Sunday, September 15, 2019

Thank God, John Bolton Is Gone and The World Is Saved. Bombs Will Not Fall on Iran, Regimes Will Not Change in Iran, North Korea, and Venezuela, Long Live People



  Thank God, John Bolton Is Gone and The World Is Saved. Bombs Will Not Fall on Iran, Regimes Will Not Change in Iran, North Korea, and Venezuela, Long Live People    
 
Condoleezza Rice, America’s Worst National Security Advisor, And Architects  
of America's Longest War, Afghan War will Continue Until the Complete Annihilation of The Taliban; No Talk with Taliban, No Political Solution  
 
مجیب خان

President Trump fire National Security Advisor John Bolton

President George W. Bush's  National Security Advisor  


 
  وائٹ ہاؤس میں اگر ایک دوسرا بش ہوتا اور John Bolton اس کے قومی سلامتی امور کے مشیر ہوتے تو مڈل ایسٹ میں اس وقت ایک اور نئی جنگ ہو رہی ہوتی۔ ایران پر بم برس رہے ہوتے۔ بے گناہ شہری مر رہے ہوتے۔ شہر کھنڈرات بن چکے ہوتے۔ مڈل ایسٹ کا نقشہ ناقابل بیان ہوتا۔ لیکن خدا کا شکر ہے۔ دنیا ایک نئی جنگ سے بچ گئی ہے۔ John Bolton اب قومی سلامتی کے مشیر نہیں ہیں۔ امریکہ اور دنیا کی سلامتی محفوظ ہے۔ ایسے لوگ جنہوں نے عراق جنگ، لیبیا جنگ، شام جنگ، یمن جنگ میں رول ادا کیے ہیں۔ اور جن کی غفلت سے طالبان کو جنگ میں شکست ہونے کے بعد طالبان کو امریکہ کو شکست دینے کا موقعہ ملا  ہے۔ ان کی وائٹ ہاؤس، قومی سلامتی امور، پینٹ گان اور ھوم لینڈ سیکیورٹی جیسے اہم اداروں میں تقریر یاں نہیں ہونا چاہیے۔ John Bolton قومی سلامتی امور میں صرف ایک ایجنڈا لے کر آۓ تھے کہ ایران میں Regime change کس طرح ممکن بنایا جاۓ۔ مڈل ایسٹ میں ایران اسرائیل کے راستہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ جارج بش کی قومی سلامتی ٹیم کے  مشوروں پر عراق  تباہ کیا تھا۔ لیبیا اور شام اوبامہ انتظامیہ کی قومی سلامتی ٹیم کے مشورے سے تباہ ہوۓ ہیں۔ ان ملکوں کے تباہ ہونے سے اسرائیل طاقتور ہوا ہے۔ عرب ملک کمزور ہوۓ ہیں۔ ایران واحد ملک ہے جو اسرائیل کی طاقت کو چیلنج کر سکتا ہے۔ لہذا اسے اسرائیل کے راستہ سے ہٹانا ضروری ہو گیا ہے۔ 9/11 کے دن جو بچے پیدا ہوۓ تھے۔ آج وہ 18 سال کے ہو گیے ہیں۔ مارچ 2003 میں عراق پر امریکہ کے حملہ کے دن جو بچے پیدا ہوۓ تھے وہ دو سال بعد 18 سال کے ہو جائیں گے۔ امریکہ کی دو نسلوں کی پرورش جنگوں کے ماحول میں ہوئی ہے۔ اور یہ ان کا مستقبل ہے۔
