Wednesday, June 26, 2019

On The ‘Fix it or Nix it’, Starting A Third World War In The Middle East; President Trump’s Pro Netanyahu Economic Sanctions Torture Policy Against Iran, When The JCPOA System Is Working And Giving Positive Results, Don’t Derail It. Stay In The System And Make Changes Through Due Process




          On The ‘Fix it or Nix it’, Starting A Third World War In The Middle East; President Trump’s Pro Netanyahu Economic Sanctions Torture Policy Against Iran, When The JCPOA System Is Working And Giving Positive Results, Don’t Derail It. Stay In The System And Make Changes Through Due Process

      مجیب خان
             
    
President Donald and Prime Minister Benjamin Netanyahu


Secretary of state Mike Pompeo and Prime Minister Benjamin Netanyahu

National Security advisor John Bolton and Prime Minister Benjamin Netanyahu





   پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے یہ 1970s میں کہا تھا کہ تیسری عالمی جنگ مشرق وسطی میں ہو گی۔ وزیر اعظم بھٹو نے 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد صدر رچرڈ نکسن سے ملاقات میں یہ مودبانہ درخواست کی تھی کہ براۓ مہربانی اسرائیل فلسطین تنازعہ حل کریں۔ اگر اسے جلد حل نہیں کیا گیا تو یہ تنازعہ عالمی امن اور استحکام کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بنے گے۔ پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے 9/11 کے بعد صدر بش سے کہا تھا کہ اسلامی انتہا پسندی کی جڑ اسرائیل فلسطین تنازعہ ہے۔ اس تنازعہ کے  حل پر توجہ دیں۔ اس تنازعہ کے حل سے عالمی امن اور استحکام میں مدد ملے گی۔ ملیشیا کے وزیر اعظم Mahathir Mohamad نے 9/11 کے بعد صدر بش سے ملاقات میں اسرائیل فلسطین تنازعہ حل کرنے پر زور دیا تھا۔ جو عالمی امن کے لیے ایک بڑا خطرہ بنا ہوا تھا۔ یہ اسلامی رہنما بد قسمتی سے امریکہ کے اتحادی تھے۔ جن کے مشوروں کو امریکہ نے کبھی اہمیت نہیں دی تھی۔ امریکہ کے لیڈر ان کی ایک کان سے سنتے تھے اور دوسرے کان سے نکال دیتے تھے۔ یہ امریکہ کے ان اسلامی رہنماؤں کے ساتھ مخلص نہ ہونے کے ثبوت تھے۔ تاہم یہ امریکہ کی ہر جنگ میں اس کے Religiously Allie تھے۔ لیکن ان اسلامی رہنماؤں کی امن کی کوششوں میں امریکہ کبھی ان کا اتحادی نہیں تھا۔ امریکہ اگر ان اسلامی رہنماؤں کا  ایک مخلص اتحادی ہوتا تو مشرق وسطی میں کوئی وجہ نہیں تھی کہ آج یہاں امن کیوں نہیں ہوتا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کی 99 فیصد مشرق وسطی کی پالیسی میں اسرائیل کے مفادات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ فیصلہ اسرائیلی لیڈر کرتے ہیں کہ مشرق وسطی میں اب کس ملک کے خلاف جنگ کی جاۓ گی۔ کس ملک میں  Regime change کیا جاۓ گا۔ کس ملک کو تباہ کیا جاۓ گا۔ اس امریکی-اسرائیلی پالیسی کے Facts مشرق وسطی میں ہر طرف نظر آ رہے ہیں۔ گزشتہ 20 سالوں میں اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حل میں اتنی پیشقدمی نہیں ہوئی ہے کہ جتنے مشرق وسطی میں نئے تنازعہ پیدا کیے گیے ہیں۔ اور جنگوں کے لیے ماحول بنایا گیا ہے۔
  امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے اور اسرائیل امریکہ کی سپر پاور ہے۔ اسرائیل کو ایک نارمل ملک بنانے کے بجاۓ ایران سے ایک نارمل ملک بنے کا کہا جا رہا ہے۔ شاید انہیں یہ نہیں معلوم ہے کہ ایران ہزاروں سال سے ایک نارمل ملک ہے۔ ایران ایٹمی معاہدہ ہونے کے بعد اسے  وزیر اعظم نتھن یا ہو کے حکم  پر دوبارہ تنازعہ بنایا گیا ہے۔ تاکہ اس تنازعہ کو بنیاد بنا کر ایران کو بھی عراق اور شام بنا دیا جاۓ۔ صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے ایران معاہدہ (JCPOA) منسوخ کر دیا۔ صدر ٹرمپ نے خود اس معاہدہ کا شاید ابھی تک مطالعہ نہیں کیا ہو گا۔ ایران معاہدہ منسوخ کرنے سے پہلے اپنے جنرلوں کی راۓ بھی نہیں لی تھی۔ کوئی Home work بھی نہیں کیا تھا۔ ‘America First’ کا نعرہ لگانے والے صدر ٹرمپ نے امریکہ کے نامور Nuclear Experts سے اس معاہدہ میں خرابی اور اچھائی کے بارے میں نہیں پوچھا تھا۔ صدر ٹرمپ اور ان کی قومی سلامتی کی ٹیم نے صرف  وزیر اعظم نتھن یا ہو کے اسے ایک خراب معاہدہ کہنے پر منسوخ کر دیا تھا۔ 1980s میں Benjamin Netanyahu اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر تھے۔ امریکہ کے نامور سفارت کار Lawrence Eagleburger اس وقت اسسٹینٹ سیکرٹیری آف اسٹیٹ براۓ یورپین آ فیر تھے۔

Secretary of State Lawrence Eagleburger had said about Netanyahu that “he is a liar and master of-----ambassador to the U.N. he tells the diplomats that you can’t trust America.”

