In An Extremely Divided Afghanistan,
America-Taliban Half Glass Peace Agreement.
How And When Will The Taliban
Have Peace Talks With Tajiks, Uzbeks, And Hazaras, And Who Will Bring The
Powerful Warlords Under The Afghan Constitution And Rule Of Law
مجیب خان
Members of a Taliban delegation |
Peace talks between the U.S. and the Afghan government, in Kabul |
The U.S. special envoy for Afghanistan reconciliation Zalmay Khalilzad met Mullah Abdul Ghani Baradar, in Doha, Qatar |
گزشتہ ماہ کابل میں انتہائی المناک واقعہ
شادی کی ایک تقریب میں خود کش بم دھماکہ تھا۔ جس میں 80 سے زیادہ لوگ مارے گیے تھے۔
دلہن کی رخصتی کی تیاری ہو رہی تھی۔ لیکن کسی وحشی نے جو انسان کے روپ میں تھا، اس
تقریب کو بم دھماکہ کر کے 80 لوگوں کو دنیا سے رخصت کرنے میں بدل دیا تھا۔ یہ وحشی
کون تھا؟ اور اس کی معاونت کن دوسرے وحشیوں نے کی تھی؟ یہ تفصیل آنے سے پہلے صرف
چند لمحہ میں یہ خبر سنائی گئی کہ ISIS نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ شادی کی تقریب کو ٹارگٹ کیوں بنایا
گیا تھا؟ ایسے سوالوں کے جواب دنیا کو کبھی نہیں دئیے جاتے ہیں۔ خود کش حملہ
افغانستان میں نئے نہیں ہیں۔ اکثر یہ خود کش دھماکہ ہوتے رہتے ہیں۔ بے گناہ افغان
مرد عورتیں اور بچے ان دھماکوں میں مرتے ہیں۔ کبھی خود کش دھماکے کرنے کی ذمہ داری
طالبان نے قبول کرنے کی بتائی جاتی ہے۔ کبھی بتایا جاتا ہے کہ اس کی ذمہ داری القا
عدہ نے قبول کی ہے۔ اور اب خود کش دھماکہ کرنے کی ذمہ داری ISIS نے قبول کرنے کی بتائی
جاتی ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ افغان انٹیلی جنس نے جسے امریکہ نے تربیت دی
ہے، گزشتہ ماہ اور اس سے قبل جتنے خود کش حملہ ہوۓ ہیں۔ ان میں ملوث افراد کو پکڑا
ہے۔ ان افراد کی سیاسی وابستگیوں کے بارے میں حقائق سامنے لاۓ گیے ہیں۔ ان کے
پیچھے کون سے خفیہ ہاتھ تھے۔ نہ ہی انہیں بے نقاب کیا ہے۔ ابھی دو ہفتہ قبل کابل
میں شادی کی تقریب میں خود کش حملہ کے مجرموں کا سراغ نہیں ملا تھا کہ کابل میں
ایک دوسرا بم دھماکہ ہوا ہے جس میں 16 لوگ مارے گیے ہیں۔ اور اس حملہ کے ذمہ داروں
کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ طالبان تھے۔ افغانستان میں امریکہ کی اپنی ملٹری
انٹیلی جنس بھی ہے۔ جو ایسے خود کش حملوں کے بارے میں اپنی تحقیقات کرتی ہو گی۔ پھر
سی آئی اے بھی افغانستان میں ہے۔ اور اس نے بھی خود کش بموں کے حملوں کی تحقیقات
کی ہو گی۔ لیکن با ظاہر یہ نظر آتا ہے کہ افغان انٹیلی جنس، سی آئی اے اور ملٹری
انٹیلی جنس میں جیسے اس پر اتفاق ہے کہ ان واقعات کی تحقیقات کو خفیہ رکھا جاۓ۔ اس
لیے ابھی تک خود کش حملوں کے پیچھے خفیہ ہاتھ بھی خفیہ ہیں۔
کابل میں شادی کی تقریب میں خود کش
حملہ کے چند دن بعد عراق اور شام میں ISIS کے دوبارہ منظم ہونے کی خبر آئی تھی۔ اور اس خبر کے فوری بعد عراق
میں اسلحہ کے ایک ڈپو میں دھماکہ ہوا تھا۔ جس کی خبر کے ساتھ ایک تصویر میں اسلحہ
ڈپو سے سیاہ دھواں اٹھ رہا تھا۔ جس نے بھی
یہ منظر دیکھا تھا اس کے ذہن میں سب سے پہلے ISIS کا نام آیا تھا۔ لیکن ISIS کی طرف سے مکمل خاموشی تھی۔ عراقی حکومت کے ترجمان
نے حکومت کی تحقیقات کے بعد بتایا کہ اسرائیلی حکومت نے عراقی اسلحہ ڈپو پر ڈر ون
