Successful Regional Peace Process In Korean Peninsula And Horn Of Africa
مجیب خان
South Korean President Moon Jae-in and North Korean Leader Kim Jong Un in Pyongyang, sept 18, 2018 |
Ethiopian Prime Minister Abiy Ahmed and Eritrea's President Isaias Afwerki sign a peace agreement |
Eritrean women hold flowers and flags to welcome passengers of the flight from the Ethiopian capital Addis |
2018کا سال ختم ہونے میں تقریباً 99 دن رہے گیے ہیں۔ اس سال پر بھی دنیا کے غیر یقینی حالات چھاۓ رہے۔ اس سال میں بھی مشرق وسطی کے حالات میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ جنگیں اس خطہ کے لوگوں کی زندگی کا جیسے حصہ بن گئی ہیں۔ اسرائیلی جس طرح 70 سال سے جنگوں میں خوشحال ہیں۔ مشرق وسطی کے لوگوں کو بھی اب جنگوں میں خوشحال رہنا سیکھنا ہو گا۔ اسرائیل نے اپنے قیام کے 71 سال کا آغاز بھی فلسطینیوں کو ہلاک کرنے اور اپنے ہمسایہ ملکوں پر بمباری کرنے کی پالیسی سے کیا ہے۔ لہذا یہ اسرائیلی پالیسی آنے والے سالوں میں بھی جاری رہے گی۔ اسرائیل کی فوجی طاقت اس خطہ میں امن کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ صد ام حسین اور معمر قد ا فی کو اقتدار سے ہٹانے سے مشرق وسطی کے حالات میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ بلکہ مشرق وسطی جہنم بن گیا ہے۔ کہیں لوگ اسرائیلی بمباری سے مر رہے ہیں۔ کہیں سعودی بمباری سے لوگ مر رہے ہیں۔ کہیں امریکہ کی بمباری تباہی پھیلا رہی ہے۔ کہیں اسلامی دہشت گرد ملک، شہر، خاندانوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ مشرق وسطی میں جنگوں کا یہ سلسلہ 2019 میں بھی اسی طرح جاری رہے گا۔ اس خطہ میں پرامن حالات دنیا کے لئے ایک بڑا معجزہ ہوں گے۔
آ بناۓ کوریا اور Horn of Africa کے لوگوں کے لئے 2018 اس لئے ایک اچھا سال ہے کہ ان کی قیادتوں نے امن، استحکام اور عوام کی خوشحالی کے مفاد میں جنگوں کے سیاہ حالات اور کشیدگی کی تاریکی سے نکلنے میں اہم فیصلے کیے ہیں۔ شمالی کوریا کی قیادت نے ایٹمی ہتھیاروں کا پروگرام ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور جنوبی کوریا کی قیادت نے شمالی کوریا کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ اور People to People تعلقات بحال کرنے کو اہمیت دی ہے۔ People to People تعلقات امن کی ضمانت ہوتے ہیں۔ جبکہ اریٹریا اور ایتھوپیا میں 20سال کی جنگ کے بعد دونوں ملکوں نے صلح کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایتھوپیا کے نئے وزیر اعظم Abiy Ahmed نے دو ہمسایہ ملکوں میں کشیدگی ختم کرنے میں پیش رفت کی ہے۔ ایتھوپیا نے متنازعہ سرحد تسلیم کر لی ہے جو دونوں ملکوں میں تنازعہ کا سبب تھا۔ جولائی میں وزیر اعظم احمد اریٹریا گیے تھے۔ پھر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا تھا جس میں جنگ ختم کرنے اور امن اور دوستی کا ایک نیا دور شروع کرنے کا کہا گیا تھا۔ اس اعلامیہ کے بعد اریٹریا اور ایتھوپیا میں لوگ خوشی سے سڑکوں پر آ گیے تھے۔ یہاں بھی شمالی اور جنوبی کوریا کی طرح خاندان ایتھوپیا اور اریٹریا میں تقسیم تھے۔ لوگوں میں اب یہ مسرت ہے کہ وہ آزادی سے ایک دوسرے کے ملک میں سفر کریں گے۔ ایتھوپیا نے 1960s میں اریٹریا پر قبضہ کر لیا تھا۔ 30سال سے یہ تنازعہ تھا۔ 