Middle East: America Is Defending Its Strategic Interests, While Surrendering America’s Moral Values
مجیب خان
Palestinian Children in the Israeli prison |
Palestinians in Israeli Jail |
Female prisoners in Saudi prisons |
Political activists in Saudi Arabia's Jail |
Political Prisoners in Egypt's Jail |
Egypt's First Elected Democratic President Mohamed Morsi in Jail |
مشرق وسطی میں اگر بادشاہتیں نہیں ہوتی، اسرائیل نہیں ہوتا اور تیل اور گیس کے وسیع ذخائر نہیں ہوتے تو اس خطہ کی سیاست اور سیاسی نقشہ آج بہت مختلف ہوتا۔ دنیا کو اس خطہ میں المیہ اور جنگوں کا شاید سامنا نہیں ہوتا۔ لیکن بادشاہوں، اسرائیل اور تیل اور گیس کی دولت نے مشرق وسطی کو تمام جنگوں کی ماں بنا دیا ہے۔ امریکہ اسرائیل کے قیام سے یہاں بڑی سرگرمی سے ملوث ہے۔ اس خطہ میں قیام امن کے لئے ہنری کسنگر کا بریف کیس اور Shuttle Diplomacy امریکہ کی مڈل ایسٹ پالیسی کی Legacy ہیں۔ ہنری کسنگر نے 50s اور 60s میں امریکہ کو جو مڈل ایسٹ پالیسی دی تھی۔ آج مڈل ایسٹ کے حالات اس امریکی پالیسی کے نتائج ہیں۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکہ نے مڈل ایسٹ میں 7ٹیریلین ڈالر خرچ کیے ہیں لیکن امریکہ کو کچھ نہیں ملا ہے۔ مڈل ایسٹ کے 300ملین لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں امن ملا ہے اور نہ ہی ان کی زندگیوں میں استحکام ہے۔ اگر ان سے Future کے بارے میں پوچھا جاۓ تو وہ کہیں گے کہ یہ کیا ہوتا ہے۔ امریکہ نے 7ٹیریلین ڈالر خرچ کر کے اسرائیل کو طاقتور بنا کر عربوں پر بیٹھا دیا ہے۔ امریکہ کی مڈل ایسٹ پالیسی دراصل اسرائیل کی پالیسی ہے۔ اس لئے امریکہ فیل ہو رہا ہے اور اسرائیل کامیاب ہو رہا ہے۔ لیکن عربوں کا امن اور استحکام بڑی تیزی سے Deteriorate ہو رہا ہے۔ صرف 20سال پہلے مڈل ایسٹ کے کیا حالات تھے اور آج یہ کیا ہیں؟ مڈل ایسٹ کے حالات خراب کرنے یا یہاں خراب حالات سے فائدہ اٹھانے میں چین اور روس کا کوئی رول ہے اور نہ ہی کوئی دلچسپی ہے۔ انہوں نے عراق کے مسئلے کو ڈائیلاگ سے حل کر نے پر زور دیا تھا۔ لیکن امریکہ نے بھر پور فوجی طاقت کے استعمال میں عراق کا حل دیکھا تھا۔
صدر بش اور ان کی انتظامیہ کے اعلی حکام نے صد ام حسین کے خلاف جو مہم چلائی تھی۔ وہ صرف جھوٹ اور من گھڑت الزامات پرتھی۔ اور ان کا حقائق سے کو ئی تعلق نہیں تھا۔ صدر بش نے عربوں کو خوفزدہ کر نے کے لئے ان سے کہا کہ صد ام حسین مڈل ایسٹ کے تیل کی پائپ لائنوں پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ اور مڈل ایسٹ کے تیل کی سپلائی کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے۔ عرب حکمران محلوں کی دنیا میں رہتے تھے۔ انہیں باہر کی دنیا کا کوئی علم نہیں تھا۔ انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ صد ام حسین مڈل ایسٹ کے تیل کی سپلائی کو کیسے کنٹرول کر سکتے تھے کہ جب خلیج میں امریکہ کا سب سے بڑا بحری اڈہ ان کی سرزمین پر تھا۔ کویت میں امریکہ کی فوجیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ ہر طرف امریکہ کے طیارہ بردار بحری بیڑے تیل کی سپلائی کی چوکیداری کر رہے تھے۔ جبکہ فرانس اور برطانیہ کے طیارہ بردار بحری بیڑے بھی عراق سے زیادہ دور نہیں کھڑے تھے۔ امریکہ صرف عرب حکمرانوں کی ذہنیت سمجھتا تھا۔ لیکن صد ام حسین مڈل ایسٹ کی سیاست اور حالات کو سمجھتے تھے۔ صد ام حسین نے انہیں اقتدار سے ہٹانے کے بعد کے حالات سے آ گاہ کیا تھا کہ عراق میں دجلہ اور فرات خون سے سرخ ہو جائیں گے۔ عراق پر امریکہ کے فوجی حملہ کے بعد عراق کی سڑکیں اور دریا خون سے سرخ ہو گیے تھے۔ صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے سے مڈل ایسٹ کے حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی تھی۔ مڈل ایسٹ کے حالات اب اتنے زیادہ خطرناک ہو گیے ہیں کہ انہیں دیکھ کر صد ام حسین کو خطرناک کہنا ثابت نہیں ہوتا ہے۔ صدر بش عراق کو عدم استحکام دے کر گیے تھے۔ صدر اوبامہ عراق کو امن دینے کے بجاۓ ISIS دینے میں کامیاب ہوۓ تھے۔
