Wednesday, September 26, 2018

Is Lying About Iran Necessary?


Is Lying About Iran Necessary?  

Great Nations Accept The Facts, That’s The Only Way America Can Be Great Again

مجیب خان
Syrian Rebels back by Israel

US trains Syrian Rebels

In Syria they are called Rebels, In Afghanistan, they are called Islamic Terrorists 

   صدر ٹرمپ کا America First نعرہ سمٹ کر اب صرف Trade میں America First رہے گیا ہے۔ اور  Geo Politics میں یہ  Israel First نعرہ ہو گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اب تک امریکہ کے لئے Trade میں اور اسرائیل کے مفاد میں Geo Politics  فیصلے کیے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ میں جان بولٹن کی قومی سلامتی امور کے عہدہ پر تعیناتی America First پر سمجھو تا تھا۔ عراق میں Regime change تحریک کے سرگرم رکن جان بولٹن کا ٹرمپ انتظامیہ میں شامل ہونے کا مقصد بہت واضح تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ  ایران میں Regime change کی سمت میں بڑھ رہی ہے۔ اسرائیل کا ایک اور مطالبہ پورا کیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کا ایران کے خلاف پراپگنڈہ تیز ہوتا جا رہا ہے۔  یہ پراپگنڈہ بالکل ان ہی خطوط پر ہے جس طرح عراق کے خلاف بش  انتظامیہ میں کیا جاتا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے اعلی حکام ایران کے خلاف غلط بیا نیا ں کر رہے ہیں۔ انہیں ایران میں مذہبی رہنماؤں کی اہمیت کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔ جس دن سپریم آیت اللہ نے لوگوں سے جھوٹ بولا اسی دن ایران میں آیت اللہ ؤں  کی حکومت ختم ہو جاۓ گی۔ شیعہ مذہب میں سپریم آیت اللہ امام کا درجہ رکھتے ہیں۔ اور قوم امام کے احکام کی پیروی کرتی ہے۔ آیت اللہ خمینائی نے مہلک ہتھیاروں کے خلاف فتوی دیا ہے جن میں ایٹمی ہتھیار بھی شامل تھے۔ اسلامی انقلاب کے بعد آیت اللہ خمینی نے شاہ کے دور کے تمام ایٹمی پاور پلانٹ بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن پھر عراق کے ساتھ 9سال کی جنگ کے بعد جس میں ایران کے ایک لاکھ فوجی مارے گیے تھے۔ اور ایران کے اسلامی انقلاب کو سبوتاژ کرنے کی امریکہ اور اسرائیل کی بڑھتی ہوئی سازشوں کے پیش نظر آیت اللہ خمینی کے حکم پر یہ ایٹمی پاور پلانٹ دوبارہ کھولے گیے تھے۔ جس طرح اسرائیل اپنی سلامتی میں مہلک ہتھیاروں کو جمع کر رہا ہے۔ اسی طرح ایران بھی اپنی بقا میں ان ہتھیاروں پر انحصار کرنے پر مجبور ہو رہا ہے۔ امریکہ اور یورپ اس صورت حال کو Defuse کرنے کے بجاۓ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے اس پورے خطہ کو ہتھیاروں اور جنگوں کا خطہ بنا دیا۔ دنیا ذرا غور کرے اسرائیل 70 سال سے اس خطہ میں صرف جنگیں کر رہا ہے۔ اور جنگیں فروغ دے رہا ہے۔ اور یہ اسرائیلی یورپ سے یہاں آ کر آباد ہوۓ ہیں۔ یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد  یورپ کی سلامتی کا ایک سسٹم رائج کیا تھا اور یورپ کے لوگوں کو امن دیا تھا۔ لیکن مڈل ایسٹ میں یہ یورپ کی طرز پر سلامتی کا نظام رائج کرنے کی بات بھی نہیں کرتے ہیں اور صرف جنگوں اور ہتھیاروں کی زبان بولتے ہیں۔ 40 سال میں ایران کی حکومت نے مڈل ایسٹ میں ملکوں پر اس طرح بمباری نہیں کی ہے کہ جس طرح اسرائیلی حکومت 70 سال سے مڈل ایسٹ میں ملکوں پر بمباری کر رہی ہیں۔ یہ Facts ہے۔
  ایران کو اب اندر سے توڑنے کی پالیسی اختیار کی جا رہی ہے۔ عراق پر جو غیر انسانی اقتصادی بندشیں لگائی تھیں۔ انہیں اب ایران کے خلاف  استعمال کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ایران نے ایٹمی ہتھیاروں پر سمجھوتہ کیا ہے۔ اس پر عملدرامد بھی ہو رہا ہے۔ لیکن دنیا میں یہ معاہدہ ڈونالڈ  ٹرمپ اور بنجیمن ناتھن یاہو کو پسند نہیں ہے۔ اس لئے دنیا کو ایک اور Miserable صورت حال کا سامنا کرنا ہو گا۔ ایران میں Regime change کے لئے واشنگٹن میں سرگرمیاں شروع ہو گئی ہیں۔ اس مقصد میں ایرانی حکومت کے مخالفین کو جمع کیا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کے وکیل Rudy Giuliani نے نیویارک میں مجاہدین خلق اور ایرانی حکومت کی مخالف تنظیموں سے خطاب میں کہا ہے کہ "ایران میں حکومت تبدیل ہو گی۔" امریکی ٹیلی ویژن کے مختلف چینلز پر سنڈے ٹا کس شو ز میں اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر Nikki Haley نے سی این این کے پروگرام اسٹیٹ آف دی یونین میں ایران میں فوجی پریڈ پر دہشت گردی کے حملہ پر کہا کہ "ایرانی حکومت کو دوسروں کو الزام دینے کے بجاۓ ایران میں عوام کی بڑھتی ہوئی مخالفت پر توجہ دینا چاہیے۔" اس سے قبل سفیر Nikki Haley اقوام متحدہ میں مڈل ایسٹ میں ایران کی مداخلت اور دہشت گردی کی سرگرمیوں کا ذکر کرتی رہی ہیں۔
   سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا "ایران مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کر رہا ہے۔ شام عراق اور یمن میں ایران کی مداخلت جاری ہے۔ ایران دہشت گردوں کی حمایت کر رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ" سیکرٹیری آف اسٹیٹ نے full stop کے بغیر ایران پر وہ تمام الزامات لگا دئیے تھے۔ جو بش انتظامیہ میں سیکرٹیری آف اسٹیٹ اور دوسرے اعلی حکام عراق میں صد ام حسین پر لگاتے تھے۔ یہ بڑے شرم کی بات ہے کہ اتنے اعلی عہدوں پر حکام صرف اسرائیل کے مفاد میں جھوٹ بول رہے ہیں اور اصل حقائق کو distort کر کے امریکہ کی عالمی ساکھ  خراب کر رہے ہیں۔ یہ Behavior امریکہ کو دنیا میں “Make America great again” نہیں بناۓ گا۔ ٹرمپ انتظامیہ میں اعلی حکام کے یہ Lies امریکہ کو small بنا رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ، سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo قومی سلامتی امور کے مشیر John Bolton اقوام متحدہ میں امریکی سفیر Nikki Haley مڈل ایسٹ میں ایران کو جب انتشار، دہشت گردی، تباہی، اموات، عدم استحکام پھیلانے کا الزام دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ ISIS، القا عدہ، النصرہ، الشہاب، اور سینکڑوں دوسرے دہشت گرد اور جہادی گروپوں کو Defend کرتے ہیں۔ ویسے بھی ان دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں چند ماہ سے ٹرمپ انتظامیہ میں بالکل خاموشی ہے۔ ایران کو خطہ میں دشت گرد قرار دینے  سے ان جہادیوں کے ساتھ جیسے سمجھوتہ ہو گیا ہے؟
  لیکن بڑے اور اعلی ذمہ دار حکام کے ایران کے بارے میں مسلسل جھوٹ بولنے سے حقائق نہیں بدلیں گے۔ اس مرتبہ دنیا ایران کو بھی بڑے قریب سے واچ کر رہی ہے اور ٹرمپ انتظامیہ کے Behavior کو بھی دیکھ رہی ہے۔ امریکہ اور ایران عالمی شہریوں کی عدالت میں ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ مڈل ایسٹ میں اسلامی انتہا پسندوں سے لڑائی میں جتنے ایرانی مارے گیے ہیں۔ مڈل ایسٹ کے کسی دوسرے ملک کے اس لڑائی میں شاید اتنے لوگ نہیں مارے گیے ہوں گے۔ عراق میں ایرانی فوج نے موصل کو ISIS سے آزاد کرانے کی لڑائی عراقی فوجوں کے ساتھ لڑی تھی۔ اور اس لڑائی میں ایران کے متعدد فوجی مارے گیے تھے۔ عراق کو امریکہ نے عدم استحکام کیا تھا۔ جسے استحکام دینے کی لڑائی ایران کو لڑنا پڑی ہے۔ شام کو اوبامہ انتظامیہ عدم استحکام کر کے گئی ہے۔ اس کے نتیجہ میں شام دہشت گردوں کی فیکٹری بن گیا ہے۔ یہاں ایران اور لبنان روس کے ساتھ مل کر شام سے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ شام کے ایک بڑے علاقہ پر اوبامہ انتظامیہ کے واچ میں ISIS نے قبضہ کر لیا تھا اور یہاں اپنی ایک اسلامی ریاست قائم کر لی تھی۔ ایران لبنان اور شام کی فوجوں نے ISIS سے جنگ لڑی تھی۔ ISIS کو شکست دی تھی اور شام کا علاقہ آزاد کرایا تھا۔ اس لڑائی میں ایران کے بہت سے فوجی بھی مارے گیے تھے۔ اس لڑائی کے دوران اسرائیلی فضائیہ نے شام پر بمباری کی تھی جس میں ایرانی فوج کے افسر مارے گیے تھے۔ اسرائیل نے یہ فضائی حملہ ISIS  اور دوسرے جہادی گروپوں کی مدد میں کیا تھا۔ شام میں ایران کے 120 فوجی مارے گیے ہیں۔ جبکہ اسرائیل نے ایران کے فوجیوں پر علیحدہ بمباری کی تھی اور اس میں 25 سے زیادہ ایرانی فوجی مارے گیے تھے۔
  اسرائیل نے تقریباً 200 مرتبہ شام پر بمباری کی ہے۔ جو بالکل غیر قانونی تھی۔ اسرائیل کا شام میں مسلسل مداخلت کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اسرائیل دراصل اس مداخلت سے اسلامی دہشت گردوں کی مدد کر رہا تھا۔ جو ایران لبنان اور شام کی فوجوں سے بھی لڑ رہے تھے۔ امریکہ ایک طرف دنیا سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے پیغام دے رہا تھا اور دوسری طرف اسرائیل کے ساتھ دہشت گردوں کی فوج بنا رہا تھا۔ صد ام حسین نے صرف ان فلسطینیوں کی مالی مدد کی تھی۔ جن کے باپ، شوہر اور بھائی اسرائیلی فوج کی بربریت کے نتیجہ میں مر جاتے تھے۔ اور عورتیں بیوہ ہو جاتی تھیں۔ ان کی کفالت کرنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔ صد ام حسین نے Humanitarian بنیاد پر ان فلسطینیوں کی مدد کی تھی۔  لیکن امریکہ نے اسے صد ام حسین کی مداخلت کہا تھا۔ اور عراق کے خلاف کاروائی اقتصادی بندشوں سے کی تھی۔ اسرائیل نے 200مرتبہ شام پر بمباری کی تھی۔ اسرائیل کی بمباری سے لوگ بھی مارے گیے تھے۔ املاک بھی تباہ ہوئی ہیں۔ کتنے شہر کھنڈرات بن گیے ہیں۔ لیکن 200 مرتبہ اسرائیلی بمباری میں مرنے والوں اور سماجی  تباہی پھیلنے کی تحقیقات ہونے کے بارے میں لکھا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی اس کی بات کرتا ہے۔ اسرائیل کو مڈل ایسٹ میں سب نے Free hand دے دیا ہے۔ مڈل ایسٹ میں انصاف نام کا کوئی قانون نہیں ہے۔ مڈل ایسٹ میں ساری سیاست جھوٹ پر ہو رہی ہے۔ ساری جنگیں جھوٹ پر ہو رہی ہیں۔ ایک جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے پھر دوسرا جھوٹ بولا جاتا ہے۔ اور پھر پہلے اور دوسرے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے تیسرا جھوٹ بولا جاتا ہے۔ اور پھر انتظامیہ کے اعلی حکام روزانہ جھوٹ بولنے لگتے ہیں کہ لوگ یقین کرنے لگے گے۔ امریکہ میں ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ امریکی اتنی زیادہ شراب پیتے ہیں کہ انہیں کچھ یاد نہیں رہتا ہے۔ اور انتظامیہ کے ذمہ دار انہیں جو بتاتے ہیں وہ اس پر یقین کرنے لگتے ہیں۔ اور اب ایران کے بارے میں لوگوں غلط حقائق بتاۓ جا رہے ہیں۔
