Are Arab Leaders and The Arab League Working
Against The Arab People?
America’s Junk Middle East The policy has no Credibility
مجیب خان
Syrian refugees |
Libyan refugees |
Refugees from war-torn Yemen |
Egyptians in jail, Morsi supporters |
Saudi Arabia: thousands of people in jail without trial |
کمانڈر انچیف پریذیڈنٹ ڈونالڈ ٹرمپ
کے حکم پر شمال مشرقی شام سے امریکی فوجوں کی واپسی شروع ہو گئی تھی۔ صدر ٹرمپ نے
اس موقع پر کہا کہ' یہاں یہ 2 ہزار سال سے لڑ رہے ہیں۔ یہ ان کی لڑائی ہے۔ امریکہ
ان کی لڑائی میں کیوں ملوث ہو رہا ہے۔ یہ اسے خود حل کر لیں گے۔ لہذا یہاں امریکہ
کی فوجوں کے رہنے کا کوئی مقصد نہیں ہے۔' امریکی فوجیں شمالی شام سے جا رہی تھیں۔
اور ترکی اور روس کی فوجیں شمالی شام میں داخل ہو رہی تھیں۔ شمال مشرقی شام میں
پہنچ کر ترکی روس اور شام کی فوجوں کو یہاں کئی ہزار ISIS کے لوگوں کا پتہ چلا۔ یہاں ISIS کے نظر بند
جیلوں سے بھاگ رہے تھے۔ ادھر ISIS کے قائد ابوبکر البغدادی کا سراغ لگا لیا وہ بھی یہاں روپوش تھا۔
امریکی فوجوں سے کہا گیا کہ وہ واپس آئیں اور پہلے اس سارے علاقہ سے ISIS کی صفائی کریں۔ جب
انہیں یہ پیغام ملا امریکی فوجوں نے یو ٹرن لیا اور واپس شمال مشرقی شام میں آ گئی۔
ابوبکر البغدادی امریکی فوج نے مار دیا ہے۔ اور اب ISIS کے نئے لیڈر کا انہیں انتظار ہے۔ صدر بشر السد نے
روس اور ترکی سے کہا ہے کہ امریکیوں سے کہو کہ وہ میرا ملک دہشت گردوں سے صاف کر
کے دیں۔ امریکی کانگرس، سیکورٹی اسٹبلیشمنٹ، اسرائیل اور سعودی عرب کا بھی یہ ہی
کہنا تھا۔ یہ صورت حال ایک انتظامیہ کا دوسری انتظامیہ کو Quagmire میں چھوڑ کر جانا تھا۔ امریکہ اب
افغانستان میں Stuck ہے۔ امریکہ
عراق میں Stuck ہے۔ امریکہ شام
میں Stuck ہے۔ یمن سے
امریکہ نے اپنی جان چھڑا لی تھی اور اسے سعود یوں کے حوالے کر دیا تھا۔ لیبیا
فرانس اور اٹلی نے سنبھال لیا ہے۔ کسی کے ذہن و گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ سرد
جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ ملا عمر کی گود میں گرے گا۔ اور امریکہ کو طالبان سے
ایک گرم جنگ لڑنا ہو گی۔ طالبان کے علاوہ امریکہ کو القا عدہ سے جنگ کرنا پڑے گی۔
اور القا عدہ کے قائد ا سا مہ بن لادن کا
خاتمہ کرنا ہو گا۔ اس کے بعد امریکہ کو ISIS سے جنگ کرنا ہو گی۔ اور دنیا کو ISIS سے صاف کرنا ہو گا۔ ISIS کے قائد کو دریافت کرنے اور اس کا
خاتمہ کرنے میں امریکہ کو 8 سال لگے تھے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی فہرست میں شمالی افریقہ
میں ابھی ایسے بے شمار گروپ ہیں۔ جنہیں ختم کرنا ہے۔ با ظاہر یہ نظر آ رہا ہے کہ اس
جنگ کا 3 اور صدر کو سامنا کرنا ہو گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے Framers Bush-Cheney نے اسے 50سال جاری رکھنے کا بتایا
تھا۔
جنگیں امریکہ کی Hobby ہیں۔ اور امریکہ کے Allies کی سیاست جنگیں ہیں۔ مڈل ایسٹ میں
