Friday, October 11, 2019

America Had Invested $400 Million Dollars to Transform the Middle East into Freedom and Democracy, And Then Abandon It. Then Supported Violence in The Name of Freedom and Democracy



   America Had Invested $400 Million Dollars to Transform the Middle East into Freedom and Democracy, And Then Abandon It. Then Supported Violence in The Name of Freedom and Democracy

The Obama-Biden administration’s unwise Syrian adventurism, when in Egypt abandoned Freedom and Democracy, supporters of Democracy were in the military jails facing tortures and death penalties. And in Syria, the administration was supporting free Syrian army, fighting for Freedom and Democracy. In this endeavor, America’s allies are the Gulf’s authoritarian regimes and Israel which doesn’t believe in other people’s FREEDOM  
 مجیب خان

These Syrians are Fighting for Freedom and Democracy, but first, they destroying their country and families   



Egypt's first democratically elected President Mohamed Morsi [late] behind bars after being overthrown in 2013, Morsi was sentenced to death in 2015, forty years President Hosni Mubarak was America's closed allies, then America abandon him and embraced democratically elected President Mohamed Morsi, after four hundred days, America abandon him, now America has embraced General Abdel Fattah el- Sisi        





   شمال مشرقی شام سے امریکی  فوجی انخلا  پر صدر ٹرمپ کے فیصلے کی ڈ یمو کریٹس اور ری پبلیکن  پارٹیوں کے رہنماؤں کی طرف سے سخت مخالفت  ہو رہی ہے۔ اور دونوں پارٹیاں  اس اندیشہ کا اظہار کر رہی ہیں کہ شام میں ISIS دوبارہ ابھر آۓ گی۔ صدر ٹرمپ نے شمال مشرقی شام میں کر دو ں کو  Abandon کر دیا ہے۔ کرد شام  میں ISIS  کے خلاف لڑائی میں امریکہ کے قریبی اتحادی  تھے۔ Obama-Biden انتظامیہ نے ISIS سے لڑنے کے لیے ان کی ایک فوج بنائی تھی۔ انہیں تربیت اور ہتھیاروں سے مسلح کیا تھا۔ یہ کرد شام کے شہری تھے۔ دوسرے ملکوں کے شہریوں کو فوجی تربیت دینا اور ہتھیار دینا ایسا ہی ہے۔ جیسے دہشت گردوں کو پناہ  اور ہتھیار دینا ہے۔ شام کے کر دو ں کے ساتھ ترکی کے کرد بھی شامل ہو گیے تھے۔ ترکی کر دو ں کو دہشت گرد سمجھتا ہے۔ ترکی اپنی سرحد کے قریب مسلح کر دو ں کے Enclave کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ شمال مشرقی شام کے 3ملین شامی ترکی میں مہاجر کیمپوں میں ہیں۔ جو ترکی کی معیشت پر ایک بڑا بوجھ ہیں۔ اوبامہ- اسرائیل ایجنڈا شمال مشرقی شام Enclave میں کر دو ں کی ایک آزاد ریاست قائم کرنا تھا۔ اس لیے امریکہ نے شام کے کر دو ں کی فوج بنا دی تھی۔ پھر انہیں فوجی تربیت اور اسلحہ دیا تھا۔ ISIS سے لڑائی ختم ہونے کے بعد کر دو ں کو شام اور ترکی کی حکومتوں سے آزادی کی جنگ شروع کرنے کے لیے تیار کر دیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے سابقہ دو انتظامیہ کے اس گھناؤنے کھیل سے شام سے امریکی فوجیں نکال کر علیحدہ کر لیا ہے۔ اور اس پر دونوں پارٹیاں اب واویلا  کر رہی ہیں۔ کہ کر دو ں نے ISIS کے خلاف لڑائی میں اپنی جانیں دی ہیں۔ کئی ہزار کرد اس لڑائی میں مارے گیے ہیں۔ اور ترکی اب ان کر دو ں کا قتل عام کر دے گا۔ افغانوں نے کر دو ں سے زیادہ بڑی لڑائی کمیونسٹوں سے لڑی تھی۔ ایک لاکھ افغان اس جنگ میں مارے گیے تھے۔ ان کی قربانیوں کی وجہ سے امریکہ آج دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔ لیکن امریکہ میں کبھی ان کی قربانیوں کا اس طرح Acknowledgement نہیں کیا گیا تھا۔ شام میں انسانیت کا جو قتل عام ہو رہا تھا اس پر کسی نے کچھ نہیں کہا تھا۔ خاندان تباہ ہو رہے تھے۔ ان کے گھر، بستیاں اور شہر کھنڈرات بن رہے تھے۔ یہ تباہی صرف ایک شخص کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے ہو رہی تھی۔ شام کی حکومت اور لوگوں کے لیے یہ دہشت گردی تھی۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ اور Allies اسے آزادی کی لڑائی کہتے تھے۔ جبکہ دوسری طرف فلسطینی جو اسرائیل کے فوجی قبضہ سے آزادی حاصل کرنے کے لیے لڑ رہے تھے۔ ان کی لڑائی دہشت گردی تھی۔ شاید، دہشت گردی سے بڑا مسئلہ مڈل ایسٹ میں امریکہ کی یہ ناانصافی کی پالیسیاں ہیں۔ جو مڈل ایسٹ کے تنازعوں کے اندر نئے تنازعہ پیدا کر رہی ہیں۔ اور یہاں لوگوں کو ان کی حکومتیں انصاف دے رہی ہیں اور نہ ہی امریکہ ان کے ساتھ انصاف کر رہا ہے۔
  صدر ٹرمپ نے پچھلے سال بھی شام سے تمام امریکی فوجیں نکالنے کا اعلان کیا تھا۔ اور اس وقت بھی صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کی سخت مخالفت ہوئی تھی۔ جس کے بعد صدر ٹرمپ نے فیصلے پر عملدرامد روک دیا تھا۔ اب دس گیارہ ماہ میں شام کے شمال مشرقی حصہ کی صورت حال میں کونسی تبدیلی آئی ہے۔ حالات ابھی تک جوں کے توں ہیں۔ شمال مشرقی شام پر کر دو ں کا کنٹرول ہے۔ اور کئی ہزار ISIS قیدی ان کے قبضہ میں ہیں۔ امریکی فوجیں یہاں صورت حال کی صرف Baby sitting کر رہی تھیں۔ شام کو استحکام دینے کی Heavy lifting روس ایران اور ترکی کے کندھوں پر تھی۔ امریکی فوجی انخلا پر کر دو ں کی حمایت میں جس طرح آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ جیسے شمال مشرقی شام میں کر دو ں کا ایک Enclave وجود میں لایا گیا ہے۔ اوبامہ انتظامیہ نے شام کے شمال مشرقی حصہ میں Kurdish Defense Forces  YPG ایک آزاد کرد ستان کی فورس وجود میں آ گئی ہے۔ اور اسے ISIS سے لڑنے کی آ ڑ میں فوجی تربیت اور ہتھیار دئیے جا رہے تھے۔ اس میں ترکی کے کر دو ں کی PKK   سے تعلق رکھنے والے کرد بھی شامل ہو گیے تھے۔ انہیں بھی ISIS سے لڑنے کے آ ڑ میں فوجی تربیت اور ہتھیار دئیے جا رہے تھے۔ PKK کو ترکی کی حکومت نے دہشت گرد کر دو ں کی تنظیم قرار دیا تھا۔ اور امریکہ نے بھی اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ لیکن ISIS کے خلاف ترکی کے کرد بھی شام میں کر دو ں کے ساتھ شامل ہو گیے تھے۔ اور دوسری طرف PKK کے کر دو ں نے ترکی کے شہروں میں بموں کے دھماکہ کرنا شروع کر دئیے تھے جس میں سینکڑوں ترکی کے شہری ہلاک ہوۓ تھے۔ اسی دوران فوج نے ارد و گان حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی۔ فوج کے ٹرک اور ٹینک استنبول کی سڑکوں پر آ گیے تھے۔ ترکی نیٹو کا رکن تھا۔ اور نیٹو ملک ترکی کو Destabilize کر رہے تھے۔ ترکی کو Political Chaos میں دھکیل رہے تھے۔ PKK کے کر دو ں کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر صدر ارد و گان کو یہ کہنا پڑا تھا کہ 'امریکہ نے ان کی کمر میں چھرا گھونپا ہے۔' امریکہ کا اتحادی ہونا بھی خطرناک ہے اور امریکہ کا اتحادی نہ ہونا بھی خطرناک ہے۔ صدر  ارد و گان کو جلد ہی Bitter سبق ملنے کا احساس ہو گیا تھا۔ ترکی کا نیٹو میں اعتماد تقریباً  ختم ہو گیا تھا۔ صدر ارد و گان نے روس کے ساتھ تعلقات کو خصوصی اہمیت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ روس کی فوجیں شام میں تھیں اور روس ترکی کا ہمسایہ بن گیا تھا۔ صدر پو تن کی یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔ شام میں ایران اور ترکی روس کے قریبی اتحادی ہو گیے تھے۔ دونوں اس خطہ کے بڑے اور اہم ملک تھے۔  صدر اوبامہ نے شام میں روس کی فوجیں آنے پر کہا تھا کہ ' شام روس کے لیے Quagmire ہو گا۔' لیکن ایران اور ترکی کی وجہ سے  شام روس کے لیے Quagmire نہیں بنا تھا۔ روس کی یہ بہت بڑی کامیابی تھی کہ نیٹو افغانستان میں کمزور ہوا ہے۔ اور شام میں روس ترکی اتحاد سے نیٹو میں Crack آیا ہے۔ امریکہ کی ناکامیاں روس کی کامیابیاں ہیں۔ اور اس کا کریڈٹ امریکہ کی سابق دو انتظامیہ کو دیا جاۓ گا۔