 18 سال میں قومی سلامتی امور کا رول اور کارکردگی انتہائی بدترین اور Disastrous ہے۔ قومی سلامتی کے خطرات میں کمی نہیں، اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ کی قومی سلامتی امور ٹیم کے رول کو الزام دینے کے بجاۓ یہ کہا جا رہا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جو عالمی ادارے اور نظام وجود میں آۓ  ہیں۔ صدر ٹرمپ انہیں تباہ کر رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ صدر جارج بش کے Sovereign ملکوں پر Preemptive حملوں، Violations of Rule of Law ، قومی سلامتی کے نام پر غیر قانونی جنگیں، عالمی اداروں کی اہمیت اور قوانین ختم کرنے کے اقدامات تھے۔ امریکہ کی یہ پالیسیاں 18 سال سے ان اداروں اور عالمی نظام کو کمزور اور Destabilize کر رہی ہیں۔ 9/11 کے بعد regime change کے نام پر Preemptive wars ان اداروں اور عالمی نظام کو Dismantle کر رہی ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے بعد وجود میں آۓ تھے۔ صدر اوبامہ اور ان کی قومی سلامتی امور کی ٹیم نے صدر بش نے جو جنگیں شروع کی تھیں انہیں ختم کرنے کے بجاۓ ان میں نئی جنگوں کا اضافہ کیا تھا۔ دو انتظامیہ نے 16سال میں کوئی ایک جنگ ختم نہیں کی تھی۔ بن لادن کا قتل ہونے کے بعد ISIS وجود میں آ گئی تھی۔ جو القا عدہ سے بھی زیادہ خطرناک تھی۔ امریکہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قومی سلامتی امور کا جنگوں اور سلامتی کے بارے میں Judgement غلط ثابت ہو رہا تھا۔ افغانستان پر حملہ کرنے سے پہلے پینٹ گان میں ان روسی جنرلوں سے جو افغانستان میں لڑے تھے یہ پوچھا گیا تھا کہ انہوں نے افغانستان میں کیا غلطیاں کی تھیں جو ان کی شکست کا باعث بنی تھیں۔ لیکن نظر یہ آ رہا تھا کہ بش انتظامیہ کی قومی سلامتی ٹیم کے سیاسی جنرلوں نے طالبان کا اقتدار ختم ہونے کے بعد ان سے بڑے Blunders کیے تھے۔ قومی سلامتی امور کی مشیر Condoleezza Rice کو افغانستان کی تاریخ، ثقافت، اور قبائلی سسٹم کا بالکل علم نہیں تھا۔ قبائلوں میں جب لڑائی ہوتی ہے تو یہ صدیوں جاری رہتی ہے۔ افغانوں نے کبھی اپنی سرزمین پر غیر ملکی فوجوں کا خیر مقدم نہیں کیا تھا۔ لیکن پہلی  مرتبہ طالبان کے خلاف افغانوں نے امریکی فوجوں کا خیر مقدم کیا تھا۔ اس وقت طالبان کمزور تھے۔ ان کی تحریک سیاسی انتشار میں تھی۔ اور طالبان سے امریکہ اور افغان عوام کی شرائط پر سمجھوتہ ممکن ہو سکتا تھا۔ افغان جنگ بھی چند سالوں میں ختم ہو جاتی۔ لیکن قومی سلامتی امور کی مشیر Condoleezza Rice کا Judgement یہ تھا کہ طالبان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ امریکہ اور نیٹو سے مقابلہ میں زیادہ عرصہ survive کر سکیں گے۔ شاید اس غلط فہمی میں قومی سلامتی امور کی مشیر کونڈا لیزا رائس نے طالبان سے کوئی مذاکرات نہ کرنے اور ان کا مکمل خاتمہ ہونے تک جنگ جاری رکھنے کا کہا تھا۔ جبکہ Common sense اس کے برعکس تھا۔ قومی سلامتی کی مشیر کونڈا لیزا رائس شاید یہ بھول گئی تھیں طالبان جب امریکہ کے اتحادی تھے اور کمیونسٹ فوجوں لڑ رہے تھے تو یہ مجاہدین تھے اور انہیں سی آئی اے نے تربیت دی تھی۔ اور یہ اب طالبان ہیں اور اپنی اس تربیت کو یہ امریکہ کے خلاف استعمال کر رہے تھے۔
