International Criminal Court And Judges Are A Threat For America's National Security
The Court And Judges Are The Last Hope of
Humanity
مجیب خان
صدر ٹرمپ نے اب تک بہت سے عالمی معاہدے کالعدم قرار دئیے ہیں۔ بہت سے عالمی فیصلے جو سابقہ انتظامیہ میں ہوۓ تھے ان پر عملدرامد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ پریس پر حملہ کرنے کا موقف اختیار کیا ہے۔ Law of accountability سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ Rule of Law کی اہمیت Obsolete ہوتی جا رہی ہے۔ اور اب صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی امور کے مشیر جان بولٹن نے عالمی کریمنل کورٹ کو یہ دھمکی دی ہے کہ "اگر اس نے افغانستان میں امریکی فوجیوں کے برتاؤ پر تحقیقات کرنے کی کوشش کی تو ہم اس کے ججوں اور پراسیکیوٹرز کی امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی لگا دیں گے۔ ہم امریکی اقتصادی نظام میں ان کے فنڈ ز پر بندش لگا دیں گے۔ ہم امریکہ کے کریمنل سسٹم کے تحت ان پر مقدمہ چلائیں گے۔ ہم یہ ہر اس کمپنی اور ریاست کے ساتھ بھی کریں گے جو عالمی کریمنل کورٹ کی امریکیوں کی تحقیقات میں معاونت کریں گے۔" عالمی کورٹ کے خلاف بیان میں جان بولٹن نے کہا کہ "یہ امریکی Sovereignty سے تجاوز کرتا ہے۔ بے ضبط طاقت اور غیر موثر، بلا وجہ اور بلا شبہ سراسر خطرناک ہے" قومی سلامتی امور کے مشیر جان بولٹن کی عالمی عدالت کے ججوں کو دھمکیاں دینے پر یورپی دارالحکومتوں میں اس پر ابھی تک کوئی رد عمل نہیں ہوا ہے۔ دنیا میں جو قانون کی بالا دستی کی تبلیغ کرتے ہیں انہوں نے بھی جان بولٹن کی عالمی عدالت کے ججوں کو دھمکیوں کی مذمت نہیں کی ہے۔ اگر ایسا بیان روس کے صدر کی طرف سے آتا تو بلاشبہ واشنگٹن میں زلزلہ آ جاتا۔ حکومتوں کی طرف سے بیانات کا ایک سیلاب آ جاتا۔ مغربی عالمی اخبارات میں اس پر ادارئیے لکھے جا رہے ہوتے۔
دنیا میں Rule of Law سب کے لئے ہو گا۔ اس کا اطلاق سب پر مساوی ہو گا۔ چھوٹے اور بڑے، امیر اور غریب سب ملکوں کے لئے ایک قانون ہو گا۔ سب صرف اس قانون کے ماتحت ہوں گے۔ اسی صورت میں دنیا میں نظم و ضبط ہو گا۔ قوموں کی سلامتی بھی صرف اسی صورت میں یقینی بنائی جا سکتی ہے۔ قوموں کی Sovereignty بھی Rule of Law کا حصہ ہے۔ بڑے اور طاقتور ملکوں کو چھوٹے اور کمزور ملکوں کی Sovereignty میں مداخلت کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔ حالیہ چند برسوں سے یہ خصوصی طور پر نوٹ کیا جا رہا ہے کہ طاقتور ملکوں کی کمزور ملکوں میں مداخلت کرنے کی عادت ہو گئی ہے۔ طاقتور ملکوں کی اس عادت کے نتیجہ میں ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بری طرح عذاب میں آ گئی ہیں۔ ان کے گھر اور خاندان تباہ اور برباد ہو گیے ہیں۔ ان کے ملک تباہ اور شہر کھنڈرات بن گیے ہیں۔ کئی نسلوں کا مستقبل تاریک ہو گیا ہے۔ لاکھوں افراد کھلے آسمان تلے پڑے ہیں اور ان کا کوئی پرساں حال نہیں ہے۔ یہ بے گناہ انسانیت کے ساتھ بدترین ظلم ہے۔ اور یہ Crime against Humanity ہیں۔ غیر ملکی مداخلت اور غیر قانونی جنگیں اس کا ایک بڑا سبب ہے۔ یہ جنگیں ان ملکوں کے شہریوں کی اجازت کے بغیر ان پر مسلط کی گئی ہیں۔ اس سے ان کے ملک کی Sovereignty پامال ہوئی تھی۔ جو Victims ہوتے ہیں۔ قانون ان کی آخری امید ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ انصاف کرتا ہے۔ عراق، لیبیا، شام، یمن غیر قانونی جنگیں ہیں۔ جس سے ان کی Sovereignty پامال ہوئی ہے۔ اصولی طور پر افغان جنگ بھی غیر قانونی ہے۔ نیٹو کی افغانستان میں مداخلت بھی غیر قانونی ہے۔ افغانوں نے امریکہ پر حملہ نہیں کیا تھا۔ طالبان امریکہ کے خلاف دشت گردی نہیں کر رہے تھے۔ طالبان کا سنگین جرم صرف یہ تھا وہ مجاہدین بن گیے تھے۔ انہوں نے سی آئی اے سے تربیت لی تھی۔ کمیونسٹ فوجوں کے خلاف دہشت گردی کی جنگ لڑنے لگے تھے۔ انہیں اسلام کے نام پر گمراہ کیا گیا تھا۔ اور دو طاقتوں کے درمیان سیاسی نظریات کی جنگ افغانستان میں اسلام کی جنگ بنا دی تھی۔ حالانکہ مشرقی یورپ کے عیسائی ملکوں میں بھی سوویت یونین کی فوجیں اسی طرح آئی تھیں جس طرح یہ افغانستان میں آئی تھیں۔ لیکن انہوں نے پولینڈ، مشرقی جرمنی، ہنگری، چیکوسلاوکیہ اور مشرقی یورپ کے دوسرے ملکوں میں لوگوں کو سوویت فوجوں کے خلاف گوریلا جنگ پر نہیں اکسایا تھا۔ یورپ میں انہوں نے ایک سیاسی اور سفارتی ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کیا تھا۔ اور یورپ میں امن رکھا تھا۔ لیکن افغانستان جیسے ایک Rigid اسلامی ملک میں انہوں نے لوگوں کو کمیونسٹ فوجوں کے خلاف جہاد کرنے کی تبلیغ کی تھی۔ یہ اس جہاد کے نتائج ہیں جو ابھی تک اسلامی دنیا کا پیچھا کر رہے ہیں۔ اسلامی ملکوں میں تباہی پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا ذمہ دار کون تھا؟ اس لڑائی میں انسانیت کے خلاف جو کرائم ہوۓ تھے۔ ان کی accountability ہونے سے افغان جنگ کا مسئلہ حل ہو سکتا تھا۔ لیکن یہ accountability طالبان چاہتے ہیں اور نہ ہی امریکہ اور نیٹو ممالک چاہتے ہیں۔ تاریخ جب ان سے یہ تسلیم کر والے گی کہ افغانستان میں اسلامی جہاد فروغ دینے کا ان کا فیصلہ غلط تھا۔ دنیا کو اس دن افغان جنگ سے شاید نجات مل جاۓ گی۔
عراق دنیا کے امن استحکام اور سلامتی کے لئے کبھی کوئی خطرہ نہیں تھا۔ حقیقت میں یہ دنیا تھی جو عراق کے استحکام اور سلامتی کی دشمن بن گئی تھی۔ عراق ایک چھوٹا ملک تھا۔ اور اس کے پاس دولت بے پناہ تھی کہ اس کا ہر شہری Millionaire بن سکتا تھا۔ لہذا دنیا کے سارے چور اور ڈاکو اس کے پیچھے لگ گیے تھے۔ عراق کے لوگ آج دنیا کے غریب ترین ہیں۔ عراق کی Sovereignty کو جیسے سب نے Rape کیا تھا۔ عراق کے خزانے سے 90بلین ڈالر غائب ہو گیے تھے۔ اس کی کوئی تحقیقات نہیں ہوئی تھی۔ کئی سو عراقی پروفیسروں، ڈاکٹروں، Engineers سائنسدانوں اور دانشوروں کی لاشیں نالے اور کھائیوں میں پڑی تھیں۔ ان کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی تھیں۔ انہیں کس نے قتل کیا تھا؟ اس کی کسی نے تحقیقات نہیں کی تھی۔ صد ام حسین پر انسانیت کے خلاف کرائم کا کیس بنانے کے لئے عراق کے ریگستانوں کو کھودا جاتا تھا اور وہاں سے انسانی ہڈیاں نکالی جاتی تھیں۔ لیکن جو لاشیں سامنے پڑی تھیں۔ انہیں انسانیت کے خلاف کرائم نہیں سمجھا تھا۔ Rule of Law کا اطلاق بھی پسند اور نا پسند کے مطابق ہونے لگا تھا۔ یہ بھی ایک سبب ہے کہ لوگوں کو انصاف دینے کے بجاۓ انہیں دہشت گردی کے راستہ پر رکھا گیا تھا۔ یہ تاریخ ہماری نگاہوں کے سامنے بنی ہے۔ ہم سب اس تاریخ کے گواہ ہیں۔ یہ Historical Myth نہیں ہے۔
