How Invisible Hands United DEM And G.O.P In Two
Seconds And In Three Minutes Congress Passes A Resolution Against The
Withdrawal From Syria, 364-60
White House Fighting Swamps
While Swamps Are Helping Congress Until Congress and the White House are on
the same page, Washington will not change
مجیب خان
President Bashar al-Assad with President Vladimir Putin in Russia, A big victory for those, which are the right side of the history |
ISIS army in a caravan of Toyota pick up trucks, parade through Raqqa, Syria Jun30, 2014 |
امریکہ کی مڈل ایسٹ میں ہر محاذ پر
ناکامی دیکھ کر کانگریس میں دونوں پارٹیاں متحد ہو گئی اور انہوں نے ایک مشترکہ
قرارداد 354-60 ووٹ سے منظور
کی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ شمال مشرقی شام سے فوجوں کا انخلا امریکہ کے مخالفین کے مفاد میں ہے۔ اور یہ روس،
ایران اور شام ہیں۔ قرارداد میں شمال مشرقی شام میں شامی کردوں کے خلاف ترکی کے فوجی
آپریشن کو روکنے میں امریکہ کی مزاحمت ختم ہونے کے فیصلے کی مخالفت کی گئی ہے۔
کانگریس نے یہ قرارداد بڑی تاخیر سے اس وقت منظور کی ہے کہ جب بش اور اوبامہ کا
مڈل ایسٹ میں Nonstop
adventurism کا End game امریکہ کے مخالفین
کے مفاد میں نظر آ رہا ہے۔ کانگریس اگر مڈل ایسٹ میں بش انتظامیہ کے Adventurism کو روکنے کے لیے قرارداد 364-60 ووٹ سے منظور کرتی تو آج مڈل ایسٹ
میں مخالفین کو امریکہ کے مفاد پر غالب آنے کا موقع نہیں ملتا۔ آخر امریکہ کا شام
میں ایسا کیا مفاد تھا جس نے دونوں
پارٹیوں کو دو سیکنڈ میں متحد کر دیا تھا۔ اور تین منٹ میں دونوں پارٹیوں نے قرارداد
منظور کر لی تھی۔ صرف اسرائیل کے ساتھ شام کی سرحد تھی۔ اور کانگریس کا خدشہ یہ
تھا کہ امریکی فوجوں کے جانے سے کر دو ں کا قتل عام ہو گا۔ کرد داعش کے خلاف لڑائی
میں امریکہ کے اتحادی تھے۔ اور اس لڑائی میں 10ہزار کرد مارے گیے تھے۔ پاکستان بھی
امریکہ کا اتحادی تھا۔ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ افغانستان میں سوویت فوجوں کے
خلاف جنگ لڑی تھی۔ اور پھر القا عدہ سے جنگ میں بھی پاکستان امریکہ کا اتحادی تھا۔ اور القا
عدہ کے خلاف جنگ میں پاکستان کے 70ہزار لوگ مارے گیے تھے۔ لیکن بھارت امریکہ کا Strategic اتحادی بن گیا تھا۔ اور صدر
اوبامہ نے بھارت کے 3 دورے کیے تھے۔ 5مرتبہ مودی کو گلے لگایا تھا۔ جس طرح کر دو ں
کو Betray کیا گیا ہے۔
اسی طرح پاکستان بھی Victim ہے۔
کانگریس کی قرارداد میں ' کر دو ں کی نسل کشی کے خد شہ کا اظہار کیا گیا ہے۔' شام
میں 8سال سے انسانی تاریخ کی انتہائی خوفناک خونی لڑائی ہو رہی تھی۔ ایک ملین
افراد اس لڑائی میں مارے گیے تھے۔ 2ملین لوگ بے گھر ہو گیے تھے۔ خاندان اجڑ گیے
ہیں۔ ملک کھنڈرات بن گیا ہے۔ لیکن کانگریس نے شام میں انسانیت کو بچانے کے لیے کچھ
نہیں کیا تھا۔ لیکن کانگریس کو کر دو ں کی نسل کشی ہونے پر تشویشں ہے۔ جبکہ
11ہزارہ کرد شام میں ISIS سے لڑائی میں مارے
گیے تھے۔ اگر امریکہ کی پالیسی میں ذرا بھی انسانی پہلو ہوتا تو یہ لوگ کبھی اس
طرح نہیں مارے جاتے۔ امریکہ اور اس کے Allies انتہائی غیر ذمہ دار تھے۔ اور وہ اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں۔ عراق جنگ غیر
قانونی تھی۔ شام کے داخلی معاملات میں Allies کے ساتھ امریکہ کی مداخلت غیر قانونی تھی۔ امریکہ اور یورپ Ukraine میں روس کی مداخلت
