Middle East Peace Plan “Deal
of the Century”, If Nothing Is In The Plan For Palestinians And Islamic World
To Establish Relations With Israel, It Means They Will Justify Israel’s Seventy
Year Aggression Against Palestinians
For Seventy Years in
Palestine, Muslims, and Christians are fighting together against Israel’s military
occupation, for freedom, for self-determination, and an independent state of
Palestine. The longest struggle of the century; in this struggle every
Palestinian family has lost one or many loved ones. Islamic leaders should respect
their sacrifices and think what would be their feelings if they will establish
relations with Israel.
مجیب خان
Iranian Jews in Iran |
Palestinian: Life under Israeli occupation |
ایک ایسے مقام پر کہ جب اسرائیل نے فلسطینیوں کا سب کچھ چھین لیا ہے۔ ان کے گھر،
ان کی دھرتی، ان کا حق آزادی، ان کی نقل و حرکت، ان کا مستقبل، غرضیکہ ان کا سب
کچھ اسرائیل کے کنٹرول میں ہے۔ پاکستان اور دوسرے اسلامی ملکوں کا اسرائیل کے ساتھ
تعلقات بحال کرنے کا مطلب فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے تمام فیصلوں کو جائز قرار
دینا ہو گا۔ فلسطینیوں کے علاقوں پر اسرائیل کا فوجی قبضہ بھی جائز ہو گا۔ فلسطینیوں کے گھروں کو تباہ کر کے ان کی جگہ
نئی یہودی بستیاں تعمیر کرنے کا فیصلہ بھی درست سمجھا جاۓ گا۔ اسرائیل کی عربوں کے
خلاف جارحیت کو بھی قانونی حیثیت مل جاۓ گی۔ اور فلسطینیوں کے ساتھ ناانصاف یاں ہونے
کا یہ ایک نیا مثالی نظام قانون ہو گا۔ فلسطینیوں کی 5 نسلیں اسرائیلی فوجی قبضہ
میں پیدا ہوئی ہیں۔ 3نسلیں صرف اس انتظار میں مر گئی کہ ایک دن ان کے بچوں کو Foreign military occupation سے
آزادی ملے گی۔ اور ان کی اپنی Motherland آزاد ہو
گی۔ تاریخ میں دنیا نے انسانیت پر بڑے مظالم دیکھے ہیں۔ لیکن نسل در نسل انسانیت
پر ایسا ظلم نہیں دیکھا ہو گا۔ ان حالات میں کہ جب فلسطینی شدید احساس محرومی کا
شکار ہیں۔ اسلامی ملکوں کا اسرائیل سے تعلقات قائم کرنا فلسطینیوں کو احساس محرومی
کا زہر دینا ہو گا۔ اسلامی ملکوں کا یہ فیصلہ فلسطینیوں کی 70سال کی قربانیوں پر
جھاڑو دینا ہو گا۔ پاکستان 1948 سے فلسطینیوں کی ایک آزاد ریاست کے قیام کے لیے جد
و جہد کی حمایت کر رہا ہے۔ اور 70سال میں پاکستان کی اس پالیسی میں کوئی تبدیلی
نہیں آئی ہے۔ پاکستان نے ہر عالمی ادارے میں کشمیر کے ساتھ فلسطین کی آزادی کا
ایشو بھی ہمیشہ اٹھایا ہے۔ 1970s میں یہ پاکستان
کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ جن کی کوششوں سے PLO کو اقوام متحدہ میں Observer کا درجہ دیا گیا تھا۔ اور چیرمین یا سر عرفات نے پہلی مرتبہ اقوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا تھا۔ وزیر اعظم بھٹو نے فلسطینی کا ز کی بھر پور
حمایت کی تھی۔ چیرمین یا سر عرفات وزیر
اعظم بھٹو سے صلاح و مشورہ کرنے اکثر اسلام
آباد آتے تھے۔ پاکستان کو آج بھی اسی جذبہ اور خلوص سے فلسطینیوں کے موقف کی حمایت
جاری رکھنا چاہیے۔ پاکستان کو دوسرے اسلامی ملکوں کو بھی
موجودہ حالات میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کر کے فلسطینیوں کو تنہا کرنے سے
روکنا چاہیے۔
اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے سے اسلامی
ملکوں کو کیا حاصل ہو گا؟ مڈل ایسٹ کے جو حالات ہیں وہ اپنی جگہ رہیں گے۔ اسرائیل
کے ساتھ تعلقات بحال ہونے سے فلسطین اسرائیل تنازعہ کے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوں
گے۔ جنگ کی باتیں ہوتی رہیں گی۔ حالات اسی طرح کشیدہ رہیں گے۔ مصر نے 40 سال قبل
اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔ اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔ مصر نے یہ
فیصلہ صرف امن، خطہ میں استحکام اور اسرائیل کے ساتھ خیر سگالی کے مفاد میں کیا
تھا۔ لیکن 40 سال میں مصر کو اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے سے کیا ملا ہے۔ اسرائیل
کے ساتھ امن معاہدہ کرنے پر مصر کو پابندی سے صرف امریکہ کی 1.5بلین ڈالر سالانہ
امداد ملتی ہے۔ خطہ کے امن اور استحکام میں کوئی فرق نہیں ہے۔ مصر اور اسرائیل میں
People to people relations ابھی تک قائم نہیں ہوسکے ہیں۔ مصر میں کئی صدیوں