سے بم گرایا تھا۔ اور اسے تباہ کیا تھا۔ عراقی حکومت کے اس اعلان کے بعد پینٹ گان
کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل نے عراق میں اسلحہ ڈپو پر ڈر ون سے بم
گراۓ تھے۔ جس کے بعد اسرائیلی حکومت یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوئی تھی کہ اسرائیل
نے عراقی اسلحہ ڈپو بم سے تباہ کیا تھا۔ اسرائیل کا کہنا تھا کہ یہ ملٹری بیس اور
اسلحہ ڈپو شیعہ ملیشیا کا تھا جن کی ایران پشت پنا ہی کرتا ہے۔ اب عراقی حکومت اگر
یہ انکشاف نہیں کرتی تو کچھ روز میں امریکی میڈیا کے ذریعے اسے بھی ISIS کی کاروائی بتایا جاتا۔ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ماضی
میں بھی عراق میں ایسے بموں کے دھماکے کیے گیے تھے۔ جو کبھی شیعاؤں کے علاقہ میں
ہوتے تھے۔ اور انہیں سنی القا عدہ کا اقدام قرار دیا جاتا تھا۔ اور جب سنی علاقوں
میں دھماکے ہوتے تھے تو اسے شیعہ ملیشیا کی کاروائی بتایا جاتا تھا۔ بغداد میں
عراقی حکومت کیونکہ افراتفری اور انتشار کا شکار تھی۔ حکومت کے ادارے Dysfunctional تھے۔ اس لیے یہ کھو ج لگانا خاصا
مشکل تھا کہ عراق میں بموں کے دھماکوں کے پیچھے کون سے خفیہ ہاتھ تھے۔ عراق میں
حکومت میں جیسے ہی استحکام اور نظم و ضبط آیا ہے۔ عراقی حکومت نے سب سے پہلے
اسرائیل کو بے نقاب کیا ہے۔ اسرائیل نے عراق میں جس اسلحہ ڈپو کو تباہ کیا ہے۔ یہ
اسلحہ ڈپو عراق اور ایران کے ISIS کے
خلاف مشترکہ فوجی آپریشن میں اسلحہ کی سپلائی میں استعمال ہوتا تھا۔ عراق نے صرف
ایران کی مدد سے مو صل پر ISIS کا قبضہ ختم کرنے کی جنگ لڑی تھی۔ جس میں ایران کے فوجی بھی ہلاک
ہوۓ تھے۔ عراق میں ایران کی موجودگی کا مقصد بھی وہ ہی ہے جو افغانستان میں امریکی
فوجوں کی موجودگی کا مقصد ہے۔ ایران عراق میں استحکام اور امن چاہتا ہے۔ ایران
عراق میں ISIS اور القا عدہ
کا دوبارہ جنم دیکھنا نہیں چاہتا ہے۔ جس طرح ISIS کے بارے میں حقائق بتانے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ کون ISIS کی پشت پر ہے؟ صدر ٹرمپ جن کا
انتخابی مہم کے دوران انتہائی سخت رویہ تھا۔ لیکن ISIS پر انہیں بریفنگ کے بعد صدر ٹرمپ کے رویے میں بھی
نرمی آ گئی ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ ISIS اور دوسرے دہشت گروپوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ اور یہ اہم
ہے۔
امریکہ کی سخت بندشوں کے ذریعے حکومتوں
کو کمزور کرنے اور پھر انہیں گرانے کی حکمت عملی کے مقابلے میں طالبان کی ایک
انتہائی طویل جنگ کے ذریعے امریکہ کو تھکانے اور پھر امریکہ کو مجبور ہو کر ان کے
سامنے آ کر بھیٹنے کی حکمت عملی تھی۔ طالبان جب کمزور تھے اور امریکہ کے لیے ان سے
اپنی شرائط پر سمجھوتہ کرنا بھی آسان تھا۔ صدر بش نے دنیا فتح کرنے کے گھمنڈ میں
وہ موقعہ کھو دیا تھا۔ امریکہ کی دو انتظامیہ 16 سال تک افغانستان میں طالبان سے لڑتی
رہیں۔ اور افغان مسئلہ کا کوئی حل تلاش نہیں کر سکی تھیں۔ بہرحال صدر ٹرمپ کی
افغان جنگ جاری رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ ہر صورت میں افغانستان سے فوجیں نکالنا
چاہتے ہیں۔ امریکہ کے سابق فوجی جنہیں 18 سال میں 6مرتبہ اور بعض 9مرتبہ افغانستان
بھیجا گیا تھا۔ وہ سب اب Get