اور آج ایران کے آیت اللہ Benjamin Netanyahu  سے اتفاق کرتے ہیں کہ امریکہ پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اور شاید  جلد شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان بھی اس سے اتفاق کریں گے۔
  صدر ٹرمپ اور ان کی قومی سلامتی امور کی ٹیم صرف وزیر اعظم نتھن یا ہو کو Please کرنے کے لیے مڈل ایسٹ میں Third World War شروع کرنے جا رہے تھے۔ اگر 10منٹ میں صدر ٹرمپ اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کرتے تو 150 لوگ نہیں لاکھ ڈیڑھ لاکھ لوگ اب تک مر چکے ہوتے۔ مشرق وسطی میں ہر طرف انسانی لاشیں بکھری ہوتی۔ مشرق وسطی آگ کے شعلوں میں جل رہا ہوتا۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہوتا کہ راکٹ اور میزائل کس طرف سے آ رہے ہیں۔ نہ اسرائیل محفوظ ہوتا۔ نہ سعودی عرب اور اماراتی محفوظ ہوتے۔ القا عدہ دوبارہ زندہ ہو جاتی۔ داعش عراق اور شام کے علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرنے میدان میں آ جاتی۔ ترکی اپنے مفاد اور سلامتی میں دہشت کردوں پر بمباری کرنے لگتا۔ اسرائیل اور انتظامیہ میں Crazy ایٹم بم استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے اور پھر الزام القا عدہ یا داعش کو دیتے۔ ‘And this is a obliteration world have never seen before’  ایران کے خلاف وزیر اعظم نتھن یا ہو کے خیالات اسامہ بن لادن کے امریکہ کے بارے میں خیالات سے مختلف نہیں ہیں۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو کے یہ بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ ہم ایران کو اقتصادی بندشوں میں جکڑ دیں گے۔ اور اس کا گلہ گھونٹ دیں گے۔ ہم ایران کو مالی طور پر تباہ کر دیں گے۔ اور صدر ٹرمپ بالکل ایسا ہی کر رہے ہیں۔ اور یہ دیکھ کر بڑے خوش ہو رہے ہیں کہ ہماری اقتصادی بندشیں اب ایران کو Bite کر رہی ہیں۔ ایرانی ریاست بہت جلد Collapse ہونے والی ہے۔ 80ملین ایرانیوں کو Economic Torture کیا جا رہا ہے۔ عراق پر اقتصادی بندش کے نتیجہ میں 567,000 بچے مر گیے تھے۔ جس پر سیکرٹیری آف سٹیٹ البرائٹ نے کہا تھا “the price is worth it” ایران کے عوام کو یہ سزا غیر انسانی غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے۔ ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ کیا تھا۔ IAEA کو معائنہ کی اجازت دی تھی۔ اور اس پر مکمل عملدرامد کیا تھا۔ عراق میں امریکہ کو تکلیف یہ تھی کہ صد ام حسین معاہدہ پر عملدرامد نہیں کر رہے تھے۔  جبکہ ایران معاہد ہ پر عملدرامد کر رہا تھا۔ لیکن اسرائیل اور امریکہ کو پریشانی یہ تھی کہ ایران اس معاہدہ پر عملدرامد کیوں کر رہا تھا۔ John Bolton سے یہ سوال ہے کہ اگر Egypt اسرائیل کے ساتھ Camp David معاہدہ ختم کر دے۔ کیونکہ اسرائیل نے اس معاہدہ پر عملدرامد نہیں کیا ہے اور مصر اسرائیل سے نئے مذاکرات کرنے کی بات کرتا ہے تو اس پر امریکہ کا کیا رد عمل ہو گا؟ یروشلم میں John Bolton نے کہا " ایران کو نیوکلیر ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دی جاۓ گی۔ اگر John Bolton نے JCPOA کی تفصیل پڑھی ہوتی اس میں بڑے واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ ایران نیو کلیر ٹیکنالوجی صرف پر امن مقاصد میں استعمال کرے گا اور نیو کلیر ہتھیار نہیں بناۓ گا۔ تقریباً دو سال سے IAEA کی یہ رپورٹیں تھیں کہ ایران معاہدہ پر مکمل عملدرامد کر رہا تھا۔
  جاپان کے وزیر اعظم Shinzo Abe تہران میں آیت اللہ خمینائی سے ملے تھے۔ اور انہوں نے نیو کلیر ہتھیارو ں پر آیت اللہ کا موقف سنا تھا۔ آیت اللہ خمینائی نے وزیر اعظم Abe کو دو ٹوک لفظوں میں بتایا تھا کہ ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے اور مہلک ہتھیار رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مہلک ہتھیار رکھنا اسلام کے خلاف ہے۔ اور میں نے اس پر فتوی دیا ہے۔ یہ سننے کے بعد وزیر اعظم Abe کے لیے شاید ایران کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کے دعووں اور الزامات پر یقین کرنا مشکل ہو گا۔ جبکہ یورپ کے لیڈر بھی ایران پر یقین کرتے ہیں۔ پھر یہ کہ John Bolton وزیر اعظم نتھن یا ہو کے ساتھ کھڑے ہو کر Facts Distort کرتے ہیں اور دنیا کو بتاتے ہیں کہ