صدر اوبامہ اقتدار میں آنے کے بعد مشرق وسطی کے حکمرانوں کو آزادی اور جمہوریت پر لیکچر دیتے رہے۔ پھر مشرق وسطی میں آزادی اور جمہوریت پھیلانے کا ایک پروجیکٹ شروع کیا تھا۔ جس پر 500ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔ عرب اسپرنگ میں اوبامہ انتظامیہ کو مشرق وسطی میں آزادی اور جمہوریت پھیلانے کا پروجیکٹ کامیاب ہوتا نظر آنے لگا۔ مصر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منتخب جمہوری حکومت آئی تھی۔ صدر حسینی مبارک کا 40سال دور اقتدار ختم ہو گیا تھا۔ امریکہ کی قومی سلامتی کا مفاد بھی مطلق العنان حکمرانوں سے منتخب جمہوری حکومتوں کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اخوان المسلمون مصری عوام کے 60فیصد ووٹوں سے منتخب ہوۓ تھے۔ اب یورپ میں لوگ Extreme Far Right پارٹیوں کو منتخب کر رہے ہیں۔ اور یہ جمہوریت ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کو ان پارٹیوں کے اقتدار میں آنے پر کوئی پریشانی نہیں ہے۔ مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت ہوتی تو شاید ISIS کبھی وجود میں نہیں آتی۔ اخوان المسلمون کا ایک ماڈریٹ رول ابھر رہا تھا۔ امریکہ اور یورپ ان کے ساتھ ملوث رہتے۔ مصر میں جمہوریت ضرور کامیاب ہوتی۔ لیکن صدر اوبامہ، برطانیہ اور فرانس شام میں اسلامی انتہا پسندوں کے ساتھ ملوث ہو گیے تھے۔ اور د مشق حکومت کے خلاف دہشت گردی کرنے کی حوصلہ آ فز ا ئی کر رہے تھے۔ املاک کو نقصان پہنچانا اور بے گناہ شہریوں کو ہلاک کرنا دہشت گردی تھی۔ بہرحال اسرائیل کو مصر میں جمہوری حکومت سے یہ خوف ہو رہا تھا کہ اسرائیل کے گرد Islamists کا گھیرا تنگ ہو رہا تھا۔ یہ خوف تھا جو اسرائیل اور سعودی عرب کو مصر میں ایک مشترکہ دشمن جمہوریت کے خلاف ایک دوسرے کو قریب لایا تھا۔ جمہوریت کو مشرق وسطی میں اسرائیل، سعودی عرب اور خلیج کی حکومتوں نے اپنی سلامتی اور مفاد کے لئے ایک بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔ اور انہوں نے مصر میں جمہوری حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ اسرائیل کا Behavior بڑا Outrageous تھا۔ جس سے اسرائیل کی جمہوریت Fake ثابت ہوتی تھی۔ بھارت میں بعض ایسی حکومتیں منتخب ہوئی تھیں جنہیں چین اپنے مفادات کے لئے خطرہ سمجھتا تھا۔ لیکن چین نے کبھی بھارت میں جمہوریت کو سبوتاژ کرنے کی سازش نہیں کی تھی۔ لیکن حیرت کی بات تھی کہ امریکہ نے مصر میں اپنی جمہوری قدروں کو Defend نہیں کیا تھا۔ بلکہ جمہوریت اور آزادی کے مخالف ملکوں کے ساتھ کھڑے ہونے میں فخر محسوس کیا تھا۔ سعودی عرب نے مصر میں فوجی حکومت کو 20بلین ڈالر دینے کا اعلان کیا تھا۔ اور امریکہ کو 20بلین ڈالر سے Match کرنے کا چیلنج کیا تھا۔
