Saturday, October 5, 2019

Quid Pro Quo, Corner Stone of America’s Foreign Policy: In Developing Countries Dictators, Ruthless Rulers, Corrupt Leaders Were Products Of Quid Pro Quo



   Quid Pro Quo, Corner Stone of America’s Foreign Policy: In Developing Countries Dictators, Ruthless Rulers, Corrupt Leaders Were Products Of Quid Pro Quo

American officials talk about corruptions in government, Rule of Law, Good Governance, but in Pakistan President Bush asked General Musharraf to Pardon [corrupt] Political Leaders, dropped their all charges and allowed them to take part in Politics. Perhaps President Bush’s request was a part of Quid Pro Quo. In America or any civilized democratic society, the system doesn’t work this way, when political leaders charged in corruption or in any wrongdoing they have to go through a legal process to clear their names. Where Quid Pro Quo work better?  
مجیب خان

Pakistan's President Asif Zardari with President George Bush in White House, Sept 2008

Pakistan's Prime Minister Yousuf Raza Gilani reassures President Bush his government will fight terrorists, Aug7, 2008  

US President Barack Obama with Pakistan's Prime Minister Nawaz Sharif at the White House, reassures we will "Do More" against the terrorists, Oct 2013  




   امریکہ کی خارجہ پالیسی میں Quid Pro Quo ایک اہم کار نر اسٹون ہے۔ سرد جنگ میں تیسری دنیا کے ملکوں میں ڈکٹیٹروں، کر پٹ حکمران Quid Pro Quo کے تحت اقتدار میں لاۓ جاتے تھے۔ اور انہیں اقتدار میں رکھا جاتا تھا۔ اور ان سے پھر امریکہ کی خارجہ پالیسی کے مفاد میں Adventurism کے کام کراۓ جاتے تھے۔ افغانستان میں مجاہدین جو اب طالبان ہیں وہ بھی امریکہ کی Quid Pro Quo کی Product ہیں۔ تمہارے ملک میں کمیونسٹ آ گیے ہیں جو تمہارا مذہب اور اسلامی مملکت تباہ کر رہے ہیں۔ 'خدا تمہارے ساتھ ہے۔' 'تم حق پر ہو۔' 'ہم تمہارے ساتھ ہیں۔' یہاں افغانوں سے سوویت یونین کو شکست دینے کا کام لیا تھا۔ افغانوں کو ہتھیار دئیے تھے اور انہیں گوریلا جنگ کی تربیت دی  تھی۔ جنگ وہ لڑے تھے اور فتح امریکہ کی ہوئی تھی۔ اس کے بعد یہاں Quid Pro Quo کی سیاست میں جو خلا آیا تھا اسے سعودی عرب اور خلیج کے ملکوں نے پر کیا تھا۔
  9/11 کے بعد پاکستان سے کہا گیا کہ اگر پاکستان طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کر دے اور امریکہ کے ساتھ طالبان کے خلاف جنگ کی حمایت کرتا ہے۔ تو امریکہ پاکستان کی اقتصادی ترقی میں مدد کرے گا۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کو فروغ  دیا جاۓ گا۔ پاکستان نے طالبان سے تعلقات منقطع کر لیے اور صدر بش کی طالبان کو اقتدار سے ہٹانے کی پالیسی کی حمایت کر دی۔ صدر جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت سے بش انتظامیہ کے قریبی تعلقات ہو گیے تھے۔ پاکستان کی اقتصادی امداد بحال ہو گئی تھی۔ مشرف حکومت امریکہ کے خلاف دہشت گردوں کو پکڑ نے کی مہم میں ایک اہم اتحادی بن گئی تھی۔ پھر 6سال بعد پاکستان میں صدر جنرل مشرف کے خلاف مہم شروع ہو گئی تھی۔ بش انتظامیہ نے پہلے سیاسی رہنماؤں اور مشرف حکومت میں سمجھوتہ کرانے کی کوشش کی تھی۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے داخلی سیاست میں بش انتظامیہ کی مداخلت کا خیر مقدم کیا تھا۔ حسب عادت ان رہنماؤں کا بش انتظامیہ سے پہلا مطالبہ یہ تھا کہ حکومت ان کے خلاف تمام مقدمات واپس لے۔ جو کرپشن کے کیس تھے۔ حالانکہ پیپلز پارٹی کے آصف زر داری اور بے نظیر بھٹو کو منی لا نڈ رنگ کیس میں Swiss عدالت نے سزا سنائی تھی۔ لیکن بش انتظامیہ صرف امریکہ کے خارجہ پالیسی مقاصد میں پاکستان میں سیاسی رہنماؤں کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دلانے اور ان کے خلاف تمام مقدمہ ختم کر وا رہی تھی۔ Elite طبقہ کے سیاسی رہنماؤں کو بش انتظامیہ یہ Favored  دے رہی تھی۔ لیکن پاکستان کے لوگوں کے ساتھ  یہ ایک بڑی دشمنی تھی۔ امریکہ کے اعلی حکام تیسری دنیا کے ملکوں کو Transparent, Good governance, Rule of law ہونے پر لیکچر دیتے تھے۔ لیکن بش انتظامیہ نے اس کی مثال قائم کرنے کے بجاۓ Rule of Law کو By Pass کر دیا تھا۔ لیڈروں کے کرپشن کو Ignore کر دیا تھا۔ صدر بش نے لیڈروں کو یہ مشورہ نہیں دیا تھا کہ انہیں تمام الزامات سے اپنے نام ایک Legal Process سے گزر کر صاف کرنا چاہیے۔ اور پھر سیاست میں آنا چاہیے۔ امریکہ میں پریذیڈنٹ، سینیٹر ز، کانگریس مین گورنر کرپشن اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں جب کیس ہوتا ہے انہیں اپنا نام صاف کرنے کے لیے ایک قانونی راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ انہیں کوئی معاف نہیں کرتا ہے۔ لیکن بش انتظامیہ نے کرپشن میں ملوث سیاسی لیڈروں کو ایک Short cut راستہ دکھایا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ بیرون ملکوں میں ان لیڈروں کے منجمد لاکھوں ڈالر بھی بحال کراۓ تھے۔ جو حکومت پاکستان کی درخواست پر ان ملکوں نے منجمد کیے تھے۔ آصف علی زر داری کے  60ملین ڈالر بھی بحال ہو گیے تھے۔ بے نظیر بھٹو کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی مقبولیت تھی۔ اور اس کے اقتدار میں آنے کا پہلا  Chance اور دوسرا Chance نواز مسلم لیگ  کا تھا۔ بے نظیر بھٹو ایک قاتلانہ حملہ میں ماری گئی تھیں۔ جس کے بعد پیپلز پارٹی کا تاج زر داری کے سر پر رکھا گیا تھا۔ بش انتظامیہ کے اقتدار کا یہ آخری سال تھا۔ پیپلز پارٹی اقتدار میں آ گئی تھی۔ آصف زر داری صدر بن گیے تھے۔ اور یوسف رضا گیلانی نے وزیر اعظم کا حلف لے لیا تھا۔ پہلے وزیر اعظم گیلانی اور پھر صدر زر داری کو وائٹ ہاؤس میں بلایا گیا تھا۔ اور دونوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا پیغام دیا گیا تھا۔ بش چینی انتظامیہ کی یہ جنگ جاری رکھنے میں کیوں اتنی دلچسپی تھی۔ اور اس جنگ کو جاری رکھنے میں پاکستان کے لیے کیا خطرات ہو سکتے تھے۔ صدر اور وزیر اعظم اتنے سیاسی ذہین نہیں تھے کہ وہ اس پر غور کرتے۔ اس مرتبہ سیاسی لیڈروں کو سیاسی جد و جہد سے نہیں گزرنا پڑا تھا۔ Quid Pro Quo انہیں اقتدار میں لے آیا تھا۔ امریکہ کا ان لیڈروں کے کرپشن کیس ختم کرانے کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے پاکستان کی تاریخ میں کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے تھے۔ پاکستان دہشت گردی کی جنگ کی دلدل میں دھنس گیا تھا۔
