Trump Administrations' Most Biting Sanctions, Ever
Sanctions On Iran’s Access To The U.S. Dollar Is The Threat Of Economic Security
Sanctions On Iran’s Access To The U.S. Dollar Is The Threat Of Economic Security
مجیب خان
President Donald Trump signs a document reinstating sanctions against Iran after announcing the US withdrawal from the Iran Nuclear deal |
Iran, People taking out money from ATM |
Death, Destruction and Suffering under the Sanctions Regime on Iraq |
During the Sanctions Regime Iraqis had to hold funeral processions for their Children almost on a daily basis |
صدر ٹرمپ کی ایران پالیسی America First نہیں ہے۔ یہ دراصل Israel First پالیسی ہے۔ صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کو کامیاب بنانے میں اسرائیل کے بھی Invisible hand ہیں۔ صدر ٹرمپ کی پریزیڈنسی میں اسرائیل کو جتنا نوازا گیا ہے۔ شاید ہلری کلنٹن کی انتظامیہ میں اسرائیل کو ایسا نہیں نوازا جاتا۔ ہلری کلنٹن کی انتظامیہ میں ایران پالیسی بلاشبہ America First ہوتی۔ ایران کے ایٹمی سمجھوتہ کے مسئلہ پر ہلری کلنٹن ضرور دنیا کے 190 ملکوں کے ساتھ کھڑی ہوتی۔ لیکن صدر ٹرمپ وزیر اعظم نا تھن یا ہو کے ساتھ دنیا کے 190 ملکوں کے درمیان تنہا کھڑے ہیں۔ اور انہیں یہ دھونس دھمکیاں دے رہے ہیں کہ انہیں امریکہ کے ساتھ کاروبار کرنا ہو ہے یا ایران کے ساتھ ۔ اور جو ملک بھی ایران کے ساتھ تجارت میں امریکی ڈالر استعمال کرے گا اس کے خلاف بھی کاروائی کی جاۓ گی۔ صدر ٹرمپ کی ان دھمکیوں نے دنیا کے 190 ملکوں کی Economic Security کے لئے خطرے پیدا کر دئیے ہیں۔ ان دھمکیوں کے بعد دنیا کے 190 ملکوں کو اپنی Economic Security میں سنجیدہ اقدام کے بارے میں غور کرنا ہو گا۔ ایک سنگل کرنسی پر مکمل انحصار کرنے کے بجاۓ اب دوسری کرنسی میں بھی تجارت کی جاۓ۔ ایران اس تجربے کے لیے ایک بہترین موقعہ ہے۔ دنیا کے 190ملکوں کا ایران سے کوئی جھگڑا ہے اور نہ کوئی خطرہ ہے۔ دنیا کے ملکوں کے ایران سے دو طرفہ اچھے تعلقات ہیں۔ وہ ایران کا موقف بھی با خوبی سمجھتے ہیں۔ دنیا اس خطہ کی سیاست سے بھی واقف ہے۔ دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ امن کے لیے اسرائیل کی 70 سال میں Zero پالیسی ہے۔ انسانی تاریخ میں کسی قوم نے 70 برس دوسری قوموں کی انسانیت کے خلاف صرف جنگیں کرتے رہنے میں نہیں گزارے ہوں گے۔ صدر ٹرمپ نے امن پر ایک ایسے ملک کی خونریز تاریخ کو اہمیت دی ہے۔ ویسے بھی عالمی برادری اس خطہ میں امریکہ کے رول سے زیادہ مطمئن بھی نہیں ہے۔ جو اس خطہ کو امن اور استحکام دینے کے بجاۓ اس خطہ کو مسلسل انتشار، جنگیں اور عدم استحکام دینے کی پالیسیوں پر گامزن ہے۔ اور امریکہ کی یہ پالیسیاں اسرائیل کو Suit بھی کرتی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران اسرائیل سے جو وعدے کیے تھے انہیں پورا کیا ہے۔ لیکن فلسطین اسرائیل تنازعہ میں صدر ٹرمپ نے اسی انتخابی مہم میں یہ بھی کہا تھا کہ وہ اس تنازعہ میں غیر جانبدار رہیں گے۔ انتظامیہ اس تنازعہ میں جب کسی ایک فریق کی پارٹی بن جاتی ہے تو یہ تنازعہ کبھی حل نہیں ہو سکتا ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ نے یہ وعدہ پورا نہیں کیا ہے۔ اور اسرائیل کے ساتھ جانبدار بن کر اس خطہ میں اس کی پالیسیاں فروغ دینے لگے ہیں۔
