Human Catastrophes, National Security in The The interest of the Military-Industrial Complex, People’s Security is in Dialogue
and Diplomacy, Not in Forever Wars
Do not distort the facts, the
killings started in Syria in the Obama-Biden administration. One million Syrians
were killed in a nonsense war, created tremendous security problems in the region, and for border countries of Syria, three million Syrian refugees are in
Turkey. Terrorism is another serious problem also facing Turkey; American
policy seems to maintain a new Status Quo in Syria
Who is benefiting from wars
of choice in the Middle East? Yes, Iran benefits in Iraq. Russia, Iran, and
Turkey benefits in Syria, and al-Qaeda, Islamist's benefits in Libya, Big winner
is BASHER al-ASSAD
مجیب خان
Turkey hosting 3million Syrian refugees spends 30billion Dollar on taking care of these refugees, big burden on Turkey's economy |
Syrian refugees from Turkey, journey across the Mediterranean |
Yemen's war with Saudi Arabia, one Arab country is destroying the other Arab country with weapons providing by Western Powers |
Three Thousand killed in Yemen of Saudi led bombing, most were civilians |
People suffering, Syrian refugees |
سعودی حکومت نے اپنی سیکورٹی کے لیے امریکہ سے فوجیں ایسے Hire کی ہیں کہ جیسے امریکہ میں سیکورٹی
کمپنیاں ہوتی ہیں۔ اور نیویارک ٹآئمز، واشنگٹن پوسٹ، CNN ، بنک اور شاپنگ مال سیکورٹی کے لیے ان کمپنیوں سے سیکورٹی Hire کرتے ہیں۔ اور پھر یہ ادارے ان کے
سیکورٹی گارڈ ز استعمال کرنے پر ان کمپنیوں کو ادا کرتے ہیں۔ سعودی حکومت اور آئل
تنصیبات کی سیکورٹی کے لیے اب تقریباً 3 ہزار امریکی فوجیں سعودی عرب جائیں گی۔
اور سعودی حکومت یہ سروس دینے پر پینٹ گان کو لاکھوں ڈالر دے گی۔ سعودی بادشاہ نے اپنی
سلطنت اور ریاست کے مالی وسائل کی حفاظت کے لیے فوجیں امریکہ سے بلائی ہیں۔ لیکن سعودی
عوام کی سیکورٹی کا کیا ہو گا؟ مڈل ایسٹ میں ہر طرف فوجوں سے عوام سب سے زیادہ Insecure
ہو رہے ہیں۔ جبکہ سعودی حکومت پہلے ہی کھربوں ڈالر امریکہ اور مغربی ملکوں
سے ہتھیار خریدنے پر خرچ کر رہی ہے۔ سعودی عرب کا دفاعی بجٹ حالیہ چند سالوں میں دنیا
میں تیسرے نمبر پر آگیا ہے۔ یہ 25ملین کی آبادی کا ملک ہے۔ اور اس کا دفاعی بجٹ تقریباً
110بلین ڈالر ہے۔ سعودی حکومت نے اسلامی
ملکوں کی بھی ایک فوج بنائی ہے۔ جس کا ہیڈ کوارٹر جدہ میں ہے۔ اور پاکستان کے سابق
آرمی چیف راحیل شریف اس فوج کی کمانڈ کر رہے ہیں۔ اس فوج کے اخراجات بھی سعودی
حکومت دے رہی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ یمن کی جنگ کے علاوہ شام کی خانہ جنگی کے اخراجات
بھی سعودی حکومت دے رہی تھی۔ سعودی عرب اوبامہ انتظامیہ کے ساتھ شام کے خلاف اتحاد میں
شامل تھا۔ سعودی عوام کا دوسرے ملکوں میں حکومتیں تبدیل کرنے کا کیا مفاد تھا؟
جبکہ وہ خود اپنی حکومت کو شام کی حکومت سے مختلف نہیں دیکھتے تھے۔ پھر یمن کی جنگ
میں بھی سعودی عوام کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ سعودی عوام کا یمن کے Houthis سے جنگ کرنے میں کیا مفاد ہو سکتا
تھا۔ Houthis بھی ان کی طرح