  افغان Blunder کے بعد قومی سلامتی ٹیم کا دوسرا بڑا Blunder عراق تھا۔ اول، عراق جنگ غیر قانونی تھی۔ دوسرے بغداد میں Regime change کرنے کا فیصلہ غلط تھا۔ خلیج کی پہلی جنگ میں بڑے بش کے قومی سلامتی امور کے مشیر  Brent Scowcroft کا بغداد نہ جانے اور Regime change نہ کرنے کا Judgement بہت صحیح تھا کہ اس سے عراق عدم استحکام ہو  گا اور مڈل ایسٹ میں نئے مسائل پیدا ہوں گے۔ اقوام متحدہ کا عراق کے بارے میں  Mandate  بھی اس کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ قومی سلامتی امور کے مشیر Scowcroft کے فیصلے میں قانون کا احترام تھا۔ نئے مسائل پیدا کرنے سے گریز تھا۔ حالات کو قابو میں رکھنے کا عزم تھا۔ عراق میں صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد صدر بش نے بغداد میں اپنی حکومت بنا لی تھی Condoleezza Rice یہاں بھی ان کی (عراق) سلامتی امور کی مشیر تھیں۔ بغداد میں تمام وزارتوں سے عراقیوں کو نکال دیا تھا۔ عراقی فوج اور پولیس کے ادارے ختم کر دئیے تھے۔ اور نیویارک کے ایک سابق پولیس چیف کو بغداد میں تعین کر دیا تھا۔ برطانیہ جو عراق میں ایک کلیدی اتحادی تھا۔ اسے بغداد سے دور بصرہ اور موصل میں شیعاؤں اور سنیوں کے درمیان جنگ کی دیکھ بھال کرنے کا کام دے دیا تھا۔ اور بغداد حکومت میں برطانیہ کو کوئی نمائندگی نہیں دی تھی۔ بش انتظامیہ کی قومی سلامتی ٹیم کا یہ ایک Blunder کے بعد دوسرا Blunder تھا۔ عراق جنگ میں برطانیہ کے 600 فوجی مارے گیے تھے۔ ان فوجیوں کی مائیں آج بھی اپنے Loved ones کو یاد کر کے روتی ہیں۔ اور وزیر اعظم ٹونی بلیر سے سوال کرتی ہیں کہ عراق نے ہمارے خلاف کیا کیا تھا؟  صدر جارج  بش اور صدر اوبامہ کی قومی سلامتی امور کی ٹیم  میں اس ذمہ داری کے ساتھ Judgement کی صلاحیت نہیں تھی۔ بش انتظامیہ کی قومی سلامتی ٹیم نے افغان اور عراق جنگوں سے دہشت گردی کو زندہ رکھا تھا۔ اور اوبامہ انتظامیہ کی قومی سلامتی ٹیم نے لیبیا اور شام کو Destabilize کر کے دہشت گردی کو یورپ کے شہروں میں پہنچایا تھا۔ دنیا حیران اور پریشان تھی کہ امریکن یہ کیا کھیل کھیل رہے تھے۔ روس اور چین نے شام کے مسئلہ پر دو مرتبہ امریکہ کی قرارداد صرف عالمی قوانین اور اداروں کو بچانے کے لیے ویٹو کیا تھا۔ خطہ اور دنیا کے نظام کو Destabilize کرنے سے روکنے کے لیے ویٹو کیا تھا۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ طاقت دیکھانے میں بش انتظامیہ سے آ گے رہنے کے مقابلے میں تھی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے اتحادیوں کو روس سے مڈل ایسٹ بالخصوص شام میں مداخلت کے لیے کہنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ شام کو بچانے میں مسلم ملکوں اور پیشتر یورپی ملکوں روس کی مکمل حمایت کی تھی۔ شام کے مسئلہ پر اوبامہ انتظامیہ کی قومی سلامتی ٹیم کا یہ احمقانہ فیصلہ تھا جبکہ مصر میں جمہوریت اور آزادی کا تختہ الٹ گیا تھا۔ ملٹری ڈکٹیٹروں کا نظام بحال ہو گیا تھا۔ ملٹری حکومت نے آزادی اور جمہوریت کے 900 سے زیادہ حامیوں کو جیلوں میں بند کر دیا تھا۔ انہیں اذیتیں دی جا رہی تھیں۔ انہیں موت کی سزائیں سنائی جا رہی تھیں۔ اور امریکہ کا صدر خلیج کے دولت مند ڈکٹیٹر بادشاہوں کے ساتھ کھڑے ہو کر Butcher of Damascus has to go کر رہے تھے۔ حالانکہ کچھ عرب Botchers صدر امریکہ کی بغل میں کھڑے تھے۔
 اوبامہ انتظامیہ کی قومی سلامتی ٹیم کو لیبیا پر حملہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ جبکہ بش انتظامیہ نے لیبیا کے ساتھ تمام معاملات طے کر لیے تھے۔ صدر قد ا فی نے اپنے تمام مہلک ہتھیاروں کو امریکہ کے حوالے کر دیا تھا۔ صدر قد ا فی اسلامی دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی مدد بھی کر رہے تھے۔ اسلامی دشت گردوں نے امریکہ پر صرف ایک حملہ کیا تھا۔ لیکن صدر قد ا فی اور ان کی حکومت کے خلاف اسلامی دہشت گرد 40 سال سے حملے کر رہے تھے۔ امریکہ کی قومی سلامتی ٹیم مڈل ایسٹ میں لبرل، سیکو لر اور قوم پرست (جو اب یورپ میں مقبول ہو رہے ہیں) حکومتوں کے خلاف Regime change پالیسیاں اختیار کر رہی تھی۔ اور دوسری طرف دنیا میں اسلامی دہشت گردی سے خطروں کا واویلا تھا۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ کی قومی سلامتی ٹیم قد ا فی حکومت کے خلاف اسلامی انتہا پسندوں کی حمایت کر رہی تھی۔ انہیں ہتھیار دے رہی تھی۔ لیبیا کو Destabilize کرنے میں ان کی مدد کر رہی تھی۔ حالانکہ قد ا فی حکومت کے اعلی حکام اوبامہ انتظامیہ کو Warn کر رہے تھے کہ القا عدہ ان کی حکومت کا خاتمہ کر کے لیبیا کو اسلامی ریاست بنانا چاہتی ہے۔ لیکن صدر اوبامہ اور ان کی قومی سلامتی ٹیم نے قد ا فی حکومت کی ان اپیلوں کو بالکل Ignore کر دیا تھا۔ امریکہ کے پہلے Black President نے اسے بھی Ignore کر دیا تھا کہ قد ا فی حکومت Black Africa کی ترقی میں Petro-Dollar Invest کر رہی تھی۔ لیکن پھر جب فرانس اور یورپ کے ملکوں میں بم پھٹنے لگے تو اوبامہ انتظامیہ کی قومی سلامتی ٹیم نے ISIS کو ان دھماکوں کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ امریکی انتظامیہ کے صرف ایک غلط فیصلہ سے لیبیا کے بے گناہ لوگ نہیں بلکہ لیبیا کے اطراف میں ملکوں کے ہزاروں اور لاکھوں خاندانوں کی زندگیاں بھی بری طرح متاثر ہوئی تھیں۔ ان ملکوں کے ہزاروں لوگ لیبیا کی آئل انڈسٹری میں کام کرتے تھے اور اپنے خاندانوں کو پالتے تھے۔ چڈ، مالی، نائجر اور بعض دوسرے ملکوں میں جیسے اقتصادی سو نامی آ گئی تھی۔ امریکہ کی قومی سلامتی ٹیم کے اس ایک غلط فیصلے نے لوگوں کو القا عدہ، الشہباب، ISIS  میں بھرتی ہونے کی طرف دھکیلا تھا۔ دہشت گرد گروپوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔ دہشت گردی کا فروغ ہو رہا تھا۔ دنیا میں Chaos, Anarchy, Violence   بڑھتا جا رہا تھا۔ جب امن نہیں ہوتا ہے اور جنگیں بہت ہوتی ہیں پھر لوگ بھی Violent ہونے لگتے ہیں۔
