Wednesday, August 14, 2019

“Modi, Kashmir Is Not Your Father’s Property” “what do We Want? Freedom! When Do We Want It? Now



   “Modi, Kashmir Is Not Your Father’s Property” “what do We Want? Freedom! When Do We Want It? Now

Arab Regimes Interfered In Syria’s Internal Affairs, But On Kashmir They Say This Is India’s Internal Matter; Typical Hypocrisy.
مجیب خان

Incompetent political Leaders of India, using the military to solve a political conflict 





   جب تک بھارت کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں تھے۔ بھارتی لیڈروں کے مزاج جمہوری تھے اور قانون کا احترام بھی کرتے تھے۔ اس لیے انہوں نے کشمیر کی خود مختاری اور کشمیریوں کے قانونی حقوق کے بارے میں جن قانونی دستاویز پر دستخط کیے تھے۔ ان کا احترام بھی کرتے تھے۔ لیکن اسرائیل کے بھارت کے قریب تر آنے سے بھارتی لیڈروں کے دماغ بدل گیے ہیں۔ بھارتی لیڈروں کے مزاج زیادہ Aggressive ہو گیے ہیں۔ نہتی انسانیت کو Iron Fist سے Suppress کرنے لگے ہیں۔ اسرائیلی لیڈروں نے جس طرح اسرائیل کو صرف white Jews کی ریاست ہونے کا قانون منظور کیا ہے اسی طرح ہندو بھارتی لیڈر بھی بھارت کو بالخصوص کشمیر کو صرف ہندوؤں کی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ بہت جلد مقبوضہ کشمیر میں بھی مسلمانوں کے گھروں کو بلڈو زر سے گرایا جا رہا ہو گا۔ اور وہاں نئی ہندو بستیاں تعمیر ہونے لگے گی۔ بھارتی ہندوؤں نے صرف اس ایک مقصد سے نریندر مودی کو بھاری اکثریت دی ہے۔ اور مودی نے حکومت بنانے کے بعد سب سے پہلے کشمیریوں کے حقوق اور خود مختاری پر چھری چلائی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ایک لاکھ بھارتی فوج کشمیریوں کو ان کے گھروں میں نظر بند کرنے کے لیے بھیجی ہے۔ کشمیریوں کے باہر کی دنیا سے تمام رابطہ منقطع کر دئیے ہیں۔ اگر کشمیری گھروں سے باہر نکلے تو یہ مودی کا ایک دوسرا گجرات ہو گا۔
  وزیر اعظم مودی نے 9 اگست کو بھارتی عوام سے اپنے خطاب میں انہیں یہ خوش خبری سنائی ہے کہ "ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا ہے۔ انتشار زدہ علاقہ زیادہ محفوظ ہے۔" قوم سے خطاب میں مودی کہتے ہیں "جموں اور کشمیر کی خود مختار ریاست کا درجہ ختم کر کے [ جو ایک واحد مسلم اکثریتی ریاست ہے] اسے وفاق کے کنٹرول میں دے دیا گیا ہے۔ تاکہ یہ ایک صاف ستھرا علاقہ ہو گا۔ حکومت میں کرپشن کم ہو گا۔ زیادہ سیکورٹی اور ایک مضبوط مقامی معیشت ہو گی۔" جیسے دہلی کی وفاقی حکومت فرشتوں کی حکومت ہے۔ جس میں کرپشن بالکل نہیں ہے۔ کشمیر کو انتشار زدہ علاقہ دراصل ایک Incompetent دہلی کی وفاقی حکومت نے بنایا ہے۔ جس نے سیکورٹی اور انتشار کے مسئلوں کو نئے مسئلے پیدا کر کے حل کرنے کی کوشش کی تھی۔ مقبوضہ کشمیر کے حالات انتشار زدہ بنانے میں دہلی کی وفاقی حکومت کا ہاتھ ہے۔ یہ بھارت ہے جس نے کشمیر کو پسماندہ رکھنے کی پالیسی اختیار کی تھی۔ کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیا تھا اور بیرونی سرمایہ کاری کے دروازے بند کر دئیے تھے۔ اول یہ کہ بھارت کی کس ریاستی حکومت میں کرپشن نہیں ہے۔ وفاقی حکومت میں کرپشن ہے۔ یہ بھارت میں Good Governance کا فقدان ہے جس نے کشمیریوں کو اپنے حقوق اور خود مختاری کے لیے سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کیا ہے۔ بھارت نے کشمیریوں سے Self Determination کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن پھر بھارت کے وعدہ سے Self غائب ہو گیا تھا۔ اور Determination اپنے لیے رکھا تھا کہ کشمیریوں کو خود مختاری کبھی نہیں ملے گی۔ دنیا گزشتہ کئی برسوں سے کشمیر میں جو مزاحمت دیکھ رہی ہے وہ دراصل Indian Determination Versus Kashmiri Determination ہے۔ بھارت نے کشمیریوں کو حق خود مختاری نہ دینے کا عزم کیا ہے اور کشمیریوں نے حق خود مختاری لینے کا عزم کر لیا ہے۔ بھارتی حکومت نے وقت گزاری اس میں دیکھی تھی کہ پاکستان کو کشمیر میں دہشت گردوں کو بھیجنے کا الزام دینے کی مہم شروع کر دی تھی۔ لیکن بھارتی حکومت نہ تو دہشت گردی کے مسئلہ پر پاکستان سے سنجیدہ بات چیت کرنے کے لیے تیار تھی۔ اور نہ ہی کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان سے سنجیدہ  ڈائیلاگ کرنے کے لیے تیار تھی۔ لیکن بھارتی حکومت پاکستان کے خلاف صرف الزام تراشیاں کرنے میں بہت سنجیدہ تھی۔
  80s افغانستان میں کمیونسٹ فوجوں کے خلاف امریکہ کی قیادت میں جہاد کے دور رس اثرات اور خطرناک نتائج پر وزیر اعظم اندرا گاندھی کی گہری نظر تھی۔ اور وہ جہاد ختم ہونے کے بعد جہادیوں کا کیا ہو گا اس بارے میں خاصی فکر مند تھیں۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی نے امریکہ کو جہادیوں کو دہشت گردی کی تربیت دینے سے منع کیا تھا۔ لیکن اس وقت امریکہ افغان اسلامی جہاد میں سوویت یونین کی شکست دیکھ رہا تھا۔ پھر 80s میں سکھوں کی خالصتان تحریک شروع ہو گئی تھی جو بھارت سے علیحدہ ہونا چاہتے تھے۔ اور اپنی ایک آزاد ریاست قائم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ خالصتان تحریک نے کشمیریوں میں آزادی کی تحریک کا  جذبہ پیدا کیا تھا۔ بھارت کے اندر اور اس کے ارد گرد یہ حالات تھے جو مقبوضہ کشمیر میں انتشار کی فضا پیدا کرنے کا سبب تھے۔ دہلی کی حکومت نے اس صورت حال پر توجہ دینے کے بجاۓ اپنی گنوں کا رخ پاکستان کی طرف کر دیا تھا۔ اور 9/11 کے بعد بھارت نے امریکہ کے ساتھ یہ حکمت عملی بنائی تھی کہ پاکستان کو افغانستان میں گھیر کر رکھا جاۓ۔ لیکن بھارت کشمیر میں کیا کر رہا تھا؟ بھارتی فوج کشمیریوں کو Suppressed کر رہی تھی۔ امریکہ نے اپنی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو فرنٹ لائن پر کھڑا کر دیا تھا۔ جس کے نتیجہ میں پاکستان اپنے بقا کی لڑائی لڑ رہا تھا۔ لیکن بھارت کی حکومت کیا کر رہی تھی؟ مقبوضہ کشمیر کے حالات پر توجہ دینے کے بجاۓ بھارتی حکومت پاکستان میں حالات خراب کرنے پر کام کر رہی تھی۔ آج مقبوضہ کشمیر کے حالات مشرقی پاکستان کے حالات سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ اور یہ حالات بھارت میں جمہوری حکومتوں نے پیدا کیا ہیں۔ کشمیریوں کے خلاف 20سال سے طاقت کا بھر پور استعمال ہو رہا ہے۔ بھارتی حکومت کے بھر پور فوجی طاقت کے استعمل نے کشمیریوں کی معیشت تباہ کی ہے۔ کشمیریوں کو بے روز گاری دی ہے۔ کشمیریوں کا انفرا اسٹیکچر تباہ کیا ہے۔ ان میں احساس محرومی پیدا کی ہے۔ انہیں یہ تاثر دیا جا رہا کہ کشمیر بہت جلد ہندو ریاست ہو گا۔ دہلی کی وفاقی حکومت امریکہ اور مغربی ملکوں کے لے اپنی مارکیٹ کھولنا نہیں چاہتی ہے کہ بھارت پر ان کا غلبہ ہو جاۓ گا۔ اور غلبہ ہونے سے بھارت پھر ان کی کالونی بن جاۓ گا۔ لیکن مقبوضہ کشمیر کو وفاقی حکومت میں لا کر مودی حکومت کشمیر کو ہندوؤں کے لیے کھول رہی کہ وہ اب یہاں زمینیں خرید سکیں گے۔ اور کشمیریوں کو ہندو بنا لیں گے۔