بعد عوام کی جمہوریت آئی تھی۔ لیکن اسرائیل نے مصری عوام کی جمہوریت کے خلاف سازش
کر کے اس کا تختہ الٹ دیا اور فوج کی حکومت مصری عوام پر مسلط کر دی۔ کئی ہزار
مصری جیلوں میں ہیں۔ کئی سو مصریوں کو موت کی سزائیں دی گئی ہیں۔ مصر کے ساتھ
اسرائیل نے صرف اپنی سیکیورٹی کے مفاد میں سمجھوتہ کیا تھا۔ اور اسے اسی حد تک
محدود رکھا ہے۔ اسی طرح 26سال قبل ار دن نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے۔ ار دن نے مغربی کنارے میں فلسطینیوں
کی ریاست قائم کرنے کے لیے مغربی کنارے سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ جس پر
اب اسرائیل کا فوجی قبضہ ہے۔ ار دن میں ایک بڑی آبادی فلسطینیوں کی ہے۔ اور
اسرائیل کا مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے فلسطینیوں کو ار دن میں دھکیلنے کا منصوبہ
ہے۔ ار دن کے لوگوں کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال ہونے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ مصری عوام
کی طرح ار دن کے عوام بھی فلسطین اسرائیل تنازعہ کی کشیدگی میں ہیں۔ جب تک خطہ میں
اس تنازعہ کا کوئی سد باب نہیں ہو گا اسلامی ملکوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم
کرنے سے کوئی فرق نہیں آۓ گا۔ یہ تعلقات اسلامی حکومتوں اور اسرائیل حکومت کی حد تک محدود رہیں گے۔ لیکن کشیدگی دونوں طرف عوام
میں رہے گی۔
اسلامی دنیا کے امریکہ اور یورپ کے
یہودیوں سے اچھے تعلقات ہیں۔ اسلامی دنیا ان کے ساتھ کاروبار کرتی ہے۔ اپنے ملکوں
میں ان کا خیر مقدم کرتی ہے۔ امریکہ اور یورپ اکثر اپنے یہودی شہری اسلامی ملکوں میں اپنے سفیر نامزد کر
تے ہیں۔ ان کے سفارتی عملہ میں بھی یہودی ہوتے ہیں۔ مقامی لوگ ان کے ساتھ بڑے فرینڈ
لی ہوتے ہیں۔ وہ یہودیوں کو اپنی طرح انسان سمجھتے ہیں۔ پھر عرب اسلامی ملکوں میں
مقامی عرب یہودی بھی ہیں۔ جو مختلف عرب ملکوں میں پھیلے ہوۓ ہیں۔ ان کا مذہب مختلف
ہے لیکن زبان، لباس اور ثقافت عرب ہے۔ صدیوں سے یہاں آباد ہیں اور صدیوں یہاں آباد
رہیں گے۔ یہ مرا کش، تونس، الجیریا، شام یمن، ترکی ایران میں آباد ہیں۔ شام میں خانہ جنگی
سے شامی یہودی عیسائی اور مسلمان سب بری طرح متاثر ہوۓ ہیں۔ ان کے گھر اور خاندان
تباہ ہو گیے ہیں۔ اسی طرح یمن کی جنگ میں بھی بے گناہ مسلمانوں کے ساتھ یمنی یہودی
بھی مارے جا رہے ہیں۔ Iran’s
Jewish community is the largest in the Middle East outside Israel. Jews have
been in Iran since about the 8th century BC.
انقلاب کے بعد ایرانی یہودی امریکہ اور یورپ چلے گیے تھے۔ لیکن اب بھی ایران میں ایک بڑی تعداد میں
ایرانی یہودی ہیں۔ ان کے Synagogue ہیں۔ انہیں
مذہبی آزادی ہے۔ مکمل آزادی سے یہ اپنے مذہبی تہوار مناتے ہیں۔ ایرانی مسلمانوں کے
ساتھ ایرانی یہودی بھی امریکہ کی سخت ترین اقتصادی بندشوں اور ایران کے خلاف
اسرائیلی جارحیت کا شکار بنے ہوۓ ہیں۔ اسرائیلی حکومت نے 2007 میں ایرانی یہودیوں
کو ایران چھوڑنے کے لیے 60ہزار ڈالر دینے کی پیشکش کی تھی۔ لیکن ایرانی یہودیوں نے
اسرائیل کے 60ہزار قبول کرنے کے بجاۓ ایران میں خوش رہنے کو فوقیت دی تھی۔ مقامی
ثقافت میں یہودی مسلمان اور عیسائی زیادہ فرق محسوس نہیں کرتے ہیں۔ مذہب ان کے
درمیان ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔
صدر ٹرمپ اس ماہ کے آخر میں اپنا مڈل
ایسٹ پلان پیش کریں گے۔ اس پلان میں اگر فلسطینیوں کے Self-determination کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ ان کی
ایک آزاد ریاست کے قیام کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ اور ان کی آزادی کا فیصلہ اگر
اسرائیل سے کرنے کا کہا جاتا ہے۔ اس صورت میں اسلامی ملکوں کو یہ پلان قبول نہیں
کرنا چاہیے۔ اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات بحال کرنے کو فلسطینیوں
کی آزاد ریاست کے قیام سے منسلک کرنا چاہیے۔ اور اپنے فیصلوں پر عملدرامد کرانے کے
لیے اسلامی ملکوں کو لچک دار بننے اور پیچھے ہٹنے کی سیاست ترک کرنا ہو گا۔ 70 سال سے اسلامی ملک دنیا میں امریکہ کے
مسئلہ حل کر رہے ہیں۔ لیکن امریکہ نے ابھی تک اسلامی ملکوں کا ایک مسئلہ تک حل
نہیں کیا ہے۔ اب امریکہ سے مسئلہ حل کرانے کا وقت آ گیا ہے۔
No comments:
Post a Comment