یمن کے عوام تھے۔ عوام کبھی عوام سے جنگ نہیں کرتے ہیں۔ یہ حکومتیں ہوتی ہیں جو
عوام پر جنگیں مسلط کرتی ہیں۔ جیسے سعودی حکومت نے یمن کی جنگ عوام پر مسلط کی ہے۔
جیسے امریکہ کی قیادتوں میں ملکوں کے اتحاد عوام پر جنگ مسلط کرتے ہیں۔ اور یہ جنگیں
قومی سلامتی یا عالمی سلامتی کے نام پر کی گئی تھیں۔ لیکن ان جنگوں سے قومی سلامتی
یا عالمی سلامتی کے خطروں میں اضافہ ہوا تھا۔ بہت سے ملکوں کی قومی سلامتی اس جنگ
کے حملوں کی زد میں آئی تھی۔ با ظاہر یہ جنگیں Military Industrial Complex کے مفاد میں منافع بخش ثابت ہوئی
تھیں۔
افغانستان میں امریکہ کو اس ملک کے انتہائی
برے حالات میں ناکامی ہوئی ہے۔ افغانستان انتہائی غریب ترین ملک تھا۔ سو ویت یونین
کے خلاف جنگ میں افغانستان تقریباً بالکل تباہ ہو چکا تھا۔ اس کی اپنی آرمی تھی
اور نہ ہی اس کی فضائیہ تھی۔ امریکہ نے افغانستان پر پہلے تین بم گراۓ تھے کہ
طالبان کابل چھوڑ کر بھاگنے لگے تھے۔ واشنگٹن میں سیکرٹیری ڈیفنس ڈ و نالڈ رمز فیلڈ
نے پینٹ گان میں پریس بریفنگ میں کہا کہ "طالبان حکومت کا کمانڈ اینڈ کنٹرول
تباہ کر دیا گیا ہے۔" دنیا کو یہ سن کر بڑی حیرت ہوئی تھی۔ کیونکہ افغانستان
میں 'کمانڈ اینڈ کنٹرول' کا کوئی وجود نہیں تھا۔ سوویت فوجیں افغانستان سے جانے سے
پہلے کمانڈ اینڈ کنٹرول تباہ کر کے گئی تھیں۔ افغانستان جنگ کے بغیر امریکہ فتح کر
سکتا تھا۔ ملا عمر پاکستان سے انتھک مذاکرات کے بعد ا سا مہ بن لادن تیسرے ملک کے
حوالے کرنے پر آمادہ ہو گیا تھا۔ یہ تیسرا ملک بھارت بھی ہو سکتا تھا۔ انڈو نیشیا یا
مصر بھی ہو سکتے تھے۔ لیکن بش انتظامیہ نے جنگوں سے تنازعہ حل کرنے میں امریکہ کا
مفاد دیکھا تھا۔ ڈائیلاگ اور ڈپلومیسی سے تنازعہ حل کرنا منافع کا سودا نہیں تھا۔
بڑے بش نے 1990s میں عراق کے خلاف پہلی جنگ کو بھی منافع کی جنگ بنایا تھا۔
حالانکہ سو ویت صدر میخائل گار با چو ف کی کوششوں سے صدر صد ام حسین نے کو یت سے
اپنی فوجیں بلانے کا جس دن اعلان کیا تھا۔ اسی دن بڑے بش نے عراق پر حملہ کرنے کا
حکم دے دیا تھا۔ مسئلہ کا پر امن حل ہو رہا تھا۔ لیکن جنگ نے عراق کو دنیا میں
تمام خطروں کی ماں بنا دیا۔ لیکن امریکہ کے لیے سرد جنگ کے بعد یہ جنگ Bonanza ثابت ہوئی تھی۔ امریکہ کی تاریخ میں شاید یہ پہلی جنگ تھی۔ جس میں
امریکہ کو ایک ڈالر بھی خرچ نہیں کرنا پڑا تھا۔ بلکہ دولت مند عربوں سے کھربوں
ڈالر وصول کیے تھے۔ 100ملین ڈالر کویت نے، 90ملین ڈالر سعودی عرب نے، اس کے علاوہ
متحدہ عرب امارات نے علیحدہ لاکھوں ڈالر دئیے تھے۔ آج عراق کے ہمسایہ شام میں صدر
ٹرمپ کے شمال مشرقی شام سے امریکی فوجیں واپس بلانے پر یہ کہا جا رہا ہے کہ امریکہ
نے کر دو ں کو دھوکہ دیا ہے۔ لیکن بڑے بش نے صدر صد ام حسین کو بھی دھوکہ دیا تھا۔
جب صدر صد ام حسین نے کویت میں اپنی فوجیں بھیجنے سے پہلے صدر بش سے یہ پوچھا تھا
کہ عراقی فوجوں کے کویت پر قبضہ کرنے پر امریکہ کا کیا رد عمل ہو گا؟ بغداد میں
امریکی سفیر نے وائٹ ہاؤس کا یہ پیغام صدر صد ام حسین کو دیا تھا کہ امریکہ عربوں
کے داخلی امور میں مداخلت نہیں کرے گا۔ لیکن صدر بش کا مشورہ Honest نہیں تھا اور انہوں نے بھی صدر صد
ام حسین کو دھوکا دیا تھا۔ پہلی عراق جنگ کا سبب امریکہ کی سلامتی کا خطرہ تھا اور
