Shahbaz Sharif, As A Leader Of The Opposition Restore Civility
And Decency In The Democratic Politic
مجیب خان
وزیر اعظم کو منتخب کرنے کے لئے
پارلیمنٹ کے اجلاس میں شکست خوردہ، نعرہ باز اور بازاری زبان میں سیاست کے عادی
لیڈروں کا رویہ پارلیمانی آداب سے بہت گرا ہوا تھا۔ مسلم لیگ ن کے شہباز شریف جو
قائد حزب اختلاف ہوں گے۔ پارلیمنٹ کے آداب سے بالکل باہر جیسے لوہاری گیٹ پر خطاب
کر رہے تھے۔ ان کے لفظوں میں اس کا غصہ تھا کہ عمران خان نے ان کے وزیر اعظم بننے
کا خواب پاش پاش کر دیا تھا۔ 2013 کی
انتخابی مہم میں شہباز شریف کی وہ تاریخی تقریر لوگوں کے ذہنوں میں ہو گی جس میں
وہ اپنے سینے پر ہاتھ مار کر کہتے تھے کہ "زر داری تمہیں لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹوں گا میرا نام شہباز
شریف نہیں ہو گا۔" پارلیمنٹ کے اجلاس سے شہباز شریف کے پہلے خطاب کا بالکل یہ
لہجہ تھا۔ ان کی جماعت کے اراکین جو ان کے پیچھے بیٹھے ہوۓ تھے۔ شہباز شریف کی
تقریر کے دوران نعرے بازی کر رہے تھے۔ کہ ووٹ چراۓ ہیں۔ یہ وہ جماعت ہے جسے ووٹروں
کا احترام ہے نہ پارلیمنٹ کا احترام ہے۔ نہ سپریم کورٹ کا احترام ہے۔ یہ صرف ایک
ایسی جمہوریت چاہتے ہیں جس میں By hook or By crook ووٹ ڈلواۓ جاتے ہیں۔ اور پھر الیکشن میں جیت ہونے کے دعوی کیے
جاتے ہیں۔ لوگ خود ذرا غور کریں کہ پانچ سال پارٹی کے اقتدار کی کار کر دگی C-Grade میں ہے۔ لیکن انتخابات کے نتائج
میں پارٹی A-Grade مانگ رہی ہے۔
اس صورت میں انتخابات میں A-Grade صرف دھاندلیوں
سے مل سکتا تھا۔ ہارنے والی جماعتوں کو یہ Nonsense بند کرنا چاہیے کہ ووٹ چراۓ ہیں۔ یا فوج نے اپنے
پسندیدہ امیدوار کو کامیاب کرایا ہے۔ حقائق ان کے دعووں کی بالکل حمایت نہیں کرتے
ہیں۔ ہارنے والی جماعتوں کو دراصل ان اسباب پر توجہ دینا چاہیے جو ان کی شکست کا
سبب ہیں۔
2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے
صوبہ پنجاب میں قومی اسمبلی کی تقریباً 60 نشستیں حاصل کی تھیں۔ جبکہ مسلم لیگ ن
نے تقریباً 50 نشستیں حاصل کی تھیں۔ لیکن 2013 کے انتخابات میں صوبہ پنجاب سے
پیپلز پارٹی کا بالکل صفایا ہو گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی پیشتر نشستیں مسلم لیگ ن
کے پاس آ گئی تھیں۔ پیپلز پارٹی یہ انتخاب بری طرح ہار گئی تھی۔ پیپلز پارٹی صرف
ایک مرتبہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کو کیش کر سکی تھی۔ دوسری مرتبہ بے نظیر بھٹو کی
شہادت کو کیش کرنے کی پیپلز پارٹی کی کوشش کو لوگوں نے ناکام بنا دیا تھا۔ پنجاب
میں پیپلز پارٹی کی قیادت اپنی دوکان بند کر کے اپنے گھروں کو چلے گیے تھے۔ اب
2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کے پاس قومی اسمبلی کی 152 نشستیں ہیں۔ جبکہ
مسلم لیگ ن کے پاس 81 نشستیں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پاس 54 نشستیں ہیں۔ صوبہ پنجاب
میں مسلم لیگ ن کی پیشتر نشستیں تحریک انصاف کے پاس آ گئی ہیں۔ اور یا آزاد
امیدواروں نے لے لی ہیں۔ صوبہ پنجاب میں قومی اسمبلی کی جن نشستوں پر مسلم لیگ ن
کو شکست ہوئی ہے ان پر تحریک انصاف کے امیدوار
یا آزاد امیدوار کامیاب ہوۓ ہیں۔ اس Election Demography میں ووٹ چوری کرنے کے ثبوت نظر
نہیں آتے ہیں۔ مسلم لیگ ن 2013 میں جتنی زیادہ نشستوں سے انتخاب جیت کر اقتدار میں