 قومی سلامتی کا رول کلنٹن انتظامیہ کے آخری قومی سلامتی امور کے مشیر Sandy Berger کے دور میں بدل گیا تھا۔ صدر کلنٹن کو اسکینڈل کی تحقیقات اور Impeachment نے گھیر لیا تھا۔ اور Sandy Berger قومی سلامتی امور کے فیصلے کرتے تھے۔1990s  میں امریکہ کے خلاف دہشت گردی کے کئی واقعات ہو چکے تھے۔ جن میں امریکہ کے کئی سو فوجی ہلاک ہو ۓ تھے۔ کلنٹن انتظامیہ  امریکہ کے خلاف دہشت گردی کے ہر واقعہ کا ذمہ دار بن لادن کو ٹھہراتی تھی۔ سعودی عرب میں امریکہ کے ملٹری بیس پر القا عدہ کے حملے کے بعد  سعودی حکومت نے بن لادن کو ملک سے نکال دیا تھا۔ بن لادن سوڈان آ گیا تھا۔ سوڈان کی حکومت نے کلنٹن انتظامیہ کو بن لادن کی سوڈان میں آمد کی اطلاع دی تھی اور کلنٹن انتظامیہ سے بن لادن کو سوڈان سے لے جانے کا کہا تھا۔ لیکن سوڈان کی حکومت کو یہ پیغام دیا گیا کہ وہ بن لادن کو سوڈان سے نکال دیں۔ پھر سوڈان سے بن لادن افغانستان جاتا ہے لیکن سی آئی اے نے اسے پکڑنے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ امریکہ کی قومی سلامتی ٹیم اگر چاہتی تو بن لادن اور اس کے تمام ساتھیوں کو افغانستان سے بھی پکڑ سکتی تھی۔ افغانستان کی سرحدیں کھلی ہوئی تھیں۔ ہر طرف لاقانونیت تھی۔ افغانستان میں القا عدہ اور طالبان کے مخالفین بھی بہت تھے۔ لیکن قومی سلامتی ٹیم کسی اور منصوبے پر کام کر رہی تھی۔ اگر ا سا مہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کو سوڈان یا افغانستان سے پکڑ لیا جاتا تو پھر 9/11 نہیں ہوتا۔ 3ہزار لوگ نہیں مرتے۔ دنیا بھی پھر کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ بن لادن کو نہیں پکڑنے پر سی آئی اے کے ڈائریکٹر جارج ٹینٹ کو صدر بش نے امریکہ کا سب سے بڑا ایوارڈ دیا تھا۔ اور دنیا میں بن لادن کو پکڑنے والے کو 50ملین ڈالر دینے کا اعلان کیا تھا۔ کانگریس اور سینیٹ نے بن لادن کو پکڑنے میں Negligence کی کسی سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی تھی۔
 امریکہ کی قومی سلامتی ٹیم کا آخری Judgement بہت صحیح تھا جو جارج ایچ بش کی انتظامیہ میں کیا گیا۔ Brent Scowcroft قومی سلامتی امور کے مشیر تھے۔ اور انہوں نے کویت کو آزادی دلانے کے بعد امریکی فوجوں کو بغداد جانے سے روک دیا تھا۔ اور اس جنگ کا مشن صرف کویت کو عراقی فوجوں سے آزادی دلانے تک محدود رکھا تھا۔ بغداد میں Regime change اقوام متحدہ کی قراردادوں میں نہیں تھا۔ اور اس کا احترام کیا تھا۔ امریکہ کی شاید یہ آخری جنگ تھی۔ جو تمام عالمی قوانین کی حدود میں رہتے ہوۓ امریکہ نے اتحادیوں کے ساتھ لڑی تھی۔ اور یہ سب  کی کامیابی تھی۔ افغان، عراق، لیبیا، شام، یمن، نام نہاد دہشت گردی کی جنگیں دنیا کو انتشار اور تباہیوں میں رکھنے کی جنگ ہیں۔   
                   


No comments:

Post a Comment