1993 میں اریٹریا میں ریفرنڈم کرایا گیا تھا۔ جس میں لوگوں کی ایک بھاری اکثریت نے آزادی کے لئے ووٹ دئیے تھے۔ اور پھر با ضابطہ طور پر اریٹریا ایتھوپیا سے علیحدہ ہو گیا تھا۔ 1998 میں دونوں ملکوں کی سرحدوں پر ایک قصبہ پر ملکیت کا دعوی تنازعہ بن گیا تھا۔ تاہم اس قصبہ کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں تھی۔ لیکن دونوں ملکوں میں اس تنازعہ میں 80 ہزار سے ایک لاکھ لوگ مارے گیے تھے۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہو گیے تھے۔ ایتھوپیا کے نئے وزیر اعظم احمد نے اریٹریا کے ساتھ سرحد پر قصبہ کو اس کی ملکیت تسلیم کر لیا ہے۔ اور دونوں ملکوں کے درمیان امن اور اقتصادی ترقی کی ایک نئی تاریخ بنانے کا آغاز کیا ہے۔ لیڈر وہ ہوتے جو Bold فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے۔ جو انسانیت کو جنگوں کی خونریزی سے نکالتے ہیں۔ لیڈر وہ نہیں ہوتے ہیں جو انسانیت کو مہینوں، سالوں جنگوں کی خونریزی میں رکھتے ہیں۔ اور اپنے آپ کو مہذب دنیا کے لیڈر کہتے ہیں۔
یہ جنوبی کوریا کے صدر Moon Jae-in کی لیڈرشپ ہے۔ جس نے شمالی کوریا کی قیادت کو ایٹمی ہتھیاروں کی سیاست ترک کر کے اقتصادی ترقی اور خوشحالی کے مشترکہ منصوبوں میں شامل ہونے کی ترغیب دی ہے۔ صدر Moon کے اقتدار میں آنے کے بعد آ بناۓ کوریا میں بڑی تیزی سے تبدیلی آئی ہے۔ جسے دنیا کا سب سے خطرناک خطہ کہا جا رہا تھا۔ جو دراصل ایک مبالغہ آ رائی تھا۔ حالانکہ مڈل ایسٹ سے زیادہ دنیا میں کوئی خطرناک خطہ نہیں ہے۔ صدر Moon نے پہلے شمالی کوریا کے رہنما Kim Jong Un کو ایٹمی میزائلوں کے تجربے بند کرنے پر آمادہ کیا۔ پھر امریکہ کو فوجی مشقیں روکنے کا کہا۔ پھر صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کی ملاقات کے لئے راستہ بنایا۔ صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان جب آمنے سامنے بھیٹے ایک دوسرے کو سنا، دونوں ذہنوں سے غلط فہمیاں دور ہوئی ہیں۔ ایک دوسرے کا موقف سمجھنے اور غور کرنے کا موقعہ ملا ہے۔ اختلافات کا بہترین علاج بات چیت میں ہے۔ جو دشمن کو دوست بنا دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان ایٹمی ہتھیاروں کو ختم کرنے میں بہت سنجیدہ ہیں۔ اور اب اپنے ملک کو ایسٹ ایشیا کے دوسرے ملکوں کی صنعتی ترقی کے مقابلے پر لانا چاہتے ہیں۔ انہیں اس مشن کی تکمیل کے لئے ایک پارٹنر جنوبی کوریا کے صدر مون مل گیے ہیں۔ جو ایک طرف شمالی کوریا کے رہنما کم کے اس مشن کے لئے راستہ بنا رہے ہیں اور دوسری طرف امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان Bridge کا کام کر ر ہے ہیں۔ صدر مون نے آ بناۓ کوریا کی صورت حال کو Take over کر لیا ہے۔ صورت حال کو خطرناک حد پر پہنچنے سے بچایا ہے۔ صورت حال کا امریکہ کا فوجی حل پیچھے دھکیلا ہے۔ اور شمالی کوریا کے ساتھ خود براہ راست ملوث ہوۓ ہیں۔ صدر مون کی یہ انتہائی ذہین اور کامیاب حکمت عملی ہے۔ جس کے نتائج جلد سامنے آۓ ہیں۔ شمالی کوریا کے ساتھ تنازعہ کا 80فیصد حل میں جنوبی کوریا کی کوشش ہیں۔ اور 20فیصد حل امریکہ کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ جس میں آ بناۓ کوریا میں 1950-1953 کی جنگ کو اب ختم کرنے کا اعلان شامل ہے۔ اس کے علاوہ اس خطہ سے فوجی اڈے ختم کرنے کا فیصلہ بھی ہے۔
