On The ‘Fix it or Nix it’, Starting A Third World War In The Middle East;
President Trump’s Pro Netanyahu Economic Sanctions Torture Policy Against Iran,
When The JCPOA System Is Working And Giving Positive Results, Don’t Derail It.
Stay In The System And Make Changes Through Due Process
مجیب خان
President Donald and Prime Minister Benjamin Netanyahu |
Secretary of state Mike Pompeo and Prime Minister Benjamin Netanyahu |
National Security advisor John Bolton and Prime Minister Benjamin Netanyahu |
پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی
بھٹو نے یہ 1970s میں کہا تھا کہ
تیسری عالمی جنگ مشرق وسطی میں ہو گی۔ وزیر اعظم بھٹو نے 1973 کی عرب اسرائیل جنگ
کے بعد صدر رچرڈ نکسن سے ملاقات میں یہ مودبانہ درخواست کی تھی کہ براۓ مہربانی
اسرائیل فلسطین تنازعہ حل کریں۔ اگر اسے جلد حل نہیں کیا گیا تو یہ تنازعہ عالمی
امن اور استحکام کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بنے گے۔ پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے 9/11 کے بعد صدر بش سے کہا تھا کہ
اسلامی انتہا پسندی کی جڑ اسرائیل فلسطین تنازعہ ہے۔ اس تنازعہ کے حل پر توجہ دیں۔ اس تنازعہ کے حل سے عالمی امن اور
استحکام میں مدد ملے گی۔ ملیشیا کے وزیر اعظم Mahathir Mohamad نے 9/11 کے بعد صدر بش سے ملاقات میں اسرائیل فلسطین تنازعہ حل کرنے پر زور
دیا تھا۔ جو عالمی امن کے لیے ایک بڑا خطرہ بنا ہوا تھا۔ یہ اسلامی رہنما بد قسمتی
سے امریکہ کے اتحادی تھے۔ جن کے مشوروں کو امریکہ نے کبھی اہمیت نہیں دی تھی۔ امریکہ
کے لیڈر ان کی ایک کان سے سنتے تھے اور دوسرے کان سے نکال دیتے تھے۔ یہ امریکہ کے
ان اسلامی رہنماؤں کے ساتھ مخلص نہ ہونے کے ثبوت تھے۔ تاہم یہ امریکہ کی ہر جنگ
میں اس کے Religiously Allie تھے۔ لیکن ان
اسلامی رہنماؤں کی امن کی کوششوں میں امریکہ کبھی ان کا اتحادی نہیں تھا۔ امریکہ
اگر ان اسلامی رہنماؤں کا ایک مخلص اتحادی
ہوتا تو مشرق وسطی میں کوئی وجہ نہیں تھی کہ آج یہاں امن کیوں نہیں ہوتا۔ لیکن
مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کی 99 فیصد مشرق وسطی کی پالیسی میں اسرائیل کے مفادات کو اہمیت
دی جاتی ہے۔ یہ فیصلہ اسرائیلی لیڈر کرتے ہیں کہ مشرق وسطی میں اب کس ملک کے خلاف
جنگ کی جاۓ گی۔ کس ملک میں Regime change کیا جاۓ گا۔ کس ملک کو تباہ کیا
جاۓ گا۔ اس امریکی-اسرائیلی پالیسی کے Facts مشرق وسطی میں ہر طرف نظر آ رہے ہیں۔ گزشتہ 20 سالوں میں اسرائیل
فلسطین تنازعہ کے حل میں اتنی پیشقدمی نہیں ہوئی ہے کہ جتنے مشرق وسطی میں نئے
تنازعہ پیدا کیے گیے ہیں۔ اور جنگوں کے لیے ماحول بنایا گیا ہے۔
امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے اور
اسرائیل امریکہ کی سپر پاور ہے۔ اسرائیل کو ایک نارمل ملک بنانے کے بجاۓ ایران سے
ایک نارمل ملک بنے کا کہا جا رہا ہے۔ شاید انہیں یہ نہیں معلوم ہے کہ ایران ہزاروں
سال سے ایک نارمل ملک ہے۔ ایران ایٹمی معاہدہ ہونے کے بعد اسے وزیر اعظم نتھن یا ہو کے حکم پر دوبارہ تنازعہ بنایا گیا ہے۔ تاکہ اس تنازعہ
کو بنیاد بنا کر ایران کو بھی عراق اور شام بنا دیا جاۓ۔ صدر ٹرمپ نے اقتدار میں