امریکہ کا ہر اتحادی اس وقت کسی نہ کسی سے جنگ کر رہا ہے۔ سابقہ دو انتظامیہ کا
مڈل ایسٹ میں امن کو تسلیم نہ کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے ٹرمپ انتظامیہ کا Climate Change تسلیم نہ کرنا ہے۔ اب خبر یہ ہے
کہ سعودی عرب نے جنوبی یمن میں اپنی فوجی موجودگی بڑھا دی ہے۔ تقریباً 15ہزار سعودی
فوجیں عدن پہنچی ہیں۔ اور مزید فوجیں خشکی کے راستے دوسرے جنوبی صوبوں میں پہنچ
رہی ہیں۔ یمن حکومت اور جنوبی یمن کے علیحدگی پسندوں میں یہ معاہدہ ہوا ہے کہ
عارضی طور پر شہر سعودی کنٹرول میں رہے گا۔ معاہدہ کے تحت حکومت عدن پر دوبارہ
اپنا کنٹرول قائم کرے گی۔ لیکن علیحدگی پسندوں کو حکومت میں زیادہ نمائندگی دی جاۓ
گی۔ علیحدگی پسندوں کا پہلے جنوبی دارالحکومت پر قبضہ تھا۔ اور وہ قریبی علاقوں
میں لڑے تھے۔ سعودی عرب نے ارد گرد کے علاقوں میں اپنی فوج اس مقصد سے بڑھائی ہے
کہ اگر اقتدار میں شامل ہونے کا معاہدہ ناکام ہو جاتا ہے تو اس صورت میں جنوبی یمن پر سعودی عرب کا فوجی کنٹرول
رہے گا۔ سعودی عرب امریکہ کا بہت ہی ہر دلعزیز اتحادی ہے۔ اور یہ اتحادی یمن میں Stuck ہے۔ سعودی حکومت نے
امریکہ سے اس کے شہروں کی حفاظت کے لیے فوجی مدد مانگی ہے۔ کیونکہ اس کی فوجیں جنوبی
یمن کے شہروں کی حفاظت کر رہی ہیں۔ 3ہزار امریکی فوجیں اب سعودی عرب جا رہی ہیں۔
امریکہ نے B-52 طیارے بھی بھیجنے
کا اعلان کیا ہے۔ جیسے امریکہ کی ہر ریاست میں National Guards ہیں۔ اسی طرح خلیج کے ہر بادشاہ
کی ریاست میں امریکہ کے National
Guards قائم کیے جائیں۔ تاکہ یہ بادشاہ سکون سے سو سکیں گے۔ اور ایران
عراق شام کو امن اور استحکام ملے گا۔ امریکہ نے ابھی تک ان ملکوں کے نام بتاۓ ہیں
اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کاروائی کی ہے جن کی سرزمین پر ISIS آرگنائز ہوئی تھی۔
امریکہ مڈل ایسٹ کے تقریباً ہر ملک
میں ہے۔ لیکن سب سے زیادہ خطرہ اسرائیل کو اپنے اطراف کے ملکوں سے ہیں۔ امریکی
فوجیں شام میں کیوں ہیں؟ اسرائیل میں کیوں نہیں ہیں؟ شام میں روس کی فوجیں ہیں۔
اور وہ شام کا استحکام بحال کرنے میں بہت اچھے فیصلے اور اقدام کر رہی ہیں۔ جن کے
نتیجہ میں شام کے حالات میں ذرا بہتری نظر آئی ہے۔ جب شام میں استحکام آۓ گا جسے
اوبامہ انتظامیہ سعودی عرب اور اسرائیل نے مل کر تباہ کیا ہے۔ تو علاقہ کا امن بھی
بحال ہو گا۔ صدر ٹرمپ کے شام سے فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ 100فیصد صحیح تھا۔ عراق
میں امریکہ کی فوجیں 16 سال سے ہیں۔ یہاں امریکی فوجوں کی موجودگی سے عراق کے حالات میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ عراق
ابھی تک 2003 سے پہلے کے حالات میں نہیں آ سکا ہے۔ جب عراق میں Law and order حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جب ISIS نے عراق کے ایک بڑے حصہ پر امریکی
فوجوں کی موجودگی میں قبضہ کر لیا تھا۔ تو یہاں ان فوجوں کے بیٹھے رہنے کا کیا