کے خلاف تھے۔ اس مداخلت کے نتیجہ میں انہوں نے روس پر بندشیں لگائی تھیں۔ امریکہ
اور اس کے عرب اتحادی مڈل ایسٹ میں ایران کی نام نہاد مداخلت کی مذمت کرتے ہیں۔
امریکہ ایران کا یہ Behavior تبدیل کروا رہا
ہے۔ لیکن امریکہ کی فوجی مداخلت کرنے کا Behavior کیسے تبدیل ہو گا۔ Joe Biden جب سینیٹر تھے۔ وہ صدر بش کو عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا
مشورہ دے رہے تھے۔ یعنی عراق کو شیعہ سنی اور کرد میں تقسیم کر دیا جاۓ۔ Obama-Biden انتظامیہ نے ISIS کے خلاف لڑنے کے آ ڑ میں شام کے
کر دو ں کو فوجی تربیت اور ہتھیار دینا شروع کر دئیے تھے۔ شام کے کر دو ں کو یقین
دلایا تھا کہ شمال مشرقی شام میں ان کی Autonomous ریاست ہو گی۔ اس Understanding سے وہ ISIS سے لڑے تھے۔
11ہزار کر دو ں نے اپنی جانیں دی تھیں۔ Obama-Biden کو معلوم تھا وہ چلے جائیں گے۔ اور شام نئی انتظامیہ کا مسئلہ ہو
گا۔ نئی انتظامیہ اگر ہلری کلنٹن کی ہوتی تو شاید صورت حال مختلف ہوتی۔ لیکن نئی
انتظامیہ ڈونالڈ ٹرمپ کی ہے۔ اور صدر ٹرمپ کی کر دو ں سے کوئی Understanding نہیں تھی۔ اس لیے صدر ٹرمپ کے شام کی جنگ سے
امریکہ کو آزاد کرنے کے فیصلے سے تکلیف ہوئی ہے۔
کرد شام کے شہری تھے، کرد عراق کے
شہری تھے، کرد ترکی کے شہری تھے۔ Obama-Biden انتظامیہ کر دو ں کی تاریخ سے با خوبی واقف تھی۔ ان ملکوں کے لیے
یہ ایک انتہائی Sensitive
issue ہے۔ اور یہ ان کی قومی سلامتی سے منسلک ہے۔ دوسرے ملکوں کے شہریوں
کو اپنے سیاسی ایجنڈے کے مفاد میں فوجی تربیت دینا عالمی قوانین کی سنگین خلاف
ورزی ہے۔ اگر ایران سعودی شیعاؤں یا متحدہ عرب امارات کی حکومت کے مخالفین کو فوجی
تربیت دے گا یا کیوبا KKK کو
فوجی تربیت دینے لگے تو اس پر امریکہ کا رد عمل ہو گا۔ امریکہ میں اسے کیسے دیکھا
جاۓ گا؟ قانون، اصول، Sovereignty دنیا کے ہر ملک
کے لیے یکساں ہیں۔ امریکہ نے ان اصولوں اور قوانین کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ اور
دنیا کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں۔ ترکی نے کر دو ں کے ساتھ سمجھوتہ کیا تھا۔ انہیں
ترکی کے آئین کے اندر رہتے ہوۓ حقوق دئیے تھے۔ کرد ترکی کی پارلیمنٹ میں تھے۔
حکومت کے اداروں میں بھی انہیں نمائندگی دی تھی۔ PKK کو ترکی کی حکومت نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ اور امریکہ نے
بھی اسے دہشت گرد تنظیم تسلیم کیا تھا۔
اسی طرح شام میں YPG کر دو ں کی
دہشت گرد تنظیم تھی۔ شام میں کرد عراق اور ترکی کے نسبت ذرا مختلف ہیں۔ اس لیے
امریکی فوجوں کے انخلا کے فوری بعد ان کے خلاف ترکی کے فوجی آپریشن کے خوف سے انہوں نے اسد
حکومت سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔ اور شام کی فوج کے ساتھ شمال مشرقی شام کی حفاظت میں
گشت کرنے کا اعلان کیا ہے۔
صدر ٹرمپ کا شام کے سلسلے میں فیصلہ
بہت صحیح ہے۔ ترکی عراق اور شام برسوں سے کر دو ں سے لڑ رہے ہیں۔ لیکن یہ خود اسے
حل کر لیں گے۔ چند سال قبل عراقی کر دو ں نے اپنی ایک علیحدہ ریاست قائم کرنے کا
فیصلہ کیا تھا۔ اور اس کے لیے ریفرینڈم کرانے کا اعلان کیا تھا۔ عراقی حکومت
نے کر دو ں کے فیصلے کے خلاف عراقی فوج
بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔ بلا آخر کر دو ں کو پیچھے ہٹنا پڑا تھا اور عراقی وفاق