آنے کے بعد سب سے پہلے ایران معاہدہ (JCPOA) منسوخ کر دیا۔
صدر ٹرمپ نے خود اس معاہدہ کا شاید ابھی تک مطالعہ نہیں کیا ہو گا۔ ایران معاہدہ
منسوخ کرنے سے پہلے اپنے جنرلوں کی راۓ بھی نہیں لی تھی۔ کوئی Home work بھی نہیں کیا تھا۔ ‘America First’ کا
نعرہ لگانے والے صدر ٹرمپ نے امریکہ کے نامور Nuclear Experts سے اس معاہدہ میں خرابی اور
اچھائی کے بارے میں نہیں پوچھا تھا۔ صدر ٹرمپ اور ان کی قومی سلامتی کی ٹیم نے صرف
وزیر اعظم نتھن یا ہو کے اسے ایک خراب معاہدہ کہنے پر منسوخ
کر دیا تھا۔ 1980s میں
Benjamin Netanyahu اقوام متحدہ
میں اسرائیل کے سفیر تھے۔ امریکہ کے نامور سفارت کار Lawrence Eagleburger اس وقت اسسٹینٹ سیکرٹیری آف اسٹیٹ
براۓ یورپین آ فیر تھے۔
Secretary of State Lawrence
Eagleburger had said about Netanyahu that “he is a liar and master of-----ambassador
to the U.N. he tells the diplomats that you can’t trust America.”
اور آج ایران کے آیت اللہ Benjamin Netanyahu سے اتفاق کرتے ہیں کہ امریکہ پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اور شاید جلد شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان بھی اس سے اتفاق کریں گے۔
صدر ٹرمپ اور ان کی قومی سلامتی امور
کی ٹیم صرف وزیر اعظم نتھن یا ہو کو Please کرنے کے لیے مڈل ایسٹ میں Third World War شروع کرنے جا رہے تھے۔ اگر 10منٹ میں صدر ٹرمپ اپنا فیصلہ تبدیل
نہیں کرتے تو 150 لوگ نہیں لاکھ ڈیڑھ لاکھ لوگ اب تک مر چکے ہوتے۔ مشرق وسطی میں
ہر طرف انسانی لاشیں بکھری ہوتی۔ مشرق وسطی آگ کے شعلوں میں جل رہا ہوتا۔ کسی کی
سمجھ میں نہیں آ رہا ہوتا کہ راکٹ اور میزائل کس طرف سے آ رہے ہیں۔ نہ اسرائیل
محفوظ ہوتا۔ نہ سعودی عرب اور اماراتی محفوظ ہوتے۔ القا عدہ دوبارہ زندہ ہو جاتی۔
داعش عراق اور شام کے علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرنے میدان میں آ جاتی۔ ترکی اپنے
مفاد اور سلامتی میں دہشت کردوں پر بمباری کرنے لگتا۔ اسرائیل اور انتظامیہ میں Crazy ایٹم بم استعمال کرنے سے گریز
نہیں کرتے اور پھر الزام القا عدہ یا داعش کو دیتے۔ ‘And this is a obliteration world have never seen before’ ایران کے خلاف وزیر اعظم نتھن یا
ہو کے خیالات اسامہ بن لادن کے امریکہ کے بارے میں خیالات سے مختلف نہیں ہیں۔ وزیر
اعظم نتھن یا ہو کے یہ بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ ہم ایران کو اقتصادی بندشوں میں جکڑ
دیں گے۔ اور اس کا گلہ گھونٹ دیں گے۔ ہم ایران کو مالی طور پر تباہ کر دیں گے۔ اور
صدر ٹرمپ بالکل ایسا ہی کر رہے ہیں۔ اور یہ دیکھ کر بڑے خوش ہو رہے ہیں کہ ہماری
اقتصادی بندشیں اب ایران کو Bite کر رہی ہیں۔ ایرانی ریاست بہت جلد Collapse ہونے والی ہے۔ 80ملین ایرانیوں کو Economic Torture کیا جا رہا ہے۔ عراق پر اقتصادی
بندش کے نتیجہ میں 567,000 بچے مر گیے
تھے۔ جس پر سیکرٹیری آف سٹیٹ البرائٹ نے کہا تھا “the price is worth it” ایران کے عوام کو
یہ سزا غیر انسانی غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے۔ ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام پر
سمجھوتہ کیا تھا۔ IAEA کو
