Saturday, October 6, 2018

Sick Political Speeches Of Israel’s Prime Minister Benjamin Netanyahu And India’s Foreign Minister Sushma Swaraj In The UN General Assembly’s Annual Session


Sick Political Speeches Of Israel’s Prime Minister Benjamin Netanyahu And India’s Foreign Minister Sushma Swaraj In The UN General Assembly’s Annual Session

مجیب خان

Israel's Prime Minister Netanyahu shows an atomic warehouse in Teheran during his address the 73rd session of UN General Assembly



At The UN General Assembly, Netanyahu showed  Iran Nuclear threat with the chart that consisted of the bomb. Sept 29, 2014


Indian Foreign Minister Sushma Swaraj address UN General Assembly's 73 sessions, "Pakistan Harbouring Terrorists". Really

   اسرائیل اور بھارت کے رہنما ہر سال اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کرنے آتے ہیں۔ اور ہر سال جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نا تھن یا ہو تقریباً 12 سال سے اسرائیل میں اقتدار میں ہیں۔ اور وزیر اعظم نا تھن یا ہو 12 سال سے مڈل ایسٹ سے کچرا بھر کر لاتے ہیں اور جنرل اسمبلی سے خطاب میں یہ کچرا ایران پر انڈیل دیتے ہیں۔ جب سے وزیر اعظم نا تھن یا ہو اقتدار میں آۓ ہیں اس وقت سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس سال بھی جنرل اسمبلی سے وزیر اعظم نا تھن یا ہو کے خطاب کا ٹارگٹ ایران تھا۔ وزیر اعظم نا تھن یا ہو ابھی تک اس ہٹ دھرمی پر ہیں کہ ایران خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے۔ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ 2015 میں ہوا تھا۔ IAEA کا ادارہ اس معاہدہ پر عملدرامد کو سختی سے واچ کر رہا ہے۔ اور معاہدہ پر مکمل عملدرامد ہونے کی رپورٹ سلامتی کونسل کو دیتا ہے۔ IAEA نے تین سال میں ابھی تک ایران کے معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے کی کوئی رپورٹ نہیں دی ہے۔ لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نا تھن یا ہو نے  2016 میں پھر 2017 میں اور اب 2018 میں جنرل اسمبلی سے خطاب میں ایران میں ایٹمی ہتھیاروں کی خفیہ سرگرمیوں کے انکشاف کیے تھے۔ عالمی برادری کو بڑے بڑے چارٹ سے ایران میں ایٹمی ہتھیاروں کی خفیہ سرگرمیاں دکھائی تھیں۔ اور تہران کے وسط میں ایٹمی ہتھیاروں کے ایک خفیہ warehouse کا انکشاف کیا تھا۔ اور دنیا کو بتایا کہ ایران اپنی ایٹمی سرگرمیاں چھپا رہا ہے۔ سیاسی محاذ پر وزیر اعظم نا تھن یا ہو نے کہا مڈل ایسٹ میں ایران کی مداخلت بڑھتی جا رہی ہے۔ ایران یمن شام عراق اور لبنان میں مداخلت کر رہا ہے۔ لیکن وزیر اعظم نا تھن یا ہو نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں ایک پیراگراف بھی فلسطینیوں کا ذکر نہیں کیا کہ ان کی فوج مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کس طرح مداخلت کرتی ہے۔ یا ان کی حکومت فلسطینیوں کی زندگیوں میں کیا بہتری لائی ہے۔ وزیر اعظم نا تھن یا ہو ایران کے بارے میں ایسے بات کرتے ہیں کہ جیسے اسرائیل علاقہ میں سب سے پرامن ملک ہے۔ اور 70 سال میں اس نے کسی ملک کے خلاف جارحیت نہیں کی ہے۔ علاقہ کے کسی ملک سے اس کا کبھی کوئی تنازعہ نہیں ہے۔
