Tuesday, October 16, 2018

Killing By Hit Squad: From Murder In Dubai Hotel To Abbottabad, Pakistan,To Istanbul In Saudi Consulate, A New Growing Danger In The World


Killing By Hit Squad: From Murder In Dubai Hotel To Abbottabad, Pakistan, To Istanbul In Saudi Consulate, A New Growing Danger In The World

مجیب خان
Saudi Dissident Jamal Khashoggi


   استنبول ترکی میں سعودی عرب کے کونسلیٹ میں جمال کشوگی کے لا پتہ ہونے کے معمہ کو 14 روز ہو گیے ہیں۔ سعودی حکومت نے جمال کشوگی کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے۔ اس کے whereabouts کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جا رہا ہے۔  تاہم صدر ترکی کے صدر اردو گان نے یہ پورے یقین کے ساتھ کہا ہے کہ کشوگی کو کونسلیٹ میں قتل کیا گیا ہے۔ سعودی عرب سے دو جہاز سعود یوں سے بھرے آۓ تھے۔ اور کونسلیٹ میں ان کی نقل و حرکت دیکھی گئی تھی۔ ترکی حکومت کی ابتدائی تحقیقات میں کشوگی کا قتل ہونے کے کچھ ثبوت بھی ملے ہیں۔ ترکی کی حکومت کے پاس جمال کشوگی کی کونسلیٹ میں گفتگو کے آ ڈیو اور و ڈیو بھی ہیں۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ 14 روز سے اس واقعہ کے بارے میں تمام حقائق کا ابھی تک انتظار کر رہی ہے۔ یہ کوئی برسوں پرانی بات نہیں ہے صرف چند ماہ قبل کی بات ہے کہ جب یہ خبر آئی تھی کہ اسد حکومت نے اپنے مخالفین کے خلاف زہریلی گیس استعمال کی تھی۔ لیکن اس کے تمام حقائق کا انتظار کرنے کی بجاۓ صدر ٹرمپ نے اسد حکومت کے خلاف فوری کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ شام میں اسد حکومت کی فوجی تنصیبات بمباری کر کے تباہ کر دی تھیں۔ اور شام پر 56 بم گراۓ تھے۔ حالانکہ اسد حکومت نے اس کی بھر پور لفظوں میں تردید کی تھی۔ اور اس کی تحقیقات میں مکمل تعاون کرنے کا کہا تھا۔ شام میں 101 دہشت گردوں کے گروپ تھے۔ جو اسد حکومت کا خاتمہ کرنے کی جنگ لڑ رہے تھے۔ لیکن انہیں کوئی کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ اسد حکومت نے اپنے بڑے علاقہ  دہشت گرد باغیوں سے آزاد کر ا لیے تھے۔ جب فوج پیش رفت کر رہی ہوتی ہے تو کبھی بھی زہریلی گیس یا مہلک ہتھیار استعمال نہیں کرتی ہے ۔ اب کیونکہ امریکہ سعودی عرب اور اسرائیل باغی دہشت گردوں کی پشت پنا ہی کر رہے تھے۔ اس لئے ان کے مفاد میں موقف اختیار کیا تھا۔ حالانکہ یہ جنگ کسی Rule of Law کے تحت نہیں تھی۔ اور ایک خود مختار ملک میں مداخلت تھی۔ اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی تھی۔ د مشق حکومت کے خلاف دہشت گردوں کو ہتھیار اور تربیت دی جا رہی تھی۔ شام میں اسرائیل کے اپنے مفادات تھے۔ سعودی عرب اپنے مفادات دیکھ رہا تھا۔ اور امریکہ کے اپنے علیحدہ مفادات تھے۔ جبکہ یمن میں ہوتیوں کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کے اپنے مفادات ہیں اور ایران کے اپنے مفادات ہیں۔ اور امریکہ یمن میں سعودی عرب اور ایران کے مفادات کو Micromanage کر رہا ہے۔ ہتھیاروں کا کاروبار عروج پر ہے۔ ہو تیوں کو بھی ہتھیار سپلائی کیے جا رہے ہیں۔ اور یہ  جنگ اسی طرح جاری رہے گی۔ Human suffering پر commercial profit کو اہمیت دی جا رہی ہے۔