معائنہ کی اجازت دی تھی۔ اور اس پر مکمل عملدرامد کیا تھا۔ عراق میں امریکہ کو
تکلیف یہ تھی کہ صد ام حسین معاہدہ پر عملدرامد نہیں کر رہے تھے۔ جبکہ ایران معاہد ہ پر عملدرامد کر رہا تھا۔ لیکن اسرائیل
اور امریکہ کو پریشانی یہ تھی کہ ایران اس معاہدہ پر عملدرامد کیوں کر رہا تھا۔ John Bolton سے یہ سوال ہے کہ اگر Egypt اسرائیل کے ساتھ Camp David معاہدہ ختم کر دے۔ کیونکہ اسرائیل
نے اس معاہدہ پر عملدرامد نہیں کیا ہے اور مصر اسرائیل سے نئے مذاکرات کرنے کی بات
کرتا ہے تو اس پر امریکہ کا کیا رد عمل ہو گا؟ یروشلم میں John Bolton نے کہا " ایران کو نیوکلیر
ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دی جاۓ گی۔ اگر John Bolton نے JCPOA کی تفصیل پڑھی ہوتی اس میں بڑے واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ
ایران نیو کلیر ٹیکنالوجی صرف پر امن مقاصد میں استعمال کرے گا اور نیو کلیر
ہتھیار نہیں بناۓ گا۔ تقریباً دو سال سے IAEA کی یہ رپورٹیں تھیں کہ ایران معاہدہ پر مکمل عملدرامد کر رہا تھا۔
جاپان کے وزیر اعظم Shinzo Abe تہران میں آیت اللہ خمینائی سے
ملے تھے۔ اور انہوں نے نیو کلیر ہتھیارو ں پر آیت اللہ کا موقف سنا تھا۔ آیت اللہ
خمینائی نے وزیر اعظم Abe کو
دو ٹوک لفظوں میں بتایا تھا کہ ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے اور مہلک ہتھیار رکھنے
میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مہلک ہتھیار رکھنا اسلام کے خلاف ہے۔ اور میں نے اس پر
فتوی دیا ہے۔ یہ سننے کے بعد وزیر اعظم Abe کے لیے شاید ایران کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کے دعووں
اور الزامات پر یقین کرنا مشکل ہو گا۔ جبکہ یورپ کے لیڈر بھی ایران پر یقین کرتے
ہیں۔ پھر یہ کہ John
Bolton وزیر اعظم نتھن یا ہو کے ساتھ کھڑے ہو کر Facts Distort کرتے ہیں اور دنیا کو بتاتے ہیں کہ
“Iran’s actions in Syria, Yemen, and Iraq and against Saudi
Arabia and Israel, that is the stamping of one state after the other, and the
devouring of one state after another in the Middle East”
ایران مڈل ایسٹ کی سپر پاور ہے اور نہ ہی دنیا کی سپر پاور
ہے۔ جو ایک ریاست کے بعد دوسری ریاست تباہ
کر رہا ہے۔ اور ایک ریاست کے بعد دوسری ختم کر رہا ہے۔ ایران نے عربوں کے علاقوں
پر قبضہ نہیں کیا ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو اور سعودی شاہ عبداللہ (مرحوم) تھے
جنہوں نے مصر میں اخوان المسلمین کی ایک منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹا تھا۔ کیونکہ
اسرائیل کے اطراف اسلامسٹ اقتدار میں آ رہے تھے۔ اور سعودی عرب بھی ان کے اقتدار
میں آنے کو اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتا تھا۔ پھر ان احمقوں نے شام میں ان ہی اسلامسٹ
کی اسد حکومت کے خلاف خانہ جنگی میں مداخلت کی تھی۔ اسرائیل نے انہیں اسلحہ دیا
تھا۔ امریکہ نے انہیں تربیت دی تھی۔ سعودی عرب اور اماراتی انہیں پیٹرو ڈالر دے
رہے تھے۔ اب ان بیوقوفوں سے پوچھا جاۓ کہ مصر میں اسلامی حکومت ختم کرنے کے بعد وہ
شام میں اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت وزیر اعظم نتھن یا ہو سائڈ لائن
