Wednesday, September 5, 2018

America Has Ended Saddam Hussein’s 40 Year Rule, America Has Ended Mummer Kaddafi’s 40 Year Rule Now America Has To End Israel’s 70 Years Of Brutal Military Occupation, Ruthless Aggression, And Suppression


America Has Ended Saddam Hussein’s 40 Year Rule, America Has Ended Mummer Kaddafi’s 40 Year Rule
Now America Has To End Israel’s 70 Years Of Brutal Military Occupation, Ruthless Aggression, And Suppression 

NO EXCUSES. NO CONDITIONS. PERIOD.

مجیب خان
Palestinian refugees line up for food at a camp in Amman, Jordan in 1955



Residents waiting for food aid distribution by the U.N. refugee agency at the Palestinian refugee camp in Syria

Palestinian population living in what became Israel to leave their home 1948 

The largest  Palestinian refugee camp in Syria
Israeli forces in front of the Dome of the Rock in the Haram al-Sharif compound in the old city of Jerusalem

   نازی فوجیں اگر پولینڈ پر قبضہ کر لیتی اور ان کے پو لینڈ پر فوجی قبضہ کے بعد پالیسیاں بالکل ایسی ہوتی جو Zionist اسرائیلیوں کی فلسطین پر فوجی قبضہ کی 70 سال سے پالیسیاں ہیں۔ تو اس صورت میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی انسانی، اخلاقی اور قانون کی با لا دستی کی قدروں کے تقاضے کیا ہوتے؟ اور وہ اس سلسلے میں کیا فوری اقدام یا فیصلہ کرتے۔ کیا یہ 70 سال تک نازی فوجوں کو پولینڈ پر قبضہ جاری رکھنے کا موقعہ اسی طرح دیتے جیسے انہوں نے 70 سال سے Zionist اسرائیل کو فلسطین پر فوجی قبضہ رکھنے کا سنہری موقعہ دیا ہے۔ فلسطینیوں سے اسرائیل کی سلامتی کے خطرے کی آ ڑ میں اسرائیل بھی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کلب میں شامل ہو گیا ہے۔ دنیا میں ہتھیار فروخت کرنے والے ملکوں میں اسرائیل چھٹے نمبر پر ہے۔ اسرائیل اب بھارت کو کھربوں ڈالر کے جدید ہتھیار فروخت کر رہا ہے۔ اسرائیل جو 70 سال سے عربوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔ وہ اب بھارت کو ہتھیار فروخت کرنے میں امریکہ کے مقابلہ پر ہے۔ بلکہ اس نے برطانیہ اور فرانس کو بھی پیچھے کر دیا ہے۔ عالمی برادری کے لئے قابل توجہ بات یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کی فوجی بند کرنے کے بجاۓ فلسطینی مہاجرین کی امداد بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکہ کی نظر میں اسرائیلی مظلوم ہیں اور فلسطینی ظالم ہیں۔ جو مہاجرین بن گیے ہیں۔ انہیں اسرائیلی فوج نے بے گھر کیا ہے۔ اور ان کے گھروں اور ان کی زمینوں پر قبضہ کیا ہے۔ Zionist اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ امریکہ نے بھی میکسیکو کے علاقوں پر اسی طرح قبضہ کیا تھا۔ اور پھر میکسیکو کے یہ علاقہ امریکہ کے نقشہ میں شامل ہو گیے تھے۔ تاہم امریکہ نے ان علاقوں میں آباد  Mexicans کو بے گھر نہیں کیا تھا انہیں Slave Labor بنا لیا تھا۔ صدر ٹرمپ کے فلسطینی مہاجرین کی امداد بند کرنے کے فیصلہ پر تبصرہ میں اسرائیلی حکومت نے اقوام متحدہ کے ادارے براۓ مہاجرین کو یہ الزام دیا ہے کہ یہ ادارہ مسلسل مہاجرین کی آبادی میں اضافہ کر رہا ہے۔ اور اسرائیل فلسطین تنازعہ کو دوام بخش رہا ہے۔ کیونکہ یہ ان نسلوں کو مہاجرین کا درجہ دے رہا ہے جو 1948 میں اسرائیل کے وجود میں آنے کی جنگ میں بے گھر ہو ۓ تھے۔ اقوام متحدہ کی ریلیف ور کس ایجنسی ا ر دن، لبینان، شام اور مغربی کنارے اور غازہ  میں تقریباً 5 ملین فلسطین مہاجرین کو بنیادی سہولتیں فراہم کرتی ہے۔ 70 سال میں اسرائیلی حکومتوں نے کب سچ بولا ہے؟ کب انسانی حقوق اور قانون پر عملدرامد کیا ہے؟ 70سال سے ہر اسرائیلی حکومت کی فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کرنے، ان کے گھروں پر بلڈ و زر چلانے اور ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے اور وہاں نئی یہودی بستیاں تعمیر کرنے کی پالیسی جاری ہے۔ صد ام حسین اور کرنل معمر قد ا فی  فلسطین مہاجرین کی مدد میں اربوں ڈالر خرچ کرتے تھے۔ جسے اسرائیل صد ام حسین اور معمر قد ا فی کا فلسطینی دہشت گردوں کی مدد کرنے کا الزام دیتا تھا۔ اور امریکہ اور یورپ  اسرائیل کے ان الزام کی تائید کرتے تھے۔ حالانکہ یہ فلسطینی اسرائیلی فوجی بربریت کے Victims تھے۔ با ظاہر اسرائیلی حکومتوں کی یہ پالیسی  ہے کہ آہستہ آہستہ  تمام فلسطینیوں کو ار دن اور دوسرے عرب ملکوں کی طرف دھکیل دیا جاۓ۔ اور پھر اسرائیل کے قیام کا 100 سالہ جشن اسرائیل King David کی Kingdom میں منایا جاۓ گا۔ یہ اسرائیلی مشن ہے۔ اس مشن میں 70 سال گزر گیے ہیں۔ اور 30 سال بھی اسی طرح گزر جائیں گے۔ نتھن یا ہو حکومت King David کی پالیسیاں اختیار کرتی جا رہی ہے۔
  یہودی مذہبی قدامت پسندی نتھن یا ہو حکومت کے دس سالوں میں انتہا پر پہنچ گئی ہے۔ نتھن یا ہو حکومت نے “Israel as the Nation-State of the Jewish People”  ہونے کا قانون پارلیمنٹ سے منظور کرایا ہے۔ اور یہودی ریاست کی زبان Hebrew ہو گی۔ یہودی ریاست کے نظام میں Torah سے رہنمائی لی جاۓ گی۔ اسرائیل میں آباد دوسرے مذاہب کے لوگ دوسرے درجہ کے شہری تسلیم کیے جائیں گے۔ جن کو کوئی حقوق نہیں دئیے گیے ہیں۔ اسرائیل کے اس نئے قانون میں نتھن یا ہو حکومت افغانستان میں طالبان کی حکومت سے زیادہ مختلف نظر نہیں آتی ہے۔ طالبان بھی افغانستان میں صرف قرآن کا نظام رائج کرنا چاہتے تھے۔ اور وہ بھی افغانستان میں کسی دوسرے مذہبی عقیدے کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ طالبان نے Giant Buddha of Bamiyan تباہ کر دیا تھا۔ جسے تیسری اور چھٹی صدی کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا۔ انہوں نے افغانستان سے Buddhist مذہب کی تاریخ مٹا دی تھی۔ اسرائیل میں بھی طالبان کی طرح جنونی یہودی مذہبی انتہا پسند ہیں جو مسلمانوں کی تاریخی مقدس مسجد اقصا کو تباہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔
  نتھن یا ہو حکومت میں اسرائیل کو صرف یہودیوں کی ریاست کا قانون منظور ہونے اور اس قانون سے دوسرے مذہبی فرقوں کو خارج کرنے پر ٹرمپ انتظامیہ اور کانگریس میں ری پبلیکن اور ڈیمو کریٹس کی طرف سے کوئی رد عمل نہیں ہوا ہے۔ حالانکہ اس قانون سے اسرائیل کا مغربی لبرل ڈیمو کریسی کا سیاسی ڈھانچہ بالکل بدل گیا ہے۔ تاہم امریکہ میں پروگریسو، لبرل اور روشن خیال یہودیوں نے نتھن یا ہو حکومت کے اس فیصلہ پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیل کو صرف یہودیوں کی ریاست بنانے کی مخالفت کی ہے۔ اور اسے اسرائیل میں لبرل جمہوریت کا خاتمہ کہا ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو de-facto King David ہیں۔
