Wednesday, September 12, 2018

The Solution of Afghan War: Sanction Afghan Warlords, Dismantle Their Militia, And Make Afghan National Security Forces Strong


The Solution of Afghan War: Sanction Afghan Warlords, Dismantle Their Militia, And Make Afghan National Security Forces Strong 

مجیب خان
Secretary of State Mike Pompeo and Prime Minister

Foreign Minister Sushma Swaraj, Defence Minister Nirmala Sitharaman, Secretary of state Mike Pompeo, Defence Secretary Jim Mattis in Dehli, India  

Afghan Warlord's Local Militia  

   با ظاہر یہ نظر آتا ہے کہ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo پاکستان خالی ہاتھ آۓ تھے اور خالی ہاتھ واپس گیے ہیں۔ لہجہ میں شکوے شکائتیں نہیں تھیں۔ حقانی نیٹ ورک کے سرغنہ کے مرنے کی خبر سیکرٹیری آف اسٹیٹ کی آمد سے پہلے آ گئی تھی۔ دونوں طرف صرف باتیں ہوئی ہیں۔ پاکستان نے افغانوں کی آزادی کی جنگ میں مدد کی ہے۔ اور پاکستان افغانوں کے لئے امن میں بھی مدد کرے گا۔ لیکن پاکستان افغان معاشرہ کو متحد کرنے میں مدد نہیں کر سکتا ہے۔ افغانوں کو اپنے معاشرہ کو متحد کرنے میں اپنی مدد آپ کرنا ہو گی۔ اور یہ افغانستان کا داخلی مسئلہ ہے۔ امریکہ کو پہلی توجہ اس پر دینا چاہیے۔ اور دوسرا مرحلہ امن ہے۔ جب افغانستان کے ہر صوبے، ہر شہر، ہر ڈسٹرکٹ، ہر گلی اور سڑک میں اتحاد ہو گا۔ پھر امن کے راستہ میں تمام مشکلات بھی دور ہو جائیں گی۔ افغانستان میں سب امن چاہتے ہیں۔ لیکن معاشرہ کو متحد کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ افغانستان بری طرح تقسیم ہے۔ اور Divide and Fight کا نا ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ بش انتظامیہ نے کابل حکومت کے بجاۓ افغان وار لارڈ ز کو مضبوط کیا تھا۔ اور آج بھی وار لارڈ ز حکومت سے زیادہ طاقتور ہیں۔ وار لارڈ ز کی ملیشیا قومی افغان فوج سے زیادہ طاقتور ہیں۔ طاقتور وار لارڈ ز کی موجودگی میں افغانستان میں کبھی امن نہیں ہو گا۔
  اب یہ پاکستان کو 300ملین ڈالر نہ دینے کا جو سوال ہے۔ تو کارپوریٹ  امریکہ کے چیف ایگزیکٹو جو صدر ڈونالڈ ٹرمپ ہیں۔ انہوں نے امریکہ کے تمام وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے فلسطینیوں کی 300ملین ڈالر امداد بند کر دی ہے۔ انہوں نے ایسٹ یروشلیم میں ہسپتالوں کو امریکی امداد بھی بند کر دی ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے ادارے براۓ مہاجرین کی فنڈنگ بھی بند کر دی ہے۔ یہ ادارہ 5ملین فلسطینی مہاجرین کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ امریکہ میں جو 40ملین شہری غربت کی لکیر سے بھی نیچے ہیں اور صرف حکومت کی امداد پر زندہ ہیں۔ ان کی امداد میں بھی کٹوتی کی گئی ہے۔ اور ان سے کہا گیا ہے کہ انہیں کچھ گھنٹے کام کرنا ہو گا۔ جبکہ پینٹاگان کے مطابق امریکہ 45بلین ڈالر سالانہ افغانستان میں فوجی آپریشن پر خرچ کر رہا ہے۔ افغان جنگ کو 17 سال ہو گیے ہیں۔ لیکن اس جنگ کے ختم ہونے کی روشنی افغانستان کے دروں، پہاڑوں اور شہروں میں دور دور نظر نہیں آ رہی ہے۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے اسلام آباد پرواز کے دوران امریکی صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ "جب میں سی آئی اے کا ڈائریکٹر تھا پاکستان کے ساتھ ہم نے مل کر بہت قریبی کام کیے ہیں۔ ہماری ٹیمیں ایک عرصہ سے مل کر کام کر رہی ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہمارے دونوں ملکوں کے درمیان بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ لیکن ہمیں امید ہے کہ نئی قیادت کے ساتھ ہم Common Ground دریافت کر سکتے ہیں۔ اور ہمارے جو بعض مشترکہ مسائل ہیں ان پر مل کر کام شروع ہو سکتا ہے۔" سیکرٹیری آف اسٹیٹ کی ان مصالحانہ  لفظوں میں گفتگو سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کو پاکستان کی قربانیوں کا احساس ہو رہا ہے۔ اور اب امریکہ پاکستان کے ساتھ  تعاون کرنا چاہتا ہے۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ اور سیکرٹیری دفاع کے دہلی دورے میں بھی پاکستان کو زیادہ پیٹا نہیں گیا ہے۔
  امریکہ کے اس وقت ترکی سے تعلقات خراب ہیں۔ ایران سے تعلقات بہت خراب ہیں۔ اور پاکستان سے بھی تعلقات زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ اور امریکہ بیک وقت ان تین اہم ملکوں کے ساتھ خراب تعلقات Affords نہیں کر سکتا ہے۔ ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ امریکہ کی طرف سے انہیں روزانہ مذاکرات کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ ترکی ایران اور پاکستان سرد جنگ میں امریکہ کے قریبی اتحادی تھے۔ اور یہ تینوں ملک RCD تنظیم کے رکن بھی تھے۔ اور اب ایران پاکستان اور ترکی روس کے  ساتھ قریبی تعلقات فروغ دینے کو اہمیت دے رہے ہیں۔ پاکستان اور ایران شنگہائی تنظیم میں شامل ہیں۔ جو ایک بڑا اور اہم عالمی گروپ ہے۔ روس اور چین اس تنظیم کے بانی رکن ہیں۔ ترکی بھی مستقبل قریب میں شہنگائی تنظیم کا رکن ہو گا۔
  سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo اور سیکرٹیری ڈیفنس Jim Mattis تین دن کے دورے پر دہلی آۓ تھے۔ دہلی میں بھارت کی وزیر خارجہ Sushma Swaraj وزیر دفاع Nirmala Sitharaman سے دفاعی اور Strategic امور پر مذاکرات ہوۓ تھے۔ بھارت کی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع دونوں خاتون ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے اتنے اہم عہدوں پر خواتین کو آگے کر دیا ہے۔ اور خود ہندو انتہا پسندوں کے پیچھے کھڑے ہو گیے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے بھارت کے ساتھ بھی زیادہ گرم جوشی کے تعلقات نہیں ہیں۔ دونوں ملکوں کی حکومتوں میں ٹریڈ اور امیگریشن کے ایشو ز پر شدید اختلاف ہیں۔ بالخصوص بھارت کے ساتھ ٹریڈ کے مسئلہ پر صدر ٹرمپ کی شکایتیں چین سے شکایتوں سے مختلف نہیں ہیں۔ صدر ٹرمپ نے بھارت کو بھی یہ دھمکی دی ہے کہ اگر بھارت امریکی اشیا کے لئے اپنی مارکیٹ نہیں کھولے گا تو اس پر بھی پھر Sanction لگائی جائیں گی۔ امریکہ کو بھارت کے ساتھ تجارت میں 800بلین ڈالر خسارہ کا سامنا ہو رہا ہے۔ صدر ٹرمپ وزیر اعظم مودی پر یہ مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ امریکی اشیا کے لئے سہولتیں دیں۔ اور امریکہ کے ساتھ تجارت کو منصفانہ بنائیں۔ دہلی میں سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے بھارت کے ساتھ امریکہ کے Trade Deficit تعلقات پر اور سیکرٹیری دفاع Jim Mattis نے India-Pacific اور Indian Ocean میں بھارت کے رول پر اور امریکہ کے ساتھ قریبی فوجی تعلقات فروغ دینے پر بات کی تھی۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ مودی حکومت نے اس میں زیادہ دلچسپی نہیں لی ہے۔ بھارت افغانستان میں بھی اب زیادہ دلچسپی نہیں لے رہا ہے۔ بھارت نے افغانستان میں تقریباً 100بلین ڈالر انویسٹ کیے ہیں لیکن اسے افغانستان سے ابھی تک کچھ نہیں ملا ہے۔ بش اور اوبامہ انتظامیہ نے بھارت کو افغانستان میں اثر و رسوخ بڑھنا کا راستہ دکھایا تھا۔ لیکن بھارت آدھے راستے سے افغانستان سے مایوس ہو کر واپس آ گیا تھا۔ عقلمندی کا بھی یہ ہی تقاضا تھا۔  بھارت کے بہت سے لوگ بھی افغانستان میں مارے گیے تھے۔ بہرحال مودی حکومت نے امریکہ سے کھربوں ڈالر کا فوجی اسلحہ خریدنے کا سمجھوتہ کیا ہے۔ اور اس طرح امریکہ کو بھارت سے تجارت میں جو خسارے ہو رہا ہے اسے بھارت نے امریکہ سے کھربوں ڈالر کا اسلحہ خریدنے سے Balance  کرنے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ India-Pacific اور Indian Ocean میں امریکہ کے ساتھ فوجی اور نیول مشقیں کرنے کے لئے چین کی سرحدوں سے دور بھارت کی سرحدوں کے اندر یہ مشقیں کرنے کا کہا ہے۔ بھارت چین کو مشتعل کرنا نہیں چاہتا ہے۔ اب خبر یہ ہے کہ امریکہ سے کھربوں ڈالر کا اسلحہ خریدنے کے لئے بھارت اپنی فوجوں میں کمی کرنے پر غور کر رہا ہے۔
  افغان وار لارڈ عبدالرشید دوستم ترکی میں جلا وطنی ختم کر کے جب افغانستان آۓ تھے۔ تو ان کا ہزاروں لوگوں نے بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا تھا۔ عبدالرشید دوستم نے 2011-12 میں ہزاروں طالبان کو انتہائی بیہمانہ طور پر ہلاک کروایا تھا۔ جو انسانیت کے خلاف جنگی کرائم تھے۔ بش انتظامیہ نے افغانستان سے طالبان کا مکمل خاتمہ کرنے کے مقصد سے افغان وار لارڈ ز کو استعمال کیا تھا۔ اور سی آئی اے نے اس مشن میں ڈالروں سے بھرے بریف کیس افغان وار لارڈ ز میں تقسیم کیے تھے۔ اور عبدالرشید دوستم بھی ان وار لارڈ میں شامل تھے۔ 17 سال کی افغان جنگ کا جس پر امریکہ نے ٹیریلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ آج المیہ یہ ہے کہ عبدالرشید دوستم کئی سال کی جلاوطنی کے بعد بڑی آزادی سے افغانستان آۓ تھے۔ لیکن امریکہ کے سیکرٹیری دفاع Jim Mattis 17 سال بعد گزشتہ ہفتہ صدر اشرف غنی سے ملاقات کے لئے جب کابل آۓ تھے تو امریکی سفارت خانہ اور امریکی قیادت میں اتحادی فوجوں کے ہیڈ کوارٹروں پر گن شپ ہیپاچی ہیلی کاپٹر چکر لگاتے رہے۔ اور جتنی دیر سیکرٹیری دفاع کابل میں روکے تھے۔ اتنی دیر تک گن شپ ہیلی کاپٹر ان کی حفاظت میں فضا میں چکر لگاتے رہے۔ ٹیریلین ڈالر اس جنگ پر خرچ کیے گیے تھے۔ لاکھوں ڈالر وار لارڈ ز کو دئیے گیے تھے۔ اس جنگ میں کئی ہزار امریکی جانیں بھی دی گئی ہیں۔ اس جنگ پر دو سابق صدر کے Signatures ہیں۔ اور یہ جنگ دو سابقہ صدر کی Joint Legacy ہے۔ امریکہ کے تیسرے صدر ڈونالڈ ٹرمپ شاید دو سابقہ صدر کی Joint Legacy  میں اپنا نام شامل کرنا نہیں چاہتے ہیں۔
  ٹرمپ انتظامیہ نے زالمے خلیل زاد کو افغانستان کے لیے خصوصی سفیر نامزد کیا ہے۔ خلیل زاد 80 کے عشرہ سے افغانستان کے مسئلہ کا جنگ کی سیاست سے حل کرنے کے مشورے دے رہے ہیں۔ سوویت فوجوں کے خلاف افغان جہاد کے دوران خلیل زاد اور ان کے ساتھ کونڈا لیزا رائس صدر ریگن کی قومی سلامتی امور کے اسٹاف میں شامل تھے۔ اور یہ جہاد کو افغانستان سے کمیونسٹ فوجوں کو نکالنے کا حل دیکھتے تھے۔ پھر بش انتظامیہ میں طالبان کے خلاف جنگ میں جو امریکہ کے سابق جہادی اتحادی تھے۔ خلیل زاد نے افغانستان سے طالبان کا خاتمہ کرنے کی جنگ کی حمایت کی تھی۔ اور ان کے ساتھ صدر بش کی قومی سلامتی امور کی مشیر کونڈا لیزا رائس تھیں جنہوں نے افغانستان سے طالبان کا مکمل خاتمہ ہونے تک جنگ جاری رکھنے کی پالیسی اختیار کی تھی۔ اور طالبان کے ساتھ سیاسی مذاکرات ممنوع قرار دئیے تھے۔ خلیل زاد افغانستان میں امریکہ کے سفیر بن گیے تھے۔ خلیل زاد جو خود بھی افغان پشتون تھے۔ انہوں نے اپنے آبائی ملک کے ہم وطنوں کو کوئی سیاسی حل نہیں دیا تھا۔ صرف جنگ جاری رکھنے کی ترغیب دی تھی۔ افغان وار لارڈ ز کا مضبوط بنایا تھا۔ ہر وار لارڈ کی ایک ملیشیا بن گئی تھی۔ وار لارڈ ز نے سوویت دور کی جنگ میں امریکہ کے تربیت یافتہ اپنی ملیشیا میں بھرتی کیے تھے۔ جو بے روز گار طالبان تھے۔ وار لارڈ ز کی ملیشیا کے یہ کبھی دن میں طالبان ہوتے تھے۔ رات میں ملیشیا بن جاتے تھے۔ اور کبھی دن میں وار لارڈ ز کی ملیشیا ہوتے تھے اور رات میں طالبان بن جاتے تھے۔ یہ وار لارڈ ز کے موڈ پر ہوتا تھا کہ وہ انہیں کب اور کیسے استعمال کرتا تھا۔ بش انتظامیہ کی اس پالیسی نے کابل میں کرزئی حکومت کو کمزور رکھا تھا۔ اور وار لارڈ ز اور طالبان دونوں کو مضبوط بنا دیا تھا۔ دوسری طرف پاکستان میں طالبان کی برانچ پاکستانی طالبان کے نام سے کھل گئی تھی۔ افغانستان میں پاکستان کا رول کمزور ہو گیا تھا۔ کرزئی حکومت اور پاکستان کے تعلقات خراب ہو گیے تھے۔ امریکہ نے افغان جنگ کو فوجوں کی تعداد بڑھانے سے Reset کیا تھا۔ لیکن 17 سال میں کبھی سیاست Reset کرنے کو اہمیت نہیں دی تھی۔ سابق دو انتظامیہ دنیا میں جنگیں پھیلانے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ لیکن افغان جنگ ختم کرنے میں ناکام رہی تھیں۔ کیوں؟
                                                                                          
     
          

No comments:

Post a Comment