Monday, August 5, 2019

America-India Strategic Relations: Is India’s Role In Afghanistan What Made The Longest Afghan War For America?



     
 America-India Strategic Relations: Is India’s Role In Afghanistan What Made The Longest Afghan War For America?

مجیب خان
Terrorists attack Pakistan Navy base in Karachi May 23, 2011

Terrorists attack Karachi Airport June9, 2014

Terrorist attacks, in a busy market and attacked two police checkpoints in Northern Pakistan May28,2009


Robert Fisk Feb28, 2019 Independent



  امریکہ میں یہ بحث نہیں ہو رہی ہے کہ افغان جنگ امریکہ کی تاریخ کی اتنی طویل جنگ کیسے بنی ہے؟ یہ نیٹو کی پہلی جنگ تھی۔ جو یورپ سے باہر نیٹو نے لڑی تھی۔ اور نیٹو کو شرمناک ناکامی ہوئی ہے۔ اس جنگ میں کیا نیٹو کی پلاننگ یا Strategy غلط تھی۔ جس کی وجہ سے امریکہ افغانستان میں ناکام ہوا ہے؟ یا امریکی کمانڈروں کے غلط فیصلوں سے نیٹو کی Strategy فیل ہوئی تھی؟ یا بش اور اوبامہ انتظامیہ کی غفلت، کوتاہیوں اور دنیا میں دوسرے مقامات پر جنگیں شروع کرنے کی وجہ سے Distraction نے افغان جنگ کو امریکہ کی تاریخ کی طویل جنگ بنایا ہے؟ یا یہ بش، ڈک چینی اور ڈونالڈ رمز فیلڈ کا فیصلہ تھا کہ افغان جنگ کو دنیا کی تاریخ کی ایک طویل جنگ بنایا جاۓ گا۔ اسے پاکستان، ایران، بھارت، وسط ایشیا کے ملکوں، چین اور روس تک پھیلا دیا جاۓ گا؟ یہ ملک ایک دوسرے کو دہشت گردی کے الزامات دیتے رہیں گے؟ ورنہ افغان جنگ 6ماہ سے ایک سال کے اندر ختم ہو سکتی تھی۔ افغان عوام امن اور استحکام کے لیے بھوکے اور پیاسے تھے۔ پہلے ہی 20سال سے جاری جنگ نے انہیں بالکل تباہ و برباد کر دیا تھا۔ ان کے پاس فوج تھی اور نہ ہی سیکورٹی کے ادارے تھے۔ نہ حکومت کرنے کے ادارے تھے۔ اور نہ ہی معیشت نام کی کوئی چیز تھی۔ امریکہ کی سو ویت یونین کے خلاف جنگ نے انہیں صرف طالبان دئیے تھے۔ اور امریکہ افغانستان میں ہتھیاروں کے گودام اور طالبان کے لشکر چھوڑ کر گیا تھا۔ 9/11 کے بعد امریکہ نے زمینی فورسز ز کے بغیر صرف فضا سے بم گرا کر طالبان کو اقتدار سے بھگا دیا تھا۔ افغان عوام یہ دیکھ کر بہت خوش ہوۓ تھے۔ انہوں نے یہ سمجھ کر اللہ کا شکر ادا کیا تھا کہ یہ امریکہ کے بم نہیں ابابیلیں تھیں۔ لیکن پھر امریکہ اور نیٹو کی زمینی فورسز ز افغانستان فتح کرنے میں ناکام ہو گئی تھیں۔ امریکہ کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں سب کی یاداشت بڑی کمزور ہے۔ بہت جلد سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ یہ طالبان امریکہ کے تربیت یافتہ تھے۔ جنہیں سوویت آرمی کو شکست دینے کے لیے امریکہ نے بہترین تر بیت دی تھی۔ اور ان کی اس  تربیت کے نتیجہ میں انہیں کامیابی ہوئی تھی۔ اور اب طالبان اسی تربیت کو امریکہ کے خلاف استعمال کر رہے تھے۔ صدر بش کی قومی سلامتی امور کی مشیر Condoleezza Rice اور سیکورٹی ٹیم نے کہا کہ طالبان کا مکمل خاتمہ کیا جاۓ گا۔ اس وقت تک یہ جنگ جاری رہے گی۔ اور ان سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔ اگر ان سب کی یاداشت مضبوط ہوتی تو انہیں یہ ضرور یاد ہوتا کہ یہ طالبان ہمارے بہترین تربیت یافتہ ہیں۔ انہوں نے سوویت یونین کا خاتمہ کیا ہے اور اب یہ ہمارا بھی خاتمہ کر دیں گا۔ طالبان کا جب اقتدار ختم ہو گیا تھا۔ اس کے بعد  طالبان کمزور ہو گیے تھے۔ انہیں دوبارہ منظم اور مضبوط ہونے کا موقع نہیں دیا جاتا جو مذاکرات ان سے 19 سال بعد کیے جا رہے ہیں وہ 19 سال پہلے ہو سکتے تھے۔     
  1980s میں پاکستان صدر رونالڈ ریگن کی افغان پالیسی کی حمایت میں ان کے ساتھ کھڑا تھا۔ اور افغانستان کو سو ویت کمیونسٹ فوجوں سے آزاد کرانے میں جہادی طالبان کی مدد کر رہا تھا۔ جنہیں امریکہ تربیت اور اسلحہ دے رہا تھا۔ اور 21 سال بعد پاکستان صدر جارج بش کے ساتھ کھڑا تھا۔ جو افغانستان سے طالبان کا صفایا کرنے کی جنگ لڑ رہے تھے۔ اور پاکستان اس جنگ میں امریکہ کے ساتھ کھڑا تھا۔ پاکستان نے طالبان کی حمایت سے طالبان کے خلاف اپنی پالیسی 180ڈگری یو ٹرن سے تبدیل کی تھی۔ افغان جنگ کے ابتدائی دنوں میں پاکستان کے ساتھ بش انتظامیہ مکمل تعاون کر رہی تھی۔ اور پاکستان بھی بش انتظامیہ کے فیصلوں کی حمایت کر رہا تھا۔ کابل میں ایک عبوری حکومت کے لیے صدر جنرل پرویز مشرف نے حامد کر زئی کا نام تجویز کیا تھا جو ایک پختو ن  تھے۔ جبکہ شمالی اتحاد جو طالبان کے خلاف تھا۔ طالبان نے ان کے رہنما احمد شاہ مسعود کو قتل کیا تھا۔ ازبک اور تا جک کی اس وقت سے طالبان کے خلاف جنگ جاری تھی۔ شمالی اتحاد نے طالبان کو اقتدار سے ہٹانے میں امریکہ کی مدد بھی کی تھی۔ اور شمالی اتحاد اب ازبک یا تا جک کو عبوری حکومت کا سربراہ بنانا چاہتا تھا۔ لیکن پاکستان کے اصرار پر کہ پختو ن افغانستان میں اکثریت میں ہیں لہذا عبوری حکومت کا سربراہ پختو ن ہو گا۔ صدر بش نے پاکستان کے موقف کی حمایت کی تھی۔ اور حامد کر زئی عبوری افغان حکومت کے سربراہ بن گیے تھے۔ عبوری حکومت بننے کے بعد صدر جنرل مشرف نے صدر بش سے کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔ اور انہیں بھی افغانستان کے تعمیر نو کی کوششوں میں شامل کیا جاۓ۔ صدر بش شاید پاکستان کے اس مشورے پر عمل کرنا چاہتے ہوں گے۔ لیکن ان کی  انتظامیہ میں Hawkish جن میں قومی سلامتی امور کی مشیر کا نڈ و لیزارائس، نائب صدر ڈک چینی، ڈیفنس سیکرٹیری رمز فیلڈ، اور دوسرے حکام نے طالبان کا مکمل خاتمہ کرنے تک جنگ جاری رکھنے پر زور دیا تھا۔ اور کہا کہ  ان  سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ طالبان کے بعض رہنما گو تا نو مو بے میں نظر بند تھے۔ جنہیں اب رہا کیا گیا ہے۔ اور امریکہ اب ان سے مذاکرات کر رہا ہے۔ طالبان کا مکمل خاتمہ کرنے کا فیصلہ انتہائی نا معقول تھا۔ جو ممکن نہیں تھا۔ یہ افغانستان کی ایک بہت بڑی آبادی تھے۔
