Saturday, October 19, 2019

Are the Opposition Parties Hurting Pakistan Or Helping Modi?



  Are the Opposition Parties Hurting Pakistan Or Helping Modi?

وزیر اعظم عمران خان نے کشمیر کی صورت حال پر عالمی راۓ عامہ کی حمایت حاصل کرنے میں خاصی دوڑ دھوپ کی ہے۔ جس کی وجہ سے مودی حکومت دنیا میں تنہا ہو گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے دہلی میں دیوبندی Cousins نے مودی کی کشمیر پالیسی کی حمایت کی ہے۔ اور دہلی میں انہوں نے پاکستان کا پرچم جلایا ہے۔ پاکستان کے خلاف ہندوؤں سے زیادہ بلند آواز میں پاکستان کے خلاف نعرے لگاۓ ہیں۔ جسے دیکھ کر مولانا فضل الرحمان کی بیٹری بھی چارج ہو گئی ہے۔ اور وہ بھی لوگوں سے نعرے لگوانے کی سیاست کرنے سڑکوں پر آ رہے ہیں۔ جس شخص کو خود یہ نہیں معلوم ہے کہ آزادی کیا ہوتی ہے۔ وہ سڑکوں پر آزادی سے آ رہا ہے۔ مولانا کا مقصد صرف ملک میں انتشار پیدا کرنا ہے۔ تاکہ حکومت کی توجہ کشمیر سے ہٹ کر ملک میں انتشار پر آ جاۓ۔ مولانا کے باپ نے یہ 1977 میں کیا تھا۔ اگر اس وقت وزیر اعظم بھٹو کو اقتدار میں رہنے کا موقعہ مل جاتا تو بھٹو ضرور شملہ معاہدہ پر اندرا گاندھی سے عملدرامد ہونے کے مذاکرات کرتے۔ اور وزیر اعظم بھٹو کشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں ضرور کامیاب ہو جاتے۔ لیکن مولانا مفتی محمود کی قیادت میں سیاسی پارٹیوں کے اتحاد نے اسے ناممکن بنا دیا تھا۔
وزیر اعظم بھٹو نے جس طرح پاکستان کی سلامتی کے مفاد میں یہ کہا تھا کہ' ہم گھاس کھائیں گے لیکن اسلامی بم ضرور بنائیں گے' جس کی وجہ سے پاکستان آج محفوظ اور بہت مضبوط ہے۔ بالکل اسی طرح آج عوام کو یہ کہنا ہو گا کہ 'ہم بھوکے رہیں گے لیکن ان لیڈروں کو اقتدار میں نہیں آنے دیں گے' ان اس عزم سے ان کے بچوں کا مستقبل ضرور اچھا اور روشن ہو گا۔
    
مجیب خان

Maulana Fazlur Rehman presiding a party meeting, strongly believe in street democracy

Father of Maulana Fazlur Rehman, Maulana Mufti Mahmud, chief architect to sabotage the democratic system in Pakistan in 1977





