Is The Breaking Of Kashmir, Beginning Breaking Of India?
If Narendra Modi’s Name Mohammad Modi, World Reaction Might Be Different
Rise Of Hindu Supremacists In
India As Dangerous As White Supremacists In America
مجیب خان
وزیر اعظم عمران خان کی 22 جولائی
کو وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات میں کشمیر کے تنازعہ پر ایک سوال کے جواب میں
وزیر اعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ سے کہا تھا کہ وہ اس تنازعہ کے حل میں مدد کر سکتے
ہیں۔ 70سال سے اس خطہ کے ایک بلین لوگ کشمیر تنازعہ کے قیدی بنے ہوۓ ہیں۔ اس
تنازعہ کی وجہ سے دونوں ملکوں میں اقتصادی ترقیاتی منصوبے متاثر ہو رہے ہیں۔ کشمیر
کا تنازعہ حل ہونے سے ہم اس خطہ سے غربت کا خاتمہ کرنے پر توجہ دے سکتے ہیں۔ صدر
ٹرمپ نے وزیر اعظم عمران خان کے ان خیالات کی تعریف کی تھی۔ اور کشمیر تنازعہ میں
ثالثی کرانے پر آمادہ ہو گیے تھے۔ صدر ٹرمپ نے بتایا کہ Osaka جاپان میں G-20 ملکوں کی کانفرنس
کے دوران ان کی وزیر اعظم مودی سے ملاقات ہوئی
تھی۔ اور وزیر اعظم مودی نے بھی ان سے کشمیر کی صورت حال پر مدد مانگی تھی۔ صدر
ٹرمپ نے کہا اگر دونوں ملک یہ چاہتے ہیں کہ میں کشمیر تنازعہ میں ثالثی کراؤں تو
میں یہ ضرور کروں گا۔ صدر ٹرمپ نے اس گفتگو میں جب یہ انکشاف کیا کہ Osaka جاپان میں وزیر اعظم مودی نے
کشمیر کی صورت حال میں صدر ٹرمپ سے مدد کرنے کے لیے کہا تھا۔ تو بھارت میں پارلیمنٹ
میں ہنگامہ ہونے لگا وزیر اعظم مودی سے اپوزیشن پارٹیوں اور ان کی اپنی پارٹی کے
اراکین نے صدر ٹرمپ سے کشمیر کی صورت حال
کے حوالے سے کیا بات ہوئی تھی یہ بتانے کا مطالبہ ہونے لگا۔ کئی روز تک پارلیمنٹ
میں اس پر شور ہوتا رہا۔ بھارت کی وزارت خارجہ نے اس کی تردید کی تھی کہ 'صدر ٹرمپ
سے وزیر اعظم مودی کی ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔' لیکن وزیر اعظم مودی نے اس پر
ہاں بھی نہیں کیا اور نہ بھی نہیں کیا بلکہ مکمل خاموشی اختیار کی تھی۔ اراکین پارلیمنٹ
کے اس سوال کا کہ کشمیر کی صورت حال پر وزیر اعظم مودی نے صدر ٹرمپ سے کیا مدد
مانگی تھی اس کا جواب 5 اگست کو کشمیر بھارت کی نئی ریاست ہے، میں دیا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ Osaka جاپان میں وزیر اعظم مودی نے اپنے
اس فیصلے سے صدر ٹرمپ کو آگاہ کیا تھا۔ اور اس پر امریکہ کے رد عمل کے بارے پوچھا
ہو گا۔ جیسے صدر صد ام حسین نے کویت پر قبضہ کرنے کے لیے اپنے منصوبے کے بارے میں
صدر بش 41 سے ان کے رد عمل کے بارے میں پوچھا تھا۔ وزیر اعظم مودی نے تقریباً نصف ملین فوجیں مقبوضہ کشمیر کی پوری آبادی کو
نظر بند کرنے کے لیے بھیجی ہیں۔ اور اس کے بعد کشمیر پر یونین انڈیا کا پرچم
لہرایا ہے۔ مقبوضہ کشمیر اس وقت بھارت کی جمہوریت میں گوتانوموبے ہے۔ کشمیر کی
14ملین کی آبادی کو حقوق اور آزادی مانگنے پر Torture کیا جا رہا ہے۔
ادھر مودی نے دیکھا کہ کشمیر کو
بھارت میں شامل کرنے کا یہ بہتر موقعہ تھا۔ صدر ٹرمپ مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر 70 سال