  2002 میں بش انتظامیہ کی توجہ عراق پر مرکوز ہو گئی تھی۔ عراق میں Regime change war کی پلاننگ شروع ہو گئی تھی۔ افغانستان امریکی جنرلوں، نیٹو کمانڈروں اور افغان وار لارڈ ز کے سپرد کر دیا تھا۔ وار لارڈ ز طالبان کے خلاف بھی تھے۔ اور طالبان کو منظم ہونے کے موقعہ بھی دے رہے تھے۔ افغانستان میں طالبان کا اقتدار ختم کرنے کی جنگ کے 15 ماہ بعد مارچ 2003 میں بش انتظامیہ نے عراق پر حملہ کر کے صد ام حسین کا اقتدار ختم کر دیا تھا۔ افغانستان میں خطروں کی موجودگی میں عراق نئے خطروں کا محاذ کھل گیا تھا۔ بش انتظامیہ کی قومی سلامتی کی ٹیم کا یہ ایک بہت غلط مشورہ تھا۔ امریکہ کے وسائل اور توجہ بیک وقت دو جنگوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ جبکہ القا عدہ کے خلاف علیحدہ جنگ جاری تھی۔ عراق جنگ نے افغان جنگ کو طویل جنگ بنا دیا تھا۔ اور افغان اور عراق جنگ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ نا ختم ہونے والی جنگ بنا دیا تھا۔ تینوں جنگوں کا ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے اور تینوں جنگیں ابھی تک جاری ہیں۔
  2003 میں اسرائیل کے وزیر اعظم Ariel Sharon پہلی مرتبہ بھارت کے دورے پر آۓ تھے۔ جنتا پارٹی کی حکومت تھی۔ اٹل بہاری با جپائی وزیر اعظم تھے۔ اسرائیل کا عراق میں ایٹمی ہتھیاروں کا مسئلہ حل ہو گیا تھا۔ صد ام حسین بھی اب اقتدار میں نہیں تھے۔ عراق تباہ ہو چکا تھا۔ اسے دوبارہ تعمیر ہونے میں 30سے 40 سال لگیں گے۔ اسرائیل اور بھارت کا مشترکہ مسئلہ پاکستان تھا۔ جو پہلا ایٹمی اسلامی ملک تھا۔ اس پر اسرائیل کو خاصی پریشانی تھی۔ بھارت بر صغیر میں توازن طاقت قائم ہونے سے خوش نہیں تھا۔ یہاں اسرائیل اور بھارت کی تشویش اور مفاد مشترکہ ہو گیے تھے۔ دونوں ملکوں نے دہشت گردی کے خلاف تعاون پر اتفاق کیا تھا۔ اسرائیل اور بھارت میں Strategic تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وزیر اعظم Ariel Sharon کے دورہ بھارت کے بعد اس علاقہ کا نقشہ بدل گیا تھا۔ بش انتظامیہ نے بھی بھارت کے ساتھ قریبی Strategic تعلقات قائم کیے تھے۔ بھارت کو افغانستان میں ایک اہم رول ادا کرنے کا کہا گیا تھا۔ امریکہ اور بھارت کی قومی سلامتی امور کی ٹیم ایک دوسرے کے قریب ہو کر کام کرنے لگے تھے۔ صدر بش کے قومی سلامتی امور کے مشیر اسٹیفن ہیڈ لے اور بھارت کی قومی سلامتی امور کے مشیر Brijesh Mishra  میں قریبی رابطے اور تعاون بڑھ گیا تھا۔ اسرائیلی مو ساد اور بھارتی Raw میں بھی قریبی رابطہ شروع ہو گیے تھے۔ پاکستان میں کسی نے اسرائیل کے وزیر اعظم کے دورے بھارت کو شاید کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔ دہلی میں پاکستان کے سفارت خانہ نے بھی اپنی حکومت کو اسرائیل-بھارت قریبی تعاون سے پیدا ہونے والے خدشات سے آگاہ نہیں کیا تھا۔   