   “Iran’s actions in Syria, Yemen, and Iraq and against Saudi Arabia and Israel, that is the stamping of one state after the other, and the devouring of one state after another in the Middle East”
 ایران مڈل ایسٹ کی سپر پاور ہے اور نہ ہی دنیا کی سپر پاور ہے۔  جو ایک ریاست کے بعد دوسری ریاست تباہ کر رہا ہے۔ اور ایک ریاست کے بعد دوسری ختم کر رہا ہے۔ ایران نے عربوں کے علاقوں پر قبضہ نہیں کیا ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو اور سعودی شاہ عبداللہ (مرحوم) تھے جنہوں نے مصر میں اخوان المسلمین کی ایک منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹا تھا۔ کیونکہ اسرائیل کے اطراف اسلامسٹ اقتدار میں آ رہے تھے۔ اور سعودی عرب بھی ان کے اقتدار میں آنے کو اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتا تھا۔ پھر ان احمقوں نے شام میں ان ہی اسلامسٹ کی اسد حکومت کے خلاف خانہ جنگی میں مداخلت کی تھی۔ اسرائیل نے انہیں اسلحہ دیا تھا۔ امریکہ نے انہیں تربیت دی تھی۔ سعودی عرب اور اماراتی انہیں پیٹرو ڈالر دے رہے تھے۔ اب ان بیوقوفوں سے پوچھا جاۓ کہ مصر میں اسلامی حکومت ختم کرنے کے بعد وہ شام میں اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت وزیر اعظم نتھن یا ہو سائڈ لائن پر کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے۔  اب ایران کا اس میں کہاں رول تھا۔ شام کو سعودی عرب اسرائیل اور امریکہ مل کر Destabilize کر رہے تھے۔ امریکہ جو 9/11 کے بعد  سعودی عرب کو دنیا میں اسلامی دہشت گردوں کی پشت پنا ہی کرنے کا الزام دیتا تھا۔ وہ اب سعودی عرب کے ساتھ مل کر شام میں دہشت گردی پھیلا رہا تھا۔ شام میں روس کے آنے کے بعد ایران د مشق کی مدد کرنے آیا تھا۔ ایران نے عراق اور شام کی حکومت کے ساتھ ISIS سے جنگ کی تھی۔ جو ان کے ایک بڑے حصہ پر قابض تھے۔ اس لڑائی میں متعدد ایرانی فوجی بھی مارے گیے تھے۔ پھر اسرائیل نے بھی شام میں ایرانی فوجیوں پر بمباری کر کے سینکڑوں ایرانی فوجی مار دئیے تھے۔ لیکن ایران نے اسرائیل کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی تھی۔ بلکہ عراق اور شام میں اپنے مشن پر توجہ مرکوز ر کھی تھی۔ جو عراق اور شام سے ISIS اور دوسرے دہشت گروپوں  کا خاتمہ کرنا اور یہاں استحکام  بحال کرنا تھا۔ کم از کم John Bolton, Mike Pompeo, اور دوسرے اعلی امریکی حکام کو Facts کا اعتراف کرنے میں اپنے Greatness ہونے کا ثبوت دینا چاہیے۔ جب وہ صرف جھوٹ بولتے ہیں اور حقائق چھپاتے ہیں تو وہ تنگ ذہنیت اور چھوٹے قد کے نظر آتے ہیں۔
  صدر ٹرمپ نے ایرانی عوام پر اقتصادی بندشوں کا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایران کے  انقلابی گارڈ کے خلاف بندشوں کا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایران کے سپریم رہنما آیت اللہ خمینائی پر بندش کا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایران کے نیوی اور ایرفورس کے اعلی افسروں پر بندش لگانے کا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا ہے۔ اور چند روز میں ایران کے وزیر خارجہ پر بندش لگانے کا کہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے صدر ٹرمپ کے پاس ان ایرانیوں پر بندشیں لگانے کے ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنے کے لیے فالتو وقت تھا۔ یا ان بندشوں کے Drafts اسرائیل سے آتے تھے۔  مشرق وسطی میں نیو کلیر ہتھیاروں کے مسئلہ نے لوگوں کی زندگیاں عذاب بنا دی ہیں۔ امریکہ اور مغربی ملک پہلے یہاں نیو کلیر ٹیکنالوجی فروخت کرتے ہیں۔ اپنی کمپنیوں کو کھربوں ڈالر بنانے کے موقع دیتے ہیں۔ اور پھر ان ملکوں کے خلاف فوجی کاروائی کرتے ہیں جنہوں نے ان کی کمپنیوں سے نیوکلیر ٹیکنالوجی خریدی تھی۔ لیکن ان کمپنیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرتے ہیں۔ ہم سب  نے دیکھا ہے کہ اس نیوکلیر ہتھیاروں کے مسئلہ پر کس طرح عراق کو تباہ کیا تھا۔ کس طرح لیبیا کو تباہ کیا تھا۔ اور اب ایران کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ آخر  مڈل ایسٹ میں نیوکلیر ہتھیار بنانے اور رکھنے پر پابندی کا ایگزیکٹو آرڈر کیوں نہیں جاری کرتے ہیں۔ تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جا ۓ۔ امریکہ اور اسرائیل کی ایران کے خلاف بندشوں سے 80 سے زیادہ ملکوں کی تجارت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ 6بلین لوگ بھی ان بندشوں کے قیدی بنے ہوۓ ہیں۔                               

       


Saturday, June 22, 2019

Israel, Saudi Arabia, John Bolton, And Mike Pompeo Want Iran To Live In The Region As Afghan Women Lived Under A Taliban Controlled