کے اندر رہتے ہوۓ Autonomy پرانہیں سمجھوتہ کرنا پڑا تھا۔ مقامی حکومتیں اپنے
علاقائی تنازعہ حل کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں۔ صدر ٹرمپ کا اس سلسلے میں بہت
درست موقف ہے کہ یہ ملک آپس میں لڑتے رہتے ہیں اور خود اختلافات کا حل بھی کر سکتے
ہیں۔ امریکہ کے Adventurism سے یہاں ملکوں
میں انتشار آیا ہے۔ انتشار سے عدم استحکام کا فروغ ہوا ہے۔ اور عدم استحکام کے
نتیجہ میں انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو نئے موقع ملے ہیں۔
شام کی حکومت 60سال سے اسلامی انتہا
پسندوں کا سامنا کر رہی تھی۔ لیکن ان کے ساتھ لڑائی میں شام کبھی اس طرح کھنڈرات
نہیں بنا تھا۔ حکومت نے ہمیشہ انتہا پسندوں کا خاتمہ کیا تھا۔ اور اپنے عوام کو
امن اور استحکام دیا تھا۔ شام کی حکومت آج بھی اپنے ملک کا دفاع کرنے کی مکمل
صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ کہنا کہ امریکی فوجوں کے یہاں سے جانے کے بعد شام میں ISIS دوبارہ ابھر آۓ گی۔ لیکن سوال یہ
ہے کہ امریکہ کی فوجیں 13سال سے عراق میں ہیں۔ 30سال سے امریکہ کی فوجیں خلیج میں
ہیں۔ 9/11 کے بعد مڈل
ایسٹ میں امریکہ کی 13 انٹیلی جنس ایجنسیاں سرگرمی سے القا عدہ اور اس سے وابستہ
تنظیموں کا ہر عرب ملک میں تعاقب کر رہی تھیں۔ امریکہ کی اسپیشل فورسز ز القا عدہ
کے خلاف یمن میں آپریشن کر رہی تھیں۔ اسرائیلی مو ساد کے بھی امریکہ کی انٹیلی جنس
ایجنسیوں سے قریبی رابطہ تھے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہاں امریکہ کی بھاری
فوجی موجودگی میں ISIS کا 30ہزار کا
لشکر پہلے عراق میں داخل ہوتا ہے۔ اور پھر شام کے ایک بڑے حصہ پر قبضہ کر لیتا ہے۔
ISIS کے پاس فوجی ٹرکوں کا ایک Fleet تھا۔ مشین گنیں اور دوسرا فوجی
اسلحہ تھا۔ یہ 30 ہزار فوجی یونیفارم میں تھے۔ آخر یہ سب ان کے پاس کہاں سے آیا
تھا؟ کن دولت مند عرب ملکوں نے انہیں فنڈ ز فراہم کیے تھے۔ کس ملک نے انہیں اپنی
سرزمین پر منظم ہونے کی اجازت دی تھی؟ کون
سا ملک انہیں اجرتیں دے رہا تھا؟ لیکن امریکہ اور اسرائیل کو اتنی بڑی تعداد میں انتہائی خطرناک دہشت گردوں کے بارے
میں کوئی معلومات نہیں تھیں۔ لیکن امریکہ اور اسرائیل کو معلوم ہے کہ ایران Houthis کو ہتھیار اور میزائل فراہم کر
رہا تھا۔ سعودی عرب کے آئل تنصیبات پر راکٹوں سے حملہ ہونے کے آدھے گھنٹہ میں
امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب کو پتہ چل گیا تھا کہ یہ حملہ ایران نے کیا تھا۔ ISIS کا ڈرامہ بھی 9/11 کے ڈرامہ کی طرح ہے۔ اور اب شام
سے امریکی فوجیں جانے کے بعد ISIS کو دوبارہ
سرگرم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
کانگریس کی انٹیلی جنس اور آ ر مڈ سروس
کمیٹی نے ابھی تک ISIS کے بارے میں یہ
تحقیقات کی ہے اور نہ ہی امریکی عوام کو اسے وجود میں لانے والے ملکوں کے نام بتاۓ
ہیں۔ نہ اسے فنڈنگ کرنے کے بارے کچھ بتایا ہے کہ یہ کون کر رہا ہے؟ امریکی عوام کو صرف ISIS سے خوفزدہ کرنے کے بیانات سناۓ
جاتے ہیں۔ جیسے عراق میں مہلک ہتھیاروں کا خاتمہ ہونے کو خفیہ رکھا گیا تھا۔ اور
صرف عراق میں مہلک ہتھیاروں سے خطروں کے بارے میں بیانات دے کر خوفزدہ کیا جاتا
تھا۔ اور لوگوں کا جنگ کی پالیسیاں قبول کرنے کے لیے ذہن بنایا گیا تھا۔ کم از کم صدر
ٹرمپ کے ENDLESS WARS ختم کرنے کی
ضرور حمایت کی جاۓ۔
No comments:
Post a Comment