  جنرل پرویز مشرف جب تک پاکستان کے صدر تھے۔ بش انتظامیہ نے ان کے ساتھ اچھے قریبی تعلقات ر کھے تھے۔ تاہم پاکستان میں دہشت گردوں کی سرگرمیوں کی ابتدا ہو گئی تھی۔ بلوچستان اور خیبر پختو ن میں خود کش بموں کے دھماکے شروع ہو گیے تھے۔ خود کش بم کے حملے میں صدر مشرف بھی کئی مرتبہ بال بال بچ گیے تھے۔ افغانستان کا عدم استحکام پاکستان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ سیاستدان اپنے سیاسی مفاد کو قومی سلامتی پر اہمیت دیتے ہیں۔ میڈیا اپنے آپ کو غیر ملکی ثابت کرنے لگتا ہے۔ مذہبی رہنما سب سے زیادہ Opportunists ہیں۔ جو بھی انہیں Under the table دیتا ہے۔ وہ اس کے مفاد کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ پاکستان کی 73سال کی تاریخ میں سیاسی اور مذہبی رہنماؤں نے حکومت کو کب درست مشورے دئیے تھے؟ سب جنرل ضیا الحق کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے تھے۔ یہ سب جمہوریت ختم کر کے افغانستان میں جہاد کی حمایت میں کھڑے تھے۔ ملک کو ہمیشہ انہوں نے تباہی کی طرف دھکیلا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان ہمیشہ بحرانوں کی سو نامی میں رہتا ہے۔ سیاسی جماعتیں امریکہ کے ذریعے فوجی حکومت سے NRO لے کر پھر سیاست کرنے میدان میں آ گئی تھیں۔ لیکن پاکستان میں وکلا نے، ججوں نے، دانشوروں  نے، پروفیسروں نے، صحافیوں نے، علماؤں نے یہ نہیں کہا تھا کہ صدر بش کی پاکستان کے داخلی سیاسی امور میں مداخلت انہیں قبول نہیں تھی۔ صدر بش نے یہ مداخلت امریکہ کے مفاد میں کی تھی۔ یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں تھی۔ پیپلز پارٹی صرف ذوالفقار علی بھٹو کے نام کی وجہ سے عوام میں مقبول تھی۔ اور امریکہ نے اس سے بھر پور فائدہ اٹھایا تھا۔ بے نظیر کو راستہ سے ہٹا دیا گیا تھا۔ بے نظیر بھٹو کے مقابلے پر پیپلز پارٹی میں کوئی دوسری اتنی مضبوط قیادت نہیں تھی۔ آصف علی زر داری کے سوئزر لینڈ کے بنکوں میں منجمد 60ملین ڈالر بش انتظامیہ نے اس شرط پر بحال کراۓ تھے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ر   کھیں  گے۔ 60ملین لے کر زر داری کا منہ بند ہو گیا تھا۔ حالانکہ زر داری کو یہ کنہا چاہیے تھا کہ ہم جمہوریت اور سیاست میں یقین رکھتے ہیں۔ جنگ کی باتیں کرنے کے لیے جنرل پرویز مشرف مناسب شخصیت ہیں۔ یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم کا حلف لینے کے بعد سب سے  پہلے وائٹ ہاؤس آتے تھے۔ صدر بش اور نائب صدر ڈک چینی سے  ملاقات  میں انہوں نے یہ عہد کیا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ر کھی جاۓ گی۔ پھر آصف زر داری صدر کا حلف لینے کے بعد  وائٹ ہاؤس آۓ تھے اور صدر بش اور نائب صدر ڈک چینی سے ملاقات میں انہیں بھی یہ پیغام دیا گیا تھا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔ صدر زر داری کے ذہن میں یہ سوال نہیں آیا تھا کہ بش اور چینی کا دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ر کھنے پر آخر اتنا زور کیوں تھا؟ دہشت گردی جلد ختم کرنے پر اتنا اصرار کیوں نہیں تھا؟ وائٹ ہاؤس میں بش-چینی انتظامیہ کے آخری دن تھے۔ اور چند ماہ میں نئی انتظامیہ آنے والی تھی۔ کر پٹ لیڈروں کا صرف کرپشن کرنے میں ذہن کام کرتا ہے۔ جو لیڈر کر پٹ نہیں ہوتے ہیں۔ ان کا ذہن قومی مفاد میں فیصلے کرنے اور پالیسیاں بنانے میں کام کرتا ہے۔ اگر کوئی Genuine Leader ہوتا وہ واپس پاکستان آ کر فوری طور پر سرحدیں بند کرنے کا کہتا۔ افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجنے کا اعلان کرتا۔ غیر ملکیوں کی پاکستان میں نقل و حرکت پر کڑی نگرانی کا کہتا۔ افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت ختم کرنے کا اعلان کرتا۔ اور دو ٹوک لفظوں میں یہ واضح کر دیا جاتا کہ طالبان افغانستان کے شہری ہیں اور افغان حکومت کو ان کے ساتھ سیاسی ڈائیلاگ کرنا چاہیں۔ اور جلد از جلد افغانستان کے لوگوں کا امن اور استحکام بحال کیا جاۓ۔    
  زر داری-گیلانی حکومت نے دہشت گردی کی جنگ سے پاکستان کو دور رکھنے کی سیاسی کوششیں کرنے کے بجاۓ، پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ کا Battle Ground بنا دیا تھا۔ پاکستان کی سرحدیں بند کرنے کے بجاۓ سرحد دیں کھول دی تھیں۔ بش انتظامیہ نے بھارت کو افغانستان میں جو رول دیا تھا۔ وہ رول بھارت کا پاکستان کے خلاف بن گیا تھا۔ بھارت کی Raw، اسرائیل کی مو ساد، افغانستان کی KHAD، امریکہ کی سی آئی اے پاکستان کو پہلے Destabilize کرنے اور پھر اس کے ایٹمی ہتھیاروں پر قبضہ کرنے کے منصوبے پر کام کر رہے تھے۔ انہوں نے دہشت گردوں کو پاکستان کے حساس تنصیبات پر حملہ کرنے کے میں استعمال کیا تھا۔ ملٹری ہیڈ کوارٹر پر حملہ، آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ، کراچی میں پاکستان کی نیول بیس پر حملہ، جہاں دہشت گردوں کے ساتھ کئی گھنٹوں تک باقاعدہ جنگ کا منظر تھا۔ پاکستان کے شہروں میں خود کش بموں کے دھماکے جس میں ہزاروں بے گناہ لوگ مارے گیے تھے۔ امریکہ-بھارت Strategic تعلقات سے AF-Pak بنا تھا۔ بھارت نے افغانستان کو امریکہ کے مفاد میں نہیں دیکھا تھا۔ بلکہ اسے صرف اپنے مفاد میں پاکستان کے خلاف استعمال کیا تھا۔ بش انتظامیہ اور پھر اوبامہ انتظامیہ نے اس صورت حال کو Handle کرنے میں زبردست Blunders کی تھیں۔ جس کی وجہ سے افغان جنگ امریکہ کی تاریخ کی طویل جنگ بنی ہے۔ بش- اوبامہ انتظامیہ کو بھارت کے ساتھ اپنے Strategic Relations افغانستان اور پاکستان سے دور رکھنا چاہیے تھے۔ امریکہ میں اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کا اعتراف دوسروں کو الزام دینے سے کیا جاتا ہے۔ 1980s میں سو ویت یونین کے خلاف افغان جنگ میں ریگن انتظامیہ نے پاکستان کو رول دیا تھا۔ اور افغانستان سو ویت یونین کے لیے Quagmire بن گیا تھا۔ 20سال بعد طالبان کے خلاف جنگ میں صدر بش نے بھارت کو افغانستان میں رول ادا کرنے کا کہا تھا۔ افغانستان امریکہ کے لیے Quagmire بن گیا ہے۔                            

No comments:

Post a Comment