عرب عوام کے ساتھ یہ ظلم تھا یا مذاق کہ صدر جارج بش اپنی 80ہزار فوجیں لے کر بغداد صد ام حسین کی آمرانہ حکومت کا خاتمہ کرنے گیے تھے۔ اور عراق کو آزادی اور جمہوریت دی تھی۔ صدر بش نے عربوں سے کہا تھا کہ عرب دنیا کے وسط میں عراق ایک مثالی جمہوریت ہو گا۔ لیکن مصر میں اسرائیل اور سعودی عرب نے بھی جمہوریت کی ایک مثال بنا دی تھی۔ امریکہ مڈل ایسٹ میں جنہیں Allies کہتا تھا۔ انہوں نے صدر اوبامہ کو عراق میں صدر بش کی مثالی جمہوریت اور مصر میں انہوں نے جمہوریت کی جو مثال بنائی تھی اس کے درمیان بیٹھا دیا تھا۔ اور شام میں آمریت ختم کرنے کی جنگ میں صدر اوبامہ کو اپنا کمانڈر بنا لیا تھا۔ صدر اوبامہ بڑے فخر سے ان کے کمانڈر بن گیے تھے۔ لیکن صدر اوبامہ نے اسے بالکل نظر انداز کر دیا تھا کہ ان کے اپنے ملکوں میں جیلیں سیاسی قیدیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ جبکہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بد ترین اسرائیلی آمریت تھی۔ شام ایک Modern Society تھا۔ شیعہ سنی عیسائی سب ایک فیملی کی طرح رہتے تھے۔ عورتوں کو آزادی تھی۔ ایک مہذب معاشرہ تھا۔ حقوق اور آزادی کا مطالبہ کرنے والوں پر اسرائیلی فوج نے گولیاں چلائی ہیں۔ سعودی عرب میں تلوار سے ان کی گردنیں اڑا دی جاتی ہیں۔ اسلامی دہشت گردوں سے بش انتظامیہ Iron Fist سے پیش آئی تھی۔ اسرائیل 50سال سے شام کے علاقوں پر قابض ہے۔ لیکن د مشق حکومت نے اسرائیل کے خلاف کبھی دہشت گردی نہیں کی تھی۔ اسد حکومت کے ایران سے بھی اچھے تعلقات تھے۔ حزب اللہ سے بھی اچھے تعلقات تھے۔ آخر مصر میں فوجی آمریت بحال ہونے کے بعد صدر اوبامہ نے کیا سوچ کر شام میں Assad has to go کی بات کی تھی۔ صدر اوبامہ پہلے مصر میں جمہوری منتخب حکومت کو بحال کراتے۔ پھر شام میں Assad has to go کر تے۔ صدر اوبامہ شام میں کچھ حاصل نہیں کر سکے تھے۔ شام میں صرف انسانی معاشرتی اور سماجی تباہی ہوئی ہے۔21ویں صدی میں جیسے Barbarian آۓ تھے۔ اور ایک قوم تباہ کر کے چلے گیے۔ صد ام حسین نے کویت کو کھنڈرات نہیں بنایا تھا۔ ان میں اتنی انسانیت ضرور تھی۔ افسوس کی بات ہے کہ امریکہ نے اپنی قدریں عرب Allies کو نہیں دیں تھیں۔ بلکہ ان کی قدریں Adopt کر لی تھیں۔
اب جمال کشوگی کے بیہمانہ قتل پر اصولوں اور قدروں کی بات نہیں ہو رہی ہے۔ بلکہ جیسا کہ صدر ٹرمپ نے کہا ہے "سعودی عرب کے خلاف سخت کاروائی اس لئے مشکل ہے کہ سعودی عرب 110بلین ڈالر کے ہتھیار امریکہ سے خرید رہا ہے۔ اگر ہتھیاروں کی یہ فروخت روک دی جاۓ تو چین اور روس سعودی عرب کو ہتھیار فروخت کرنے لگے گے۔ نہ صرف یہ بلکہ سعودی عرب 400بلین ڈالر امریکہ میں انویسٹ کر رہا ہے۔ امریکہ میں ایک ملین Job creates ہوں گے۔ پھر سب سے اہم یہ ہے کہ سعودی عرب ایران کے خلا ف کھڑا ہے۔ سعودی عرب کو مشرق وسطی میں ایک بڑا مقام حاصل ہے۔ " حالانکہ سعودی عرب 5سال میں یمن کی جنگ نہیں جیت سکا ہے۔ سعودی عرب کی پشت پر امریکہ برطانیہ اور فرانس بھی ہیں۔ کھربوں ڈالر کے بہترین ہتھیار بھی سعودی عرب کو فروخت کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود سعودی عرب کو یمن کی جنگ میں کوئی نمایاں کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ امریکی ہتھیار ایک غریب ترین ملک میں صرف انسانی تباہی کر رہے ہیں۔ بہرحال جمال کشوگی کے قتل پر سعودی عرب کے خلاف کاروائی سے گریز میں ایران ایک اہم Factor ہے۔ اور اسرائیلی لابی واشنگٹن میں سرگرم ہے۔
As Evangelical Christian Leader Pat Robertson said “Look, these people are key allies. Our main enemy in the Middle East is Iran, and the Saudis stand up against Iran.”
Well, if Hitler comes out from the grave and supports President Trump’s initiatives against Iran, will Mr. Robertson and “Bibi” Netanyahu praise him?
No comments:
Post a Comment