اسرائیل اور Neo-Con اب ایران کے خلاف جنگ کا کیس تیار کر رہے ہیں۔ انہوں نے صدر بش سے عراق میں Regime change کا کام لیا تھا۔ صدر اوبامہ سے شام اور لیبیا تباہ کراۓ تھے۔ اور صدر ٹرمپ سے اب ایران میں Regime change کرانے اور ایران کی معیشت بالکل تباہ کرانے کا کام لیا جا رہا ہے۔ سابقہ دو انتظامیہ میں مڈل ایسٹ میں جو تباہیاں پھیلائی گئی ہیں۔ دنیا ان کے نتائج بھگت رہی ہے۔ عراق میں Debacle کے بعد دنیا کو ایران کے خلاف ایسے کسی بھی Adventurism کی حمایت نہیں کرنا چاہیے۔ ایران نے دنیا اور بالخصوص اس خطہ کو عراق Debacle سے بچانے کے لیے ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار ہونے کا سمجھوتہ کیا ہے۔ اور سمجھوتہ پر سختی سے عملدرامد بھی کیا جا رہا ہے۔ 3سال میں اس سمجھوتہ کی خلاف ورزی ہو نے کی کسی عالمی ادارے کی طرف سے کوئی رپورٹ بھی نہیں ہے۔ عالمی برادری بھی اس سمجھوتہ پر مکمل عملدرامد ہونے پر مطمئن تھی۔ جو اس سمجھوتہ پر عملدرامد ہونے سے مطمئن نہیں تھے وہ اسرائیل اور صدر ٹرمپ تھے۔ عراق ڈرامہ کی اسکرپٹ جو NeoCon نے واشنگٹن میں تیار کی تھی۔ اسے تل ابیب میں وزیر اعظم ناتھن یا ہو کے آفس میں سامنے رکھ کر ایران کے خلاف ڈرامہ کی اسکرپٹ میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اور وہ اس اسکرپٹ کے ہیرو بن کر ٹیلی ویژن پر آۓ تھے جسے دنیا بھر میں دیکھا گیا تھا کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنا رہا تھا۔ اور اسرائیل کی انٹیلی جنس نے تہران میں ایک خفیہ آپریشن کے دوران ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے بارے میں ہزاروں اہم فائلیں قبضہ میں لینے کا دعوی کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم ناتھن یا ہو کی ایران کے خلاف ڈرامہ کی اسکرپٹ کو Authentic کہا تھا۔ اور ایران کے ایٹمی سمجھوتہ سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا تھا۔ تعجب کی بات تھی کہ امریکہ جیسی عظیم طاقت نے یہ فیصلہ ایک ایسے ملک کی Presentation پر کیا تھا جس نے عراق میں ایٹمی ہتھیاروں کے ذ خیروں کے بارے میں اپنی انٹیلی جنس کی رپورٹیں امریکہ کو دی تھیں۔ اور جس کی 70 برس کی تاریخ دشمن بنانے اور جنگیں کرنے سے بھری ہوئی تھی۔
2015 میں ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتہ ہونے کے بعد صدر اوبامہ نے جو بندشیں ہٹا لی تھیں۔ صدر اوبامہ نے انہیں دوبارہ لگانے کا اعلان کرتے ہوۓ کہا کہ ایرانی حکومت کے سامنے دو Choice ہیں آیا یہ دھمکی، عدم استحکام رویہ تبدیل کرے اور عالمی معیشت میں آ جاۓ۔ اور یا پھر معاشی طور پر تنہا رہنے کے راستہ پر چلتا رہے۔ سیکریٹری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے ایران سے کہا ہے وہ تمام امریکی شہریوں کو رہا کرے۔ حزب اللہ، ھماس، اسلامی جہاد اور Houthi ملیشیا کی حمایت بند کرے۔ اور شام سے اپنی فوج واپس بلاۓ۔ اول تو یہ سارے مطالبہ اسرائیل کے ہیں جن پر عملدرامد کرانے کے لیے امریکہ کی طاقت کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور یہ صدر ٹرمپ کی ایک اور وعدہ خلافی ہے۔ جو انہوں نے امریکی عوام سے کیا تھا کہ اب دنیا میں کوئی امریکہ کو استعمال نہیں کر سکے گا۔ یہ مطالبے خطہ کی Geo Strategic سیاست سے متعلق ہیں۔ اور ایران اس خطہ کا حصہ ہے۔ ایران ایک خود مختار ملک ہے۔ اسے اپنی سلامتی کے مفاد میں فیصلے کرنے، خطہ کے ملکوں سے تعلقات فروغ دینے، خطہ میں تنازعوں کے حل میں رول ادا کرنے کا مکمل حق ہے۔ صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی امور کے مشیر جان بولٹن نے کہا ہے ایران ساری دنیا میں دہشت گردوں کی پشت پنا ہی کر رہا ہے۔ جان بولٹن کے عراق میں رول کی وجہ سے کوئی Credibility نہیں ہے۔ جان بولٹن کو Facts کا علم نہیں ہے۔ ایران جو دہشت گردی کا شکار بنا ہوا ہے۔ وہ دنیا میں دہشت گردوں کی پشت پنا ہی کر رہا ہے اور دہشت گرد ایران میں بموں کے دھماکے کر رہے تھے۔ ہزاروں ایرانی ان دھماکوں میں مارے گیے تھے۔ لیکن ایران دنیا بھر میں دہشت گردوں کی پشت پنا ہی کر رہا ہے۔ اسرائیل کی مو ساد نے ایران کے تین نیو کلیر سائنس دان قتل کر دئیے تھے۔ جو دہشت گردی تھی۔ ایران کی ملیشیا عراق اور شام میں ISIS سے لڑے تھے۔ انہوں نے عراق اور شام کے علاقوں سے ISIS کو نکالا تھا۔ اس لڑائی میں ایران کے فوجی بھی مارے گیے تھے۔ ایران کے اس رول کی وجہ سے عراق میں استحکام آیا ہے۔ اور شام میں اسد حکومت نے ملک کے ایک بڑے حصہ پر اپنا کنٹرول قائم کر لیا ہے۔ شام میں ایران کی فوجی موجودگی حکومت شام کا مسئلہ ہے۔ ایران کی فوجیں د مشق حکومت کی دعوت پر آئی ہیں۔ اور جب د مشق حکومت ایران سے فوجیں واپس جانے کی درخواست کرے گی۔ یہ فوجیں چلی جائیں گی۔ امریکہ اور نیٹو کی افغانستان میں فوجوں کی موجودگی کی جو وجوہات ہیں۔ شام میں روس اور ایران کی فوجوں کی موجودگی کی بھی یہ ہی وجوہات ہیں۔
ھماس اسٹیٹ آف فلسطین کے شہری ہیں۔ یہ ایک تنظیم بھی ہے۔ اور اس کے ساتھ سیاسی، سماجی اور معاشی تعلقات عالمی قانون میں ممنوع نہیں ہیں۔ ترکی، قطر، مصر اور خلیج کے دوسرے ملکوں کے بھی ھماس کے ساتھ تعلقات ہیں۔ کیونکہ اسرائیل کو ان سے نفرت ہے۔ امریکہ کو اس لیے ھماس کو انسانیت سے نہیں نکالنا چاہیے۔ حزب اللہ لبنان کے شہری ہیں۔ لبنان کے عوام انہیں منتخب کرتے ہیں۔ اور حزب اللہ لبنان کی پارلیمنٹ میں ہے۔ لبنان کی حکومت میں ہے۔ لبنان کی جمہوریت میں عیسائی، سنی، شیعہ اور Druze سب کے حقوق ہیں۔ اسرائیل کی Fake اور Phony جمہوریت میں عیسائوں، مسلمانوں اور Druze کے تمام حقوق ختم کر کے انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنا دیا گیا ہے۔ اور اسٹیٹ آف اسرائیل کو صرف یہودی مذہبی ریاست قرار دیا گیا ہے۔ ایک ایسی ہی ریاست قائم کرنے کے لیے افغانستان میں طالبان 40سال سے لڑ رہے ہیں۔ لبنان کے ساتھ ایران کے نارمل تعلقات ہیں۔ امریکہ، فرانس برطانیہ لبنان کو لاکھوں ڈالر کے ہتھیار فروخت کرتے ہیں۔ لیکن ایران لبنانی عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کرتا ہے۔ اور لبنان کے عوام کے ساتھ کھڑا ہونے میں ایران فخر محسوس کرتا ہے۔ محکوم اور مظلوم انسانیت کی حمایت بھی ایک عبادت ہے۔ امریکہ نے سرد جنگ ختم ہونے کے بعد یہ عبادت ترک کر دی ہے۔ اور انسانیت کو Economic Sanctions سے Torture دینے کی عبادت شروع کر دی ہے۔ عراق پر Economic Sanctions کے نتیجہ میں 5لاکھ معصوم بچے پیدائش کے ابتدائی چند دنوں میں مر گیے تھے۔ جبکہ ہزاروں بوڑھے بھی طبی سہولتوں کا فقدان ہونے کی وجہ سے مر گیے تھے۔ عراق میں Most biting ever sanctions” “ اس لیے تھیں کہ عراقی حکومت ایٹمی ہتھیاروں کو تباہ کرنے کے سمجھوتہ پر مکمل عملدرامد نہیں کر رہی تھی۔ لیکن ایران کی حکومت جو ایٹمی سمجھوتہ پر مکمل عملدرامد کر رہی ہے۔ اور دنیا بھر کے ماہرین اس کی تائید کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر “Most biting ever sanctions” لگا دی ہیں۔ اور ایران کو ایک دوسرا عراق بنانے کے اسرائیل کے منصوبہ پر عملدرامد شروع ہو گیا ہے؟
No comments:
Post a Comment