  وزیر اعظم نا تھن یا ہو نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ "جو ایران نیو کلیر ڈیل کے حامی ہیں وہ اس بارے میں بالکل غلط تھے کہ جب بندشیں ہٹائی جائیں گی تو کیا ہو گا۔ وہ بالکل غلط تھے۔ وہ اب اس بارے میں بھی غلط ہیں کہ بندشیں جب دوبارہ لگیں گی تو کیا ہو گا۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ صرف امریکہ کی بندشوں کا ایران کی معیشت پر زیادہ اثر نہیں ہو گا Really۔ خیر اب دیکھتے ہیں ایران کی معیشت کا کیا بنے گا کہ صدر ٹرمپ کا جب کمپنیوں پر دباؤ پڑے گا کہ ایران کے ساتھ کاروبار کرو یا امریکہ کے ساتھ ۔ایک سال پہلے ایران کی معیشت زبردست فروغ کر رہی تھی۔ اور اب یہ گرتی جا رہی ہے۔ ایران کی کرنسی بری طرح گر گئی ہے۔ افراط زر اور بے روز گاری میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ برٹش ائیر لائن، جرمن بنک، فرانس کی تیل کمپنیاں، جاپانی تیل کے امپورٹر اور بہت سے دوسرے ایران سے جا رہے ہیں۔ معیشت پر اگر یہ تھوڑے اثرات ہیں تو ذرا تصور کریں کہ نومبر میں امریکہ کی نئی بندشیں لگنے کے بعد کیا حال ہو گا۔" یہ ایران پر معاشی حملہ ہے۔ Evil ذہن ہمیشہ مسئلوں کا Evil حل دیکھتے ہیں۔
  دنیا کے لئے یہ بڑے شرم کی بات ہے کہ ایک ملک کے تنگ نظر مفاد میں جس کی جا حا را نہ پالیسیوں سے دنیا با خوبی واقف ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ صرف اس کے لئے ایران کی معیشت، ایران کا معاشرہ، ایران کا کلچر، ایران کا استحکام سب کچھ تباہ کرنے کے اقدامات کو اہمیت دے رہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے عالمی راۓ عامہ اور امریکہ کے قریبی اتحادیوں کو بھی بالکل نظر انداز کر دیا ہے۔ جان بولٹن کو قومی سلامتی امور کا مشیر شاید صرف ایران کے مقصد سے بنایا گیا ہے۔ جنہیں عراق تباہ کرنے کی پلاننگ کا تجربہ تھا۔ جان بولٹن نے ایران کے مسئلہ پر تین دن اسرائیل میں صلاح و مشورہ کیا تھا۔ عالمی برادری کو صدر ٹرمپ کی ایران پالیسی کے بارے میں یہ سوال کرنا چاہیے کہ ایران کو معاشی طور پر عدم استحکام کرنے میں آخر اسرائیل کے عزائم کیا ہیں۔ دنیا کو عراق، شام اور لیبیا تباہ کرنے سے کیا ملا ہے؟
  بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے خلاف فوجی ظلم اور بربریت، اسرائیل کی مقبوضہ فلسطین میں فلسطینیوں کے خلاف فوجی بربریت سے مختلف نہیں ہے۔ بھارت کو دنیا کی ایک بڑی جمہوریت بتایا جاتا ہے۔ اور اسرائیل مڈل ایسٹ میں ایک واحد جمہوری ملک ہونے کا دعوی کرتا ہے۔ لیکن جس طرح بھارت نے کشمیریوں کو اور اسرائیل نے فلسطینیوں کو آزادی اور حقوق سے محروم رکھا ہے۔ اس سے دونوں ملکوں کی جمہوریت Fake نظر آتی ہے۔ دونوں ممالک انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔ جو انسانیت کے خلاف کرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کی حالیہ رپورٹ میں نہتے کشمیریوں کے ساتھ  بھارتی فوج کی بربریت اور تشدد کی تفصیل دی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی حکومت کے اب پانچ سال مکمل ہونے  کے قریب ہیں۔ ان پانچ سالوں میں مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال بہتر بنانے میں کیا اقدامات کیے ہیں۔ نر یندر مودی جب گجرات کے وزیر اعلی تھے۔ اس وقت گجرات میں بدترین ہندو مسلم فسادات ہوۓ تھے جس میں تقریباً پانچ ہزار مسلمان  مارے گیے تھے۔ اور اب نر یندر مودی بھارت کے وزیر اعظم ہيں اور ان کی حکومت میں مقبوضہ کشمیر میں آزادی اور حقوق کے لئے تحریک کو بھارتی فوج نے فسادات بنا دئیے ہیں۔ بھارتی دفتر خارجہ میں انہیں دہشت گردی کہا جاتا ہے۔ اور اس کا الزام پاکستان کو دیا جاتا ہے۔ مودی سے پہلے وزیر اعظم من موہن سنگھ حکومت میں بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج آپریشن کر رہی تھی۔ مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے مقابلے میں دو گنا زیادہ فوج تھی۔  بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ وادی کشمیر فوجی چھاؤنی نظر آتی تھی۔ اتنی بڑی تعداد میں بھارتی فوج کی موجودگی میں سرحد پار دہشت گردوں کا بھارت میں آنا کیسے ممکن ہو سکتا تھا۔ وزیر اعظم من موہن سنگھ جب جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرنے آتے تھے۔ تو ان کا خطاب بھی صرف دہشت گردی پر ہوتا تھا۔ اور وہ بھی پاکستان کو دہشت گردوں کو پناہ دینے اوران کی پشت پنا ہی کرنے کا الزام دیتے تھے۔ وزیر اعظم موہن سنگھ بھی دس سال اقتدار میں رہے اور دس سال انہوں نے الزام تراشی کی سیاست میں گزار دئیے تھے۔ لیکن پاکستان کے ساتھ ڈپلومیسی کی سیاست کی طرف کبھی نہیں آۓ تھے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں وزیر اعظم موہن سنگھ  نے اور نہ ہی وزیر اعظم مودی نے کبھی یہ نہیں بتایا تھا کہ ان کی حکومت مقبوضہ کشمیر میں حالات کو بہتر بنانے اور کشمیریوں کو حق خود مختاری دینے کے مسئلہ کا کیا حل دیکھ رہی تھی۔ لیکن بھارتی حکومت نہ تو پاکستان کے ساتھ مل کر کشمیر کا مسئلہ حل کرنا چاہتی ہے۔ نہ ہی بھارتی حکومت پاکستان کے بغیر کشمیر کا مسئلہ حل کرنا چاہتی ہے۔ اور نہ ہی بھارتی حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر خطہ میں دہشت گردی ختم کرنا چاہتی ہے۔
  پانچ سال میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے پانچ مرتبہ وزیر اعظم مودی یا ان کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے جنرل اسمبلی سے خطاب کیا ہے۔ اور دونوں نے اپنے خطاب میں جنرل اسمبلی کے سامنے صرف پاکستان کے خلاف الزامات سے بھرے تھیلے کھولے ہیں۔ اپنے خطہ کو پر امن اور خوشحال بنانے کے فیصلوں کے بارے میں بتانے کے لئے ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا۔ وہ ہی چودہ پندرہ سال پرانی دہشت گردی کی گھسی پٹی اور الزامات کی باتیں ہوتی تھیں۔ دنیا جن کو سن سن کر Sick ہو گئی ہے۔ اس سال جنرل اسمبلی کے 73 ویں اجلاس سے خطاب میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا یہ الزام کہ بھارت پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کو سبوتاژ کر رہا ہے بالکل جھوٹ ہے۔ لیکن وزیر خارجہ سوراج نے یہ نہیں بتایا کہ پھر سچ کیا تھا۔ وزیر خارجہ سوراج نے پاکستان کے خلاف بھارت کے پرانے الزامات دہرانے شروع کر دئیے کہ پاکستان دہشت گردوں کو پناہ دے رہا ہے۔ وزیر خارجہ پاکستان کو پھر چھ سال پیچھے کی دنیا میں لے گئی کہ ا سا مہ بن لادن پاکستان میں مقیم تھا۔ وزیر خارجہ پاکستان کو پھر 10سال اور پیچھے کی دنیا میں لے گئی کہ 2008 میں Mumbai حملہ کے دہشت گرد ابھی تک پاکستان میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ ہمارے معاملے میں دہشت گردی زیادہ دور نہیں بلکہ ہماری مغربی سرحد کے پار فروغ دی جا رہی ہے۔
  بھارت اور اسرائیل کے لئے عالمی ادارے کے سامنے 35,40 منٹ کھڑے ہو کر الزامات کی Sick Politics کرنا سب سے آسان ہوتا ہے۔ لیکن 35,40 منٹ اپنے مخالفین کے ساتھ بیٹھ کر امن کی باتیں کرنے سے جیسے انہیں Constipation ہونے لگتا ہے۔ بھارتی حکومت امن کے لئے اور نہ ہی خطہ میں دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لئے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہے۔ اب بھارت کے Sick الزامات کی بیماریوں کا علاج سقراط  کے پاس ہے اور نہ ہی بقراط کے پاس ہے۔    
             
 Brutality of the Israel soldiers treatment of Palestinian Boys

Indian Army's Brutallity in Kashmir







No comments:

Post a Comment