Saturday, August 25, 2018

President Trump’s New Sanctions On China And Russia, Selling Liquor And Tobacco To Under Age Little Rocket Man Of North Korea


      
  President Trump’s New Sanctions On China And Russia, Selling Liquor And Tobacco To Under Age Little Rocket Man Of North Korea

مجیب خان

President Donald Trump and North Korea's Leader Kim Jong Un

Kim Jong-un Visits Kumsong Tractor Factory

Kim Jong-un visits Pyongyang Kim Jong Suk silk mill 

Preparation for a Trade war with America
  
   امریکہ 60 ملکوں سے تنہا جنگ نہیں جیت سکا ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ اب یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکہ 60ملکوں سے ٹریڈ وار یا Economic war ضرور جیت سکتا ہے۔ اور اس عزم کے ساتھ صدر ٹرمپ نے دنیا میں Trade war شروع کر دی ہے۔ 17 سال سے جنگوں میں امریکہ نے اپنے تمام ہتھیار استعمال کر  لئے ہیں۔ 3ٹریلین ڈالر بھی خرچ کیے ہیں۔ لیکن کسی ایک جنگ میں بھی پائدار کامیابی نہیں ہو سکی تھی۔ تاہم صدر ٹرمپ کو Economic war جیتنے کی روشنی  نظر آ رہی ہے۔ چین دنیا کی ابھرتی Economic Power ہے۔ اس لئے صدر ٹرمپ نے اپنی Economic war کا حملہ چین پر کیا ہے۔ اور اس میں جو ہتھیار استعمال کیا ہے وہ Tariff ہے۔ اور دوسرا ہتھیار Economic sanction ہیں۔ یہ Sanctions سیاسی نوعیت کی ہیں۔ جبکہ ان میں کچھ Sanctions شمالی کوریا پر عائد Sanctions کی خلاف ورزیاں کرنے اور شمالی کوریا کے ساتھ تجارت جاری رکھنے کی وجہ سے چین پر Sanctions  لگائی گئی ہیں۔ روس پر Economic sanctions سرد جنگ کے دور سے لگی ہوئی ہیں۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ کی سوچ میں کیونکہ کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ امریکہ نے اپنی سوچ میں سرد جنگ کا Status quo برقرار رکھا تھا۔ اس لئے روس پر سے یہ Sanctions بھی نہیں ہٹائی گئی تھیں۔ بلکہ Artificial Reasons کی بنیاد پر روس پر نئی Sanctions لگا دی جاتی تھیں۔ روس پر یو کر ین کے مسئلہ پر نئی Economic sanctions  لگائی گئی ہیں۔ پھر مڈل ایسٹ میں امریکہ کی جنگوں میں روس کے ٹانگ اڑانے پر Sanctions لگی ہیں۔ اور اب 2016  کے  انتخاب میں روس کی مداخلت ہونے پر کانگریس نے روس پر Sanctions  کے قانون منظور کیے ہیں۔ جن پر ٹرمپ انتظامیہ سے عملدرامد کر وایا جا رہا ہے۔ ایران پر امریکہ کی Sanctions اسلامی انقلاب کے بعد امریکی سفارت کاروں کو یرغمالی بنانے پر لگائی گئی تھیں۔ جو امریکی سفارت کار اس وقت 40برس کے تھے وہ اب 80برس کے ہو گیے ہیں لیکن ایران پر وہ Sanctions ابھی تک لگی ہوئی ہیں۔ ایران کے ساتھ پھر ظلم یہ ہے کہ پرانی Sanctions  جو بالکل Obsolete ہو چکی ہیں اور انہیں لگانے کا کوئی مقصد بھی نہیں ہے۔ لیکن انہیں صرف ایرانی عوام پر مسلط رکھنا مقصد ہے۔ پھر ایران کے ایٹمی پروگرام کے مسئلہ پر نئی Sanctions لگائی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ اسرائیل اور سعودی عرب کے ان مسلسل مطالبوں پر کہ ایران مڈل ایسٹ چھوڑ کر کہیں اور چلا جاۓ، امریکہ نے اس پر مجبور کرنے کے لئے ایران کو Sanctions  میں دبا دیا ہے۔ 40 سال میں امریکہ کی سلامتی کے لئے ایران سے خطرہ ہونے کے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہیں۔ ایرانی دنیا میں دہشت گردی بھی نہیں کر رہے ہیں۔ بلکہ دہشت گردی کے خلاف انہوں نے امریکہ سے تعاون بھی کیا تھا۔ اسرائیل کا یہ واویلا ہے کہ شام میں ایران کی موجودگی سے اس کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ جبکہ ایران کے ہمسایہ میں خلیج میں امریکہ کے بحری بیڑے اور فوجی اڈے ہیں جو ایران کی سلامتی اور استحکام کے لئے خطرہ ہیں۔ ایران کے سلسلے میں امریکہ کا بہت Hostile behavior ہے۔ جبکہ شام میں اسرائیل کی سرحد کے قریب ایران کے ملیشیا داعش سے لڑ رہے ہیں۔ اور شام کی خانہ جنگی میں د مشق حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔ جیسے اوبامہ انتظامیہ د مشق حکومت کے خلاف دہشت گردوں کی مدد کر رہی تھی۔ اسرائیلی حکومت جو محکوم فلسطینیوں کی آزادی اور حقوق کی تحریک بھر پور فوجی مشین سے کچل رہی ہے۔ لیکن اپنے ہمسایہ میں د مشق حکومت کے خلاف دہشت گردوں کی تحریک کی حمایت کر رہی تھی۔ اسرائیل نے امریکہ کو شام میں تباہی  پھیلانے سے روکا کیوں نہیں تھا۔ بلاشبہ اس کے Consequences بھی تھے۔ جن کا اسرائیل کو اب سامنا کرنا چاہیے۔ انہیں ایران تباہ کرنے کے مقصد میں استعمال نہیں کیا جاۓ۔ مڈل ایسٹ میں دنیا کے لئے پیشتر بیماریاں 70سال کی اسرائیلی پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔
  ٹرمپ انتظامیہ کی Economic war میں ترکی ایک نیا ایڈیشن ہے۔ ترکی نیٹو کا رکن ہے۔ ایک نیٹو رکن کے خلاف دوسرے نیٹو رکن کی Economic war فوجی الائنس کا End Game ہے۔ ویسے تو ترکی کو عدم استحکام کرنے اور اس کے مفادات کے خلاف کام کرنے کی ابتدا اوبامہ انتظامیہ میں ہو گئی تھی۔ ترکی کے باغی کرد و ں کو داعش سے لڑنے کی آ ڑ میں تربیت دی جا رہی تھی۔ اور انہیں ہتھیار بھی فراہم کیے جا رہے تھے۔ باغی کرد و ں نے ترکی کے اندر حملہ شروع کر دئیے تھے۔ استنبول میں بموں کے دھماکے ہونے لگے تھے۔ سینکڑوں بے گناہ ترک شہری ان دھماکوں میں مارے گیے تھے۔ باغی کرد و ں کی دہشت گردی ترکی کو عدم استحکام کر رہی تھی۔ جس پر صدر اردو گان نے یہ بیان دیا تھا کہ امریکہ نے ان کی پشت میں چھرا گھونپا تھا۔ ترکی کے اندرونی اور اس کے ارد گرد کے حالات ترکی کی معیشت کو Drain کر رہے تھے۔ اور اب ٹرمپ انتظامیہ کی ترکی پر Economic Sanctions کے نتیجہ میں ترکی کی کرنسی تقریباً 45  فیصد گر گئی ہے۔ ترکی پر یہ اقتصادی بندشیں صدر ٹرمپ نے ایک امریکی پادری Andrew Brunson کو ار دو گان حکومت نے رہا کرنے سے انکار کرنے پر لگائی ہیں۔ امریکی پادری کو دہشت گردی کے الزام میں ترکی کی عدالت نے سزا سنائی ہے۔ صدر ارد گان کا کہنا ہے کہ امریکی پادری ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں ملوث تھا۔ اس کی رہائی کے سلسلے میں کئی اپیلیں مستر د ہو چکی ہیں۔ امریکی پادری اب گھر میں نظر بند ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکی پادری جب تک رہا نہیں کیا جاۓ گا ترکی پر سے اقتصادی بندشیں نہیں ہٹائی جائیں گی۔ بلکہ ترکی پر نئی بندشیں بھی لگ سکتی ہیں۔ ایک شخص کی رہائی کے لئے جسے ترکی کی عدالت نے سزا سنائی ہے۔ اسے رہا کرانے کے لئے 80ملین ترک عوام کو اقتصادی بندشوں کا یرغمالی بنانے کے بجاۓ صدر ٹرمپ کو کوئی تیسرا راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ ایسے طریقے اکثر انتہا پسند تنظیمیں استعمال کرتی ہیں۔ طالبان افغانستان میں مغربی شہری اور صحافی یرغمالی بنا لیتے تھے اور پھر انہیں رہا کرنے کے لئے اپنے مطالبے تسلیم کرواتے تھے۔
    صدر ٹرمپ نے اس ماہ چین اور روس پر شمالی کوریا کو Liquor اور Tobacco فروخت کرنے پر نئی اقتصادی بندشیں لگا کر یہ سزا دی ہے کہ انہوں نے ایک کم عمر Little Rocket man کو Liquor اور Tobacco کیوں فروخت کیا تھا۔ جو امریکی قانون کی خلاف ورزی تھی۔ Minor کو Liquor اور Tobacco فروخت کرنا ممنوع ہے۔ صدر ٹرمپ اسلامی ملکوں میں اگر یہ فیصلہ کرتے تو ان ملکوں کے سارے مذہبی رہنما انہیں اپنا پیر بنا لیتے۔ بہرحال اس سال جون میں Trump-Kim ملاقات کے بعد آ بناۓ کوریا کے Status quo میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ تاہم شمالی کوریا کے رہنما Kim Jong un نے خود یکطرفہ فیصلے کیے ہیں اور اپنی جنگجو نہ سوچ تبدیل کر لی ہے۔ ایٹمی ہتھیار بنانے اور میزائلوں کے تجربے کرنا بند کر دئیے ہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ کی شمالی کوریا کے خلاف سخت اقتصادی بندشیں لگانے کی سوچ میں نرمی نہیں آئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کے رہنما Kim Jong un کے اس مطالبہ کا کہ آ بناۓ کوریا میں 60سال سے جاری جنگ کو اب ختم کرنے کا اعلان کیا جاۓ، اس کا بھی کوئی مثبت جواب نہیں دیا ہے۔ شمالی کوریا کے رہنما نے جب یہ دیکھا کہ اس کے ہمسایہ میں چین کے ساتھ امریکہ نے ایک نئی جنگ “Trade War” کے نام سے شروع کر دی ہے۔ تو شمالی کوریا کے رہنما نے اس جنگ میں چین کی حمایت کے لئے اپنی ایک نئی Economic Strategy  بنائی ہے۔ اور ایٹمی ہتھیاروں پر توجہ دینے کے بجاۓ اقتصادی – صنعتی ترقیاتی منصوبوں پر زیادہ توجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاکہ شمالی کوریا کو امریکہ کے ساتھ Trade War کے لئے تیار کیا جاۓ۔ امریکہ لفظ War سے بڑی محبت کرتا ہے اور شمالی کوریا کے عوام لفظ War کو بڑی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ شمالی کوریا نے 60سال امریکہ کی اقتصادی بندشوں میں اپنی قوم کو زندہ رکھا ہے۔ اقتصادی بندشوں کے باوجود اپنے دفاع کو مضبوط بنایا ہے۔ اور ایٹمی ہتھیار بناۓ ہیں۔ اور اب ان اقتصادی بندشوں میں شمالی کوریا اقتصادی اور صنعتی طاقت بھی بن سکتا ہے۔ قوم میں چیلنج قبول کرنے کا Potential ہے۔              

No comments:

Post a Comment