  صدر ٹرمپ جمال کشوگی کے مسئلہ پر جس طرح سعودی عرب میں امریکہ کے کمرشل مفادات کو اتنی اہمیت دے رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح یورپ اور ایشیائی ممالک بھی ایران میں اپنے تجارتی مفادات کو اہمیت دیتے ہیں۔ اور صدر ٹرمپ کی ایران کے خلاف غیر ضروری اقتصادی بندشوں کے خلاف ہیں۔ صدر ٹرمپ نے صدارتی حلف برداری تقریب سے اپنے خطاب میں کہا تھا "ہر ملک کو اپنے مفادات میں فیصلے کرنے کا حق ہے۔ اور امریکہ اس میں مداخلت نہیں کرے گا۔" لیکن صدر ٹرمپ ایران کے مسئلہ میں ان ملکوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں جو اپنے تجارتی مفاد میں ایران کے ساتھ تعلقات  کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ امریکہ کے صدر جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں اور وہ کرنے لگتے  ہیں جو کہا نہیں تھا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کی سیاست میں یہ رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔ Rule of Law کی سیاست میں اہمیت تقریباً ختم ہو گئی ہے۔ National Security کو American Values پر فوقیت دی جاتی ہے۔ نائن الیون کے بعد صدر بش کا یہ لہجہ کہ وہ ا سا مہ بن لادن کو زندہ یا مردہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ لہجہ شاید سعودی شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان کا جمال کشوگی کے لئے ہو سکتا تھا۔ لیکن یہ انداز لہجہ امریکہ کی قدریں نہیں تھا۔ نائن الیون کے بعد سی آئی اے نے بے شمار ملکوں میں القا عدہ کے دہشت گردوں کو پکڑنے کے لئے آپریشن کیے تھے۔ ان آپریشن میں بہت سے مارے بھی گیے تھے۔ حالانکہ یہ ثابت نہیں ہوا تھا کہ یہ سب دہشت گرد تھے۔ انصاف اور قانون جو امریکہ کی بنیادیں قدریں تھیں۔ انہیں فراموش کر دیا تھا۔ بش انتظامیہ میں جتنے بھی دہشت پکڑے گیے تھے۔ انہیں مجرم قرار دے دیا تھا۔ لیکن ان کا جرم ثابت نہیں کیا تھا۔ بش انتظامیہ نے افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں القا عدہ کے دہشت گردوں کو امریکہ کے حوالے کرنے والوں کو 5 ہزار ڈالر دینے کا اعلان کیا تھا۔ لوگوں نے 5ہزار ڈالر لینے کے لئے ایسے افراد پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیے تھے جنہیں بن لادن کے بارے میں کوئی علم تھا اور نہ ہی القا عدہ کا پتہ تھا کہ یہ شہ تھی۔ یہ نائن الیون کی سیاست تھی جو امریکہ کو بدل رہی تھی۔ امریکہ کی قدروں کو بدل رہی تھی۔
  صدر اوبامہ لا پروفیسر تھے۔ نائب صدر جو ز ف بائدن، سیکرٹیری آف اسٹیٹ ہلری کلنٹن، ایف بی آئی ڈائریکٹر رابٹ مولن یہ سب قانون دان تھے۔ ان کے علاوہ بھی انتظامیہ میں قانون دان تھے۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ میں بھی Extra Judicial اور Extra territorial ملٹری آپریشن قومی سلامتی کے نام پر جاری تھے۔ ڈرون حملوں میں بڑی تعداد میں بے گناہ شہری مارے گیے تھے۔ 2مئی 2011 میں رات کی تاریکی میں امریکہ کے ملڑی ہیلی کاپٹر پاکستان کی حدود میں داخل ہوتے ہیں۔ ایبٹ آباد میں ا سا مہ بن لادن کو دریافت کرتے ہیں۔ اور موقعہ ہی پر اسے مار دیتے ہیں۔ اور اسے مردہ اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ جیسے صدر بش نے کہا تھا زندہ یا مردہ۔ یہ نائن الیون کے بعد کا امریکہ تھا۔ نائن الیون سے پہلے کے امریکہ میں سی آئی اے کا طیارہ حکومت پاکستان کی اجازت سے دن کی روشنی میں پاکستان میں جمیل کانسی کو حراست میں لینے آیا تھا جس نے 1980s میں ورجینیا میں سی آئی اے ہیڈ کوارٹر کے باہر سی آئی اے کے تین ایجنٹ مار دئیے تھے۔ اور پاکستان میں روپوش تھا۔ اسے ورجینیا کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ اس پر قتل کے الزام میں مقدمہ چلا تھا۔ جیوری نے اسے پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ یہ امریکہ کی نائن الیون سے پہلے کی قدریں تھیں۔ انصاف اور قانون کو با لا تر رکھا جاتا تھا۔ ا سا مہ بن لادن کو بھی اسی طرح عدالت کے سامنے کھڑا کیا  جاتا۔ اس پر فرد جرم عائد کیا جاتا۔ اور جیوری اس کے مجرم یا بے گناہ ہونے فیصلہ کرتی۔ مجرم کو بھی قانون کے مطابق اپنی صفائی میں کہنے کا موقعہ دیا جاتا۔ لیکن یہ المیہ تھا کہ ایک Due Legal Process کو By Pass کر دیا گیا تھا۔