   Israel, Saudi Arabia, John Bolton, And Mike Pompeo Want Iran To Live In The Region As Afghan Women Lived Under A Taliban Controlled Region 
مجیب خان





    یہ اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نتھن یا ہو تھے۔ جن کے بھر پور دباؤ میں صدر ٹرمپ نے ایران سمجھوتہ سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور امریکہ کے دوستوں اور اتحادیوں کی مخالفت لی ہے۔ وزیر اعظم تتھن یا ہو صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے بہت خوش ہوۓ ہیں۔ لیکن امریکہ کے اتحادی اور دوست صدر ٹرمپ کے فیصلے سے بالکل خوش نہیں ہیں۔ صدر ٹرمپ Russian Meddling کی دلدل سے ابھی نکلنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اب صدر ٹرمپ ایران کے ساتھ ایک غیر ضروری تنازعہ میں پھنس گیے تھے۔ با ظاہر یہ Russian Meddling  مسئلہ سے زیادہ پیچیدہ اور مشکل صورت حال ہے۔ اس صورت حال سے نکلنے کے تمام راستے بھی با ظاہر بند ہیں۔ ایران کے خلاف فوجی کاروائی امریکہ کے لیے ایران کے ایٹمی مسئلہ سے بھی زیادہ بڑا  مسئلہ بن جاۓ گا۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو جو ایران ایٹمی سمجھوتہ ختم کرنے کے لیے دنیا میں شور مچا رہے تھے۔ اب خاموش ہیں۔ ایران کے خلاف بولنے کے لیے سعود یوں اور اماراتیوں کو فرنٹ لائن پر کھڑا کر دیا ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو ایک Failed Leader ہیں۔ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کرنا، ان کی زمینوں پر قبضہ کرنا، نئی یہودی بستیاں آباد کرنا، مشرق وسطی میں Upheaval وزیر اعظم نتھن یا ہو کی کامیابیاں ہیں۔ اور اب وہ ایران کو عراق، لیبیا اور شام بنانا چاہتے ہیں۔ امریکہ کے صدر ایک Blunder کے بعد دوسرا Blunder کر رہے ہیں۔ عراق صدر بش کا Blunder تھا۔ لیبیا اور شام صدر اوبامہ کے Blunders ہیں۔ صدر ٹرمپ کا Blunder ایران ایٹمی سمجھوتہ سے دستبردار ہونے کا فیصلہ ہے۔ اور دنیا امریکہ کے Blunders کی بھاری قیمت ادا کر رہی ہے۔ لاکھوں لوگوں کی زندگیاں برباد ہو گئی ہیں۔ اقتصادی تباہی علیحدہ ہوئی ہے۔ یورپ امریکہ کے Blunders میں اتحادی تھا۔ یورپ میں Nationalist اور Populist کی تحریک امریکہ کے Blunders کا نتیجہ ہے۔
   خلیج اومان میں ایک جاپانی کمپنی کے آئل ٹینکر میں جب دھماکہ کی خبر آئی تھی۔ جاپان کے وزیر اعظم Abe اس وقت تہران میں تھے۔ ان کا رد عمل بہت سرد تھا۔ جاپان میں لوگوں کے ذہنوں میں سب سے پہلے Pearl Harbor آیا تھا کہ  اب ایران پر ایٹم بم گریں گے۔ شاید اس لیے آئل ٹینکر کمپنی کے مالک نے ٹوکیو میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں یہ وضاحت کی کہ امریکہ کی آئل ٹینکر میں Mines  کے دھماکے ہونے کی خبر غلط ہے۔ یہ کوئی Objects تھا جو اوپر سے آیا تھا اور اس سے شپ میں Hole ہوا تھا۔ جاپانی اس سے بھی باخبر تھے کہ سعودی عرب- متحدہ عرب امارت کے ساتھ یمن کی جنگ خلیج اومان سے زیادہ دور نہیں تھی۔ لیکن کیونکہ Warmongers کے Radar پر صرف ایران تھا۔ Houthis سعودی عرب پر حملے کر رہے تھے۔ ان کے راکٹ اور میزائل سعودی آئل پائپ لائن تباہ کر رہے تھے۔ سعودی عرب میں ایرپورٹ پر راکٹ برسا رہے تھے۔ وہ اپنی جنگ کو پھیلا رہے تھے اور متحدہ عرب امارات کے قریب لا رہے تھے۔ ایران سے پہلے Houthis خلیج اومان کا ٹریفک درہم برہم کرنا چاہتے تھے۔ Houthis ان کے Radar سے غائب تھے۔ اور وہ جو کچھ کر رہے تھے۔ وہ ایران کے اکاؤنٹ میں جا رہا تھا۔ Houthis سعودی عرب پر حملے کر رہے تھے لیکن الزام ایران کو دیا جاتا تھا۔ حالانکہ ایرانی اپنے Survival کی جنگ لڑ رہے تھے۔ اور دنیا کو یہ بتایا جا رہا تھا کہ ایران Houthis کی مدد کر رہا تھا۔
  سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے کہا ' امریکہ خلیج میں آزاد ا نہ شپنگ  کا دفاع کرے گا۔ ہمارے اتحادی اور دوست جاپان جنوبی کوریا چین ملیشیا خلیج کے تیل پر انحصار کرتے ہیں۔ اور ہم خلیج اومان کا تحفظ کریں گے۔' صدر ٹرمپ نے انتخابی مہم میں یہ زور دے کر کہا تھا کہ امریکہ دنیا میں پولیس مین نہیں ہو گا۔ دوسرے ملکوں کو اب آ گے آنا چاہیے۔ چین سے اس وقت امریکہ کی ٹریڈ وار ہو رہی ہے۔  پھر امریکہ  چین کو دوست اور اتحادی نہیں بلکہ Adversary میں شمار کرتا ہے۔ لیکن خلیج اومان میں امریکہ چین کے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے۔ یہ Contradiction ہے یا Puzzle عالمی برادری یہ بتا سکتی ہے۔ ایران کے خلاف یہ مہم دراصل اسرائیل کی ہے۔ مڈل ایسٹ کو پہلے شیعہ سنی میں تقسیم کیا گیا ہے۔  اور اب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اس مہم کا حصہ بن گیے ہیں۔ خلیج بہت بڑا خطہ نہیں ہے۔ یہاں چھوٹی آبادی کی چھوٹی ریاستیں ہیں۔ تیل اور قدرتی گیس کی دولت سے مالا مال ہیں۔ یہ ریاستیں بھی سوئزرلینڈ اور ناروے کی طرح اقتصادی طور پر خوش حال اور ترقی یافتہ ہو سکتی تھیں۔ لیکن ایک تو یہاں قبائلی کلچر ہے۔ اور دوسرے یہ بڑی طاقتوں کے ساتھ Political activist  ہو گئی ہیں۔ اگر یہ ریاستیں بڑی طاقتوں کی سیاست سے اپنے آپ کو دور رکھیں اور خطہ کے ہر ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور تجارت کو فروغ دیں تو اس میں ان کی بہترین سلامتی ہے۔ یہاں امریکہ کے فوجی اڈوں کی ضرورت نہیں ہے۔ 40سال سے یہاں امریکہ کے فوجی اڈے ہیں۔ لیکن 40 سال سے یہ خطہ میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ یہاں امن ہے اور نہ ہی استحکام ہے۔ آج ایران کے خلاف جو باتیں کی جا رہی ہیں 2003 میں عراق کے خلاف بھی بالکل یہ ہی باتیں کی جا رہی تھیں۔ کہ صد ام حسین امریکہ کے اتحادیوں اور دوستوں کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بن گیے تھے۔ اور پھر امریکہ نے عراق پر حملہ کر کے اس خطرے کو ختم کیا تھا۔ اور اب 16 سال بعد امریکہ کے دوستوں اور اتحادیوں کو ایران سے خطرہ  ہو گیا ہے۔ امریکہ اب اپنے اتحادیوں اور دوستوں کو اس خطرے سے بچانے کے لیے ایران کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ حالانکہ ایران نے اپنے نیو کلیر پروگرام پر صرف اس خطہ کے امن اور استحکام کے مفاد میں سمجھوتہ کیا تھا۔ لیکن فساد پرست ایران کا ایٹمی سمجھوتہ مستر د کر کے اس خطہ کو پھر Square one پر لے آئیں ہیں۔ انہوں نے اس سمجھوتہ کو نتائج دینے کا موقع تک نہیں دیا تھا۔ دنیا میں امریکی صدر سے زیادہ طاقتور اسرائیلی وزیر اعظم نتھن یا ہو ہیں جنہوں نے امن کا ہر سمجھوتہ سبوتاژ کیا ہے۔ اور ایران کا ایٹمی سمجھوتہ ختم کرایا ہے۔ اور امریکہ کو ایک نئی جنگ کے محاذ پر کھڑا کر دیا ہے۔ امریکہ میں جو بچے 2001 میں پیدا ہوۓ تھے وہ اب 19 سال کے ہو گیے ہیں۔ انہیں ایران میں Regime change کی جنگ کے لیے بھیجنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ عراق میں صد ام حسین کی حکومت سے امریکہ کے اتحادیوں اور دوستوں کو جو خطرہ تھا اسے ختم کرنے بھی امریکہ سے 19 اور 20 کی عمروں کے فوجی گیے تھے۔ افغانستان میں امریکہ کے 19 اور 20 کی عمروں کے فوجی اس لیے کامیاب نہیں ہو سکے ہیں  کیونکہ وہاں انہیں 19 اور20کی عمروں کے طالبان سے سامنا تھا۔ بہرحال جنگوں سے خطرات کا خاتمہ کرنے سے پھر نئے خطروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسرائیل 70 سال سے اپنی بقا اور سلامتی کے خطروں کا خاتمہ کرنے کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اور یہ اسی طرح آئندہ 70 سال تک جنگ لڑتا رہے گا؟ امریکہ کو اس سے سبق سیکھنا اور بچنا چاہیے تھا۔ امریکہ افغانستان میں 19سال سے جنگ لڑ رہا ہے۔ عراق میں جنگ ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی ہے۔ عراق کی جنگ کو 16 سال ہو گیے ہیں۔ لیبیا میں جنگ کو 8 سال ہو گیے ہیں۔ اور وہاں جنگ ابھی جاری ہے۔ شام میں جنگ کو 8 سال ہو گیے ہیں اور وہاں بھی جنگ ابھی جاری ہے۔ سعودی عرب کے لیے یمن کی جنگ افغانستان میں امریکہ کی جنگ کی طرح بن گئی ہے۔ اگر یہ جنگ 6 سال میں ختم نہیں ہو سکی ہے تو آئندہ 6سال بھی سعودی عرب کے اسی جنگ میں گزریں گے؟ یہ امریکہ اور اسرائیل کا مشرق وسطی میں Constructive Role ہے۔ دوسروں کو الزامات دینے کی بجاۓ پہلے اپنے Behavior کو دیکھنا چاہیے۔ آج کی دنیا ماضی کی  Closed Book  دنیا کی طرح نہیں ہے۔ آج دنیا کے کونے کونے میں Facts بچوں کے سامنے ہیں کہ کون ان کا مستقبل تاریک بنا رہا ہے۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo  فلوریڈا میں سینٹرل کمانڈ کے ہیڈ کوارٹر میں پریس سے گفتگو میں ایران کو مڈل ایسٹ کے حالات کا ذمہ دار بتا رہے تھے کہ ایران 40 سال سے مڈل ایسٹ میں ہر جگہ مداخلت کر رہا ہے'۔ اسکول کے بچوں نے Google کر کے دیکھا تو 40سال سے مڈل ایسٹ میں ہر جگہ انہیں امریکہ کے فوجی اڈے نظر آۓ۔ اب تو بچوں کو دنیا میں حالات کے بارے میں جھوٹ بولنا بھی نہیں سکھایا جا سکتا ہے۔ دنیا طالبان کو نئی دنیا میں لانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ لیکن امریکہ کی Mind Set Establishment  ابھی تک پرانی دنیا میں ہے اور صرف جنگوں کی باتیں کر رہی ہے۔ یہاں تک کے اس نے دنیا میں معاشی مسائل کا حل بھی Economic war میں دیکھا ہے۔ حالانکہ Rich and Poor میں بھی Economic war سرد جنگ کے دور سے جاری ہے۔ اسے بھی حل کیا جاۓ۔                  