سے اسرائیل کے فوجی قبضہ کو اب جائز اور انہیں اسرائیل کے Sovereign علاقہ قرار دے رہے تھے۔ یروشلم
اور گو لان اب اسرائیل کی سرحدیں بن گیے تھے۔ اسلامی دنیا میں اس پر کوئی خاص رد عمل
نہیں ہوا تھا۔ انسانی حقوق، قانون اور اصولوں کی دعویدار مغربی دنیا نے بھی اسے
خاموشی سے ہضم کر لیا تھا۔ دنیا میں صدر ٹرمپ کا قانون ہے۔ صدر ٹرمپ اگر کسی ملک
کے وزیر خارجہ پر سفر کرنے پر بندشیں لگا دیں گے تو وہ وزیر خارجہ اس وقت جہاں بھی
ائیر پورٹ پر ہو گا وہیں کھڑا رہے گا کوئی اير لائن اسے اس خوف سے نہیں لے جائیے
گی کہ اس پر بھی بندشیں لگ جائیں گی۔ بہرحال مودی نے کشمیر کو بھارت میں Annexed کر لیا ہے۔ اور اب چین کے لیے بھی
یہ سنہری موقعہ ہے کہ وہ لداخ اور تبت کو چین میں Annex کر لے۔ کیونکہ یہ بھی چین کا حصہ ہیں۔ دنیا میں بے شمار مقامات پر
Annexation کے تنازعہ ہیں۔
انہیں بھی صدر ٹرمپ کے اس ایگزیکٹو آرڈر سے فائدہ اٹھانا چاہیے جس کے تحت اسرائیل
نے فلسطینیوں کے علاقہ Annexed کیے ہیں۔
بھارت ایک ایسی جمہوریت ہے جس میں
سیاسی اور انسانی حقوق کے تنازعوں کا سیاسی حل کرنے کی صلاحیتیں نہیں ہیں۔ لیڈروں
کے جمہوری مہذب مزاج نہیں ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ چین کے لیڈروں میں سیاسی تہذیب
اور جمہوری مہذب پن بہت ہے۔ ڈائیلاگ صرف ان کا مذہب ہے۔ اگر 50 ملکوں سے ان کے اختلاف
ہیں۔ 50 ملکوں سے ڈائیلاگ کرتے ہیں۔ گجراتی بھائی کو وزیر اعظم عمران خان نے 36
مرتبہ یہ کہا کہ آئیں ڈائیلاگ کریں۔ گجراتی بھائی نے لفٹ نہیں کر آئی۔ جمہوریت لیڈروں
کے دماغ تنگ نظر نہیں بناتی ہے۔ بلکہ دماغ کو کھلا اور روشن رکھتی ہے۔ جیسے گاندھی
نے کہا تھا ' جب دماغ کی کھڑکیاں کھلی ہوتی ہیں، مشرق، مغرب، شمال، جنوب سے ہوائیں
آتی ہیں تو دماغ اس میں پھلتا پھولتا ہے۔ نئے خیالات جنم لیتے ہیں۔' بھارتی لیڈروں
کے دماغ بند ہیں۔ ڈائیلاگ سے گھبراتے ہیں کہ کہیں اس میں پھنس جائیں گے۔ فوجی جنرل
پرویز مشرف خود وزیر اعظم اٹل بہاری باجپائی کے ما لے پر گیے تھے۔ ان سے کشمیر کے
تنازعہ پر تمام معاملات طے کر لیے تھے۔ معاہدہ ہونے والا تھا۔ لیکن وزیر اعظم
باجپائی اور ان کے ساتھی جمہوری لیڈر معاہدہ چھوڑ کر بھاگ لیے تھے۔ فوجی جنرل سے
یہ معاہدہ نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ سیاسی لیڈروں سے بات نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی
گھٹیا اور تنگ نظر ذہنیت صرف پاکستان کی
فوج اور سیاسی لیڈروں کو الزامات کی سیاست کا نشانہ بنانا، دنیا سے پاکستان کو
تنہا کرنے کی اپیلیں کرنا، امریکہ سے پاکستان پر سخت بندشیں لگانے کے مطالبے کرنا۔
بھارتی لیڈروں نے 20 قیمتی سال ان گھٹیا
باتوں میں گزار دئیے۔ تنازعوں کو مہذب جمہوری طریقوں سے حل کرنے میں کوئی مثبت اور
تعمیراتی کام نہیں کیے تھے۔ مودی نے کشمیر کا مسئلہ حل کر لیا ہے۔ پاکستان کو بھارت
کی طرف دیکھنے اور جانے کے تمام دروازے اور راستہ کم از کم دس بیس سال کے لیے
بالکل بند رکھنے چاہیں۔ امریکہ اگر بھارت کو چین کے مقابلے پر لانے چاہتا ہے۔
بھارت کو اس راستہ پر جانے دیا جاۓ۔ بھارت کے ساتھ کوئی تجارت نہیں کی جاۓ۔ سارے