  جنوری 2010 میں اسرائیلی Hit Squad نے دوبئی کے ایک ہوٹل میں حما س کے رہنما محمود المبحوح کو قتل کیا تھا۔ محمود المبحوح پر 1989 میں دو اسرائیلی فوجی اغوا کرنے اور انہیں قتل کرنے کا الزام تھا۔ اس وقت سے اسرائیلی حکومت اس کا تعاقب کر رہی تھی۔ 10جنوری 2010 میں اسرائیلی حکومت نے اسے قتل کر نے کے احکامات دئیے تھے۔ اس مقصد کی تکمیل میں اسرائیلی مو ساد کے 12 ایجنٹ برطانیہ، فرانس، آئرلینڈ، اور آسٹریلیا کے جعلی پا سپورٹ پر دوبئی آۓ تھے۔ دوبئی پولیس کے مطابق مو ساد کے یہ ایجنٹ یورپ کے مختلف حصوں سے یہاں پہنچے تھے۔ اور دوبئی کے مختلف ہوٹلوں میں ٹھہرے تھے۔ محمود المبحوح کے قتل کی تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی مو ساد کے ایجنٹ نے اسے نشہ آور چیز دی تھی۔ پھر اسے برقی جھٹکے دئیے گیے تھے۔ اور اس کا دم گھونٹ کر مار دیا تھا۔ اور دوبئی سے چلے گیے تھے۔ دوبئی پولیس کے چیف نے کہا کہ اسرائیلی مو ساد کے یہ ایجنٹ اسرائیل میں ہیں۔ مارچ 2010 میں برطانیہ کے سیکرٹیری خارجہ ملی بینڈ نے برطانیہ کی Serious organized crime agency کی تحقیقاتی رپورٹ پر کہ اسرائیل نے برطانوی پا سپورٹ کی جعلی کاپیاں بنائی تھیں۔ اسرائیلی سفارت کار کو برطانیہ سے نکال دیا تھا۔ اس کے بعد آسٹریلیا اور آئرلینڈ کی حکومتوں نے بھی ان کے جعلی پا سپورٹ  بنانے پر اسرائیلی سفارت کاروں کو اپنے ملکوں سے نکال دیا تھا۔ لیکن حیرت کی بات تھی کہ اوبامہ انتظامیہ نے اسرائیلی حکومت کی دوسرے ملکوں کے جعلی پا سپورٹ بنانے اور Hit squad بھیجنے کی پالیسی کی سخت مذمت کی تھی اور نہ ہی اسے روکا تھا۔ Allies ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے ہر کرائم پر پردہ ڈالا جاۓ۔ ان کی قانون شکنی سے منہ موڑ لیا جاۓ۔ دہشت گردی کے نام پر جنگ میں امریکہ کی Extra Judicial Killing سرگرمیاں بڑھتی جا رہی تھیں۔ اور امریکہ Due Judicial Process سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ یمن میں سعودی جنگ سے قبل القا عدہ کے خلاف امریکہ کی جنگ میں ڈر ون حملوں میں کئی سو القا عدہ کے انتہا پسند مارے گیے تھے۔ جن میں Anwar al- Awlaki  بھی تھا۔ جو امریکی شہری تھا۔ لیکن یمن میں اب القا عدہ سعود یوں کے ساتھ ہوتیوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔ اسرائیلی مو ساد کا دوبئی ہوٹل میں حما س کے رہنما کو قتل کرنے کا آپریشن اور استنبول میں سعودی کونسلیٹ میں جمال کشوگی کو قتل کرنے کا سعودی Hit Squad آپریشن مڈل ایسٹ میں ایک نئی تشویش ناک صورت ہے۔ دونوں ملکوں میں چند سالوں سے قریبی رابطہ بڑھ رہے ہیں۔ اب یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ سعودی Hit Squad کو کیا اسرائیل نے تربیت دی ہے؟ مڈل ایسٹ میں ہر طرف اسرائیل اور سعودی حکومت کے مخالفین ہیں۔ دونوں ملکوں کے پاس اپنی مخالفت کا کوئی سیاسی حل نہیں ہے۔                                                                            
                                                                                                                                                                                                      

No comments:

Post a Comment