  مولانا فضل الرحمن سے یہ پوچھا جاۓ کہ وہ کیسی جمہوریت چاہتے ہیں۔ مولانا کیا امریکہ کی جمہوریت چاہتے ہیں۔ برطانیہ کی جمہوریت چاہتے ہیں۔ فرانس کی جمہوریت چاہتے ہیں۔ جاپان کی جمہوریت چاہتے ہیں۔ یا بھارت کی جمہوریت چاہتے ہیں۔ برطانیہ امریکہ فرانس بھارت کی جمہوریت میں جب انتخاب ہار جاتے ہیں تو گھر چلے جاتے ہیں۔ فیملی کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ پھر سیاست میں نظر نہیں آتے ہیں۔ حال ہی میں برطانیہ میں وزیر اعظم Theresa May پارلیمنٹ میں Brexit کے مسئلہ پر اتفاق راۓ نہ ہونے پر جس میں ان کی اپنی پارٹی کے اراکین بھی شامل تھے، دو مرتبہ پارلیمنٹ نے اسے مستر د کر دیا تھا۔ اور پھر وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد ووٹ کے بعد  وزیر اعظم نے استعفا  دے دیا تھا۔ ان کی پارٹی نے نیا وزیر اعظم چن لیا۔ اور اب وہ Brexit کو کامیاب بنانے کے لئے اپنی کوششیں کر رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم Theresa May ان کے راستہ سے ہٹ گئی ہیں۔ وہ کوئی بیان بازی نہیں کر رہی ہیں۔ انہوں نے اپنی طرف سے کوشش کی تھی وہ کامیاب نہیں ہو سکیں تھیں۔ انہوں نے اپنی پارٹی کے دوسرے رکن پارلیمنٹ کو موقعہ دیا ہے۔ Teresa May سے پہلے David Camron وزیر  اعظم تھے۔ جنہوں نے Brexit مسئلہ کھڑا کیا تھا۔ اور پھر اس پر ریفرینڈم کرایا تھا۔ برطانوی کی اکثریت نے اس کے حمایت میں فیصلہ دیا تھا۔ لیکن وہ بھی اس مسئلہ کی پیچیدگیوں میں بھٹک گیے اور آخر میں انہیں بھی استعفا دینا پڑا تھا۔ لیبر پارٹی اپوزیشن میں ہے۔ اور یہ کنز ر ویٹو پارٹی کی حکومت کو کام کرنے کا موقعہ دے رہی ہے۔ اس کے کاموں میں رکاوٹیں پیدا نہیں کر رہی ہے۔ اگر کنز ر  ویٹو پارٹی کے تیسرے وزیر اعظم بھی Brexit مسئلہ حل کرنے میں ناکام ہو تے ہیں تو پھر نئے الیکشن ہوں گے۔ یا لیبر پارٹی کو موقعہ دیا جاۓ گا۔ اور یہ ایک Classic مثال ہے کہ جمہوریت میں کس طرح کام ہوتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور دوسرے ہلڑ باز پارٹیوں کے لیڈروں کو جمہوریت کی کلاسیں لینا چاہیے۔ ان کی جمہوریت یہ ہے کہ اگر وہ حکومت میں نہیں ہیں تو یہ جمہوریت نہیں ہے۔
  پھر بھارت کی جمہوریت کی مثال بھی ہے۔ جہاں اس سال انتخابات ہوۓ ہیں۔ جنتا پارٹی بھاری اکثریت سے انتخاب جیتی تھی۔ کانگرس کو شکست ہوئی تھی۔ کانگرس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے انتخابی نتائج کے دوسرے دن پارٹی کی صدارت سے اس استعفا دے دیا تھا۔ 100فیصد Perfect انتخابات تو بھارت میں بھی نہیں ہوۓ ہوں گے۔ لیکن انتخابی مہم سے نتائج کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کیا ہوں گے۔ مولانا کے باپ نے بھی 1977 کے انتخابات کے نتائج ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اور اب بیٹا بھی کیونکہ خود الیکشن ہار گیا ہے۔ اس لیے انتخابات کے نتائج اسے قبول نہیں ہیں۔ مولانا کا بیٹا بھی ایک دن اپنے دادا اور باپ کی طرح انتخابات میں دھاندلیوں کے نام پر لانگ مارچ کر رہا ہو گا۔ سیاست جیسے ان کے باپ کی جاگیر ہے۔ بہرحال مودی حکومت کے دوسرے 5سال دور کے آغاز پر بھارت کی اقتصادی صحت کے بارے میں بری خبریں آ رہی ہیں۔ بیروزگاری 6فیصد بڑھ گئی ہے۔ GDP 5٪ فیصد پر آ گیا ہے۔ کاروں کی سیل بری طرح گر گئی ہے۔ TATA کو Land Rover اور Jaguar پلانٹ بند کرنا پڑے ہیں۔ دو ہزار سے زیادہ لوگ بیروزگار کر دئیے۔ مجموعی طور پر صرف آ ٹو انڈسٹری سے 350,000  لوگ بیروزگار ہو گیے ہیں۔ بھارت کی ایکسپورٹ گر گئی ہے۔ بھارت کی کرنسی بھی گر گئی ہے۔ بھارت اس وقت شدید اقتصادی مسائل میں ہے۔ ان اقتصادی مسائل کے دوران مودی حکومت نے کشمیر کے حالات بد سے اور زیادہ بدتر بنا دئیے ہیں۔ بھارت کی معیشت پر کشمیر آپریشن کا بوجھ بھی پڑ گیا ہے۔ لیکن بھارت میں اپوزیشن لیڈروں کو صورت حال کی نزاکت کا احساس ہے۔ اور وہ  وزیر اعظم مودی کا پجامہ نہیں گھسیٹ رہے ہیں۔ جو اس وقت پاکستان میں ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم مودی کو Distract نہیں کیا جا رہا ہے۔ بلکہ انہیں بھارت کو مشکل حالات سے نکالنے کا موقعہ دیا جا رہا ہے۔ سب کا مفاد ملک سے وفا داری میں ہے۔ پاکستان کی طرح Nonsense لوگوں کی اپوزیشن نہیں ہے۔ جو اپنے ذاتی مفاد کو قومی وفا داری پر فوقیت دیتے ہیں۔ ان کی سیاست اور کراچی میں کچرے کے ڈھیر جیسے ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں۔
  جنہیں حکومت سے باہر آۓ ابھی صرف ایک سال ہوا ہے وہ اب  مہنگائی  بیروزگاری سرمایہ کاری نہ ہونے، صنعتی پیداوار نہ ہونے، پاکستان کھنڈرات بننے، پاکستان بند گلیوں میں پہنچ جانے پاکستان ٹوٹنے کی باتیں ان کے بارے میں کر رہے جنہیں اقتدار میں ایک سال ہوا ہے۔ 50سال سے یہ سیاست کر رہے ہیں۔ 40سال میں یہ تین چار مرتبہ اقتدار میں آۓ ہیں۔ دو مرتبہ فوج نے انہیں سیاست سے دور رکھا تھا کہ شاید اب ان کی دمیں سیدھی ہو جائیں گی۔ لیکن فوجی اقتدار کے 10سال بعد جب یہ پھر باہر آۓ تو ان کی دمیں ٹیڑی ہی تھیں۔ میڈیا میں یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ جیسے حکومت 10سال سے اقتدار میں ہے۔ اور حکومت کے خلاف جو باتیں کر رہے وہ کبھی حکومت میں نہیں آئیں ہیں۔ کبھی دو پارٹیوں سے جو اقتدار میں تھیں۔ اس پر پروگرام نہیں کیا ہے۔ وہ صرف اپنے پانچ سال اقتدار کی رپورٹیں عوام کے سامنے پیش کریں کہ انہوں کیا ترقیاتی کام کیے تھے؟ عوام کے معاشی حالات بہتر بنانے میں کیا کیا تھا؟ ان کے 5سال دور حکومت میں کالجوں اور یونیورسٹیوں سے 40 ہزار جو ڈگریاں لے کر آۓ تھے ان میں سے کتنے نوجوانوں کو نوکریاں دی گئی تھیں؟ یہ پہلے اپنی حکومت کی کارکردگی بتائیں۔ پھر حکومت پر تنقید کریں۔ یہ Morally بھی Corrupt ہیں۔ پاکستان کے وجود میں آۓ 72سال ہو گیے ہیں۔ پاکستان اب پختہ ہو گیا ہے۔ لیکن ان کا شعور ابھی تک پختہ نہیں ہوا ہے۔ اور یہ 72سال بعد بھی پاکستان ٹوٹ جاۓ گا کی باتیں کرتے ہیں۔ حالانکہ بھارت 180ملین کی آبادی کے ملک کے ٹکڑے کر کے Headache لینا نہیں چاہتا ہے۔ بھارت صرف یہ چاہتا ہے کہ ' پاکستان کو زندہ بھی نہیں رہنے دیا جاۓ اور مرنے بھی دیا جاۓ۔' اور یہ کام مولانا فضل الرحمن اور ان کی اسلامی قیادت میں اپوزیشن پارٹیاں کر رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملک میں تاریکی پھیلا دی تھی۔ بجلی کا بحران پیدا کر دیا تھا۔ فیکٹر یوں اور کار خانوں میں تالے ڈال دئیے تھے۔ Garments کی انڈسٹری بنگلہ دیش اور ملیشیا چلی گئی۔ لوگ بموں کے دھماکوں میں مر رہے تھے۔ اس وقت مولانا بولتے تھے اورنہ ہی احسن اقبال ٹی وی کیمروں کے سامنے کھڑے ہو کر یہ کہتے تھے کہ اس حکومت کو اب گھر بھیجا جاۓ۔ یہ ملک تباہ کر رہی تھی۔ کراچی میں نیول بیس پر سات گھنٹے دہشت گردوں سے گھمسان کی جنگ ہوئی تھی۔ مولانا کی امامت میں یہ لیڈر  Sideline  پر کھڑے ان مناظر کا نظارہ کر رہے تھے۔ بھارت بالکل یہ ہی چاہتا تھا کہ 'پاکستان کو زندہ بھی نہیں رہنے دیا جاۓ اور مرنے بھی نہیں دیا جاۓ'
  مولانا فضل الرحمن ایک انتہائی خود غرض اور مفاد پرست انسان ہے۔ جسے انسانیت سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ ثبوت دئیے جائیں کہ انسانیت کے لیے مولانا نے کیا کام کیے ہیں۔ پشاور میں دہشت گردی کے انتہائی خوفناک واقعات ہوۓ تھے۔ لیکن مولانا کبھی لواحقین کے گھروں میں ان سے تعزیت کرنے نہیں گیے تھے۔ مولانا خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلی بھی تھے۔ اپنے صوبے کے لیے مولانا نے کیا منفرد کام کیے تھے۔ جنہیں دیکھ کر یہ کہا جا سکتا تھا کہ پختون خواہ صوبہ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں مدنیہ تھا۔ ان کے دور حکومت میں نیویارک ٹائم میں پختون خواہ میں بچہ بازی پر ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اسے پڑھ کر بڑی شرم آئی تھی کہ مولانا نے اپنے صوبے میں بچہ بازی کے خلاف کوئی اسلامی نظام رائج نہیں کیا تھا۔ بعض اطلاعات یہ بھی ہیں کہ مولانا کے مدرسوں میں بھی بچہ بازی ہوتی ہے۔ اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو حکومت کو اس کے خلاف سخت اقدامات کرنا چاہیں۔
  پاکستان میں مذہبی رہنما اسلام میں سازشوں کا چھٹا ستون ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں لوگ ان کا کردار دیکھیں انہوں نے ہمیشہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی سیاست کی ہے۔ پاکستان جب بھی ترقی اور استحکام کی پٹری پر آتا ہے۔ انہوں نے اسے Derail  کیا ہے۔ جمہوریت کو انہوں نے ہمیشہ سبوتاژ کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے باپ مولانا مفتی محمود 1977 میں پہیہ جام ہڑتالوں کے سرغنہ تھے۔ اس وقت مولانا مفتی محمود کی قیادت میں شکست خوردہ پارٹیوں کے اتحاد نے بھی انتخابات کے نتائج قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اور نئے انتخابات کر آنے اور پھر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے استعفا کا مطالبہ کیا تھا۔ پھر یہ نظام مصطفی کے نفاذ کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔ حالانکہ 1973 کا آئین انہوں نے بنایا تھا۔ اسے اسلامی آئین کہا تھا۔ اس پر دستخط کیے تھے۔ اس آئین پر انہوں نے حلف اٹھایا تھا۔ لیکن 1977 میں بھٹو حکومت کے خلاف تحریک میں  ‍‍‍‍قرآن ان کے گلے میں لٹکا ہوتا تھا۔ اور لوگوں سے کہتے تھے کہ یہ ہمارا نظام مصطفی ہے۔ اور ہم اسے رائج کریں گے۔ اس طرح مولانا مفتی محمود (مرحوم) نے 1973 کا آئین ختم کرایا تھا۔ انہوں نے جمہوریت تباہ کی تھی۔ سیاسی اداروں پر تالے ڈلواۓ تھے۔ اور جنرل ضیا الحق کو خلیفہ تسلیم کر لیا تھا۔ انہوں نے توہین قرآن کیا تھا۔ ‍قرآن کو اپنے گھناؤنے سیاسی عزائم میں Exploit کیا تھا۔ توہین قرآن توہین رسالت سے زیادہ بڑا گناہ تھا۔ شاید یہ اس کا عذاب تھا جو پاکستان پر اتنا برا اور مشکل وقت آیا تھا۔ 40سال ہو گیے ہیں مولانا مفتی محمود کی قیادت میں اس پہیہ جام تحریک کے اثرات آج بھی اسی طرح ہیں کہ جیسے ناگا ساکی اور ہیرو شیما میں ایٹم بم گرنے سے تابکاری اثرات ابھی تک موجود ہیں۔ اور اب مولانا فضل الرحمان پاکستان کو پھر 1977 میں لے جانا چاہتے ہیں۔
  دنیا میں وزیر اعظم عمران کا اتنا گرم جوشی سے خیر مقدم کیوں ہوا ہے؟ صدر امریکہ نے ایک سال میں دو مرتبہ وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی ہے۔ چین کے صدر بھی ایک سال میں دو مرتبہ وزیر اعظم سے ملے ہیں۔ روس کے صدر اس سال کرغستان میں شہنگائی ملکوں کی کانفرنس کے دوران  وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ بیٹھے تھے۔ اور ان سے دیر تک گفتگو کرتے رہے۔ پھر پاکستان امریکہ کے سیکرٹیری آف اسٹیٹ، عرب ملکوں کے شہزادے، اور دوسرے ملکوں کے اعلی حکام بھی آۓ تھے۔ پاکستان میں اقتصادی سرگرمیوں کو بھی جیسے ایک نئی زندگی ملی ہے۔ دنیا سمجھتی ہے ‘We can do Business with Imran Khan’ ایماندار لیڈر ہے۔ مخلص ہے۔ اور اپنے عوام کے حالات بہتر بنانے میں بہت سنجیدہ ہے۔ عمران خان نے لندن میں ایک دولت مند کی بیٹی سے شادی کی تھی۔ یہودی لڑکی سے شادی کرنے میں کوئی برائی نہیں تھی۔ اسلام میں بعض پیغمبروں نے بھی یہودی عورتوں سے شادیاں کی تھیں۔ بہرحال عمران خان کے سسر نے ان کے ساتھ کاروبار میں شامل ہونے کی انہیں Offer کی تھی۔ لیکن عمران خان نے پاکستان میں اپنے عوام کے لیے کام کرنے کو اہمیت دی تھی۔ عمران خان اگر چاہتا تو سسر کے ساتھ بزنس میں شامل ہو جاتا اور آج عمران خان کا لندن کے کھرب پتیوں میں شمار ہوتا۔ عمران خان رکن پارلیمنٹ ہوتا۔ اور بہت ممکن تھا کہ عمران خان برطانیہ کا وزیر اعظم بھی ہو جاتا۔ جیسے اس وقت کچھ پاکستانی نژاد برطانوی آئندہ چند سالوں میں برطانیہ کے وزیر اعظم بننے کی فہرست میں ہیں۔ Man is honest, sincere, committed and devoted  ہے۔ Clean record ہے۔ کوئی غبن نہیں کیا ہے۔ کوئی فراڈ نہیں کیا ہے۔ اقتدار کا بھوکا نہیں ہے۔ 22سال کی جد و جہد سے اقتدار حاصل کیا ہے۔ اس دوران کئی حکومتوں نے اسے وزارتوں کی پیشکش بھی کی تھی۔ لیکن عمران خان نے قبول نہیں کیا تھا۔ عمران خان کے اس Clean back ground سے دنیا متاثر ہوئی ہے۔ اور اس کے ساتھ تعلقات کو Honor سمجھتی ہے۔
  اب پاکستان میں جتنے بھی لیڈر ہیں۔ عوام ان کے Back ground سے عمران خان کے Back ground کا موازنہ کریں اور پھر اپنے آپ سے سوال کریں کہ وہ ان کے پیچھے کھڑے ہو کر اپنا وقت کیوں برباد کر رہے ہیں؟                       

No comments:

Post a Comment