نہ ہی علاقہ کے ملکوں کی سلامتی کا کوئی مسئلہ تھا۔ لیکن یہ مسئلہ Manufactured کیا گیا تھا۔
عراق کے خلاف دوسری جنگ بھی Unnecessary تھی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل
کی قراردادیں عراق میں Regime
change کرنے کے بارے میں نہیں تھیں۔ بلکہ ان قراردادوں میں صرف عراق میں
مہلک ہتھیاروں کا مکمل خاتمہ کرنے کے بارے میں کہا گیا تھا۔ اور ان قراردادوں پر
مکمل عملدرامد ہو رہا تھا۔ عراق میں مہلک ہتھیاروں کا مکمل خاتمہ ہونے کی خفیہ
رپورٹ جس دن صدر جارج بش کو دی گئی تھی۔ اسی روز صدر بش نے عراق پر حملہ کر کے صد
ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کا حکم دے دیا تھا۔ عراق پر یہ امریکہ کا تیسرا حملہ
تھا۔ 1998 میں صدر کلنٹن نے وزیر اعظم ٹونی بلیر کے ساتھ عراق پر تقریباً 3ہفتہ بمباری
صدر صد ام حسین سے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرامد کر آنے کے لیے کی تھی۔ ان
حملوں میں بڑی تعداد میں بے گناہ عراقی شہری ہلاک ہوتے تھے۔ عراق کے خلاف جنگ کو
طویل بنا کر امریکہ نے اپنی سلامتی کے لیے خود خطرے پیدا کیے تھے۔ جنگیں لوگوں کو
انتہا پسند ہونے کا اشتعال دیتی ہیں۔ عراق جنگ سے لوگوں کو نفسیاتی انتہا پسند
بننے کی ترغیب دی جا رہی تھی۔ امریکہ کے پاس طاقت تھی۔ اور Powerful Media بھی تھا۔ 9/11 کے بعد صدر بش نے کہا تھا کہ امریکہ بیک وقت 60ملکوں میں جنگ کرنے
کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نائب صدر ڈک چینی نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ 50سال تک
جاری رہنے کا کہا تھا۔ اور انتظامیہ کی اس پالیسی کے مطابق دہشت گردی ختم نہیں،
فروغ دی جا رہی تھی۔ صدر اوبامہ نے امن کا نوبل انعام لے کر بش-چینی کی دہشت گردی
کے خلاف عالمی جنگ کو پھیلایا تھا۔ لیبیا سے امریکہ کی قومی سلامتی کو کوئی خطرہ
نہیں تھا۔ قد ا فی حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ سے تعاون کر رہی تھی۔
قد ا فی نے اپنے تمام مہلک ہتھیار بھی امریکہ کے حوالے کر دئیے تھے۔ کیا Obama-Biden انتظامیہ نے قد ا فی حکومت کو
دھوکا نہیں دیا تھا؟ کیا اس سے امریکہ کی ساکھ خراب نہیں ہوئی تھی؟ لیبیا پر حملہ
غیر قانونی تھا۔ اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی تھا۔ لیبیا میں اقتدار کا خلا پیدا
کر کے اوبامہ انتظامیہ نے لیبیا کو عدم استحکام کیا تھا۔ اور یہاں دہشت گردوں اور
انتہا پسندوں کو نئے مواقع دئیے تھے۔ پھر شام کو عدم استحکام کیا تھا۔ دہشت گردوں
کو شام کھنڈرات بنانے کے موقعہ دئیے تھے۔ شام میں ایک ملین بے گناہ لوگ ہلاک ہوۓ
تھے لیکن امریکہ اور یورپ میں اس پر اتنا شور نہیں ہوا تھا۔ جیسے آج ترکی کی شمال مشرقی
شام میں فوجی کاروائی کرنے پر شور ہو رہا ہے۔ ترکی پر جنگی جرائم کے الزام میں صدر
ارد و گان پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ صدر ارد و گان کو صد ام حسین بنایا
جا رہا ہے۔ دنیا نے اتنی گری اخلاقی قدریں شاید تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی ہوں گی۔
دنیا بھر کے عوام کی سلامتی کا مفاد
صرف Dialogue اور Diplomacy میں ہے۔ Military Industrial Complex کا مفاد صرف قومی سلامتی کی جنگوں میں ہے۔ صدر
ٹرمپ کیونکہ نئی جنگیں نہیں شروع کر رہے ہیں۔ لہذا اب صدر ٹرمپ امریکہ کی قومی
سلامتی کے لیے خطرہ ہیں؟
No comments:
Post a Comment