تعلقات کا آغاز کرنے کا فیصلہ
کیا تھا۔ اور پاکستان کو یہ یقین دلایا تھا کہ اس کے ساتھ اب ایسا نہیں ہو گا جن
سے پاکستان میں شکایتیں پیدا ہوئی تھیں۔ صدر بش نے پاکستان کی اقتصادی ترقی میں
مدد کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ پاکستان نے صدر بش کی ان یقین دہانیوں پر اعتماد
کیا تھا۔ اور امریکہ کے ساتھ نئے تعلقات میں خلوص کا ثبوت دیتے ہوۓ صدر جنرل پرویز
مشرف نے پاکستان کی افغان پالیسی میں 180ڈگری سے یو ٹرن لیا تھا۔ طالبان کو اقتدار
سے ہٹانے میں بش انتظامیہ کے فوجی آپریشن کی حمایت کی تھی۔ لیکن یہ نئے امریکہ
پاکستان تعلقات آ گے بڑھنے کے بجاۓ افغانستان میں اٹک گیے تھے۔ بعض بیرونی عناصر
نے پاکستان کے ساتھ امریکہ کے نئے تعلقات کو پرانے تعلقات سے بھی زیادہ مشکوک بنا
دیا تھا۔ جنگ افغانستان میں طالبان کے خلاف ہو رہی تھی۔ لیکن پاکستان کے ایٹمی
ہتھیاروں پر قبضہ افغان جنگ کا جیسے اصل Theme تھا۔ پاکستان براہ راست جنگ کی زد میں تھا۔ نیٹو اور امریکہ نے
دہشت گردوں کا تعاقب کرنے کی آ ڑ میں پاکستان کے اندر حملہ کرنا شروع کر دئیے تھے۔
جس پر چین اور روس نے پاکستان کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی کرنے سے باز رہنے کا
کہا تھا۔ صدر اوبامہ کے دور میں پاکستان کے اندرونی حالات اس مقام پر آ گیے تھے کہ
یہ نظر آ رہا تھا ریاست پاکستان جلد Collapse ہونے والی تھی۔ پاکستان میں فوج اور سیکورٹی اداروں اور حساس
تنصیبات پر حملے ہو رہے تھے۔ پاکستان کو ان خوفناک حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
دوسو ملین کی آبادی کے ملک پاکستان کا Collapse اس خطہ کی تباہی کا سبب بن سکتا تھا جو سو نامی ہوتا۔ امریکہ نے
ایسی صورت میں پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو قبضہ میں لینے کے لیے Contingency plan تیار کر لیا تھا۔ پاکستان کے حالات
سے پیدا ہونے والے خطرات کو بیجنگ ماسکو دہلی میں تشویش سے دیکھا جا رہا تھا۔
بھارت کا استحکام براہ راست ان حالات کی زد میں تھا۔ چین اور روس کی کوششوں سے
پاکستان Collapse ہونے سے بچ گیا
تھا۔ جس کے بعد برطانیہ کے وزیر اعظم ڈ یوڈ کمیرن نے یہ بیان دیا تھا کہ "پاکستان
کی بقا برطانیہ کی بقا ہے۔ پاکستان پر حملہ برطانیہ پر حملہ سمجھا جاۓ گا۔" اس پالیسی کے نتیجہ میں امریکہ نے پاکستان کھو
دیا تھا۔ اور افغانستان میں جنگ بھی ہار گیا تھا۔ افغانستان میں امریکہ اپنی
ناکامیوں کا ذمہ دار خود ہے۔ پاکستان کے 180 ڈگری یو ٹرن سے امریکہ افغانستان میں
جنگ جیت گیا تھا۔ طالبان کابل چھوڑ کر بھاگ گیے تھے۔ لیکن پھر پاکستان کو AF-PAK بنانے کی پالیسی طالبان کو کابل
میں لے آئی تھی۔ اور اس امریکی پالیسی نے طالبان کو Formidable force بنایا تھا۔
اور اب چین کے ساتھ پاکستان کے
تعلقات خراب کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ شوشہ چھوڑے جا رہے ہیں کہ CPEC معاہدہ سے پاکستان کی خود مختاری
چین کے حوالے ہو جاۓ گی۔ اور چین پاکستان کو قرضوں میں جکڑ رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ چین
اور پاکستان کے 65 سال کے تعلقات ہیں۔ اور دونوں ملک ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح
سمجھتے ہیں۔ اچھے اور برے وقتوں میں دونوں ملکوں نے مضبوطی سے ہاتھ تھام کر سامنا
کیا ہے۔ گمراہ کرنے والی آوازیں پاکستان اور چین کا راستہ تبدیل نہیں کر سکتی ہیں۔
پاکستان نے اگر یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اسے چین کے ہمسایہ میں کینیڈا بن کر رہنا
ہے۔ تو CPEC کے تمام منصوبے
پورے ہوں گے۔ قرضہ اچھے بھی ہو سکتے ہیں۔ اور قرضہ برے بھی ہو سکتے ہیں۔ ان کا انحصار
اس پر ہوتا ہے کہ یہ کس لیے حاصل کیے جا رہے ہیں۔ اور انہیں کن مقاصد میں استعمال
کیا جا رہا ہے۔ قرضہ اگر معاشی سرگرمیوں کی رفتار بڑھانے میں استعمال ہو رہے ہیں
تو یہ بلاشبہ اچھے قرضہ ہیں۔ قرضوں کو اگر کرپشن کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے تو
یہ برے قرضہ ہیں۔ ان سے قوم کی نسلوں کو مقروض بنایا جا رہا ہے۔ چین کے قرضوں سے
پاکستان میں جب سڑکیں اور پل بننے گے۔ بندر گاہ تعمیر ہو گی۔ ریلوے کا نظام بہتر
ہو گا۔ تو پاکستان میں اقتصادی سرگرمیوں کا فروغ ہو گا۔ بندر گاہ پر ہزاروں
نوکریاں پیدا ہوں گی۔ پاکستان کے وسائل آمدن میں اضافہ ہو گا تو چین کے قرضہ بھی
ادا ہو جائیں گے۔ پاکستان میں بندر گاہ، سڑکوں پلوں کو چین ایشیا کے دور دراز
ملکوں میں اپنی تجارت پھیلانے میں استعمال کرے گا۔ معاشی سرگرمیاں Interconnected ہوتی جائیں گی۔ اور پاکستان ایشیا
میں تجارتی سرگرمیوں کا Hub ہو گا۔
No comments:
Post a Comment