  مڈل ایسٹ کے انتشار اور عدم استحکام سے اسرائیلی حکومت میں فرعونیت آتی جا رہی ہے۔ حکومت کا رویہ زیادہ جارحانہ ہوتا جا رہا ہے۔ طاقت کا استعمال بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ Kingdom of King David بھی انتہائی Ruthless تھی۔ King David اپنے مقابلے پر کسی کو طاقتور ہوتا برداشت نہیں کرتا تھا۔ اور اس پر حملہ کر کے ختم کر دیا جاتا تھا۔ اس کا دور بھی جنگ و جدل کی ایک طویل تاریخ تھا۔ اسرائیلی حکومت عالمی قوانین سے بالاتر ہوتی جا رہی ہے۔ Extrajudicial Killing اسرائیلی حکومت کی پالیسی بن گئی ہے۔ Sovereign ملکوں پر اسرائیلی طیاروں کی بمباری ایک معمول بن گیا ہے۔ فلسطینیوں کے مسائل کا جواب اسرائیل کے پاس صرف Killing Machine میں ہے۔ کیا دوسرے ملک بھی ان اسرائیلی پالیسیوں کو اختیار کر سکتے ہیں۔ اور Sovereign ملکوں میں اپنے مخالفین کو قتل کر سکتے ہیں؟ جس طرح اسرائیل شام کی داخلی خانہ جنگی میں مختلف Excuses کی بنیاد پر مداخلت کر رہا ہے۔ اور شام کی فوجوں پر بمباری کر کے انہیں کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور اس طرح القا عدہ اور داعش کی پوزیشن مضبوط بنا رہا ہے۔ اگر حما س کے ساتھ اسرائیل کی لڑائی میں شام اور لبنا ن بھی اسی طرح مداخلت کریں گے تو اسرائیل کی حمایت میں امریکہ برطانیہ اور فرانس حرکت میں آ جائیں گے۔ یہ ان کی نا انصافیاں ہیں جو ان کے خلاف نفرتیں پیدا کر رہی ہیں۔
  امریکہ کو فخر ہے کہ اس نے عراق میں صد ام حسین کا 40 سال کا دور ختم کیا ہے۔ امریکہ نے عراق میں اس تبدیلی کے لئے تقریباً ایک ٹیریلین ڈالر خرچ کیے تھے۔ 5ہزار امریکی فوجی ہلاک ہوۓ تھے۔ اور 30ہزار فوجی زخمی ہوۓ تھے۔ پھر لیبیا میں بھی کرنل معمر قد ا فی کا بھی 40سال کا دور ختم کیا تھا۔ اور اب امریکہ، برطانیہ اور فرانس کو اسرائیل کا 70سال کا فوجی قبضہ، Ruthless Suppression اور Brutal Aggression بھی ختم کرنا ہو گا۔ اسرائیل کو عالمی قوانین کا پابند بنانا ہو گا۔ اس کی پالیسیوں کو Civilize بنانا ہو گا۔ تاکہ پھر اقوام متحدہ میں عالمی برادری بھی اسرائیل کے خلاف قراردادیں منظور کرنے سے گریز کرے گی۔ اور اسرائیل کے ساتھ مل کر دنیا کو پرامن اور مہذب بنانے کے اقدام کرے گی۔
  فلسطینی مہاجرین اسرائیل کی ذمہ داری ہے۔ 70سال سے دنیا فلسطینی مہاجرین کی پرورش کر رہی ہے۔ لیکن اسرائیل نے اس مسئلہ کو حل کرنا کبھی اپنی ذمہ داری نہیں سمجھا تھا۔ پھر مقبوضہ فلسطینی علاقہ بھی ہیں۔ جن پر 70سال سے اسرائیل کا فوجی قبضہ ہے۔ اور عالمی قانون کے مطابق فوجی قبضہ میں آبادی کی دیکھ بھال اور ان کی بنیادی انسانی ضرورتیں پوری کرنا قابض ملک کی ذمہ داری ہے۔ اسرائیل اس وقت دنیا میں ہتھیار فروخت کرنے والے ملکوں میں سر فہرست ہے۔ پھر اسرائیل کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی صنعت میں بھی تجارت فروغ کر رہی ہے۔ اب اسرائیل یا تو فلسطینی مہاجرین کا مسئلہ حل کرے یا پھر اقوام متحدہ کے مہاجرین فنڈ میں اسرائیل Contribute کرے۔ اور یا پھر جو ممالک امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ تجارت کرتے ہیں۔ وہ ان ملکوں کی اشیا پر 5فیصد فلسطین مہاجرین ٹیکس عائد کریں۔ اور یہ رقم اقوام متحدہ کو دیں۔ دنیا کو بالخصوص اسلامی دنیا کو اس مسئلہ کے حل کے لئے امریکہ برطانیہ اور فرانس کے خلاف اب ہر طرح کا دباؤ استعمال کرنا ہو گا۔ ورنہ مڈل ایسٹ میں کوئی باقی نہیں بچے گا۔ اور اسرائیل King David کی Kingdome بن جاۓ گا۔            
              

No comments:

Post a Comment