فائدہ ہے؟ اسی طرح اوبامہ-بائڈن انتظامیہ کے واچ میں ISIS شام میں آئی تھی۔ اور شام کے کئی شہروں پر اس نے قبضہ کر کے اپنی
اسلامی ریاست بنا لی تھی۔ یہاں ایک داخلی معاملہ میں امریکہ کی مداخلت نے کئی جنگیں
پیدا کر دی تھیں۔ Obama-Biden انتظامیہ کے شام میں Adventurism پر کانگریس نے آنکھیں بند کر لی
تھیں۔ اگر اس وقت اوبامہ انتظامیہ کو شام اور لیبیا اور اس سے پہلے بش انتظامیہ کو
عراق عدم استحکام کرنے کی پالیسی سے روکا جاتا تو آج ISIS اور بے شمار دوسرے دہشت گرد گروپوں کا دنیا کو سامنا نہیں ہوتا۔
ملکوں کو عدم استحکام کرنا دراصل انتہا پسندوں اور تخریب کاروں کی سیاست کو فروغ
دینا ہوتا ہے۔ بالکل یہ ہی افغانستان میں ہوا تھا۔ بش انتظامیہ کی غفلت اور اوبامہ
انتظامیہ کی لا پرواہی کی وجہ سے افغانستان میں ابھی تک عدم استحکام ہے۔ طالبان پہلے سے اس عدم استحکام کی پیداوار تھے۔ لہذا انہوں نے افغانستان
میں استحکام نہیں آنے دیا۔ یہاں امریکی فوجیں بھی افغانستان کو استحکام نہیں دے
سکی۔ طالبان کا اقتدار ختم ہونے کے فوری بعد اگر استحکام لانے کو Top Priority دی جاتی تو اس کے نتائج آج ضرور
مختلف ہوتے۔
سینیٹر Lindsey Graham نے صدر ٹرمپ کے شام سے فوجیں نکالنے کے فیصلے کو غیر ذمہ دارا نہ کہا
ہے کہ 'یہ امریکہ کے وقار پر ایک دھبہ ہے۔ کر دو ں کو فراموش کرنا جو ہمارے اتحادی
تھے۔ امریکہ کی ساکھ پر ایک داغ ہے۔ ہم نے ایک انتہائی خطرناک سگنل دنیا کو دیا ہے
کہ امریکہ قابل اعتماد اتحادی نہیں ہے۔' سینیٹر
Mitt Romney نے بھی ایک ایسا ہی بیان میں کہا ہے “America is an unreliable ally,
it facilitate ISIS resurgence and it presages another humanitarian disaster.” بش-اوبامہ
انتظامیہ کی Bipartisan نام
نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پالیسی دراصل Humanitarian disaster تھی۔ کس خدا نے صدر اوبامہ سے کہا
تھا کہ وہ ظالم اور جابر عرب حکمرانوں کے ساتھ شام میں انسانی تباہی پھیلائیں۔Mitt Romney کو یہ بیان اس وقت دینا چاہیے
تھا۔ جس خدا نے صدر بش سے عراق میں یہ تباہی پھیلانے کا کہا تھا۔ دنیا اس خدا کو جانتی
تھی۔ صدر بش نے 3ہزار دہشت گرد مارے تھے۔ صدر اوبامہ نے 6ہزار نئے دہشت گرد پیدا
کر دئیے تھے۔ اور یہ دہشت گردی کے خلاف Bipartisan پالیسی تھی۔ جسے 50سال جاری رکھنے کا پلان تھا۔ “America is an unreliable” ہونے کا ان
سینیٹر ز کو اب پتہ چلا ہے۔ ایران ایٹمی سمجھوتہ ایک عالمی سمجھوتہ تھا۔ جس پر امریکہ
کے انتہائی اہم اور قریبی اتحادیوں نے دستخط کیے تھے۔ سلامتی کونسل کے 15اراکین نے
اسے منظور کیا تھا۔ یہ وہ ہی سلامتی کونسل تھی جس نے عراق میں تمام مہلک ہتھیاروں
کا خاتمہ کرنے کی قراردادیں منظور کی تھیں۔ اور جن پر عملدرامد کرانے کے لیے
امریکہ نے عراق پر 1000مرتبہ بمباری کی تھی۔ اس سے امریکہ کی Credibility, Junk Credibility ہو گئی تھی۔