پر کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے۔ اب ایران کا
اس میں کہاں رول تھا۔ شام کو سعودی عرب اسرائیل اور امریکہ مل کر Destabilize کر رہے تھے۔ امریکہ جو 9/11 کے بعد سعودی عرب کو دنیا میں اسلامی دہشت گردوں کی پشت
پنا ہی کرنے کا الزام دیتا تھا۔ وہ اب سعودی عرب کے ساتھ مل کر شام میں دہشت گردی
پھیلا رہا تھا۔ شام میں روس کے آنے کے بعد ایران د مشق کی مدد کرنے آیا تھا۔ ایران
نے عراق اور شام کی حکومت کے ساتھ ISIS سے جنگ کی تھی۔ جو ان کے ایک بڑے حصہ پر قابض تھے۔
اس لڑائی میں متعدد ایرانی فوجی بھی مارے گیے تھے۔ پھر اسرائیل نے بھی شام میں
ایرانی فوجیوں پر بمباری کر کے سینکڑوں ایرانی فوجی مار دئیے تھے۔ لیکن ایران نے
اسرائیل کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی تھی۔ بلکہ عراق اور شام میں اپنے مشن پر
توجہ مرکوز ر کھی تھی۔ جو عراق اور شام سے ISIS اور دوسرے دہشت گروپوں کا
خاتمہ کرنا اور یہاں استحکام بحال کرنا
تھا۔ کم از کم John Bolton,
Mike Pompeo, اور دوسرے اعلی امریکی حکام کو Facts کا اعتراف کرنے میں اپنے Greatness ہونے کا ثبوت دینا چاہیے۔ جب وہ صرف جھوٹ بولتے ہیں اور حقائق چھپاتے
ہیں تو وہ تنگ ذہنیت اور چھوٹے قد کے نظر آتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے ایرانی عوام پر اقتصادی بندشوں
کا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایران کے انقلابی گارڈ کے خلاف بندشوں کا ایگزیکٹو آرڈر
جاری کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایران کے سپریم رہنما آیت اللہ خمینائی پر بندش کا
ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایران کے نیوی اور ایرفورس کے اعلی افسروں
پر بندش لگانے کا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا ہے۔ اور چند روز میں ایران کے وزیر خارجہ
پر بندش لگانے کا کہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے صدر ٹرمپ کے پاس ان ایرانیوں پر بندشیں
لگانے کے ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنے کے لیے فالتو وقت تھا۔ یا ان بندشوں کے Drafts اسرائیل سے آتے تھے۔ مشرق وسطی میں نیو کلیر ہتھیاروں کے مسئلہ نے
لوگوں کی زندگیاں عذاب بنا دی ہیں۔ امریکہ اور مغربی ملک پہلے یہاں نیو کلیر
ٹیکنالوجی فروخت کرتے ہیں۔ اپنی کمپنیوں کو کھربوں ڈالر بنانے کے موقع دیتے ہیں۔
اور پھر ان ملکوں کے خلاف فوجی کاروائی کرتے ہیں جنہوں نے ان کی کمپنیوں سے نیوکلیر
ٹیکنالوجی خریدی تھی۔ لیکن ان کمپنیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرتے ہیں۔ ہم سب نے دیکھا ہے کہ اس نیوکلیر ہتھیاروں کے مسئلہ پر
کس طرح عراق کو تباہ کیا تھا۔ کس طرح لیبیا کو تباہ کیا تھا۔ اور اب ایران کو تباہ
کیا جا رہا ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ آخر مڈل
ایسٹ میں نیوکلیر ہتھیار بنانے اور رکھنے پر پابندی کا ایگزیکٹو آرڈر کیوں نہیں
جاری کرتے ہیں۔ تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جا ۓ۔ امریکہ اور اسرائیل کی
ایران کے خلاف بندشوں سے 80 سے زیادہ ملکوں کی تجارت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
6بلین لوگ بھی ان بندشوں کے قیدی بنے ہوۓ ہیں۔