out from Afghanistan کے مطالبے کر رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف پینٹ گان میں اعلی فوجی افسر
ہیں جو افغانستان سے فوجیں واپس بلانے میں ذرا محتاط ہیں۔ ان کیے خیال میں
افغانستان میں حالات ابھی خطرے سے باہر نہیں ہیں۔ اور امریکی فوجوں کے انخلا سے وہ
سارا سسٹم گر سکتا ہے جس کی 19سال سے تعمیر نو کی جا رہی ہے۔ 19سال قبل جب
افغانستان فوجیں بھیجی گئی تھیں اس وقت حالات اتنے خراب نہیں تھے کہ جتنے
افغانستان سے فوجیں نکالنے کی صورت میں حالات خطرناک ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
افغانستان میں خطرہ یہ ہے کہ افغانستان
بری طرح تقسیم ہے۔ تا جک از بک ایک طرف ہیں۔ پشتون اور طالبان دوسری طرف ہیں۔ وار
لارڈ ز اور حکومت تیسری طرف ہیں۔ شیعہ ہزارہ اور سنی چوتھی طرف ہیں۔ صدر بش نے طالبان کا
اقتدار ختم کرنے میں تا جک اور از بک جو شمالی اتحاد تھا انہیں استعمال کیا تھا۔ اور
طالبان کو فوکس کیا تھا کہ ان کا مکمل خاتمہ کیا جاۓ گا۔ صدر ٹرمپ نے تا جک اور از
بک کو نظر انداز کیا ہے۔ اور طالبان کو فوکس کیا ہے تاکہ ان کے ساتھ سمجھوتہ کیا
جاۓ اور افغانستان سے فوجیں نکالی جائیں۔ اور سمجھوتہ کے نکات بھی بہت مختصر ر کھے
ہیں۔ جیسا کہ طالبان سے مذاکرات کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زالمے خلیل زاد نے کہا ہے " ہم معاہدے کے بہت قریب ہیں۔ اس
سے تشدد میں کمی ہو گی۔ اور افغانوں کے لیے ساتھ بیٹھ کر ایک با وقار اور قابل
استحکام امن اور ایک متحدہ خود مختار افغانستان کو برقرار رکھا جاۓ گا جو امریکہ
اس کے اتحادیوں اور کسی بھی دوسرے ملک کے لیے خطرہ نہیں بنے گا۔ " اگر طالبان
کے ساتھ امریکہ کے معاہدہ کا صرف یہ مختصر لب لباب ہے تو یہ افغانستان میں امن اور
استحکام کی ضمانت نہیں ہو گا۔ اس معاہدہ میں افغان معاشرے کی تقسیم ختم کرنے کا
کوئی حل نہیں ہے۔
امریکہ اور طالبان میں تقریباً ایک
سال سے افغان جنگ ختم کرنے کے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ ان مذاکرات کا ایک فائدہ یہ ہوا
ہے کہ امریکہ اور طالبان کو ایک دوسرے کا موقف سمجھنے کا موقعہ ملا ہے۔ جس کے
نتیجہ میں دونوں فریقوں میں کچھ لچک آئی ہے۔ اور امریکہ اب طالبان سے سمجھوتہ کرنے
کے بہت قریب آ گیا ہے۔ لیکن امریکہ کو یہاں رک کر اب طالبان سے تا جک، ازبک اور
ہزارہ کے ساتھ اپنے تمام پرانے اختلافات ختم کرنے اور ان کے ساتھ امن سمجھوتہ کرنے
کا کہا جاۓ۔ طالبان تا جک، از بک اور ہزارہ کے درمیان امن معاہدہ ہونے کے بعد پھر امریکہ کو
افغان وار لارڈ ز سے طالبان کے ساتھ امریکہ کے سمجھوتہ اور تا جک ازبک ہزارہ کے
ساتھ طالبان کے معاہدہ کی مکمل حمایت اور انہیں کامیاب بنانے کی ضمانت لی جاۓ۔
افغانستان کے امن اور استحکام کی کوششوں میں افغان وار لارڈ ز کے انتشار پھیلانے
کے کردار پر انہیں Stern warning دی جاۓ۔ طالبان
کے بعض گروپ وار لارڈ ز کی ملیشیا ہیں۔ اور وار لارڈ ز کی Underground Drug Economy کے لیے کام کرتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے
بعض حکومتوں کے خلاف ان کا گلہ گھوٹنے والی اقتصادی بندشیں لگائی ہیں۔ لیکن حیرت
کی بات ہے کہ افغان وار لارڈ ز کی Underground Drug Economy جو افغانستان میں Nuclear Weapons سے کم خطرہ نہیں ہے۔ اس سے امریکہ نے بالکل منہ موڑ لیا ہے۔
No comments:
Post a Comment