  70سال بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں کوئی ترقیاتی کام نہیں کیے تھے۔ تعلیم میں بھی بھارتی حکومت نے کشمیریوں کو پیچھے رکھا تھا۔ کشمیر میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں رکاوٹیں پیدا کی تھیں۔ جس کے نتیجہ میں کشمیر میں بڑی صنعتیں نہیں ہیں۔ بے روز گاری بھارت کی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں یہاں سب سے زیادہ ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو انتہائی پسماندہ رکھا ہے۔ وزیر اعظم مودی اور ان کے وزیر داخلہ اس کا الزام دہشت گردی کو دیتے ہیں کہ اس کی وجہ سے کشمیر کی معیشت بالکل تباہ ہو گئی ہے۔ اور ان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت اب کشمیر میں ترقیاتی کاموں کو خصوصی اہمیت دے گی۔ سڑکیں اور پل تعمیر کیے جائیں گے۔ یہاں بیرونی سرمایہ کاری بھی آۓ گی۔ وزیر اعظم مودی کے کشمیریوں کو یہ سہا نے خواب  ایسے ہی ہیں۔ جو صدر ٹرمپ کے داماد Jared Kushner  اپنے امن منصوبہ میں فلسطینیوں کو دیکھا رہے ہیں کہ 50بلین ڈالر کے ترقیاتی منصوبے فلسطین میں شروع کیے جائیں گے۔ فلسطین میں سڑکیں اور پل تعمیر کیے جائیں گے۔ ایجوکیشن اور صحت عامہ کے شعبوں کو ترقی دی جاۓ گی۔ فلسطینیوں کے لیے روز گار کے موقعہ فروغ دئیے جائیں گے۔ یہ صرف باتیں ہیں اور اس میں کوئی قابل اعتماد حقیقت نہیں ہے۔
  وعدے اور معاہدوں پر عملدرامد کرنے میں بھارت کا ریکارڈ خراب ہے۔ کانگریس پارٹی کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے پاکستان کے ساتھ شملہ معاہدہ کیا تھا۔ جس میں دونوں ملکوں نے کشمیر سمیت تمام تنازعہ دو طرفہ مذاکرات سے حل کرنے کا کہا تھا۔ پھر جنتا پارٹی  کے وزیر اعظم  اٹل بہاری با جپائی لاہور آۓ تھے۔ اور مینار پاکستان پر لاہور سمجھوتہ کیا تھا۔ اور دونوں ملکوں نے ایک بار پھر مذاکرات کے ذریعہ تمام تنازعہ حل کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ اور دونوں ملکوں میں تجارت بحال کرنے  اور آمد و رفت میں سہولیتیں دینے کا کہا تھا۔ شملہ اور لاہور سمجھوتوں میں بھارت نے جو اپنے مفاد میں دیکھا تھا۔ اس پر پاکستان سے عملدرامد کرایا تھا۔ لیکن جو پاکستان کے مفاد میں اہم تھا۔ اس پر ٹال مٹول، حیلے بہانے کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور پھر اس سے  منہ موڑ لیتے تھے۔ Universal حقوق اور آزادی کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو دہشت گردی کی جنگ کا حصہ بنا دیا تھا۔ بھارتی حکومتیں اپنی نااہلی اور غلطیوں کے بہتان پاکستان پر Dump کر رہی ہیں۔ تنازعوں کا حل الزام تراشی میں دیکھنے میں بھارت، اسرائیل اور امریکہ بری طرح Fail ہوۓ ہیں۔ سیاسی طور پر اب یہ Brain Drain کا شکار ہیں۔ اس لیے امریکہ اور اسرائیل Economic Sanctions اور بھارت Military کو استعمال کر رہے ہیں۔
  عرب حکومتیں کشمیریوں کی سیاسی حقوق اور آزادی کی تحریک کو مودی حکومت کی بھر پور فوجی طاقت سے Suppressed کرنے کو بھارت کا داخلی معاملہ کہہ کر اس لیے حمایت کر رہے ہیں کہ وہ خود اپنے عوام کے سیاسی حقوق اور آزادی کی آوازوں کو Suppressed کر رہے ہیں۔ اور ٹرمپ انتظامیہ کا رد عمل اس لیے Cold ہے کہ یہ فلسطینیوں پر اپنا امن منصوبہ مسلط کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ یہ دیکھ کر مودی نے بھی کشمیریوں پر اپنا امن منصوبہ کرفیو کی صورت میں مسلط کر دیا ہے۔   
        

No comments:

Post a Comment