دوسری طرف شمالی کوریا کے رہنما کم جنگ ان کی ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار ہونے کی Step by Step حکمت عملی بہت معقول ہے۔ شمالی کوریا کی قیادت نے یہ حکمت عملی عراق لیبیا اور اب ایران کے تجربوں کو مد نظر رکھ کر بنائی ہے۔ لیبیا اور ایران نے بھی ایک امریکی انتظامیہ پر اعتماد کیا تھا۔ لیکن پھر دوسری انتظامیہ میں وہ لوگ تھے جنہوں نے بش انتظامیہ میں Regime change کو امریکہ کی خارجہ اور دفاعی Doctrine بنائی تھی۔ اور اس پر صدر بش نے عملدرامد کیا تھا۔ اس پر صدر اوبامہ نے عملدرامد کیا تھا۔ اس Doctrine کے حامیوں میں John Bolton بھی تھے جو اب صدر ٹرمپ کی انتظامیہ میں ہیں۔ شمالی کوریا اور ایران میں Regime change ان کے ایجنڈہ میں ہے۔ وہ لاکھ یہ کہتے رہیں کہ ان ملکوں میں Regime change ہمارا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ یہ یقین کرنا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ عراق کے بارے میں بھی دنیا سے یہ ہی کہا گیا تھا کہ عراق میں Regime change امریکہ کا مقصد نہیں ہے۔ امریکہ عراق سے تمام مہلک ہتھیاروں کا خاتمہ چاہتا ہے۔ لیکن جب امریکہ کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ عراق میں تمام مہلک ہتھیاروں کا خاتمہ ہو گیا تھا امریکی فوجیں اسی وقت عراق میں گھستی چلی گئی تھیں۔ دنیا کو عراق میں مہلک ہتھیار دکھانے کے بجاۓ صد ام حسین کی underwear میں تصویریں دکھائی تھیں۔ بہرحال یہ تاریخ ہے۔ اور تاریخ سے قومیں ہمیشہ سبق سیکھتی ہیں۔ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ نے بھی اس تاریخ سے ضرور سبق سیکھا ہے۔ اس لئے وہ جنوبی کوریا کے ساتھ معاملات طے کرنے میں زیادہ comfortable نظر آتے ہیں۔
شمالی کوریا نے ایٹمی ہتھیاروں کو ختم کرنے کا Process شروع کر دیا ہے۔ شمالی کوریا نے تمام ایٹمی تجربے جن میں ICBM میزائلوں کے تجربے بھی شامل ہیں بالکل بند کر دئیے ہیں۔ اس کے علاوہ زیر زمین نیو کلیر test site تباہ کر دیں ہیں۔ شمالی کوریا کے قیام کی تقریب کے موقعہ پر مارچ پا سٹ میں پہلی مرتبہ میزائلوں اور ہتھیاروں کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ شمالی کوریا کی طرف سے ان تمام فیصلوں اور اقدامات کے باوجود امریکہ کی پالیسی میں کوئی نمایاں flexibility نہیں آئی ہے۔ شمالی کو صرف یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ پہلے وہ اپنے تمام ایٹمی ہتھیاروں کو تباہ کرے اس کے بعد اقتصادی بندشیں ختم کرنے کی بات کی جاۓ گی۔ کچھ ایسا ہی پیغام صد ام حسین کی حکومت کو بھی دیا جاتا تھا۔ ایسے بیان سے امریکہ کے ارادوں میں کچھ شکوک پیدا ہونے لگتے ہیں۔ دنیا کو امن اور استحکام کے فیصلے صرف امریکہ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہیں بلکہ ان فیصلوں میں آ گے رہنا چاہیے۔ کم جونگ سے ملاقات کے بعد صدر مون نے پریس کانفرنس میں کہا
“North Korea agreed to allow international inspectors to observe a permanent dismantlement of its key missile facilities and will take additional steps such as closing its main Yongbyon nuclear complex if the United States takes reciprocal measures. North and South Korea agreed that the Korean Peninsula should turn into a land of peace without nuclear weapons and threats.”
No comments:
Post a Comment