Monday, June 17, 2019

America’s Fourth War In The Middle East Against Another Islamic Country, Iran



America’s Fourth War In The Middle East Against Another Islamic Country, Iran
مجیب خان 

Leader of the Islamic Revolution Ayatollah Seyyed Ali Khamenei dismisses US President Donald Trump as a person not worthy of a response or a message, stressing that negotiations with Washington cannot help solve any problem
Ayatollah Khamenei made the remarks in a Thursday meeting with Japanese Prime Minister Shinzo Abe, who told the Leader he was carrying a message from the US president 
We have no doubts about your (Japan’s) goodwill and seriousness, but regarding what you quoted from the US president, I personally do not consider Trump worthy of exchanging any messages with, and do not have and will not have any response for him,” the Leader told Abe
The Leader said Iran has “no trust” in the United States and will not at all “repeat the bitter experience” it gained from the negotiations that led to the conclusion of a 2015 nuclear deal, which Washington later ditched
Iran engaged in talks with the US and the Europeans for some five or six years and achieved a result. The Americans, however, breached a done deal,” said the Leader, emphasizing that no wise man would enter talks with a country that has reneged on all agreements
Ayatollah Khamenei further rejected as “a lie” Trump’s claim that he was not after regime change in Iran, saying if the US president were able to bring about such a change, he would definitely go for it
Japan’s Prime Minister Shinzo Abe (C) meets with Leader of the Islamic Revolution Ayatollah Seyyed Ali Khamenei (R) and Iranian President Hassan Rouhani, Tehran, June 13, 2019.
The Leader dismissed Washington’s claim of readiness for “honest negotiations” with Tehran, saying “honesty is highly scarce among American statesmen
Ayatollah Khamenei pointed to Trump’s talks with Abe on Iran in Tokyo ahead of the Japanese premier’s trip to Tehran, saying “Right after returning home, he (the US president) announced sanctions on Iran’s petrochemical industry
Is that a message of honesty? Does that show that he (Trump) seeks honest talks?” the Leader asked
“With the blessing of God, Iran will achieve progress without negotiations with the US and under all the sanctions,” Ayatollah Khamenei said. “Problems will not be solved through negotiations with the United States
The Leader also reaffirmed the Islamic Republic’s firm opposition to the development and use of nuclear weapons
I have issued a fatwa (religious decree) prohibiting the production of nuclear weapons, but you need to know that if we were after building nuclear arms, the United States could not do anything about it,” Ayatollah Khamenei said
The Leader emphasized that Washington is in no position to decide which country can be in possession of nuclear arms while it is, itself, stockpiling several thousands of nuclear warheads
Ayatollah Khamenei welcomed Abe’s proposal for enhancing Tehran-Tokyo relations and said, “Japan is an important country in Asia and it should display a firm resolve for enhanced ties with Iran
Following the meeting, Abe told reporters in Tehran that Ayatollah Khamenei had “made a comment that the country will not and should not make, hold or use nuclear weapons and that it has no such intentions
The Japanese prime minister also said that he regarded the Leader’s belief in peace “as major progress toward this region’s peace and stability
Japanese oil tanker owner disagrees with US military that a mine caused blast near Iran



