Saudi Arabia Is Buying $100 Billion Dollars Worth Of Weapons From America, And $60 Million Dollar On Lobbying To Keep The Relationship With America “Unchanged”
Where Is The Wisdom?
مجیب خان
Saudi King Salman Presents President Donald Trump the Abdulaziz al-Saud medal |
Saudi King Abdullah Presents President Barack Obama the Abdulaziz al-Saud medal |
Saudi King Abdullah Presents US President George Bush the Abdulaziz al-Saud medal |
گزشتہ ماہ وزیر اعظم عمران خان تین روز کے دورے پر سعودی عرب گیے تھے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد یہ ان کا پہلا بیرونی دور تھا۔ صدر ٹرمپ نے بھی صدر بننے کے بعد پہلا بیرونی دورہ سعودی عرب کا کیا تھا۔ اور اس کے بعد صدر ٹرمپ اسرائیل گیے تھے۔ وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب کے دورے میں شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی تھی ۔ پاکستان روانہ ہونے قبل وزیر اعظم عمران خان نے ایک سعودی ٹی وی سے انٹرویو میں کہا کہ "پاکستان سعودی عرب کی سیکیورٹی کا دفاع کرے گا۔" وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کے چند ہفتہ بعد صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ" سعودی عرب امریکہ کی مدد کے بغیر دو ہفتہ سے زیادہ survive نہیں کر سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا "اس مقصد میں ہمارے فوجی اخراجات سعودی عرب کو ادا کرنا چاہیے۔" اب یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ کیا صدر ٹرمپ کے اس بیان کا وزیر اعظم عمران خان کے بیان سے کوئی تعلق تھا کہ پاکستان سعودی عرب کی سیکیورٹی کا دفاع کرے گا؟ صدر ٹرمپ کے اس بیان میں ذرا یہ دیکھا جاۓ کہ امریکہ پاکستان اور سعودی عرب Triangle تعلقات کی سوچیں کس قدر ایک جیسی ہیں۔ پاکستان بھی کئی سال سے امریکہ سے یہ ہی demand کر رہا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں امریکہ کی سیکیورٹی کے لئے جو اخراجات کیے ہیں۔ امریکہ پاکستان کو ان کی ادائیگی کرے۔ جو تقریباً 300 ملین ڈالر ہیں۔ پاکستان امریکہ کے مقابلہ میں بہت کمزور اور چھوٹا ملک ہے۔ اور اپنے انتہائی مشکل حالات میں افغانستان میں امریکہ کی سیکیورٹی میں مدد کر رہا ہے۔ لیکن امریکہ کا جواب ایک villain کی طرح ہوتا ہے کہ بھاگ جاؤ۔ اپنے خرچہ پر ہماری سیکیورٹی کے لئے کام کرتے رہو ورنہ اقتصادی بندشیں لگ سکتی ہیں۔ لیکن سعودی عرب ایک دولت مند ملک ہے جیسا کہ صد ر ٹرمپ نے کہا ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس بیان پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا “ I love working with Trump, relationship with US unchanged.” امریکہ بدل گیا ہے۔ دنیا بدل گئی ہے۔ لیکن ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے Grand Father نے امریکہ کے ساتھ جن تعلقات کی بنیاد رکھی تھی ان تعلقات کی بنیادیں شہزادہ کے خیال میں کبھی نہیں ہلیں گی۔ اور ولی عہد شہزادہ محمد کی زندگی میں بھی یہ تعلقات شاید اسی طرح رہیں گے۔ دنیا کے بارے میں یہ ان کا Vision ہے۔
صدر ٹرمپ دو سال اور وائٹ ہاؤس میں ہیں۔ یا دوبارہ چار سال کے لئے پھر صدر بن جائیں گے۔ لیکن یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ دنیا کے ساتھ تعلقات کی اس کی Priorities تبدیل ہو رہی ہیں۔ اس کے Adversary دوست اور دوست Adversary بن رہے ہیں۔ دنیا اس وقت unsettled ہے۔ یہ کس طرف جاۓ گی۔ کیا رخ اختیار کرے گی اس کا کسی کو علم نہیں ہے۔ مڈل ایسٹ میں جنگوں کے نتائج امریکہ کے عزائم کے مطابق نہیں آۓ ہیں۔ لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ کیا انسانی تباہی ان عزائم کا مقصد تھا؟ سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات کی 70 سال کی تاریخ ہے۔ کتنے سعودی شہزادے صرف ان تعلقات میں 70 سال کی عمروں پر پہنچ گیے ہیں۔ ان سعودی شہزادوں کو محل کے کسی کونے میں سر جوڑ کر بھیٹنا چاہیے اور اس پر غور کرنا چاہیے کہ 70 سال میں انہوں نے کیا کھویا اور کیا پا یا ہے۔ ان 70 سالوں میں سے 50سال سعودی عرب نے سرد جنگ میں امریکہ اور مغرب کا اتحادی بن کر کمیونسٹوں کو شکست دینے کی جنگوں پر کھربوں ڈالر پھونک دئیے تھے۔ اور جب سرد جنگ ختم ہو گئی تو پھر کویت کو عراق کی فوجوں سے آزاد کرانے کی جنگ شروع ہو گئی تھی۔ اگر صدر جارج ایچ بش صدر صد ام حسین کو دھوکہ نہیں دیتے کہ جنہوں نے کویت میں اپنی فوجیں بھیجنے سے پہلے صدر بش سے مشورہ کیا تھا۔ اگر عراقی فوجیں کویت پر قبضہ کریں تو امریکہ کا کیا رد عمل ہو گا۔ جس پر صدر بش نے کہا امریکہ اس میں ملوث نہیں ہو گا۔ لیکن امریکہ سب سے پہلے اس میں ملوث ہوا تھا۔ اور کویت کو عراقی فوجوں سے آزاد کرانے کی قیمت امریکہ نے سعودی عرب سے 80بلین ڈالر اور کویت سے 100 بلین ڈالر وصول کیے تھے۔ جبکہ بحرین، قطر متحدہ عرب امارت نے علیحدہ لاکھوں ڈالر امریکہ کو دئیے تھے۔ یہ بلین ڈالر ہیں جس نے مڈل ایسٹ میں جنگوں کو Permanent کاروبار بنا دیا ہے۔ ایک جنگ ابھی ختم نہیں ہوتی ہے کہ دوسری جنگ شروع کر دی جاتی ہے۔ مڈل ایسٹ میں اس وقت 4 جنگیں ہو رہی ہیں۔ اور چاروں جنگوں میں سعودی عرب بلا واسطہ ملوث ہے۔ یہ جنگیں جتنی طویل ہو تی جا رہی ہیں۔ سعودی عرب پر اس کے اثرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اور سعودی عرب کی سلامتی کے بارے میں سوال پیدا ہو رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے 2018 میں یہ کہا ہے کہ "سعودی بادشاہت امریکہ کے بغیر دو ہفتہ سے زیادہ Survive نہیں کر سکتی ہے۔" صدر کلنٹن کی انتظامیہ میں 1998 میں صدر صد ام حسین نے جب سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرامد کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اور اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کو عراق میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ صدر صد ام حسین کے اس فیصلہ کے خلاف اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرامد کرانے کے لئے صدر کلنٹن نے برطانیہ کے ساتھ مل کر فوجی کاروائی کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر، متحدہ عرب امارت نے امریکہ اور برطانیہ کے فیصلے کی مزاحمت کی تھی۔ اور اپنی سر زمین سے عراق پر فضائی حملہ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس پر سابق سیکرٹیری آف اسٹیٹ Eagleburger نے سی این این کے ایک پروگرام میں کہا کہ "اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے کوئی جاۓ اور Twist their hand” میں نے یہ گفتگو خود سی این این پر دیکھی تھی۔ شاید بالکل یہ ہی ہوا تھا۔ امریکہ اور برطانیہ کے طیاروں نے ان کی سر زمین سے عراق پر بمباری شروع کر دی تھی۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ اور تین ہفتہ امریکہ اور برطانیہ نے عراق پر خوب بمباری کی تھی۔
مڈل ایسٹ کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد یہ نظر آتا ہے کہ عرب حکمرانوں کی عقلوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور وہ دوسروں کی عقلوں سے اپنے خطہ میں کام کر رہے ہیں۔ انہیں اتنی عقل نہیں ہے کہ اپنے ہمسائیوں کو دوسروں سے تباہ کروانے کے بعد آخر میں وہ تباہ ہونے کے لئے رہے جائیں گے۔ شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان سعودی عرب میں اقتصادی اور صنعتی ترقی کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ اور ٹرمپ انتظامیہ اور اسرائیل ایران میں Regime change کی ایک نئی جنگ شروع کرنے کی پلاننگ کر رہے ہیں۔ ایران میں Regime change کا مطلب سعودی عرب اور خلیج میں Regime change ہو گا۔ ٹرمپ انتظامیہ مڈل ایسٹ میں امن Impose نہیں کر رہی ہے لیکن اسرائیل کے عظیم مفاد میں فلسطینیوں پر اپنا فیصلہ Impose کرنے جا رہی ہے۔ یہ مڈل ایسٹ میں مسائل حل کرنے کی پالیسی نہیں ہے۔ بلکہ یہ مڈل ایسٹ کے مسائل کو پیچیدہ بنانے اور عرب ملکوں کے لئے نئے مسائل پیدا کرنے کی پالیسی ہے۔ سابق دو صدر بھی مڈل ایسٹ کے ملکوں کو نئے مسائل دے کر گیے ہیں۔ بلکہ عرب ملکوں کی سیکیورٹی کے خطروں میں اضافہ کر کے گیے ہیں۔
سعودی عرب 100بلین ڈالر ہتھیاروں پر خرچ کر رہا ہے۔ تقریباً 100بلین ڈالر یمن جنگ پر خرچ کر رہا ہے۔ 60ملین ڈالر واشنگٹن میں امریکہ کے ساتھ تعلقات “Unchanged” رکھنے کے لئے لابی پر خرچ کر رہا ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ کا کہنا یہ ہے کہ سعودی بادشاہت امریکہ کے بغیر دو ہفتہ سے زیادہ Survive نہیں کر سکتی ہے۔ سعودی عرب کے لئے سلامتی اور بقا صرف سراط مستقیم کے راستہ میں ہے۔ اور اس راستہ پر آنے کے لئے شاہ سلمان کو اپنی زندگی میں U-Turn لینا ہو گا۔ اور اپنے تمام ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنا ہوں گے۔ ان کی سلامتی اور بقا میں سعودی عرب کی سلامتی اور بقا کو دیکھنا ہو گا۔ سعودی عرب کو اپنی سلامتی کے مفاد میں اپنے ہمسائیوں کے ساتھ متحد ہونا ہو گا۔
No comments:
Post a Comment