Wednesday, September 25, 2019

This War, Threat of War, Military Boots on Foreign Soil, Inhuman Sanctions, Are Immoral, Uncivilized, Undemocratic, Methods to Solve Disputes, Conflicts, And Disagreements. Where Are America’s Great Values?



   This War, Threat of War, Military Boots on Foreign Soil, Inhuman Sanctions, Are Immoral, Uncivilized, Undemocratic, Methods to Solve Disputes, Conflicts, And Disagreements. Where Are America’s Great Values?
مجیب خان
World to unite against Iran's "Blood Lust". As long as Iran's menacing behavior continues, sanctions will not be lifted. they will be tightened. President Trump's address to the UN General Assembly, Sept 24, 2019  

 Iran aggressively pursues weapons of mass destruction and export terror, President Bush's Axis of evil speech to the UN General Assembly, Sept 2002   





   سعودی عرب کی Aramco آئل تنصیبات ور لڈ ٹریڈ سینٹر تھا۔ جس پر 9/14 کو 9/11 کے صرف 3 روز بعد رات کی تاریکی میں میزائلوں سے حملہ ہوا تھا۔ امریکہ میں اس وقت دن تھا۔ سعودی عرب میں جب دن کی روشنی آئی تو سعودی حکام کو بتایا گیا کہ ایران نے ان کے تیل کی تنصیبات پر 19 میزائل گراۓ تھے۔ ان میں سے کچھ میزائل ڈر ون سے گراۓ تھے۔ لیکن صرف دو میزائل آئل تنصیبات پر گرے تھے۔ جس سے آئل تنصیبات کا زبردست نقصان ہوا تھا۔ سعودی حکام کے مطابق صرف 5فیصد آئل پروڈکشن میں کمی ہوئی ہے۔ اور عالمی آئل فراہمی میں کوئی فرق نہیں آۓ گا۔ تنصیبات کی اس ماہ کے آخر تک مرمت مکمل ہو جاۓ گی۔ اور آئل کی پروڈکشن معمول کے مطابق ہونے لگے گی۔ سعود یوں نے کبھی جنگ نہیں لڑی تھی۔ صرف قبائلی لڑائیاں لڑنے کا ان کا کلچر ہے۔ جنگ میں ہمیشہ بھاری نقصانات ہوتے ہیں۔ سعودی امریکی،  برطانوی اور فرانسیسی ہتھیاروں سے یمن کو کھنڈرات بنا رہے تھے۔ لوگوں کی املاک تباہ کر رہے تھے۔ اسپتال اسکول سڑکیں تباہ کر رہے تھے۔ یمن غریب ترین ملک ہے۔ ان کے پاس World class companies and corporations نہیں ہیں کہ سعودی بمباری سے عالمی معیشت پر تباہ کن اثرات ہوتے۔ لیکن جنگ میں بچے عورتیں بوڑھے جوان مرتے ہیں اور املاک تباہ ہوتی ہیں۔ لیکن طاقتور اور مالدار قومیں انہیں زیادہ اہمیت نہیں دیتی ہیں۔ یا ایران کو الزام دینے لگے گے۔ اگر صد ام حسین عراق میں ہوتے تو انہیں الزام دینے لگتے۔ صد ام حسین کیونکہ بادشاہ نہیں تھا۔ اس میں اتنی انسانیت ضرور تھی کہ اس نے کویت پر قبضہ کرنے کے بعد کویت کو اس طرح کھنڈرات نہیں بنایا تھا کہ جیسے یمن اور شام کو انہوں نے کھنڈرات بنایا ہے۔ ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کی زندگیاں تہس نہس کی ہیں۔ تاہم ان میں یہ Guilt ہے جو ایران کو ان تباہیوں کے الزام دینے لگتے ہیں۔ صدر ٹرمپ تیسرے صدر ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں ایران کے بارے میں انتہائی سخت باتیں کی ہیں۔ دنیا کو ایران سے نفرت اور حقارت سے برتا ؤ کرنے کا کہا ہے۔ ان سے قبل صدر اوبامہ اور صدر اوبامہ سے قبل جارج بش نے بھی ایران کو ملعون کیا تھا۔ Axis of Evil کہا تھا۔ لیکن اس سے ایران پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ ایران کا جو مقام ہے وہ ہے۔ لیکن ایسی زبان استعمال کرنے سے امریکہ کے Greatness ہونے کا مقام ضرور گر گیا تھا۔ بغداد میں صدر بش پر جوتا پھینکا تھا۔ بلاشبہ America is the Great لیکن اس کے لیڈروں کے Low Behavior اور Cheap Talks سے امریکہ کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی سالانہ رپورٹ میں سعودی عرب میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ذکر ہوتا ہے۔ لیکن اب اقوام متحدہ کی رپورٹ میں سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کو یمن میں جنگی جرائم  میں ملوث ہونے کا بتایا گیا ہے۔ امریکی عوام کو جنگی جرائم میں امریکہ کا نام آنا پسند نہیں ہو گا۔ جنگی جرائم اگر کسی بڑے مقصد سے ہوتے تو شاید انہیں دوسری طرح دیکھا جا سکتا تھا۔  
  صدر ٹرمپ نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں ایران کے خلاف الزامات کی جو چار ج شیٹ دی ہے۔ اصل Facts اس کے بر عکس ہیں۔ 40 سال میں ایران نے اپنے اسلامی انقلاب کو اپنی سرحدوں میں رکھا ہے۔ اور اسے کسی عرب ملک میں پھیلانے کی کبھی کوشش نہیں کی تھی۔ جیسے سعودی عرب اپنا وہابی اور سلا فسٹ نظریاتی اسلام سارے اسلامی ملکوں میں پھیلا رہا تھا۔ 9/11 کے بعد اس پر بہت کچھ کہا گیا ہے اور بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ امریکہ کے اخبارات میں یہاں تک لکھا گیا تھا کہ امریکہ کو کسی طرح سعودی عرب کے تیل کی دولت کو کنٹرول کرنا چاہیے جسے سعودی حکومت اسلامی ملکوں میں مسجدوں اور مدرسوں میں وہابی نظریاتی اسلام فروغ دینے پر خرچ کرتی ہے۔ پھر یہ بھی کہا گیا تھا کہ عرب Repressive حکومتیں اپنے عوام کی توجہ مغرب سے نفرت کی طرف کر دیتی تھیں۔ شاید مغرب بالخصوص امریکہ نے اس کا یہ حل کیا ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کو یمن کی جنگ دے دی ہے۔ اور ان کے تیل کی دولت اس طرح کنٹرول کی جا رہی کہ انہیں کھربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا جا رہا ہے۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس نے 4سال میں یمن جنگ بند کرانے میں کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ اسرائیل کی جب بھی فلسطینیوں کے ساتھ جنگ ہوئی ہے۔ اور اسرائیل میں شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے امریکہ اور یورپی ملکوں نے  جنگ بندی کر آئی تھی۔ 80ہزار یمنی اس جنگ میں مارے گیے ہیں۔ جبکہ اتنی بڑی تعداد میں سعودی نہیں مارے گیے ہیں۔ اس جنگ کے دوران سعودی عرب میں نائٹ کلب اور Movie Theaters کھل گیے ہیں۔ یمن کے لوگ بھوک اور افلاس سے مر رہے ہیں۔ کسی نے یہ دیکھ کر سعودی آئل تنصیبات کو ٹارگٹ کیا ہے کہ جب سعودی عرب کے پاس Petrodollar نہیں ہوں گے تو نائٹ کلب اور Movie Theaters تعمیر نہیں ہوں گے۔ اور کھربوں ڈالر کا اسلحہ بھی نہیں خریدا جاۓ گا۔ جس سے 80ہزار بے گناہ یمن کے شہری مارے جا رہے تھے۔ اس حملہ پر ایرانی تہران کی سڑکوں پر خوشی سے ڈانس نہیں کر رہے تھے۔ سعودی آئل تنصیبات پر حملے سے ایران کو کیا حاصل گا؟ ایران پر امریکہ کی بندشیں لگی ہو ئی ہیں۔ سعودی آئل تنصیبات پر حملہ کی صورت میں ایران اپنے تیل کی پیداوار بڑھا کر اسے برآمد نہیں کر سکتا تھا۔ پھر ایران کا اس سے کو نسا مقصد پورا ہو سکتا تھا۔