 
  امریکی قیادت کی وجہ سے دنیا میں امریکہ مذاق بنا ہوا ہے۔ امریکہ کی ساکھ مسلسل گرتی جا رہی ہے۔ امریکہ کا وقار Depreciate ہو رہا ہے۔ یہ سابقہ دو انتظامیہ کے دور کی Continuity ہے۔ اور اب  ٹرمپ انتظامیہ کو بھی اسی راستہ پر  رکھا جا رہا  ہے۔ صدر ٹرمپ ‘America First’ سے سابقہ دو انتظامیہ کی پالیسیوں سے امریکہ کو ابھی تک آزاد نہیں کر سکے ہیں۔ شاید یہ ایک وجہ ہے کہ امریکہ کی عالمی طاقت منو ا نے کے لیے Sanction Power کا بے جا استعمال ہو رہا ہے۔  Diplomacy کی جگہ Threat کی زبان استعمال ہو رہی ہے۔ Facts جب امریکہ کے مفاد میں نہیں ہوتے ہیں انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ Distorted Facts عالمی برادری سے با زور طاقت تسلیم کرو آۓ جاتے ہیں۔ پچھلے سال صدر ٹرمپ نے یہ ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حکم پر جمال کشوگی کو قتل کیا گیا تھا۔ ترکی کی حکومت نے اس کے بڑے ٹھوس ثبوت امریکہ کو دئیے تھے۔ سی آئی اے کی ڈائریکٹر نے اپنی تحقیقات کے بعد جو رپورٹ دی تھی۔ اس میں بھی ولی عہد شہزادہ محمد کے حکم پر کشوگی کو قتل کرنے کے شواہد دئیے تھے۔ لیکن اس کے باوجود بھی صدر ٹرمپ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ ولی عہد اس میں ملوث تھے۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے بھی صدر ٹرمپ کے موقف کی وکالت کی تھی۔
  لیکن اب خلیج اومان میں دو آئل ٹینکر ز پر دھماکوں کا ذمہ دار سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے ایران کو ٹھہرایا ہے۔ اور صدر ٹرمپ نے اس کی تائید کی ہے کہ 'بلاشبہ یہ دھماکے ایران نے کیے ہیں۔' ان بیانات سے ایران کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ، عراق کے خلاف بش انتظامیہ اور لیبیا میں قد ا فی حکومت کے خلاف اوبامہ انتظامیہ کے ساتھ ایک ہی Page پر نظر آ رہے ہیں۔ Drain the swamp کی بجاۓ اب Drain the President ہو رہا ہے۔ جس طرح بش سینیئر نے عراق کے خلاف پہلی جنگ میں، پھر جارج بش نے عراق کے خلاف دوسری جنگ میں اور صدر اوبامہ نے لیبیا کے خلاف جنگ میں Falsification کیا تھا۔ اور اب ٹرمپ انتظامیہ ایران کے بارے میں دنیا کو ‘Cock and bull story’ بتا رہی ہے۔ لیکن اب فرق صرف یہ ہے کہ اسرائیل، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکہ ایک دوسرے کے Falsification پر یقین کرتے ہیں۔ لیکن دنیا کے سامنے امریکہ کے جھوٹ اتنی مرتبہ جھوٹ ثابت ہو چکے ہیں کہ اگر انتظامیہ سچ بھی کہہ رہی ہو گی تو لوگ اسے جھوٹ ہی سمجھیں گے۔ جنگیں قوموں کو تو تباہ کرتی ہیں لیکن ان کے ساتھ حملہ آوروں کو بھی تباہ کر دیتی ہیں۔ اور آج ہم  یہ دیکھ  رہے ہیں۔
  قائم مقام سیکرٹیری ڈیفنس Patrick Shanahan نے کہا ہے کہ 'وہ قومی سلامتی امور کے مشیر John Bolton اور سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo عالمی برادری کو اس (ایران) عالمی مسئلہ کو حل کرنے پر متحد کریں گے۔ ' لیکن صرف اس ایک مسئلہ کو عالمی برداری  بار بار کتنی مرتبہ کتنے سال تک حل کرتی رہے گی۔ عالمی برادری نے تین سال کی انتھک کوششوں کے بعد ایران کے ایٹمی پروگرام کا مسئلہ حل کیا تھا۔ اس پر ایک سمجھوتہ ہو گیا تھا۔ دنیا کے تمام تعلیم یافتہ لوگوں نے اس سمجھوتہ کا مطالعہ کیا تھا۔ اور اسے ایک معقول سمجھوتہ کہا تھا۔ لیکن warmongers اسرائیلی وزیر اعظم بنجیمن نتھن یا ہو، مطلق العنان قبائلی سعودی حکم ران دنیا میں اس سمجھوتہ کے واحد مخالف تھے۔ جنہیں یہ سمجھوتہ بالکل پسند نہیں تھا۔ امن سے نفرت کرنے والے وزیر اعظم نتھن یاہو نے ایران سمجھوتہ مستر د کر دیا اور Fix it Or Nix it کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔ دنیا نے ان کے مطالبہ پر توجہ نہیں دی تھی۔ یورپ میں ان کے حامی انہیں اس سمجھوتہ کو قبول کرنے کے مشورے دے رہے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ صدارتی امیدوار تھے۔  وہ امریکہ میں پہلے شخص تھے جنہوں نے ایران سمجھوتہ کی مخالفت کی تھی۔ اور اسے ایک بدترین سمجھوتہ کہا تھا۔ لیکن ڈونالڈ نے یہ کبھی نہیں بتایا کہ اس معاہدہ میں کیا خرابی تھی کہ ساری دنیا اس کی حمایت کر رہی تھی اور ایک Genius نے اس میں کیا خرابی دیکھی تھی۔ تاہم  ڈونالڈ ٹرمپ اور وزیر اعظم نتھن یا ہو میں یہ سمجھوتہ ہو گیا تھا کہ وہ صدر بننے کے بعد ایران سمجھوتہ کو Nix it’ کر دیں گے اور پھر اسے Fix it’ کریں گے۔ اس پس منظر میں اسرائیل کا 2016 کے انتخابات میں Meddling کا روس سے زیادہ بڑا رول تھا۔ کیونکہ اگر ہلری کلنٹن انتخاب جیت جاتیں تو ایران عالمی برادری کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ عالمی برادری دنیا کے دوسرے مسئلوں پر توجہ دیتی۔ اور ایران مسئلہ دوبارہ پیدا کر کے دو سال اس میں برباد نہیں کیے جاتے۔ صدر ٹرمپ کے 4سال اقتدار میں Legacy ایران کا سمجھوتہ مستر د کرنے کے بعد ایران کو نیا سمجھوتہ کرنے پر مجبور کرنا اور ڈیمو کریٹس کا Russian Meddling پر Mueller investigation report مستر د کرنے کے بعد صدر ٹرمپ کو Congressional investigation سے تعاون کرنے پر مجبور کرنا ہو گی۔