صد ام حسین نے کویت پر حملہ کیا تھا۔ اور سعود یوں نے یمن پر حملہ کیا ہے۔ سعود یوں نے جس طرح ایک غریب ترین یمن کو تباہ کیا ہے۔ اس کے قدیم تاریخی اثاثے تباہ کیے ہیں۔ اس کے اسکولوں، ہسپتالوں، معیشت اور انفرا سٹکچر کو تباہ کیا ہے۔ اسے دیکھ کر صد ام حسین کویت پر فوجی حملہ میں ایک Gentleman Human نظر آتے ہیں۔ ان کی فوجوں نے کویت کو اس طرح تباہ نہیں کیا تھا۔ کویت کو کھنڈرات نہیں بنایا تھا۔ کویت میں شاہی خاندان کے محل لوٹے اور تباہ نہیں کیے تھے۔ لیکن امریکہ برطانیہ اور فرانس کی اخلاقی قدریں یہ ہیں کہ انہوں نے یمن میں سعودی بمباری میں بچوں اور عورتوں کی ہلاکتوں سے منہ موڑ لیا ہے۔ 29 بچے ان کی بمباری میں مر گیے تھے۔ لیکن صدر ٹرمپ اور اقوام متحدہ میں ان کی سفیر Nikki Haley نے اس طرح کے بیان نہیں دئیے تھے جس طرح انہوں نے شام میں بچوں کے مرنے پر دئیے تھے۔ انہوں نے Petrodollar کو انسانیت پر فوقیت دی تھی۔ جو ان کے لئے خوشحالی لا رہا تھا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت کو یمن میں جنگی جرائم کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت کی بمباری سے ہزاروں شہری ہلاک ہوۓ ہیں۔ بمباری رہائشی علاقوں، مارکیٹوں، جنا زوں، شادی کی تقریبات، جیلوں، کشتیوں اور ہسپتالوں پر کی گئی ہے۔ جس میں لا تعداد شہری ہلاک ہوۓ ہیں۔ لیکن ان تمام رپورٹوں کے باوجود امریکہ برطانیہ اور فرانس یمن کی جنگ میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت کو ہتھیار فروخت کر رہے ہیں۔ اپنے اس اقدام سے یہ یمن کی جنگ کو طول دے رہے ہیں۔ یہ جنگ ختم کرانے میں انہیں جیسے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اور پھر ایران کو یہ الزام دیتے ہیں کہ وہ اس جنگ کو بھڑکا رہا ہے اور ہو تیوں کی مدد کر رہا ہے۔ وہ دن کی روشنی میں دنیا سے جھوٹ بول رہے ہیں۔
مڈل ایسٹ میں انسانیت کے ساتھ یا تو کھیل ہو رہا ہے یا مذاق ہو رہا ہے۔ اور اس طرح Time pass کیا جا رہا ہے۔ شام میں تقریباً 4 لاکھ لوگ مارے گیے ہیں۔ لیکن اب عدلیب میں دہشت گردوں کے خلاف روس اور شام کے فوجی آپریشن میں انہیں چند ہزار شہریوں کے ہلاک ہونے پر پریشانی ہو رہی ہے۔ 6 سال تک امریکہ کے واچ میں 4لاکھ شامی مارے گیے ہیں۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ نے ان شہری ہلاکتوں کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کیا تھا۔ باغی دہشت گردوں کو تربیت اور ہتھیا ر دیتے رہے۔ انہوں نے بحر روم کے سمندر میں معصوم بچوں اور لوگوں کی ڈوبتی لاشیں بھی دیکھی تھیں۔ انہوں نے یورپ کی طرف انسانوں کا سیلاب بڑھتا دیکھا تھا۔ لیکن پھر بھی شام میں ہتھیاروں کی فراہمی بند نہیں کی تھی۔ دہشت گردی کے اصل Victims شام، عراق ، لیبیا، یمن ہیں۔ جہاں 3ہزار کے مقابلے میں 50گنا زیادہ لوگ مارے گیے ہیں۔ جو دنیا کے سب سے پرامن شہری تھے۔ جن کا دنیا کی سیاست سے بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ انسانیت کے بارے میں امریکہ کا کبھی ایک موقف نہیں دیکھا گیا ہے۔ یہ ہمیشہ بدل جاتا ہے۔ باسنیا میں 2ملین مسلمان سرب فوجوں کی نسل کشی کی جنگ میں مارے جانے کے بعد، کانگو میں خونی لڑائی میں کئی لاکھ لوگ مارے جانے کے بعد، Rwanda میں Hutus and Tutsis میں خانہ جنگی جس میں 2ملین لوگ مارے گیے تھے۔ امریکہ اور مغربی ملکوں نے یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ یہ صورت حال پیدا نہیں ہونے دی جاۓ گی۔ اور انسانیت کو ہر قیمت پر ایسی تباہی سے بچایا جاۓ گا۔ لیکن پھر دیکھا یہ گیا ہے کہ جب انہیں ہتھیاروں کا کمرشل مفاد نظر آیا ہے۔ انہوں نے انسانیت سے منہ موڑ لیا ہے۔ اور انہوں نے انسانیت کے خلاف کرائم ہونے کی اجازت دی ہے۔
No comments:
Post a Comment