  مڈل ایسٹ میں امریکہ کی جنگ ناکام ہوئی ہے۔ امریکہ کی ڈپلومیسی ناکام ہو گئی ہے۔ امریکہ کی کامیابیوں کی کچھ کوششوں کو اسرائیل نے ناکام بنایا ہے۔ اور کچھ کوششیں سعودی عرب نے سبوتاژ کی ہیں۔ اور امریکہ کو اپنی ناکامیوں کے الزام دوسروں کو دینے کی سیاست دی ہے۔ امریکہ کی اپنی اخلاقی اور جمہوری قدریں ہیں۔ کبھی ایسا نظر آتا ہے کہ امریکہ کی اخلاقی، جمہوری اور قانون کی بالا دستی کی قدریں Soviet Empire کے ملبہ میں دب گئی ہیں۔ اور امریکہ اب اسرائیل اور سعودی عرب کی انگلیوں پر ناچ رہا ہے۔ ان کی قدریں امریکہ کی قدریں بن گئی ہیں۔ عالمی برادری نے 2سال کی انتھک کوششوں کے بعد ایران کے ایٹمی پروگرام کا مسئلہ حل کیا تھا۔ جسے سلامتی کونسل نے ایک اہم قانونی دستاویز تسلیم کیا تھا۔ مڈل ایسٹ کا ایک اہم ترین مسئلہ حل ہو گیا تھا۔ ویسے تو مڈل ایسٹ میں تنازعوں کو حل کرنے کی کوئی روایت نہیں ہے۔ 70 ، 50 ،40 سال سے مڈل ایسٹ ہر طرح کے تنازعوں میں لٹکا ہوا ہے۔ صدر بش نے عراق میں مہلک ہتھیاروں کا مسئلہ جنگ سے حل کیا تھا۔ جس کے بعد صدر بش نے مڈل ایسٹ میں ایک ہزار نئی جنگیں پیدا کر دی تھیں۔ ایک ہزار نئے مسائل پیدا کر دئیے تھے۔ صدر ٹرمپ نے ایران کا ایٹمی سمجھوتہ  ختم کر کے مڈل ایسٹ میں تیسری عالمی جنگ کے حالات پیدا کر دئیے ہیں۔ امریکہ کے ان احمقانہ فیصلوں سے دنیا کو Fed Up دیکھ کر ایران کو الزامات دینے لگتے ہیں۔ الزام دینا مسئلوں کا حل نہیں ہے۔ ایک مسئلے کا پر امن حل ہوجا نے کے بعد اسے دوبارہ پہلے سے زیادہ بڑا مسئلہ بنانا اور پھر عالمی برادری سے ایران کے مسئلہ پر امریکہ سے تعاون کی اپیلیں کرنا۔ دنیا کو پاگل کرنا ہے۔
  صدر ٹرمپ کو اگر ایران کے ایٹمی سمجھوتہ میں کچھ خامی نظر آئی تھی تو اسے دور کرنے کے Civilize طریقے اختیار کیے  جا سکتے تھے۔ معاہدے کو برقرار رکھا جاتا۔ معاہدے پر عملدرامد جاری رہتا۔ معاہدے میں رد و بدل کے لیے مذاکرات ہوتے رہتے۔ آیت اللہ  خمینائی پہلے ہی ایٹمی ہتھیاروں کو بنانے اور رکھنے کے خلاف فتوی دے چکے تھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں تھا کہ ایران سمجھوتہ میں رد و بدل  پر آمادہ نہیں ہوتا۔ لیکن صدر ٹرمپ نے صرف دو ملکوں اسرائیل اور سعودی عرب کی مخالفت کی حمایت میں  ایک چھوٹے سے اختلاف کو پہاڑ بنا دیا ہے۔ دنیا بالخصوص مڈل ایسٹ جہاں پہلے ہی امن اور استحکام نہیں ہے ایک خطرناک عالمی جنگ کے دہا نے پر پہنچا دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں ایران کے بارے میں پیراگراف کہ “World to unite against Iran’s Blood Lust, as long as Iran’s menacing behavior continues, sanctions will not be lifted. They will be tightened.” اور 18 سال قبل صدر جارج بش کے جنرل اسمبلی سے خطاب میں ایران کے لیے Axis of Evil کے الفاظ اس کا واضح ثبوت ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کی پالیسی مڈل ایسٹ کے حالات کو تنازعوں میں رکھنے کی پالیسی ہے۔ 18سال ایک بہت بڑا عرصہ ہے۔ مسلمانوں کی ایک نسل کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ مسلمانوں کی ایک نسل امریکہ کے لیے افغانستان میں کمیونسٹوں کے خلاف جہاد میں تباہ و برباد ہو گئی تھی۔ سعودی عرب نے اسلام اور مسلمانوں کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ کمیونزم اور سوشلزم سے اسلام اور مسلمانوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچا تھا۔ روس میں مسلمان سعودی عرب سے زیادہ بہتر حال میں ہیں۔ صدر پو تن نے Chechnya دوبارہ تعمیر کر دیا جو 1990s میں خانہ جنگی میں کھنڈرات بن گیا تھا۔ Chechen Muslim خوش ہیں اور امن سے یہاں رہتے ہیں۔                 


No comments:

Post a Comment