آئی تھی۔ 2018 کے انتخاب میں تقریباً اتنی ہی نشستوں پر انتخاب ہار کر اقتدار کے
ایوان سے باہر ہوگئی ہے۔ جمہوری نظام میں حکومت کی Performance انتخابات کے نتائج کا تعین کرتے
ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ دو انتخاب اس کی تائید کرتے ہیں۔ جہاں تک اسلامی جماعتوں
کی انتخابات میں شکست پر واویلا ہے۔ گزشتہ 50 سال سے انہوں نے واویلا ہی میں اپنی
طاقت دکھائی ہے۔ پاکستان میں اب تک جتنے انتخابات ہوۓ ہیں۔ ان سب میں اسلامی
جماعتوں نے اپنی بری طرح شکست کو دھاندلی کہا ہے۔ اور پھر سڑکوں پر واویلا کی طاقت
سے دنیا کو یہ دکھایا تھا کہ طاقت اور اکثریت ان کی تھی۔
1969 میں جنرل Yahya Khan کی فوجی حکومت میں الیکشن کو کسی
پارٹی نے دھاندلی ہونے کا الزام نہیں دیا تھا۔ سب نے اسے انتہائی صاف ستھر ے الیکشن
کہا تھا۔ اس انتخاب میں جمعیت علماۓ اسلام قومی اسمبلی کی 10 نشستیں حاصل نہیں کر
سکی تھی۔ جماعت اسلامی نے قومی اسمبلی میں 7 نشستیں حاصل کی تھیں۔ جمعیت علماۓ اہل
سنت نے بھی تقریباً 8 نشستیں حاصل کی تھیں۔ یہ پاکستان میں اسلامی جماعتوں کا
انتخاب جیتنے کا ریکارڈ ہے۔ جماعت اسلامی نے جنرل ضیا الحق کی فوجی کابینہ میں 10
وزارتیں حاصل کر لی تھیں۔ لیکن جماعت اسلامی انتخابات میں قومی اسمبلی کی 10 نشستیں
حاصل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ ان کی منافقانہ سیاست اور اسلام کے
نام پر غیر اسلامی رویہ کی وجہ سے ان جماعتوں کا انتخاب جیتنے کا گراف بھی گرتا
گیا ہے۔ کرپشن کی سیاست میں اسلامی جماعتوں کے رہنما بھی ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔
بلکہ ان کے اس رول سے مذہب میں بھی کرپشن آ گیا ہے۔ اسلامی انتہا پسندی اور دہشت
گردی نے اسلامی جماعتوں کی ساکھ اور زیادہ خراب کر دی ہے۔ معاشرہ میں مذہبی
رہنماؤں کا جو رتبہ تھا وہ Depreciate ہو گیا ہے۔ مذہب
اور سیاست کے درمیان کھڑے ہو کر سیاست کرنے سے دنیا کی برائیوں سے ان کے دامن بھی
داغدار ہیں۔ ان الزامات کا انتخاب خود انہوں نے اپنے لئے کیا ہے۔ یہ اس کے ذمہ دار
ہیں۔
شیطان بھی آج اللہ کے سامنے کھڑا ہو گا اور رو
رہا ہو گا کہ اے اللہ میں نے تجھ سے صرف یہ کہا تھا کہ میں تیرے بندوں کو گمراہ
کرتا رہوں گا۔ میں نے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ میں تیرے بندوں کے گلے کاٹوں گا۔
انہیں خود کش بموں کے لئے استعمال کروں گا۔ اے اللہ میں (شیطان) نے مسجدوں میں خود
کش بم کا حملہ کرنے والے بھیجنے کا نہیں کہا تھا۔ میں نے صرف یہ کہا تھا کہ میں
تیرے بندوں کو تیرے بارے میں گمراہ کرتا رہوں گا۔ اے اللہ تیرے دین کے جنہوں نے
ٹکڑے کیے ہیں اور اسے مختلف فرقوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ اے اللہ میں نے انہیں ایسا
کرنے کے لیے گمراہ نہیں کیا تھا۔ وہ دنیا کی سیاست میں بھٹک گیے ہیں اور انہوں نے
تیرے دین کے ٹکڑے کر دئیے ہیں۔ اے اللہ میں (شیطان) تیرے بندوں کو صرف گمراہ کرتا
تھا۔ جیسے تیرے بندے نماز کے ارادے سے گھر سے نکلتے تھے اور میں انہیں زر داری کے
سینما کا راستہ دیکھتا تھا۔ بلاشبہ پاکستان میں شاید شیطان نے اللہ کے بندوں کو
اتنا گمراہ نہیں کیا ہو گا کہ جتنا مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے قوم کو گمراہ کیا
ہے۔ مذہبی جماعتوں کی سیاست میں بھی اب اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔
No comments:
Post a Comment