  انتظامیہ میں Advisors دہشت گردوں سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ یہ صرف امریکہ کے لیے نہیں ہے بلکہ دنیا میں ہر حکومت میں یہ ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات  Advisors  کسی مخصوص ایجنڈہ کے تحت حکومت میں Infiltrate کیے جاتے ہیں۔ وہ پھر اس ایجنڈہ کے مطابق صدر یا وزیر اعظم کو Advise کرتے ہیں۔ جیسے ہم نے دیکھا تھا کہ کس طرح صدر بش کے Advisors امریکہ کو عراق جنگ میں لے گیے تھے۔ صدر بش نے اپنی عقل استعمال نہیں کی تھی اور جنگ کے تمام فیصلے Advisors کے مشوروں سے کیے تھے۔ لیکن عراق جنگ صدر بش کی Signature war  تھی۔ Advisors چلے گیے لیکن عراق جنگ کے بارے میں تمام انگلیاں صدر بش پر اٹھ رہی ہیں۔ صدر اوبامہ نے قد ا فی حکومت کے مہلک ہتھیاروں پر بش انتظامیہ کے ساتھ سمجھوتہ پر وہ ہی کیا تھا جو صدر ٹرمپ نے ایران ایٹمی سمجھوتہ کے ساتھ کیا ہے۔ صدر اوبامہ نے اپنے  Advisors کے مشوروں پر عمل کیا تھا اور قد ا فی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ صدر اوبامہ کو Noble Peace Prize دیا گیا تھا۔ لیکن صدر اوبامہ نے خلیج کے غیر جمہوری بادشاہوں کے ساتھ کھڑے ہو کر شام کے لوگوں کو جو Peace دیا ہے۔ اس کی تعریف صرف سعودی اور اماراتی بادشاہ کریں گے۔ جن میں genuine Humanity ہے۔ وہ صدر اوبامہ کے شام میں رول کی مذمت کریں گے۔ شام لیبیا یمن عدم استحکام کرنے اور مصر میں جمہوریت کو سبوتاژ ہونے پر صدر اوبامہ کا سعودی عرب سے تعاون امریکی قدروں کی تذلیل تھی۔ مڈل ایسٹ میں امریکہ اسرائیلیوں سعود یوں اور اماراتیوں کی انگلیوں پر ڈانس کرنے اور ان کے مخالفین کے خلاف جنگیں کرنے میں سب سے آگے ہوتا ہے۔ اور اب ٹرمپ انتظامیہ میں بھی Advisors صدر ٹرمپ کو اسی راستہ پر لے جا رہے ہیں جس پر Advisors سابقہ دو انتظامیہ کو لے گیے تھے۔
  ٹرمپ انتظامیہ کے Advisors اب ایران پر حملہ کا کیس بنا رہے ہیں۔ False اور Fake ثبوت دے رہے ہیں۔ John Bolton پیچھے چھپ گیے ہیں اور سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo ایران کے خلاف فرنٹ لائن پر آ گیے ہیں۔ جو جتنے زیادہ مذہبی ہوتے ہیں۔ ان کی انسانیت اتنی ہی زیادہ Fake ہوتی ہے۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ جب یہ کہتے ہیں کہ ایران دنیا بھر میں دہشت گردی کر رہا ہے تو وہ ISIS کو Defend کرتے ہیں۔ انہوں نے ابھی تک امریکی عوام کو یہ نہیں بتایا ہے کہ ISIS کو کس نے منظم کیا ہے؟ اور کون اس کی فنڈنگ کر رہا ہے؟ حالانکہ وہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر تھے۔ لیکن وہ امریکی عوام کو یہ بتانے ٹی وی کیمروں کے سامنے آ گیے تھے کہ خلیج اومان میں دو آئل ٹینکروں پر ایران نے دھماکے کیے تھے۔ بالکل اسی طرح صدر بش کے سیکرٹیری آف اسٹیٹ اور قومی سلامتی امور کی مشیر عراق کے بارے میں دنیا کو ثبوت دیتے تھے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے یہ اعلی حکام جب ایران کے بارے میں ایسے ثبوت دیتے ہیں تو آنکھوں کے سامنے عراق کی فلم آ جاتی ہے۔ خلیج اومان میں جاپان کے آئل ٹینکر  حملہ پر صدر ٹرمپ اور سیکرٹیری آف اسٹیٹ کے ایران کو الزام دینے کے بیانات کے فوری بعد ٹوکیو میں آئل ٹینکر کے جاپانی مالک نے پریس کانفرنس کی اور اس کی تردید کی تھی اور امریکہ کے علاوہ عالمی اخبارات میں اس کی یہ سرخی تھی
   Trump administration providing ‘false’ information about Gulf of Oman attack, says Japanese tanker owner       
“The ship operator said “flying objects” that may have been bullets were the cause of damage to the vessel, rather then mines used by Iranian forces, as the US has suggested. It seems that something flew towards them. That created a hole in the report I’ve received”, Mr. Katada said at a press conference in Tokyo on Friday, the Financial Times reported.