Senator John McCain Was An Icon In Congressional
Politics, But He Left Behind A Very Messy World For Children And Grand Children
مجیب خان
senator John McCain visits rebels in Syria |
Senator John McCain with anti-Assad terrorists in Syria |
Rebel fighters fire weapons in Benghazi, Libya |
Libyan followers of Ansar al-Shariah Brigades |
سینیٹر جان مکین کی Military Service اور Patriotism قابل تحسین ہیں۔ سینیٹر مکین Congressional Politics کے Icon تھے۔ ان کی اس شخصیت سے کسی کو
کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن سینیٹر مکین کی شخصیت کا ایک دوسرا رخ بھی۔ جس میں ان
کی شخصیت بہت مختلف نظر آتی ہے۔ اور یہ ایک سینیٹر کی حیثیت سے ان کی شخصیت ہے۔ وہ
6 مرتبہ سینیٹر منتخب ہوۓ تھے۔ اور ہر مرتبہ ان کی سوچ اور کردار ایک ہی طرح کا
ہوتا تھا۔ سینیٹر جان مکین امریکہ کی سیکورٹی، ڈیفنس اور خارجہ پالیسی کے بارے میں
بہت زیادہ Hawkish تھے۔ اور ان کی
یہ سوچ کبھی تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ دنیا کے
ہر تنازعہ کو وہ اپنے Hawkish نظریہ سے دیکھتے
تھے۔ دوسرے ملکوں کے اندرونی تنازعوں میں مداخلت اور طاقت کے استعمال پر زور دیتے
تھے۔ اور جو Hawkish ہوتے ہیں۔ وہ
تنازعوں کو پرامن طریقوں سے حل کرنے میں یقین نہیں رکھتے ہیں۔ اور ہر تنازعہ کا حل
طاقت کے استعمال میں دیکھتے ہیں۔ دنیا میں امن فروغ دینے میں سینیٹر مکین کا اتنا
زیادہ رول نہیں تھا کہ جتنا بڑا رول دنیا میں امریکہ کی جنگیں Shape دینے میں تھا۔ سینیٹر مکین نے
امریکی انتظامیہ کو پرامن سفارتی طریقوں سے تنازعوں کے حل کے لئے تجویزیں نہیں دی
تھیں۔ 2008 کے صدارتی انتخاب کی مہم میں سینیٹر مکین ایران کے ایٹمی پروگرام کے
مسئلہ کا حل بم بم بم کرنے لگے تھے۔ سینیٹر مکین عراق سے امریکی
فوجوں کے انخلا کے خلاف تھے۔ سینیٹر مکین افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے
خلاف تھے۔ ان کے خیال میں افغانستان میں امریکہ کی غیر معینہ مدت تک فوجی موجودگی
افغان جنگ کی کامیابی تھی۔ سینیٹر مکین سینٹ کی آ ر مڈ سر و سس کمیٹی کے چیرمین
تھے۔ لیکن افغانستان میں جلد امن اور عراق میں فوری استحکام کے لیے سینیٹر مکین نے
کوئی پلان یا تجویزیں نہیں دی تھیں۔ امریکی فوجوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کی
تجویزیں دراصل جنگ ایک طویل عرصہ جاری رکھنا تھا۔ افغان جنگ کو 17 سال ہو گیے ہیں۔
اور سینیٹر مکین افغان جنگ امریکی عوام کے لیے چھوڑ گیے ہیں۔ 50 ہزار امریکی فوجی افغانستان
میں ہیں۔ ان کے واپس آنے کا ابھی کوئی امکان نہیں ہے۔ اور نظر یہ آ رہا ہے کہ یہ
2020 کے صدارتی انتخاب میں بھی اپنے ووٹ کابل ہی سے ڈالیں گے۔ عراق جنگ ابھی تک Debacle Mode میں ہے۔ عراق میں استحکام کا فاصلہ
اتنا ہی دور ہے کہ جتنا زمین سے امریکہ کے خلائی اسٹیشن کا فاصلہ ہے۔ عراق جنگ کو
بھی اب 15 سال ہو گیے ہیں۔ لیکن امریکی فوجیں یہاں بھی ابھی تک ہیں۔ جو امریکی
فوجی عراق میں 18 یا22 سال کی عمروں میں یہاں آۓ تھے۔ وہ اب 33 اور 37 برس کے ہو
گیے ہیں۔ سینیٹر مکین نے افغان اور عراق جنگوں کے آغاز میں بڑی سرگرمی دکھائی تھی۔
لیکن ان جنگوں کو ختم کرانے میں سینیٹر مکین کو جیسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ افغانستان
اور عراق میں جنگیں دنیا کے امن پسند لوگوں کے لئے سر درد بنی ہوئی تھیں۔ کہ لیبیا
کے داخلی معاملات میں سینیٹر مکین کی مداخلت نے خانہ جنگی بنا دیا تھا۔ سینیٹر
مکین نے اوبامہ انتظامیہ سے قد ا فی حکومت کے مخالفین کو ہتھیار فراہم کرنے کی اپیلیں کی تھیں۔ ان کے ساتھ دو اور سینیٹر لنڈ زی
گر ہیم اور جو ز ف لیبر مین بھی شامل تھے۔ جنگوں کے شوق نے انہیں Blind کر دیا تھا کہ یہ کسی کی سننے کو تیار نہیں تھے۔ حالانکہ صدر قد ا
فی ان کے وزیر اور ان کے انٹیلی جنس کے حکام امریکہ کو بتا رہے تھے کہ یہ القا عدہ