  حیرت کی بات ہے کہ عالمی میڈیا بالخصوص امریکی میڈیا میں اس اسرائیلی رپورٹ کا کوئی ذکر نہیں ہے جس میں اسرائیلی فوج نے شام میں باغیوں کو ہتھیار فراہم کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ اس خبر کو اسرائیلی حکومت نے جلدی سے سنسر کر دیا تھا۔ یہ خبر سب سے پہلے یروشلم پوسٹ نے دی تھی۔ جو اسرائیل کا ایک بڑا اخبار ہے۔ اخبار کی اس تفصیلی رپورٹ میں اسرائیلی فوجی حکام کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ انہوں نے 7 مختلف شامی باغی گروپوں کو بڑے پیمانے پر کیش، ہتھیار اور گولا بارود فراہم کیے تھے۔ تاہم رپورٹ میں ان گروپوں کے نام نہیں بتاۓ گیے تھے۔ کچھ عرصہ قبل بھی ایک ایسی ہی رپورٹ منظر پر آئی تھی اور اس میں بھی اسرائیل باغی گروپوں کو کیش اور ہتھیار دینے کا بتایا گیا تھا۔ اس وقت اسد حکومت نے کہا تھا کہ اسرائیل کئی دہشت گروپوں کو ہتھیار فراہم کر رہا تھا۔ اور اس کے فوجیوں نے متعدد بار ان سے  یہ اسلحہ اور گولہ بارود اپنے قبضہ میں لیا تھا۔ جن پر Hebrew میں تفصیل لکھی ہوتی تھی۔ 20 جنوری 2017 میں وال اسٹریٹ جنرل نے اپنی ایک رپورٹ میں Moatasem al-Golani گروپ کے ترجمان کے حوالے سے بتایا تھا کہ "ہم آج اسرائیل کی مدد کی وجہ سے زندہ ہیں۔" اسرائیلی فوج کو  یہ  اعتماد تھا کہ گولان کے ساتھ اسرائیلی سرحد پر باغی گروپوں کو ہتھیار فراہم کرنے کا ایک درست  فیصلہ تھا۔ اس “Operation Good Neighbor” کے دوران باغی گروپوں کو کیش اور ہتھیار فراہم کرنے کا اسرائیل کا مقصد حزب اللہ اور ایران کو اسرائیل کی گولان کی چوٹیوں سے دور رکھنا تھا۔ اور جولائی میں اسد حکومت نے جب گولان کو دوبارہ اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا۔ تو اسرائیل نے یہ پروگرام  بند کر دیا تھا۔
  امریکہ کی 36 انٹیلی جینس ایجنسیوں نے جس میں ملٹری انٹیلی جینس بھی شامل تھی۔ شام میں اسرائیل کی باغی دہشت گردوں کو کیش، ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کرنے کی رپورٹ کیا صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو دی تھی؟ صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس سے خطاب میں عالمی برادری کو بتایا کہ “Iran fomenting instability in the Middle East through its support for militant groups in Syria, Lebanon and Yemen. Iran’s leaders sow chaos, death and destruction.  They do not respect their neighbors or borders or the sovereign rights of nations”

    Israel Army Admits to Arming Syria Rebels, Then Censors Story
The Jerusalem Post published an article quoting Israeli military officials as saying that they had been providing seven different Syrian rebel groups with “Large amounts of cash, weapons, and ammunition.”

  Even more interesting is that the Israeli military initially told Jerusalem Post this, and then forced the article to be taken down under military censorship rules. The Israeli military is legally empowered to censor the press.
Bashar Assad claimed that Israel had been providing arms to terror groups and its forces had regularly seized arms and munitions with inscriptions in Hebrew.

The Jerusalem Post  Sept 5, 2018

          
                        

No comments:

Post a Comment