   بش انتظامیہ نے عراق کے خلاف جنگ میں ایک عالمی فوجی الائنس بنانے کے لیے مختلف حکومتوں سے رابطہ کیا تھا۔ اور انہیں اپنی فوجیں بھیجنے کے لیے کہا تھا۔ اور صد ام  حسین حکومت ختم ہونے کے بعد ان میں سے بعض ملکوں کو عراق کی تعمیر نو میں Contract   دینے کی پیشکش کی تھی۔ اسپین کی وزیر خارجہ Ana Palacio جو صدر بش کی عراق  کے خلاف جنگ کی حامی تھیں۔ انہیں ور لڈ  بنک میں سینیئر وائس پریذیڈنٹ اور جنرل کونسل کے عہدہ پر نامزد کرایا تھا۔ اسپین نے عراق جنگ میں 1500 فوجی بھیجے تھے۔ عراق جنگ ختم ہونے کے بعد صدر بش کے سابق ڈپٹی سیکرٹیری دفاع پال ولفویز ور لڈ بنک کے پریذیڈنٹ بن گیے تھے۔ ور لڈ بنک کے پریذیڈنٹ کے عہدہ پر بھیٹنے کے بعد سابق ڈپٹی سیکرٹیری دفاع نے سب سے پہلے ان ملکوں کے اعلی حکام کو ور لڈ بنک میں اہم عہدوں پر تعینات کیا تھا جنہوں نے عراق جنگ میں امریکہ کی حمایت کی تھی اور انہوںنے اپنی فوجیں بھیجی تھیں۔ ایل سلوا ڈور کے سابق وزیر خزانہ Juan Jose Daboub کو ور لڈ بنک میں مینجنگ ڈائریکٹر بنایا تھا۔ ایل سلوا ڈور نے 400 فوجی عراق بھیجے تھے۔
  CBS کے پروگرام 60 Minutes میں واشنگٹن پوسٹ کے نامور صحافی Bob Woodward نے کہا کہ سعودی سفیر بندر بن سلطان نے صدر بش کو یہ یقین دلا یا تھا کہ سعودی عرب انتخاب سے پہلے تیل کی قیمتیں کم ر کھے گا تاکہ الیکشن کے وقت امریکہ کی معیشت کو مضبوط   رکھا جاۓ۔ ان کے خیال میں آئل کی قیمت $22 اور $28 امریکی عوام کے لیے بہت اچھی ہو گی۔ اور یہ عالمی معیشت کے لیے بھی اچھی ہو گی۔ اس طرح سعودی عرب نے 2004 کے انتخابات سے پہلے امریکہ کی معیشت میں مدد کر کے صدر بش کو دوبارہ صدر منتخب کرانے میں مداخلت کی تھی۔ صدر بش کے مقابلے پر جان کیری امید وار تھے۔ اور ان کے صدارتی انتخاب جیتنے کا امکان یقینی نظر آ رہا تھا۔ اس وقت انتخاب سے صرف چند روز قبل ا سا مہ بن لادن کا بیان بریکنگ نیوز میں آ گیا تھا جو جان کیری کی شکست کا سبب بنا تھا۔ 2016 کے انتخاب میں روس نے اس طرح مداخلت کی تھی کہ ہلری کلنٹن کی 30ہزار گمشدہ E Mail میں سے کچھ دریافت کر کے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر  James Comey کو دے دی تھیں۔ جنہوں نے الیکشن سے صرف 10روز قبل بریکنگ نیوز میں ان کا انکشاف کر کے ہلری کلنٹن کی شکست کو یقینی بنا دیا تھا۔ تاہم روس کو صدر ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے سے Quid Pro Quo” کا کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔ البتہ سعودی عرب کو صدر بش کے دوبارہ صدر بننے سے یہ فائدہ ہوا تھا کہ دنیا میں انتہا پسندی پھیلانے کا الزام سعودی عرب سے اتر کر ایران پر لگ تھا کہ یہ ایران تھا جو دنیا میں وہابی انتہا پسندی کے نظریات فروغ دے رہا تھا۔ ا سا مہ بن لادن کا نام لینا صدر بش نے چھوڑ دیا تھا۔ وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس میں جب بھی ا سا مہ بن لادن کے بارے میں سوال کیا جاتا تھا۔ صدر بش اس میں عدم دلچسپی دکھاتے تھے کہ وہ اب Irrelevant ہے۔                                                                                

No comments:

Post a Comment