اور اسلامی انتہا پسند ہیں جو ان کی حکومت ختم کر کے لیبیا کو اسلامی ریاست بننا
چاہتے تھے۔ لیکن قد ا فی کے بیانات اور ان کی انٹیلی جنس کے حکام کی رپورٹوں کو
صدر اوبامہ نے اہمیت دی تھی اور نہ ہی امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اعلی حکام
نے کوئی توجہ دی تھی۔ اوبامہ انتظامیہ صرف سینیٹر مکین کی اپیلوں کو اہمیت دے رہی
تھی۔ اسلامی انتہا پسندوں کو ہتھیاروں سے مسلح کر کے صدر اوبامہ اور سینیٹر مکین
نے لیبیا کا استحکام اور امن تہس نہس کر دیا تھا۔ لیبیا کے عدم استحکام ہونے سے
سارے افریقہ کا امن خطرے میں آ گیا تھا۔ یہ صورت حال پیدا کر کے پھر یورپ کو Immigrants سو نامی کی صورت میں دی گئی تھی۔
یہ مسئلہ یورپ کی سیکیورٹی کے لئے سر درد بن گیا تھا۔ یورپ کے لوگوں میں امریکہ کے
خلاف غصہ تھا کہ امریکہ مڈل ایسٹ میں یہ کس کا کھیل کھیل رہا تھا؟
سینیٹر مکین نے عراق سے سبق تھا۔ نہ
لیبیا سے سیکھا تھا۔ بلکہ مسلسل عدم استحکام پھیلانے کی جنگیں فروغ دیتے رہے تھے۔ یہ عدم استحکام اور جنگیں انتہا
پسندی اور دہشت گردی پھیلا رہی تھیں۔ بن غازی میں ان ہی لوگوں نے جن کے ساتھ چند
ماہ پہلے سینیٹر مکین سینیٹر لنڈ ز ی گر ہیم کھڑے تھے، امریکی سفیر اور چار دوسرے
امریکیوں کو بن غازی میں امریکی کو نسلیٹ پر حملہ میں مار دیا تھا۔ اس کے باوجود
انہوں نے شام میں تخریب کاروں، دہشت گردوں، اسلامی انتہا پسندوں کی جو افغانستان
میں طالبان سے زیادہ خطرناک تھے ان کی حمایت کی تھی انہیں ہتھیار دئیے تھے۔ انہیں
تربیت بھی دی جا رہی تھی۔ شام میں خانہ جنگی کو 7 سال ہو گیے ہیں۔ عراق جنگ کو 15
سال ہو گیے ہیں۔ لیبیا میں 7 سال سے مختلف گروپوں میں لڑائی جاری ہے۔ افغان جنگ کو 17 سال ہو گیے ہیں۔ سینیٹر مکین
اتنے Influential سینیٹر تھے کہ
ان کے کہنے پر انتظامیہ حالات کو جنگ کی طرف لے جاتی تھی۔ لیکن سینیٹر مکین جنگیں ختم
کر کے حالات کو امن کی طرف لانے میں اتنے Influential سینیٹر نہیں تھے۔ ان کی زندگی میں جو جنگیں شروع ہوئی تھیں۔ انہوں
نے ان جنگوں کو اپنی زندگی میں ختم کرنے کی کبھی بات نہیں کی تھی۔ سینیٹر مکین نے
فلسطین اسرائیل تنازعہ کے حل کی کبھی بات نہیں کی تھی۔ فلسطینیوں کی آزادی کی اس
طرح حمایت نہیں کی تھی کہ جس طرح سینیٹر مکین نے لیبیا اور شام کے لوگوں کی آزادی
کی مسلح جد و جہد کی حمایت کی تھی۔ امریکہ نے حما س کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا
تھا۔ لیکن ان کے Cousins کی لیبیا اور
شام میں دہشت گردی کی حمایت کی تھی۔ اسرائیل اور سعودی عرب انہیں Support کرتے تھے۔ تاریخ نے انسانیت کے
ساتھ ایسا مذاق نہیں دیکھا ہو گا۔
یہ جان مکین کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں ویت نام
جنگ کے بعد 60 سال دنیا دیکھنے کا موقعہ ملا تھا۔ ان کے ویت نام جنگ کے زخم بھی
بھر گیے تھے۔ لیکن عراق جنگ میں 18 سال کی عمر کے جو فوجی مر گیے تھے۔ انہیں 60سال
کے بعد کی دنیا میں عراق دیکھنا نصیب نہیں ہو سکا۔ اور جو امریکی فوجی 20 یا 25
برس کے تھے۔ اور عراق یا افغانستان میں جنگ میں ساری زندگی کے لئے آ پاہج ہو گیے
ہیں۔ آئندہ 60 سال تک وہ اپنے زخموں کو دیکھتے رہیں گے۔ اور ان زخموں کے ساتھ اپنے
آپ کو زندہ رکھیں گے۔ امن جیسے جان مکین
کا DNA نہیں تھا۔ ان کی ساری زندگی جنگوں
میں گزری تھی۔ سرد جنگ، گرم جنگ، ویت نام جنگ، عراق جنگ، افغان جنگ، شام میں جنگ،
یمن جنگ، دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ، ISIS کے خلاف جنگ اور یہ جنگیں اب امریکہ کے اسکولوں میں پہنچ گئی ہیں۔
جہاں سینکڑوں بچے اسکولوں میں شوٹنگ سے مر گیے ہیں۔ سینیٹر مکین عراق، لیبیا اور
شام میں لوگوں کو آزادی دلانے کی خونی جنگوں میں مدد کر رہے تھے۔ لیکن امریکہ میں
اسکولوں میں بچوں کی آزادی ختم ہو گئی ہے۔ سینیٹر مکین نے ان بچوں کی اسکولوں میں آزادی
کے لئے کچھ نہیں کیا تھا۔
No comments:
Post a Comment