امریکہ کے 2ہزار نیو کلیر سائنسدانوں نے اس سمجھوتے کو Review کرنے کے بعد اسے ایک بہتر سمجھوتہ کہا تھا۔ اسی طرح
یورپ میں سائنسدانوں نے بھی اسے ایک اچھا سمجھوتہ کہا تھا۔ یہاں تک کہ اسرائیل کے موجودہ
اور سابق جنرلوں نے بھی اسے ایک قابل قبول معاہدہ کہا تھا۔ لیکن صرف ایک شخص جسے
امریکہ کی مڈل ایسٹ پالیسی کا God Father سمجھا جاتا ہے اس کے کہنے پر امریکہ نے ایران سمجھوتہ سے علیحدہ
ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ شخص Benjamin Netanyahu تھا۔ جو ایک سال میں دو مرتبہ الیکشن ہار گیا ہے۔ سینیٹر Graham اور سینیٹر Romney کتنے Naive ہیں کہ وہ شام سے فوجیں بلانے کے صدر ٹرمپ کے فیصلے کو امریکہ کی
ساکھ خراب ہونا سمجھتے ہیں۔ اور ایران سمجھوتہ سے صدر ٹرمپ کے علیحدہ ہونے کے
فیصلے کو وہ امریکہ کی ساکھ بلند ہونا سمجھتے ہیں۔ وزیر اعظم Netanyahu نے صرف اپنے ایجنڈہ پر امریکہ سے
یہ فیصلہ کرایا تھا۔ امریکہ کے یورپی اتحادیوں سے تعلقات خراب کراۓ ہیں۔ ایران پر
اقتصادی بندشیں لگوائی ہیں۔ ایران پر امریکہ کی اقتصادی بندشیں لگنے سے جرمنی،
فرانس، برطانیہ، اٹلی، جاپان اور دوسرے یورپی ملکوں کی کمپنیوں کو کھربوں ڈالر کا
نقصان کرایا ہے۔ یورپ میں ان کمپنیوں نے ہزاروں لوگوں کو بیروزگار کر دیا ہے۔ دنیا
یہ غور کرنے پر مجبور ہو رہی ہے کہ عالمی مالیاتی نظام پر ڈالر کا غلبہ اور امریکہ
کا کنٹرول کس طرح ختم کیا جاۓ۔ ایک Globalize Economy میں امریکہ کے سیاسی مفادات دنیا کے سیاسی مفادات نہیں ہیں۔
سعودی عرب اور اسرائیل مڈل ایسٹ میں Chaos فروغ دے رہے ہیں۔ امریکہ ان کی
پشت پنا ہی کر رہا ہے۔ مڈل ایسٹ کی آدھی سے زیادہ آبادی کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ ایک
بڑی تعداد مہاجر کیمپوں میں پڑی ہے۔ جبکہ باقی آبادی بادشاہوں اور ڈکٹیٹروں کے نظام
کے قیدی بننے ہوۓ ہیں۔ ISIS کو نہیں بلکہ
اسلامی ریاستیں عراق، شام، لیبیا، یمن، فلسطین تباہ کر دئیے ہیں اور اب لبنان کو تباہ
کیا جا رہا ہے۔ اور یہ ہیں اصل اسلامی ریاستیں۔ عرب لیگ، عرب حکمران عوام کے دشمن
ہیں۔ عرب لیگ ایک Impotent ادارہ ہے۔ جس
نے عرب عوام کے لیے کبھی کچھ کیا ہے اور نہ ہی انہیں کبھی سپورٹ کیا ہے۔ عرب لیگ
نے مڈل ایسٹ میں امن اور استحکام کے لیے کیا کیا ہے؟ 70سال میں عرب لیگ فلسطینیوں
کا قتل عام ختم نہیں کرا سکی تھی۔ فلسطینیوں کے گھروں پر اسرائیل کے بلڈ و زر چل
رہے ہیں اسے نہیں روک سکی تھی۔ عرب لیگ
صرف Sideline پر کھڑی اس کا نظارہ
کرتی رہی۔ امریکہ کی مڈل ایسٹ پالیسی میں عربوں کے قدرتی وسائل عرب بادشاہوں،
ڈکٹیٹروں اور اسرائیل کو اہمیت دی جاتی ہے۔ عرب عوام انسانی حقوق کے معیار پر نہیں
اترتے ہیں۔ اس لیے امریکہ انہیں اہمیت نہیں دیتا ہے۔ شام میں امریکہ کی فوجیں صرف
تیل کے کنوؤں کی حفاظت کریں گی۔ تیل کے ان کنوؤں سے شام کے لوگوں کی زندگیوں کی
تعمیر میں استعمال نہیں ہونے دیا جاۓ گا۔
No comments:
Post a Comment