سارک ملک بھارت کے ساتھ تجارتی خسارے کا سامنا کر رہے ہیں۔ بھارت ان سے فائدہ اٹھا
رہا ہے۔ اور Asia-Pacific کی بحری طاقت
بن رہا ہے۔ غربت، افلاس، بھوک، بیماریاں، تعلیم کا فقدان بدستور موجود ہے۔
مودی حکومت کے پہلے 5 سال میں مقبوضہ
کشمیر میں بھر پور فوجی طاقت کا آز ادانہ استعمال ہو رہا تھا۔ جو کشمیریوں کے خلاف
State sponsor terror تھا۔ بھارتی فوج
کشمیریوں کا Genocide کر رہی تھیں۔ مصر
میں فوجی حکومت اور کشمیر میں مودی حکومت کی کاروائیوں میں کوئی فرق نہیں تھا۔ صرف
چہرے مختلف تھے۔ اور نظام دو تھے۔ صدر اوبامہ کو مودی سے بغل گیر ہونے میں اتنا
مزا آتا تھا کہ وہ مودی سے کشمیریوں کے ساتھ بھارتی فوج کے ظلم و بربریت کی مذمت
کرنے سے گریز کرتے تھے۔ Hypocrisy کی
بھی کچھ قدریں اور حدود ہوتی ہیں۔ اوبامہ انتظامیہ شام میں اسد حکومت کے ظلم و
بربریت کے خلاف تحریک کی حمایت کر رہی تھی۔ آزادی کے لیے لڑنے والوں کو اسلحہ اور
فنڈ ز دئیے جا رہے تھے۔ لیکن پاکستان اگر نہتے کشمیریوں کے خلاف بھارتی فوج کی
بربریت تشدد اور ظلم کی تحریک میں کشمیریوں کی حمایت کر رہا تھا تو پاکستان پر
دہشت گردوں کو کشمیر میں بھیجنے کا الزام دیا جاتا تھا۔ حالانکہ اوبامہ انتظامیہ شام
میں جو کر رہی تھی شاید پاکستان اس سے کچھ کم کشمیر میں کر رہا تھا کیونکہ پاکستان
کے پاس وہ وسائل بھی نہیں تھے جو امریکہ کے پاس تھے۔ لیکن انسانی ہمدردی کی بنیاد پر
پاکستان کی مدد کشمیریوں کے لیے تھی۔ اور امریکہ اسے دہشت گردی کہتا تھا۔
مودی حکومت کے کشمیر ایکشن پر دو روز
سے قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں مسلم
لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنما حکومت کو مشورے دے رہے ہیں حکومت پر تنقیدیں بھی
کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب یہ حکومت میں تھے اس وقت انہوں نے اپنے مشوروں
پر خود عمل کیوں نہیں کیا تھا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں کسی نے مولانا فضل الرحمن
سے جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن حکومت میں کشمیر کمیٹی کے چیرمین تھے ان سے یہ
نہیں پوچھا جا رہا ہے کہ مولانا صاحب 10 سال سے آپ کشمیر کمیٹی کے چیرمین تھے۔
مودی کو کشمیر ایکشن کی یہ ہمت کیسے ہوئی ہے۔ وزیر اعظم مودی کے 5 سال دور حکومت
میں مولانا فضل الرحمن نے کشمیر کمیٹی کے چیرمین کی حیثیت سے ایک مرتبہ بھی قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر
کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و بربریت پر کبھی سخت لفظوں میں مذمت کی تھی اور نہ ہی
کشمیریوں کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔ کشمیر کمیٹی کے چیرمین کی حیثیت
سے انہیں خصوصی مراعات دی گئی تھیں۔ عوام کے ٹیکس سے مولانا کو ادائیگی بھی کی
جاتی تھی۔ مولانا نے کشمیر کمیٹی کا چیرمین بن کر کیا کارنامہ انجام دیا ہے؟ نتائج
قوم کے سامنے ہیں۔ مولانا کا خاندان حکومت کے خلاف ملین مارچ کرنے میں Specialized ہے لیکن پاکستان کے عوام کو
کشمیر کے بارے میں وہ اپنی کارکردگی پر رپورٹ نہیں دے سکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment