Saudi Arabia: Embarrassing Debacle
Why Didn't The Saudi Consul General Inform The Turk Foreign Ministry About The Rogue
Elements’ Altercation In The Consulate
مجیب خان
Crown Prince Mohammed Bin Salman |
Saudi Arabia, Women's rights activists arrest the latest in a government crackdown on activists, Clerics, and Journalists |
سعودی حکومت نے 17 روز کے بعد صرف ہاف گلاس سچ بولا ہے۔ اور جمال کشودیں کی ہلاکت کا اعتراف کر لیا ہے۔ لیکن پھر ہاف گلاس یہ جھوٹ بولا ہے کہ کشوگی کی ہلاکت کا سبب تفتیش کے دوران ہا تھا پائی بتایا ہے۔ سعودی انٹیلی جنس کے ڈپٹی ڈائریکٹر میجر جنرل احمد العصری کو جو ذرا Dark color ہیں۔ انہیں اور ان کے ساتھ بعض دوسرے اعلی افسروں کو فوری طور پر برطرف کر دیا ہے۔ لیکن جمال کشوگی کے قتل سے ان کا تعلق نہیں بتایا ہے۔ ان کے علاوہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے انتہائی قریبی مشیر و ں کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔ سعودی اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی سرپرستی میں ایک کمیشن اس کی تحقیقات کرے گا۔ صدر ٹرمپ نے سعودی حکومت کے ان اقدامات کو Credible کہا ہے۔ سعودی حکومت نے 400بلین ڈالر امریکہ کے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس میں Invest کر کے جیسے امریکہ کی اعلی Moral values خرید لی ہیں۔ اس سعودی Investment کا صدر ٹرمپ ایک سے زیادہ مرتبہ حوالہ دے چکے ہیں۔ اور اس لئے کشوگی کے بیہمانہ قتل کی سخت لفظوں میں مذمت کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ بلکہ دبی زبان میں سعودی حکومت کو Defend بھی کرتے ہیں کہ کشوگی کو Rogue elements نے قتل کیا ہے۔ اگر Rogue elements سعودی کونسلیٹ میں آ گیے تھے تو سعودی کونسل جنرل نے پولیس کیوں نہیں بلائی تھی؟ کونسلیٹ میں اس قتل کو مقامی پولیس سے کیوں چھپایا گیا تھا؟ اور جب ترکی کی حکومت نے کشوگی کے قتل کی تحقیقات شروع کی تو سعودی کونسل جنرل سعودی عرب چلے گیے۔ اور جانے سے پہلے کونسلیٹ میں کرائم سین کی صفائی کر کے گیے تھے۔ سعودی کونسلیٹ میں مقامی ترک بھی کام کرتے تھے۔ اور ان میں سے کسی نے ضرور اپنے موبائل سے سعودی کونسلیٹ میں اس واقعہ کے مناظر کی تصویریں بنائی ہوں گی۔ اس لئے ترک حکومت بڑے وثوق سے کشوگی کے قتل کے بارے میں ثبوت کے دعوی کر رہی ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان جس طرح گزشتہ دو سال سے Behave کر رہے ہیں۔ اور جن کو وہ اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں ان کو راستہ سے ہٹاتے جا رہے ہیں۔ ولی عہد کے اندرونی حلقہ میں جو ایڈوائزر ہیں وہ زیادہ تر نوجوان ہیں۔ اور انہوں نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی ہے۔ یہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو اقتصادی اور سماجی شعبوں میں اصلاحات کرنے مشورے دے رہے ہیں۔ لیکن سیاسی اور آزادی اظہار خیال پر بندشیں رکھنے کی حمایت کرتے ہیں۔ کیونکہ صرف اسی صورت میں ولی عہد اپنی پوزیشن مضبوط رکھ سکتے ہیں۔ اور اپنے بھر پور اختیارات کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔
شاہ سلمان نے شہزادہ محمد کو ولی عہد نامزد کرنے کے بعد جب سے انہیں اختیارات دئیے ہیں۔ ولی عہد شہزادہ محمد نے ابھی تک ایسے کام نہیں کیے ہیں کہ جن سے ان کے قابل، ذہن اور ایک با صلاحیت قیادت ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ اصلاحات Fake ہیں۔ ولی عہد کی اصلاحات پر سعودی میڈیا اور عوام کو اظہار خیال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ امام کعبہ نے اپنے خطبہ میں اصلاحات پر تنقید کی تو خفیہ پولیس انہیں ہزاروں نمازیوں کے سامنے پکڑ کر لے گئی۔ اس کے بعد سے ان کا پتہ نہیں ہے کہ وہ زندہ ہیں یا ان کا حشر بھی جمال کشوگی کی طرح ہوا ہے۔ ایسی بے شمار مثالیں ہیں۔ عورتوں کو ڈرائیونگ کی اجازت دینا اور سینما ہال کھولنا کوئی بڑی اصلاحات نہیں ہیں۔ یہ اصلاحات امریکہ، برطانیہ اور فرانس جو سعودی حکومت کو Patronize کرتے ہیں۔ یہ انہیں خوش کرتی ہیں۔ اصلاحات کی ابتدا آزادی صحافت، اظہار خیال کی آزادی اور آزاد میڈیا سے ہوتی ہے۔ اور ولی عہد محمد بن سلمان کی اصلاحات میں یہ آزادی شامل نہیں ہیں۔ آزادی کے بغیر اصلاحات بے مقصد ہیں۔
اصلاحات کو کامیاب بنانے کے لئے ایک ماحول بنایا جاتا ہے۔ ارد گرد کے حالات اور اندرونی سیاسی حالات میں امن اور استحکام فروغ دینے کی پالیسیاں اختیار کی جاتی ہیں۔ اصلاحات کے لئے زمین زر خیز کی جاتی ہے۔ لیکن ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اصلاحات سے پہلے ایسے کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں۔ امن اور استحکام کبھی ہتھیاروں کو جمع کرنے سے نہیں آتا ہے۔ سعودی عرب جتنا زیادہ ہتھیاروں پر انحصار کر رہا ہے۔ اس کی سلامتی اور استحکام کے خطرے اتنے ہی زیادہ بڑھتے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب کھربوں ڈالر امریکہ کے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس میں invest کر رہا ہے۔ لیکن پھر دوسری طرف سعودی عرب امریکی کمپنیوں سے لاکھوں ڈالر اس کے اقتصادی ترقی کے منصوبوں میں invest کرنے کی توقع کرتا ہے۔ کمپنیاں اور investors پہلے امن اور استحکام کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایران سے Permanent تصادم کی پالیسی اختیار کی ہے۔ اور اس کی وجہ 33 سالہ ولی عہد نے یہ بتائی ہے کہ شیعاؤں کے ساتھ سنیوں کی 1400 سال سے لڑائی جاری ہے۔ اور اب وہ اس لڑائی کو اختتام پر پہنچائیں گے۔ 33سالہ ولی عہد کے خطرناک خیالات ہیں۔ جو سعودی عرب کو 21ویں صدی کی ایک جدید ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ترکوں نے ہزاروں اور لاکھوں عربوں کا قتل عام کیا تھا۔ اور وہ اسے کبھی بھولیں گے نہیں۔ پھر ولی عہد نے فلسطینیوں سے کہا امریکہ کا امن منصوبہ قبول کرو۔ ورنہ اپنا منہ بند کرو۔ اس خطہ کے لوگوں اور ملکوں کے بارے میں ولی عہد کا یہ Attitude ۔ ہے۔ ولی عہد نے اپنے خطہ کو پہلے شیعہ اور سنی میں تقسیم کیا ہے۔ پھر عرب اور غیر عرب میں تقسیم کیا ہے۔ اس بیوقوف ولی عہد کو شاید یہ معلوم نہیں ہے کہ سعودی عرب میں شیعاؤں کی ایک بہت بڑی آبادی ہے۔ جو عرب ہیں اور ہزاروں سال سے یہاں آباد ہیں۔ اس کے علاوہ کویت، اومان، بحرین اور متحدہ عرب امارات میں شیعہ بڑی تعداد میں ہیں۔ لبنان، یمن اور سوڈان میں بھی شیعہ ہیں۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب مڈل ایسٹ کی ایک بڑی طاقت بننا چاہتا ہے۔ اس سعودی طاقت کا خطہ کے ملکوں کے ساتھ کیا سلوک ہو گا؟ اور اس کا رول کیا ہو گا؟
قطر ایک سنی ملک ہے۔ لیکن ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے قطر سے بھی لڑائی شروع کر دی ہے۔ قطر کی ناکہ بندی کر دی ہے۔ قطر نے کیونکہ سعودی عرب سے زیادہ ترقی کر لی ہے۔ ماحول میں بھی آزادی کا احساس ہوتا ہے۔ الجیزیرہ ٹی وی کی نشریات عرب دنیا میں بیداری بکھیر رہی ہیں۔ اور سعودی حکومت کو یہ پسند نہیں ہے۔ سعودی حکومت قطرسے الجیزیرہ ٹی وی کی نشریات بند کرنے کے لئے اصرار کرتی رہی ہے۔ لیکن قطر نے اس سے اختلاف کیا تھا۔ اور الجیزیرہ ٹی وی کی نشریات جاری ر کھی ہیں۔ جس پر سعودی عرب نے قطر سے تعلقات منقطع کر لئے ہیں۔ اور دونوں ملکوں میں حالات خاصے کشیدہ ہو گیے ہیں۔ اب سعودی عرب کے ایران سے تعلقات بہت خراب ہیں۔ قطر سے بھی سعودی عرب کے تعلقات خراب ہو گیے ہیں۔ ادھر یمن سے سعودی عرب کی جنگ کو 4 سال ہو رہے ہیں۔ اور جنگ ختم ہونے کے کوئی امکان نظر نہیں آ رہے ہیں۔ سعودی عرب کے لبنان سے بھی زیادہ اچھے تعلقات نہیں ہیں۔ لبنان کے لوگ یہ شاید کبھی نہیں بھولیں گے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ان کے وزیر اعظم Saad Hariri کو سعودی عرب کے دورے کے دوران یرغمالی بنا لیا تھا۔ اور وزیر اعظم سے سعودی عرب کے 2بلین ڈالر واپس کرنے کا کہا تھا۔ اور اس وقت تک انہیں یرغمالی بناۓ رکھا تھا۔ لیکن فرانس کی کوششوں سے وزیر اعظم کو رہا کر دیا تھا۔ اور اب گزشتہ اگست میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے صرف اس وجہ سے کینیڈا سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا تھا کہ کینیڈا نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر شدید تنقید کی تھی۔ ایک 27سالہ سعودی لڑکی کو Tweet میں حکومت پر تنقید کرنے پر موت کی سزا دی گئی تھی۔ سعودی عرب کا کینیڈا میں جو Investment تھا حکومت نے اسے بھی ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ حالانکہ امریکہ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ہر سال سالانہ رپورٹ میں سعودی عرب میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا جاتا ہے۔ اور اس پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔ لیکن سعودی عرب نے امریکہ کے خلاف کبھی اتنا سخت رد عمل نہیں کیا تھا۔
اور اب استنبول میں سعودی کونسلیٹ میں جمال کشوگی کا انتہائی بیہمانہ قتل سعودی عرب کے لئے ایک Embarrassing debacle ہے۔ جس کو دنیا شاید کبھی بھول نہیں سکے گی۔ اس واقعہ پر سعودی حکومت نے کئی موقف تبدیل کیے ہیں۔ پہلے یہ کہا کہ انہیں اس واقعہ کا علم نہیں ہے۔ پھر یہ کہا کہ جمال کشوگی کونسلیٹ سے چلے گیے تھے۔ پھر یہ بتایا گیا کہ جمال کشوگی تفتیش کے دوران مر گیے تھے۔ پھر یہ کہا گیا کہ Rogue Killers نے جمال کشوگی کو قتل کیا ہے۔ اور اب سعودی حکومت کے بیان میں جس میں جمال کشوگی کے مرنے کا اعتراف کیا گیا ہے۔ یہ بتایا ہے کہ Rogue Elements کے ساتھ altercation میں جمال کشوگی کی موت ہوئی ہے۔ جمال کشوگی کے قتل پر سعودی حکومت کے ان بیانات میں تبدیلیاں ہونے پر یہ کہا جاۓ کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو اس کا کوئی علم نہیں تھا۔ یہ تسلیم کرنا بڑا مشکل ہے۔ پھر یہ کہ اگر سعودی اعلی شخصیت کا جمال کشوگی کے قتل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ تو پھر سعودی کونسل جنرل نے کونسلیٹ میں Rogue Elements کے altercation کی رپورٹ ترک وزارت خارجہ کو کیوں نہیں دی تھی؟ اور پولیس کیوں نہیں بلائی تھی؟ صرف یہ دو سوال بھی اصل حقائق سے پردہ اٹھا سکتے ہ۔
No comments:
Post a Comment