  Obama-Biden انتظامیہ کو مصر میں جمہوریت   ہر صورت میں قائم رکھنا چاہیے تھی۔ عراق، شام اور لیبیا میں امریکہ کی پالیسی اور اقدام Back fire ہوۓ ہیں۔ مڈل ایسٹ  بدلنے کے بجاۓ امریکہ  بدل گیا ہے اور ڈو نالڈ ٹرمپ صدر بن گیے ہیں۔ سابقہ انتظامیہ میں مڈل ایسٹ میں کامیابیوں میں کو ئی پیش رفت نظر نہیں آتی ہے۔ فلسطینیوں کی آزادی میں امریکہ ناکام ہوا ہے۔ مصر میں جمہوریت کا خاتمہ امریکہ کی ناکامی ہے۔ افغانستان اور عراق  بش انتظامیہ کے Debacle اور شام اور لیبیا اوبامہ انتظامیہ کے Debacle ہیں۔ ایک کے بعد دوسرے  Ignominious failure کے بعد صدر ٹرمپ سابقہ انتظامیہ کی غلطیوں کو دوہرانا نہیں چاہتے ہیں۔ اس لیے صدر ٹرمپ نے ایران کے خلاف نئی جنگ شروع کرنے سے گریز کیا ہے۔ شمالی کوریا سے تصادم کی پالیسی تبدیل کی ہے۔ اور مصالحت کا رویہ اختیار کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کا شام سے فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ بالکل درست ہے۔ سعودی عرب میں آئل تنصیبات پر حملہ کے بعد Warmongers کو یہ پختہ یقین تھا کہ صدر ٹرمپ اب ایران کے خلاف فوجی کاروائی ضرور کریں گے۔ لیکن صدر ٹرمپ نے انہیں ایران پر حملہ نہیں کر کے مایوس کیا تھا۔ صدر ٹرمپ کو اس فیصلہ کی وجہ سے Whistle blower کی Whistle  سنا پڑی ہے۔ Warmongers شور مچا رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ امریکہ کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ صدر ٹرمپ کا ایران کے خلاف فوجی کاروائی نہیں کرنے کا فیصلہ صحیح تھا۔ جنگیں لوگوں کی سلامتی کے لیے خطرہ بنتی ہیں۔ صدر ٹرمپ کے ان فیصلوں کے نتیجے میں مڈل ایسٹ کے ملک امریکہ پر اب اپنا انحصار کم کریں گے۔ اور خطہ کے امن اور استحکام پر توجہ دیں گے۔ سعودی عرب نے ایران کے ساتھ بات چیت سے اختلافات ختم کرنے کا اظہار کیا ہے۔ Houthis کے ساتھ سعودی عرب  جنگ بندی پر تیار ہو گیا ہے۔ خلیج کے ملکوں کے ساتھ اسرائیل نے Non-aggression pact کرنے کا کہا ہے۔ جو ایران کی تجویز ہے۔ اور ایران خلیج کی سیکورٹی اور Non-aggression pact  پر ہمسایہ ملکوں سے سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
  Non-European Allies کو Abandon کرنے کی امریکہ کی نئی تاریخ نہیں ہے۔ افغانستان میں امریکہ کے لیے جو لڑے تھے اور جنہوں نے اپنی جانیں دی تھیں۔ انہیں سب سے پہلے امریکہ نے Abandon کر دیا تھا۔ سرد جنگ میں امریکہ کے ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ میں جو اتحادی تھے۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد کسی شکر یہ کے بغیر امریکہ نے انہیں بھی Abandon کر دیا تھا۔ 9/11 کے بعد  شام اور لیبیا کی حکومتوں نے اسلامی دہشت گردوں کے خلاف امریکہ سے مکمل تعاون کیا تھا۔ کیونکہ یہ ملک خود ایک عرصہ سے ان کی دہشت گردی کا سامنا کر رہے تھے۔ بش انتظامیہ نے بہت سے دہشت گردوں کو شام اور لیبیا کے حوالے ان سے تحقیقات کرنے کے لیے کیا تھا۔ لیکن امریکہ نے انہیں بھی Abandon کر دیا تھا۔ اور ان حکومتوں کے مخالفین سے اتحاد کر لیا تھا۔ صدر قد ا فی کو اسلامی دہشت گردوں کے حوالے کر دیا تھا۔ جنہوں نے قد ا فی کو ٹریپولی کی سڑک پر انتہائی بہیما نہ قتل کر دیا تھا۔ جو جمال کشو گی کے قتل سے مختلف نہیں تھا۔ پھر Obama-Biden انتظامیہ نے مصر میں جمہوریت کو Abandon کر دیا تھا۔ مصر کی پہلی جمہوری حکومت کے 900 لوگوں کو فوجی حکومت نے موت کی سزائیں دینے کا اعلان کیا تھا۔ جبکہ 2ہزار سے زیادہ جمہوریت اور آزادی کے حامیوں کو فوجی حکومت مصر کی جیلوں میں Tortures دے رہی تھی۔ لیکن Obama-Biden نے مصر سے منہ موڑ لیا تھا۔ اور شام میں آزادی اور جمہوریت کی خانہ جنگی کی حمایت شروع کر دی تھی۔ جبکہ فلسطینیوں کی آزادی اور حقوق کو امریکہ نے ہمیشہ کے لیے Abandon کر دیا ہے۔                                                                                                                                       

No comments:

Post a Comment